Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 اس میں وہ اصول بتلایا گیا ہے جس کی روح سے قوموں کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور یہ کہ ان کا خوش حال طبقہ اللہ کے حکموں کی نافرمانی شروع کردیتا ہے اور انہی کی تقلید پھر دوسرے لوگ کرتے ہیں، یوں اس قوم میں اللہ کی نافرمانی عام ہوجاتی ہے اور وہ مستحق عذاب قرار پا جاتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦ ١] اللہ کی نافرمانی میں پہلے خوشحال لوگ مبتلا ہوتے ہیں :۔ اس آیت میں ( اَمَرْنَا فِیْھَا) سے مراد امر تکوینی ہے یعنی جس بستی کے لیے ہلاکت مقدر ہوچکی ہو۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ خوشحال لوگ عیاشیوں اور ظلم و زیادتی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان میں بےحیائی، فحاشی، زنا، کمزوروں کے حقوق غصب کرنا، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، نعمتوں کی ناقدر شناسی دنیا میں غیر معمولی انہماک وغیرہ وغیرہ امراض پیدا ہوجاتی ہیں اور یہ سب ایسی امراض ہیں جو عام طور پر امیروں اور خوشحال لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں پھر ان کے زیر سایہ لوگ بھی انھیں کی چال چلنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں کا سا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے لگتے ہیں اس طرح سارا معاشرہ فسق و فجور کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور عذاب الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے اور با لآخر ان کی شامت آجاتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ ۔۔ : ” اَمَرْنَا “ امر نہی کی ضد ہے، حکم دینا ” مُتْرَفٌ“ وہ شخص جسے نعمت اور خوش حالی عطا کی گئی ہو اور کھلا چھوڑ دیا گیا ہو کہ جو چاہے کرے۔ کہا جاتا ہے : ” أَتْرَفَتْہُ النِّعْمَۃُ “ اسے نعمت نے سرکش اور باغی بنادیا۔ ” تَدْمِیْراً “ تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” بری طرح برباد کرنا۔ “- یہ پچھلی آیت کے مفہوم ہی کی تکمیل ہے کہ اللہ تعالیٰ حجت تمام کیے بغیر عذاب نہیں دیتا۔ فرمایا، ہم اس بستی کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں۔ ” اَمَرْنَا “ کا مفعول محذوف ہے، وہ یا تو ” بِأَمْرٍ “ ہے، یعنی ہم انھیں کوئی حکم دیتے ہیں، یا ” بِالإِْیْمَانِ وَالْعَمَلِ الصَّالِحِ “ ہے، یعنی ہم اس بستی کے رسول یا دوسرے مصلح لوگوں کے ذریعے سے اس کے خوش حال لوگوں کو ایمان اور عمل صالح کا حکم دیتے ہیں۔ ” فَفَسَقُوْا “ تو وہ اس حکم کو یا ایمان اور عمل صالح کے حکم کو نہیں مانتے، بلکہ ملک بھر میں فسق و فجور بپا کردیتے ہیں تو ان کا عذاب کا حق دار ہونا ثابت ہوجاتا ہے، تو پھر ہم صرف خوش حال لوگوں ہی کو نہیں بلکہ ان کے پیچھے چلنے والے ضعفاء کو بھی بلکہ بستی کی عمارتوں کو بھی بری طرح برباد کردیتے ہیں۔ ضعفاء کی ہلاکت کے سبب کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٦٦، ١٦٧) ، احزاب (٦٤ تا ٦٨) اور اعراف (٣٨، ٣٩) اور بستی کی بربادی لفظ ” قَرْیَةً “ سے ظاہر ہو رہی ہے۔ - بعض مفسرین نے ” فَفَسَقُوْا فِيْهَا “ کی مناسبت سے ” اَمَرْنَا “ کا محذوف مفعول ” بِالْفِسْقِ “ نکالا ہے، یعنی جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو فسق کا حکم دیتے ہیں۔۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو نیکی کا حکم دیتا ہے اور نافرمانی سے منع کرتا ہے، خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ۭقُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاْمُرُ بالْفَحْشَاۗءِ ) [ الأعراف : ٢٨ ] ” کہہ دیجیے بیشک اللہ بےحیائی کا حکم نہیں دیتا۔ “ اور دیکھیے سورة نحل (٩٠) اور سبا (٣٤، ٣٥) ہاں اگر یہ تاویل کی جائے تو الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شرعی حکم تو نیکی ہی کا ہوتا ہے مگر کونی حکم (جس کے تحت کائنات چل رہی ہے، کافر کفر کر رہے ہیں، ظالم ظلم کر رہے ہیں، مظلوموں پر ظلم ہو رہا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بیشمار حکمتیں ہیں) ہر قسم کا ہوسکتا ہے، اگرچہ یہ کونی حکم بھی شرعی احکام کی نافرمانی اور اللہ اور اس کے رسول کو بھلا دینے کے نتیجے ہی میں ہوتا ہے، چناچہ ان نافرمانوں کی رسی دراز کردی جاتی ہے اور دنیا کی نعمتوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جاتے ہیں کہ جتنی چاہو نافرمانی کرلو، پھر جب قرار داد جرم مکمل ہوجاتی ہے تو اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ (دیکھیے انعام : ٤٢ تا ٤٥) بعض نے ” مترفیھا “ کا معنی ” أَکْثَرْنَا “ بھی کیا ہے کہ ہم اس کے ” مترفین “ کو بہت بڑھا دیتے ہیں تو وہ فخر میں آ کر نافرمانی پر اتر آتے ہیں۔ ان تینوں معنوں میں سے پہلا معنی زیادہ صحیح ہے جو حاشیہ نمبر (٢) میں ذکر ہوا، اگرچہ دوسرے معنوں کی بھی گنجائش ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- اس سے پہلی آیات میں اس کا بیان تھا کہ حق تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ جب تک کسی قوم کے پاس انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات نہ پہنچ جائیں اور پھر بھی وہ اطاعت نہ کریں اس وقت تک ان پر عذاب نہیں بھیجتے مذکورہ آیات میں اس کے دوسرے رخ کا بیان ہے کہ جب کسی قوم کے پاس رسول اور اللہ کے پیغام پہنچ گئے اور پھر بھی انہوں نے سرکشی سے کام لیا تو اس پر عذاب عام بھیج دیا جاتا ہے۔- خلاصہ تفسیر :- اور جب ہم کسی بستی کو (جو اپنے کفر و نافرنی کی وجہ سے بمتقضائے حکمت الہیہ ہلاک کرنے کے قابل ہو) ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو (اسکو بعثت رسل سے پہلے ہلاک نہیں کرتے بلکہ پہلے کسی رسول کی معرفت) اس (بستی) کے خوش عیش (یعنی امیر ورئیس) لوگوں کو (خصوصا اور دوسرے عوام کو عموما ایمان و اطاعت کا) حکم دیتے ہیں پھر (جب) وہ لوگ (کہنا نہیں مانتے بلکہ) وہاں شرارت مچاتے ہیں تب ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے پھر اس بستی کو تباہ و غارت کر ڈالتے ہیں اور (اسی عادت کے موافق) ہم نے بہت سی امتوں کو نوح (علیہ السلام) کے (زمانہ کے) بعد (ان کے کفر و معصیت کے سبب) ہلاک کیا ہے (جیسے عاد وثمود وغیرہ اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا غرق ہو کر ہلاک ہونا مشہور و معروف ہے اس لئے مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ پر اکتفا کیا گیا خود قوم نوح کا ذکر نہیں کیا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شروع سورت میں آیت ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ میں لفظ حَمَلْنَا سے طوفان نوح کی طرف اشارہ موجود ہے اس کو قوم نوح کی ہلاکت کا بیان قرار دے کر یہاں مابعد نوح (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا گیا) اور آپ کا رب اپنے بندوں کے گناہوں کا جاننے والا دیکھنے والا کافی ہے (تو جیسا کسی قوم کا گناہ ہوتا ہے کے ویسی سزا دیتا ہے)- معارف و مسائل :- ایک شبہ اور اس کا جواب :- الفاظ آیت اِذَآ اَرَدْنَآ اور اس کے بعد اَمَرْنَا کے ظاہر سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ ان لوگوں کا ہلاک کرنا ہی مقصود خداوندی تھا اس لئے ان کو اول بذریعہ انبیاء (علیہم السلام) ایمان و اطاعت کا حکم دینا پھر ان کے فسق و فجور کو عذاب کا سبب بنانا یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوا تو اس صورت میں یہ بیچارے معذور و مجبور ہوئے اس کے جواب کی طرف ترجمہ اور خلاصہ تفسیر کے ضمن میں یہ اشارہ آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل واختیار دیا اور عذاب وثواب کے راستے متعین کردیئے جب کوئی اپنے اختیار سے عذاب ہی کے کام کا عزم کرے تو عادت اللہ یہ ہے کہ وہ اسی عذاب کے اسباب مہیا کردیتے ہیں تو اصلی سبب عذاب کا خود ان کو عزم اور قصد ہے کفر و معصیت کا نہ کہ محض ارادہ اس لئے وہ معذور نہیں ہو سکتے۔- آیت مذکورہ کی ایک دوسری تفسیر :- لفظ اَمَرْنَا کا مشہور مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے یعنی حکم دیا ہم نے لیکن اس آیت میں اس لفظ کی قراءتیں مختلف ہیں ایک قراءت میں جس کو ابو عثمان نہدی ابو رجاء ابوالعالیہ اور مجاہد نے اختیار کیا ہے یہ لفظ بتشدید میم آیا ہے یعنی امرنا جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم نے امیر وحاکم بنادیا خوش عیش سرمایہ دار لوگوں کو جو فسق و فجور میں مبتلا ہوگئے اور سب قوم کے لئے عذاب کا سبب بنے۔- اور حضرت علی وابن عباس کی ایک قراءت میں یہ لفظ امرنا پڑھا گیا جس کی تفسیر انہیں حضرات سے اکثرنا نقل کی گئی ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب بھیجتے ہیں تو اس کی ابتدائی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس قوم میں خوش عیش سرمایہ دار لوگوں کی کثرت کردی جاتی ہے اور وہ اپنے فسق و فجور کے ذریعہ پوری قوم کو عذاب میں مبتلا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔- ان میں سے پہلی قراءت کا حاصل تو یہ ہوا کہ ایسے خوش عیش سرمایہ داروں کو قوم کا حاکم بنادیا جاتا ہے اور دوسری قراءت کا حاصل یہ ہے کہ قوم میں ایسے لوگوں کی کثرت کردی جاتی ہے ان دونوں سے یہ معلوم ہوا کہ عیش پسند لوگوں کی حکومت یا ایسے لوگوں کی قوم میں کثرت کچھ خوشی کی چیز نہیں عذاب الہی کی علامت ہے حق تعالیٰ جب کسی قوم پر ناراض ہوتے ہیں اور اس کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو اس کی ابتدائی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس قوم کے حاکم ورئیس ایسے لوگ بنا دیئے جاتے ہیں جو عیش پسند عیاش ہوں یا حاکم بھی نہ بنیں تو اس قوم کے افراد میں ایسے لوگوں کی کثرت کر دیجاتی ہے دونوں صورتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ شہوات ولذات میں مست ہو کر اللہ کی نافرمانیاں خود بھی کرتے ہیں دوسروں کے لئے بھی اس کی راہ ہموار کرتے ہیں بالآخران پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجاتا ہے۔- مالداروں کا قوم پر اثر ہونا ایک طبعی امر ہے :- آیت میں خوش عیش مالداروں کا خصوصیت سے ذکر کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ فطری طور پر عوام اپنے مالداروں اور حاکموں کے اخلاق و اعمال سے متاثر ہوتے ہیں جب یہ لوگ بدعمل ہوجائیں تو پوری قوم بد عمل ہوجاتی ہے اس لئے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت دیا ہے ان کو اس کی زیادہ فکر ہونا چاہئے کہ اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کرتے رہیں ایسا نہ ہو کہ یہ عیش پرستی میں پڑ کر اس سے غافل ہوجائیں اور پوری قوم ان کی وجہ سے غلط راستے پر پڑجائے تو قوم کے اعمال بد کا وبال بھی ان پر پڑے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا 16؀- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - ترف - التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود 116] - ( ت ر ف) الترفۃ - ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔ - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- دمر - قال : فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان 36] ، وقال : ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء 172] ، وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] ، والتدمیر : إدخال الهلاک علی الشیء، ويقال : ما بالدّار تَدْمُرِيٌّ وقوله تعالی: دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد 10] ، فإنّ مفعول دمّر محذوف .- ( د م ر ) التدمیر - ( تفعیل ) کے معنی ہیں کسی چیز پر ہلاکت لاڈالنا ۔ قرآن میں ہے :َ فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان 36] اور ہم نے انہیں ہلاک کرڈالا ۔ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء 172] پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا ۔ وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] اور فرعون اور قوم فرعون جو ( محل بناتے اور انگور کے باغ ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ وبرباد کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد 10] خدا نے ان پر تباہی ڈال دی ۔ میں دمر کا مفعول محذوف ہے ۔ محاورہ ہے ۔ بالدار تدمری ۔ یعنی گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

راہنمائوں کی اکثریت فاسق ہوجائے تو عذاب الٰہی آتا ہے - قول باری (واذا اردنا ان نھلک قریۃ امرنا متردیھا فصسقوا فیھا جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں ، سعید کا قول ہے کہ انہیں طاعت کا حکم ملتا ہے لیکن وہ نافرمانیوں پر اتر آتے ہیں عبداللہ سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی قبیلہ کے افراد کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے تو ہم کہتے کہ اب اس کی شامت آنے والی ہے حسن، ابن سیرین اور ابو العالیہ نیز عکرمہ اور مجاہد سے (امرنا) بمنی اکثرناً (ہم نے تعداد بڑھا دی) مروی ہے۔ اس تفسیر کی بنا پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ” جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بستی والوں کی نافرمانیوں سے پہلے انہیں ہلاک کرنے کا ارادہ الٰہی وجود میں آ جاتا ہے۔ اس لئے کہ کسی بستی کو ہلاک کرنا دراصل اللہ کی طرف سے دی جانے والی سزا کی ایک صورت ہوتی ہے اور نافرمانی نہ کرنے والوں کو ہلاک کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (جداراً یرید ان ینقض ایک دیوار جو گراہی چاہتی تھی ، اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ گرنے کا ارادہ وجود میں آگیا تھا بلکہ مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ یہ جلد ہی گر جانے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خوش حالی لوگوں کا خصوصیت سے اس لئے ذکر فرمایا کہ یہی لوگ سرداران قوم ہوتے ہیں اور باقی ماندہ لوگ ان کے پیروکاروں کا درجہ رکھتے ہیں جس طرح فرعنہ مصر میں سے ہر فرعون اپنی قوم کا سردار ہوتا اور قوم اس کی پیروکار ہوتی یا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیصر روم کو دعوت نامہ تحریر کرتے ہوئے لکھا تھا (العلم والا فعلیک اثم الاریسین) اسلام لے آئو ورنہ تم پر تمام کاشتکاروں کا گناہ لازم آئے گا ) اسی طرح آپ نے کسریٰ کو نامہ تحریر فرمایا (فان لم تسلم فعلیک اثم الا کارین۔ اگر تم اسلام نہ لائے تو تمام کسانوں کا گناہ تمہارے سر ہوگا)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦) اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اس کے سرداروں اور ظالموں کو اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم دیتے ہیں یا یہ کہ اسی بستی کے سرداروں ظالموں اور مالداروں کی تعداد میں اضافہ کردیتے ہیں یا یہ کہ بستی کے ظالموں اور رؤسا کو تسلط دے دیتے ہیں پھر جب وہ لوگ خوب نافرمانیاں کرتے ہیں، تب ان پر نزول عذاب کی حجت پوری ہوجاتی ہے پھر ہم اس بستی کو تباہ اور برباد کر ڈالتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا)- یہاں کسی بستی پر عذاب استیصال کے نازل ہونے کا ایک اصول بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اس کا سبب وہاں کے دولت مند اور خوشحال لوگ بنتے ہیں۔ یہ لوگ علی الاعلان اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانیاں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی دیدہ دلیری کے سبب ان کی رسی مزید دراز کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی عیاشیوں اور من مانیوں میں تمام حدیں پھلانگ کر پوری طرح عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں عوام انہیں ان کے کرتوتوں سے باز رکھنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتے بلکہ ایک وقت آتا ہے جب وہ بھی ان کے ساتھ جرائم میں شریک ہوجاتے ہیں اور یوں ایسا معاشرہ اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ ایسے میں صرف وہی لوگ عذاب سے بچ پاتے ہیں جو نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہے ہوں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :18 اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے ۔ یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں ۔ ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے ۔ دراصل حقیقت پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخرکار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے ، خوشحال لوگوں اور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے ۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحب اقتدار لوگ فسق و فجور پر اتر آتے ہیں ، ظلم و ستم اور بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں ، اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے ۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاقی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani