Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عبادت واطاعت کا طریقہ ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے صاحبزادے مصعب نے سوال کیا کہ کیا اس آیت سے مراد خارجی ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مراد اس سے یہودونصاری ہیں ۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور نصرانیوں نے جنت کو سچا نہ جانا اور کہا کہ وہاں کھانا پینا کچھ نہیں ۔ خارجیوں نے اللہ کے وعدے کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیا ۔ پس حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ خارجیوں کو فاسق کہتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود ونصاری وغیرہ کفار کو شامل ہے ، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں ہے کیونکہ آیت عام ہے جو بھی اللہ کی عبادت واطاعت اس طریقے سے بجالائے جوطریقہ اللہ کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہے کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کر لیا ہے میرے نیک اعمال اللہ کے پسند یدہ ہیں اور مجھے ان پر اجرو ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے آیت مکی ہے اور ظاہر ہے کہ مکے میں یہود ونصاری مخاطب نہ تھے ۔ اور خارجیوں کا تو اس وقت تک وجود بھی نہ تھا ۔ پس ان بزرگوں کا یہی مطلب ہے کہ آیت کے عام الفاظ ان سب کو اور ان جیسے اور سب کو شامل ہیں ۔ جیسے سورہ غاشیہ میں ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل وخوار ہوں گے جو دنیا میں بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے اور سخت تکلیفیں اٹھائے ہوتے تھے آج وہ باوجود ریاضت وعبادت کے جہنم واصل ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیے جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا 23؀ ) 25- الفرقان:23 ) ان کے تمام کئے کرائے اعمال کو ہم نے آگے بڑھ کر ردی اور بیکار ردی کر دیا ۔ اور آیت میں ہے کافروں کی اعمال کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پیاسا ریت کے تودے کو پانی کا دریا سمجھ رہا ہو لیکن جب پاس آتا ہے تو ایک بوند پانی کی نہیں پاتا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے طور پر عبادت ریاضت تو کرتے رہے اور دل میں بھی سمجھتے رہے کہ ہم بہت کچھ نیکیاں کر رہے ہیں اور وہ مقبول اور اللہ کے پسندیدہ ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ تھیں ، نبیوں کے فرمان کے مطابق نہ تھیں اس لئے بجائے مقبول ہونے کے مردود ہوگئیں اور بجائے محبوب ہونے کے مبغوض ہوگئے ۔ اس لئے وہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے رہے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کے تمام تر ثبوت ان کے سامنے تھے لیکن انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور مانے ہی نہیں ۔ ان کا نیکی کا پلڑا باکل خالی رہے گا ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک موٹا تازہ بڑا بھاری آدمی آئے گا لیکن اللہ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا پھر آپ نے فرمایا اگر تم چاہو اس آیت کی تلاوت کر لو ( فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥؁ ) 18- الكهف:105 ) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے بہت زیادہ کھانے پینے والے موٹے تازے انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن اس کا وزن اناج کے ایک دانے کے برابر بھی نہ ہوگا ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ بزار میں ہے ایک قریشی کافر اپنے حلے میں اتراتا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا تو آپ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ ان میں سے ہے جن کا کوئی وزن قیامت کے دن اللہ کے پاس نہ ہوگا ۔ مرفوع حدیث کی طرح حضرت کعب کا قول بھی مروی ہے ۔ یہ بدلہ ہے ان کے کفر کا ، اللہ کی آیتوں کا اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق میں اڑانے کا ۔ اور ان کے نہ ماننے بلکہ انہیں جھٹلانے کا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَلْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا اس جگہ پہلی دو آیتیں اپنے مفہوم عام کے اعتبار سے ہر اس فرد یا جماعت کو شامل ہیں جو کچھ اعمال کو نیک سمجھ کر اس میں جدوجہد اور محنت کرتے ہیں مگر اللہ کے نزدیک ان کی محنت برباد اور عمل ضائع ہے قرطبی نے فرمایا کہ یہ صورت دو چیزوں سے پیدا ہوتی ہے ایک فساد اعتقاد، دوسرے ریاء کاری یعنی جس شخص کا عقیدہ اور ایمان درست نہ ہو وہ عمل کتنے ہی اچھے کرے اور کتنی ہی محنت اٹھائے وہ آخرت میں بیکار اور ضائع ہے۔- اسی طرح جس کا عمل مخلوق کو خوش کرنے کے لئے ریاکاری سے ہو وہ بھی عمل کے ثواب سے محروم ہے اسی مفہوم عام کے اعتبار سے بعض حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اس کا مصداق خوارج کو اور بعض مفسرین نے معتزلہ اور روافض وغیرہ گمراہ فرقوں کو قرار دیا مگر اگلی آیت میں یہ متعین کردیا گیا ہے کہ اس جگہ مراد وہ کفار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور قیامت و آخرت کے منکر ہوں (آیت) اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ اس لئے قرطبی ابوحیان مظہری وغیرہ میں ترجیح اس کو دی گئی ہے کہ اصل مراد اس جگہ وہی کفار ہیں جو اللہ تعالیٰ اور قیامت اور حساب و کتاب کے منکر ہوں مگر صورۃً وہ لوگ بھی اس کے مفہوم عام سے بےتعلق نہیں ہو سکتے جن کے اعمال ان کے عقائد فاسدہ نے برباد کردیئے اور ان کی محنت رائیگاں ہوگئی بعض صحابہ کرام (رض) اجمعین حضرت علی (رض) اور سعد (رض) سے جو ایسے اقوال منقول ہیں ان کا یہی مطلب ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا۝ ١٠٣ۭ- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٣۔ ١٠٤) اے نبی کریم آپ ان سے فرمائیے کہ کیا ہم آپ کو ایسے لوگوں کے بارے میں بتائیں جو آخرت میں خسارہ میں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا میں تمام محنت سب اکارت گئی، جیسا کہ خوارج اور گرجاؤں والے اسی خیال میں ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٣ (قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا)- یہ ہے وہ مضمون جسے ابتدا میں اس سورت کا عمود قرار دیا گیا تھا یعنی دنیا اور اس کی زیب وزینت اس مضمون کے سائبان کا ایک کھونٹا سورت کے آغاز میں نصب ہے جبکہ دوسرا کھونٹا یہاں ان آیات کی صورت میں۔ ابتدائی آیات میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ دنیا کی زیب وزینت اور رونقوں پر مشتمل یہ خوبصورت محفل سجائی ہی انسانوں کی آزمائش کے لیے گئی ہے۔ اس کے ذریعے سے انسانوں کے رویوں کی پرکھ پڑتال کرنا اور ان کی جدو جہد کی غرض وغایت کا تعین کرنا مقصود ہے : (اِنَّاجَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) ۔ اب یہاں آیت زیر نظر میں ان لوگوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے جو اپنے اعمال اپنی محنت و مشقت بھاگ دوڑ اور سعی وجہد میں سب سے زیادہ گھاٹا کھانے والے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس آزمائش میں ناکام ہو کر دنیا کی زیب وزینت ہی میں کھو گئے ہیں۔- جہاں تک محنت اور مشقت کا تعلق ہے وہ تو ہر شخص کرتا ہے۔ جیسے حضور نے فرمایا : (کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ فَبَاءِعٌ نَفْسَہٗ ‘ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا) ” ہر انسان جب صبح کرتا ہے تو خود کو بیچنا شروع کرتا ہے پھر یا تو وہ اسے آزاد کرا لیتا ہے یا (گناہوں سے) ہلاک کردیتا ہے “۔ چناچہ ہر کوئی اپنے آپ کو بیچتا ہے۔ کوئی اپنی طاقت اور قوت بیچتا ہے کوئی اپنی ذہانت اور صلاحیت بیچتا ہے اور کوئی اپنا وقت اور ہنر بیچتا ہے۔ گویا یہ دنیا محنت عمل اور کوشش کی دوڑ کا میدان ہے اور ہر انسان اپنے مفاد کے لیے بقدر ہمت اس دوڑ میں شامل ہے۔ مگر بدقسمتی سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی پوری کوشش اور محنت کے باوجود گھاٹے میں رہتے ہیں۔ ان کے لیے خود کو بیچنے کے اس عمل میں کچھ بھی نفع نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے خسارا ہی خسارا ہے۔ تو اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے یہ کون لوگ ہیں ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani