Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کف افسوس اس کا کل مال کل پھل غارت ہو گیا وہ مومن اسے جس بات سے ڈرا رہا تھا وہی ہو کر رہی اب تو وہ اپنے مال کی بربادی پر کف افسوس ملنے لگا اور آرزو کرنے لگا کہ اے کاش کہ میں اللہ کے ساتھ مشرک نہ بنتا ۔ جن پر فخر کرتا تھا ان میں سے کوئی اس وقت کام نہ آیا ، فرزند قبیلہ سب رہ گیا ۔ فکر و غرور سب مٹ گیا نہ اور کوئی کھڑا ہوا نہ خود میں ہی کوئی ہمت ہوئی ۔ بعض لوگ ھنالک پر وقف کرتے ہیں اور اسے پہلے جملے کے ساتھ ملا لیتے ہیں یعنی وہاں وہ انتقام نہ لے سکا ۔ اور بعض منتصرا پر آیت کر کے آگے سے نئے جملے کی ابتدا کرتے ہیں ولایتہ کی دوسری قرأت ولایتہ بھی ہے ۔ پہلی قرأت پر مطلب یہ ہوا کہ ہر مومن و کافر اللہ ہی کا طرف رجوع کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ، عذاب کے وقت کوئی بھی سوائے اس کے کام نہیں آ سکتا جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ 84؀ ) 40-غافر:84 ) یعنی ہمارے عذاب دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم اللہ واحد پر ایمان لاتے ہیں اور اس سے پہلے جنہیں ہم شریک الہٰی ٹھیرایا کرتے تھے ، ان سے انکار کرتے ہیں ۔ اور جیسے کہ فرعون نے ڈوبتے وقت کہا تھا کہ میں اس اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں شامل ہوتا ہوں اس وقت جواب ملا کہ اب ایمان قبول کرتا ہے ؟ اس سے پہلے تو نافرمان رہا اور مفسدوں میں شامل ہوتا ہوں اس وقت جواب ملا کہ اب ایمان قبول کرتا ہے ؟ اس سے پہلے تو نافرمان رہا اور مفسدوں میں شامل رہا ۔ واؤ کے کسر کی قرأت پر یہ معنی ہوئے کہ وہاں حکم صحیح طور پر اللہ ہی کے لئے ہے ۔ للہ الحق کی دوسری قرأت قاف کے پیش سے بھی ہے کیونکہ یہ الولایتہ کی صفت ہے جیسے فرمان ہے آیت ( اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا 26؀ ) 25- الفرقان:26 ) میں ہے بعض لوگ قاف کا کے زیر پڑھتے ہیں ان کے نزدیک یہ صفت ہے حق تعالیٰ کی ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ ۣ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ 62؀ ) 6- الانعام:62 ) اسی لئے پھر فرماتا ہے کہ جو اعمال صرف اللہ ہی کے لئے ہوں ان کا ثواب بہت ہوتا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی وہ بہتر ہیں

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یہ کنایہ ہے ہلاکت و فنا سے۔ یعنی سارا باغ ہلاک کر ڈالا۔ 42۔ 2 یعنی باغ کی تعمیر و اصلاح اور کاشتکاری کے اخراجات پر کف افسوس ملنے لگا۔ ہاتھ ملنا کنایہ، یہ ہے ندامت سے۔ 42۔ 3 یعنی جن چھتوں، چھپروں پر انگوروں کی بیلیں تھیں، وہ سب زمین پر آرہیں اور انگوروں کی ساری فصل تباہ ہوگئی۔ 42۔ 4 اب اسے احساس ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اس کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اس کے احکام کا انکار کرنا اور اس کے مقابلے میں سرکشی، کسی طرح بھی ایک انسان کے لئے زیبا نہیں، لیکن اب حسرت و افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٠] تکبر کی سزا :۔ چناچہ موحد کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئے کہ اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات فوراً مستجاب ہوگئی اور مشرک کو اس کے تکبر اور غرور کی سزا مل کے رہی۔ جن درختوں کے پھلوں اور اپنی پیداوار کو دیکھ کر وہ اتنا خوش ہو رہا تھا اور کفر کے کلمے بک رہا تھا۔ اس سارے کے سارے باغ پر قہر الٰہی نازل ہوا جس نے اسے زمین بوس کردیا اور صرف موجودہ تیار فصل کا ہی نقصان نہ ہوا بلکہ جو کچھ اس باغ پر خرچ کرچکا تھا سب کچھ ضائع اور برباد ہوگیا اس وقت وہ کف افسوس ملتے ہوئے کہنے لگا۔ کاش میں نے اپنے پروردگار کو حقیقی معنوں میں پروردگار اور نفع و نقصان کا مالک سمجھا ہوتا۔ اس کے کھڑے کھڑے اور آنکھوں سے دیکھتے اس کے باغ پر آفت نازل ہوئی تو اس وقت وہ کچھ بھی اس کا بچاؤ نہ کرسکا اور جب سب کچھ تباہ ہوگیا تب جاکر اسے یہ سمجھ آئی کہ حقیقتاً تو ہر چیز پر اختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔- یہ تھی وہ مثال جو قریش مکہ کو سمجھانے کے لیے پیش کی گئی اور انھیں اس مثال میں تنبیہ یہ ہے کہ اگر ان کے پاس آج مال و دولت ہے، عزت ہے چودھراہٹ ہے تو وہ دوسروں کو حقیر مت سمجھیں کسی وقت بھی ان کے فخر و استکبار کی وجہ سے ان سے یہ نعمتیں چھن بھی سکتی ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کردہ مثال سے بھی یہی کچھ واضح ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاُحِيْطَ بِثَمَرِهٖ ۔۔ : لفظی معنی ہے اس کے پھل کو گھیر لیا گیا، یعنی سب مارا گیا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا اس مومن نے کہا تھا کہ رات اللہ کی طرف سے کسی عذاب مثلاً طوفانی بارش، یا سردی کی شدید لہر، یا آگ لگنے سے اس کا سارا باغ برباد ہوگیا، انگور چھتوں سمیت گرگئے اور صبح ہوئی تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کافر کی عجیب تصویر کھینچی ہے، کیونکہ جب یک لخت صدمہ پہنچتا ہے تو آدمی پہلے گنگ رہ جاتا ہے، پھر کچھ سنبھلتا ہے تو بات کرتا ہے، یہ مشرک بھی اپنے باغ کی حالت دیکھتے ہی اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیرنے لگا۔ اس سے دو صورتیں مراد ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ ایک دوسری پر ملنے لگا اور دوسری یہ کہ حسرت و افسوس سے الگ الگ ہی ان کو الٹ پلٹ کرنے لگا کہ ہائے ہائے میں نے اس میں کس قدر رقم خرچ کی تھی، نفع کے بجائے اصل بھی گیا۔ اب اسے یاد آیا کہ مومن بھائی کی بات سچی تھی اور کہنے لگا، کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا، غرور و تکبر کی راہ سے اپنے نفس کی پیروی نہ کرتا، بلکہ بھائی کی بات مان لیتا اور اپنی ساری شان و شوکت کو اللہ ہی کا عطیہ سمجھتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاُحِيْطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْہِ عَلٰي مَآ اَنْفَقَ فِيْہَا وَھِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا وَيَـقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا۝ ٤٢- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - كف - الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، - وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] - ( ک ف ف ) الکف - کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- خوی - أصل الخَوَاء : الخلا، يقال خَوَى بطنه من الطعام يَخْوِي خَوًى «3» ، وخَوَى الجوز خَوًى تشبيها به، وخَوَتِ الدار تَخْوِي خَوَاءً ، وخَوَى النجم وأَخْوَى: إذا لم يكن منه عند سقوطه مطر، تشبيها بذلک، وأخوی أبلغ من خوی، كما أن أسقی أبلغ من سقی. والتّخوية : ترک ما بين الشيئين خالیا .- ( خ و ی ) الخوا ء - کے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اس کا پیٹ طعام سے خالی ہوگیا ۔ اور تشبیہ کے طور پر خوی الجواز کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جسکے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ خوت خواء الدار گھر ویران ہوکر گر پڑا اور جب ستارے کے گرنے پر بارش نہ ہو تو تشبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے یہاں خوی کی نسبت آخویٰ کے لفظ میں زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے جیسا کہ سقی اور اسقیٰ میں ۔ التخویۃ دو چیزوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑ نا ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - ليت - يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت - «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ.- أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل .- ( ل ی ت ) لا تہ - ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (وَاُحِيْطَ بِثَمَرِهٖ )- اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نعمتیں دی گئی تھیں وہ سب اس سے سلب کرلی گئیں۔ باغ بھی اجڑ گیا اور اولاد بھی چھن گئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرا شخص اللہ کا خاص مقرب بندہ تھا۔ مال دار شخص نے اسے اس کی ناداری کا طعنہ دیا تھا : (اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا) کہ مال و دولت میں بھی مجھے تم پر فوقیت حاصل ہے اور نفری میں بھی میں تم سے بڑھ کر ہوں۔ اس طعنے سے اللہ کے اس نیک بندے کا دل دکھا ہوگا جس کی سزا اسے فوری طور پر ملی اور اللہ نے اس سے سب کچھ چھین لیا۔ اس سلسلے میں ایک حدیث قدسی ہے : (مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیاًّ فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ ) ” جو شخص میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرے تو میری طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے “۔ کسی شاعر نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے :- تا دل صاحب دلے نالد بہ درد ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد - یعنی کسی صاحب دل ولی اللہ کے دل کو جب ٹھیس لگتی ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوری قوم گرفت میں آجاتی ہے۔- (فَاَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلٰي مَآ اَنْفَقَ فِيْهَا)- یقیناً ان باغوں کی منصوبہ بندی کرنے پودے لگانے اور ان کی نشو ونما کرنے میں اس نے زر کثیر خرچ کیا تھا مسلسل محنت کی تھی اور اپنا قیمتی وقت اس میں کھپایا تھا۔ اس کا یہ تمام سرمایہ آن کی آن میں نیست و نابود ہوگیا اور وہ اس کی بربادی پر کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکا۔- (وَھِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا)- انگوروں کی بیلیں جن چھتریوں پر چڑھائی گئی تھیں وہ سب کی سب اوندھی پڑی تھیں۔- (وَيَـقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا)- اس مال دار شخص کے مکالمے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے اختیار کو بھلا کر ظاہری اسباب اور مادی وسائل پر توکل کرلیا تھا اور یہی وہ شرک تھا جس کا خود اس نے یہاں اعتراف کیا ہے۔ آج کی مادہ پرستانہ ذہنیت کا مکمل نقشہ اس رکوع میں پیش کردیا گیا ہے۔ یہ شرک کی جدید قسم ہے جس کو پہچاننے اور جس سے محتاط رہنے کی آج ہمیں اشد ضرورت ہے۔ (اس حوالے سے میری کتاب ” حقیقت و اقسام شرک “ کا مطالعہ مفید رہے گا جس میں شرک اور اس کی اقسام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani