یاجوج ماجوج ۔ اپنے شرقی سفر کو ختم کرکے پھر ذوالقرنین وہیں مشرق کی طرف ایک راہ چلے دیکھا کہ دو پہاڑ ہیں جو ملے ہوئے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک گھاٹی ہے جہاں سے یاجوج ماجوج نکل کر ترکوں پر تباہی ڈالا کرتے ہیں انہیں قتل کرتے ہیں کھیت باغات تباہ کرتے ہیں بال بچوں کو بھی ہلاک کر تے ہیں اور سخت فساد بربا کرتے رہتے ہیں ۔ یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث سے ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا کہ اے آدم آپ لبیک وسعدیک کے ساتھ جواب دیں گے ، حکم ہوگا آگ کا حصہ الگ کر ۔ پوچھیں گے کتنا حصہ ؟ حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں ۔ یہی وہ وقت ہوگا کہ بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا ۔ پھر حضور علیہ السلام نے فرمایا تم میں دو امتیں ہیں کہ وہ جن میں ہوں انہین کثرت کو پہنچا دیتی ہیں یعنی یاجوج ماجوج ۔ امام نووی رحمۃ للہ نے شرح صحیح مسلم میں ایک عجیب بات لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے خاص پانی کے چند قطرے جو مٹی میں گرے تھے انہی سے یاجوج ماجوج پیدا کئے گئے ہیں گویا وہ حضرت حوا اور حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے نہیں بلکہ صرف نسل آدم علیہ السلام سے ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ یہ قول بالکل ہی غریب ہے نہ اس پر عقلی دلیل ہے نہ نقلی اور ایسی باتیں جو اہل کتاب سے پہنچتی ہیں وہ ماننے کے قابل نہیں ہوتیں ۔ بلکہ ان کے ہاں کے ایسے قصے ملاوٹی اور بناوٹی ہوتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے تین لڑکے تھے سام حام اور یافث ۔ سام کی نسل سے کل عرب ہیں اور حام کی نسل سے کل حبشی ہیں اور یافث کی نسل سے کل ترک ہیں ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج ترکوں کے اس جد اعلیٰ یافث کی ہی اولاد ہیں انہیں ترک اس لئے کہا گیا ہے کہ انہیں بوجہ ان کے فساد اور شرارت کے انسانوں کی اور آبادی کے پس پشت پہاڑوں کی آڑ میں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ذوالقرنین کے سفر کے متعلق اور اس دیوار کے بنانے کے متعلق اور یاجوج ماجوج کے جسموں ان کی شکلوں اور ان کے کانوں وغیرہ کے متعلق وہب بن منبہ سے ایک بہت لمبا چوڑا واقعہ اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے جو علاوہ عجیب وغریب ہونے کے صحت سے دور ہے ۔ ابن ابی حاتم میں بھی ایسے بہت سے واقعات درج ہیں لیکن سب غریب اور غیر صحیح ہیں ۔ ان پہاڑوں کے درے میں ذوالقرنین نے انسانوں کی ایک آبادی پائی جو بوجہ دنیا کے اور لوگوں سے دوری کے اور ان کی اپنی مخصوص زبان کے اوروں کی بات بھی تقریبانہیں سمجھ سکتے تھے ۔ ان لوگوں نے ذوالقرنین کی قوت وطاقت عقل وہنر کو دیکھ کر درخواست کی کہ اگر آپ رضامند ہوں تو ہم آپ کے لئے بہت سا مال جمع کردیں اور آپ ان پہاڑوں کے درمیان کی گھاٹی کو کسی مضبوط دیوار سے بند کردیں تاکہ ہم ان فسادیوں کی روزمرہ کی ان تکالیف سے بچ جائیں ۔ اس کے جواب میں حضرت ذوالقرنین نے فرمایا مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں اللہ کا دیا سب کچھ میرے پاس موجود ہے اور وہ تمہارے مال سے بہت بہتر ہے ۔ یہی جواب حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ملکہ سبا کے قاصدوں کو دیا گیا تھا ۔ ذوالقرنین نے اپنے اس جواب کے بعد فرمایا کہ ہاں تم اپنی قوت وطاقت اور کام کاج سے میرا ساتھ دو تو میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دیتا ہوں ۔ زبر جمع ہے زبرۃ کی ۔ ذوالقرنین فرماتے ہیں کہ لوہے کے ٹکڑے اینٹوں کی طرح کے میرے پاس لاؤ ۔ جب یہ ٹکڑے جمع ہوگئے تو آپ نے دیوار بنانی شروع کرا دی اور وہ لمبائی چوڑائی میں اتنی ہو گئی کہ تمام جگہ گھر گئی اور پہاڑ کی چوٹی کے برابر پہنچ گئی ۔ اس کے طول وعرض اور موٹائی کی ناپ میں بہت سے مختلف اقوال ہیں ۔ جب یہ دیوار بالکل بن گئی تو حکم دیا کہ اب اس کے چاروں طر ف آگ بھڑکاؤ جب وہ لوہے کی دیوار بالکل انگارے جیسی سرخ ہوگئی توحکم دیا کہ اب پگھلا ہوا تانبا لاؤ اور ہر طرف سے اس کے اوپر بہا دو چنانچہ یہ بھی کیا گیا پس ٹھنڈی ہو کر یہ دیوار بہت مضبوط اور پختہ ہوگئی اور دیکھنے میں ایسی معلوم ہونے لگی جیسے کوئی دھاری دار چادر ہو ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے وہ دیوار دیکھی ہے آپ نے فرمایا کیسی ہے ؟ اس نے کہا دھاری دار چادر جیسی ہے جس میں سرخ وسیاہ دھاریاں ہیں تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے ۔ خلیفہ واثق نے اپنے زمانے میں اپنے امیروں کو ایک وافر لشکر اور بہت ساسامان دے کر روانہ کیا تھا کہ وہ اس دیوار کی خبر لائیں یہ لشکر دوسال سے زیادہ سفر میں رہا اور ملک در ملک پھرتا ہوا آخر اس دیوار تک پہنچا دیکھا کہ لوہے اور تانبے کی دیوار ہے اس میں ایک بہت بڑا نہایت پختہ عظیم الشان دروازہ بھی اسی کا ہے جس پر منوں کے وزنی قفل لگے ہوئے ہیں اور جو مال مسالہ دیوار کا بچا ہوا ہے وہ وہیں پر ایک برج میں رکھا ہوا ہے جہاں پہرہ چوکی مقرر ہے ۔ دیوار بیحد بلند ہے کتنی ہی کوشش کی جائے لیکن اس پر چڑھنا ناممکن ہے اس سے ملا ہوا پہاڑیوں کا سلسلہ دونوں طرف برابر چلا گیا ہے اور بھی بہت سے عجائب وغرائب امور دیکھے جو انہوں نے واپس آکر خلیفہ کی خدمت میں عرض کئے ۔
92۔ 2 یعنی اب اس کا رخ کسی اور طرف ہوگیا۔
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا ۔۔ : مغرب و مشرق کے سفر کے بعد ذوالقرنین کا یہ تیسرا سفر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی جہت بیان نہیں فرمائی کہ وہ شمال ہے یا جنوب یا چاروں جہتوں کا کوئی کونا۔ معلوم ہوتا ہے اسے پوشیدہ رکھنے ہی میں اللہ کی حکمت ہے۔ چناچہ مدت دراز سے لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی دو پہاڑوں کے درمیان اس جیسی بلندی والی یہ دیوار کسی نے نہیں دیکھی۔ دیوار چین یا داغستان میں دربند اور خوزامہ کے درمیان کسی زمانے میں پائی جانے والی دیوار یا کسی اور دیوار کی نہ یہ ہیئت ہے، نہ ان کے پار رہنے والوں میں کہیں یاجوج ماجوج کا وجود ہے۔ - 3 بہت سے مفسرین نے ذوالقرنین کا یہ سفر شمال کی طرف قرار دیا ہے، کوئی اسے روس کا علاقہ قرار دیتا ہے، کوئی تاتاریوں کو یاجوج ماجوج کا مصداق ٹھہراتا ہے، جنھوں نے شمال کی جانب سے نکل کر دنیا کو تہ و بالا کردیا تھا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ بعض انھیں مغل یا ترک قرار دیتے ہیں، مگر سب بلادلیل اندھیرے میں پتھر پھینکتے چلے جاتے ہیں۔ بعض حضرات اپنے دعوے کے کسی جز کی دلیل کے طور پر بائبل سے کچھ نقل کرکے پورے دعوے کی دلیل کے فریضے سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، حالانکہ موجودہ بائبل پر یقین ممکن ہی نہیں۔ ان حضرات کی تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ ذوالقرنین کی دیوار ختم ہوچکی اور اس کے پیچھے روکے ہوئے یاجوج ما جوج، جو نکلنے تھے، نکل چکے، حالانکہ قرآن و سنت دونوں سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت کی تفصیل کی ضرورت ہو تو وہ قرآن مجید کی کسی دوسری آیت ساتھ ملانے سے پوری ہوجاتی ہے، اگر پھر بھی ضرورت باقی رہے تو صحیح حدیث ملانے سے وہ بھی پوری ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید میں یاجوج ماجوج کے نکلنے کا ذکر ایک اور مقام پر بھی آتا ہے، فرمایا : (حَتّٰٓي اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ 96 وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِىَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ يٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٩٦، ٩٧ ] ” یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور سچا وعدہ بالکل قریب آجائے گا تو اچانک یہ ہوگا کہ ان لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی جنھوں نے کفر کیا۔ ہائے ہماری بربادی بیشک ہم اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظلم کرنے والے تھے۔ “ سورة کہف اور سورة انبیاء دونوں کی آیات کو ملانے سے صاف واضح ہے کہ اس دیوار کے زمین کے برابر ہونے اور یاجوج ماجوج کے موجیں مارتے ہوئے نکلنے کا وقت ایک ہی ہے اور اس کے بعد نفخ صور اور قیامت بالکل قریب ہوں گی۔ اس کی مزید تفصیل صحیح مسلم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی موجود ہے کہ یہ سب کچھ دجال کے نکلنے اور مسیح (علیہ السلام) کے زمین پر نازل ہونے کے بعد ہوگا۔ چناچہ نواس بن سمعان (رض) سے مروی لمبی حدیث میں دجال کے نکلنے، فتنہ و فساد پھیلانے، پھر مسیح (علیہ السلام) کے نازل ہو کر اسے قتل کرنے کا ذکر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” عیسیٰ (علیہ السلام) اسی طرح (مصروف) ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائے گا کہ میں نے اپنے کچھ ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی میں ان سے لڑنے کی طاقت نہیں، اس لیے میرے بندوں کو طور کی طرف لے جا کر محفوظ کرلو، تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ ان کے پہلے لوگ طبریہ جھیل پر پہنچیں گے تو اس میں جو بھی (پانی) ہے پی جائیں گے اور ان کے آخری لوگ گزریں گے اور کہیں گے کہ یہاں کبھی ضرور پانی رہا ہے۔ اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی محصور رہیں گے، یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک کے نزدیک بیل کا سر آج تمہارے نزدیک سو دینار (تین سو گرام سونے) سے بہتر ہوگا۔ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں کیڑے ڈال دے گا تو وہ سب ایک شخص کی موت کی طرح ہلاک ہوجائیں گے، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت جگہ بھی نہیں پائیں گے جسے ان کی سڑاند اور گندگی نے نہ بھر رکھا ہو۔ تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھا کر وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا کہ کوئی مکان یا خیمہ اس کے بغیر نہیں رہے گا۔ چناچہ وہ بارش زمین کو دھو دے گی، یہاں تک کہ اسے آئینے کی طرح صاف کر دے گی۔ پھر زمین کو حکم ہوگا کہ اپنے پھل اگا اور اپنی برکت واپس لا تو ان دنوں ایک جماعت انار کا ایک حصہ کھائے گی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ والے جانوروں میں برکت دی جائے گی، یہاں تک کہ دودھ والی اونٹنی لوگوں کی کئی جماعتوں کو کافی ہوگی اور دودھ والی گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہوگی اور دودھ والی بکری لوگوں کے ایک خاندان کو کافی ہوگی۔ تو وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک طیب ہوا بھیجے گا جو ان کی بغلوں کے نیچے اثر کرے گی اور ہر مومن اور ہر مسلم کی روح قبض کرلے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے، جو گدھوں کی طرح ایک دوسرے سے جنسی ملاپ کریں گے تو ان پر قیامت قائم ہوگی۔ “ [ مسلم، الفتن، باب ذکر الدجال : ٢٩٣٧ ]- اس صحیح حدیث سے ذوالقرنین کی دیوار کا زمین کے برابر ہوچکا ہونا اور یاجوج ماجوج کا روسی، چینی یا تاتاری ہونا اور ان کے خروج کا واقع ہوچکا ہونا صاف غلط ثابت ہوتا ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ قرآن مجید اور صحیح حدیث کے خلاف جو بات بھی ہے وہ باطل اور جھوٹ ہے، خواہ وہ بات کہنے والا کتنا بڑا ہو اور خواہ وہ بائبل کی کسی کتاب میں موجود ہو، کیونکہ بائبل کے محفوظ نہ رہنے اور اس میں اضافہ اور تبدیلی کی شہادت قرآن مجید میں کئی جگہ موجود ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ (١٣) ، انعام (٩١) ، بقرہ (٧٩) اور آل عمران (٧٨) اس کے مقابلے میں قرآن و سنت کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ دیکھیے سورة حجر (٩) ، قیامہ (١٦، ١٧) ، حم السجدہ (٤٢) اور نجم (٣، ٤) بلکہ اس میں کئی ایسی عبارتیں ہیں کہ کوئی یہودی یا عیسائی انھیں عام مجمع میں پڑھنے کی جرأت نہیں کرسکتا، مثلاً لوط، داؤد اور سلیمان پر تہمتوں کے طوفان والی عبارتیں۔ اور اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ اہل کتاب کی کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو وہ جھوٹ ہے اور اگر نہ خلاف ہو نہ موافق تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انھیں نہ سچا کہو نہ جھوٹا۔ زیر تفسیر آیات کے بارے میں اسرائیلی روایات قرآن مجید اور صحیح احادیث کے خلاف ہیں، اس لیے بےبنیاد اور باطل ہیں۔ - 3 یاجوج اور ماجوج عجمی نام ہیں، اس لیے عجمہ اور تانیث (مجوس کی طرح قبیلہ ہونے) کی وجہ سے غیر منصرف ہیں۔ اگر انھیں عربی مانا جائے تو یاجوج بروزن ” یَفْعُوْلٌ“ مثلاً ” یَرْبُوْعٌ“ اور ماجوج بروزن ” مَفْعُوْلٌ“ مثلاً ” مَعْقُوْلٌ“ ہوگا اور ان کا ماخذ ” اَجَّ یَؤُجُّ “ ہوگا۔ ” اَجَّ الظَّلِیْمُ “ کا معنی نر شتر مرغ تیز دوڑا اور ” اَجَّتِ النَّارُ “ آگ بھڑک اٹھی۔ غرض یاجوج اور ماجوج کا اشتقاق ایک ہی مادے سے ہے اور اس کے مفہوم میں تیزی اور اشتعال شامل ہے اور یہ لفظ معرفہ اور تانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہیں۔ (قاسمی)- 3 یاجوج اور ماجوج آدم (علیہ السلام) ہی کی اولاد ہیں، جیسا کہ صحیحین میں ہے : ( یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَا آدَمُ فَیَقُوْلُ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ فِيْ یَدَیْکَ قَالَ یَقُوْلُ أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ ، قَالَ وَمَا بَعْثُ النَّارِ ؟ قَالَ مِنْ کُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِاءَۃٍ وَتِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ ، قَالَ فَذَاکَ حِیْنَ یَشِیْبُ الصَّغِیْرُ (وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَاب اللّٰهِ شَدِيْد) قَالَ فَاشْتَدَّ ذٰلِکَ عَلَیْھِمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّنَا ذَاک الرَّجُلُ ؟ فَقَالَ أَبْشِرُوْا فَإِنَّ مِنْ یَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ أَلْفٌ، وَمِنْکُمْ رَجُلٌ ) [ مسلم، الإیمان، باب قولہ : یقول اللّٰہ لآدم۔۔ : ٢٢٢۔ بخاري : ٦٥٣٠ ] ” اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : ” اے آدم وہ عرض کریں گے : ” لبیک وسعدیک اور ہر خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ “ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : ” آگ والی جماعت کو نکالو۔ “ وہ عرض کریں گے : ” اور آگ والی جماعت کیا ہے ؟ “ فرمائیں گے : ” ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو یہ وہ وقت ہوگا کہ بچہ بوڑھا ہوجائے گا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے میں دیکھے گا، حالانکہ وہ ہرگز نشے میں نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ “ راوی نے کہا، تو یہ بات ان پر بہت شاق گزری، انھوں نے کہا : ” اے اللہ کے رسول ہم میں وہ ایک آدمی کون ہوگا ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خوش ہوجاؤ کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار اور تم میں سے ایک آدمی ہوگا۔ “ بعض مفسرین نے یاجوج ماجوج کی شکل و صورت، قد کے لمبے اور چھوٹے ہونے اور ان کے کانوں کے متعلق عجیب و غریب اقوال و روایات لکھی ہیں جن میں سے کوئی بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ (ابن کثیر)- 3 اس حقیقت پر بعض کم فہم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یورپی اقوام نے زمین کا ہر کونا چھان مارا ہے مگر انھیں نہ کہیں یاجوج ماجوج نظر آتے ہیں نہ پہاڑوں جیسی بلند لوہے اور تانبے کی کوئی دیوار نظر آتی ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے مخفی رکھنا چاہے کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا۔ بنی اسرائیل میدان تیہ میں چالیس سال تک چند میل کے دائرے میں گھومتے رہے، نہ وہ اس دائرے سے نکل سکے اور نہ کسی اور کو ان کا پتا چل سکا، ورنہ وہ انھیں نکلنے کا راستہ بتا کر وہاں سے نکال لیتا۔ ایمان ہو تو اس دیوار، یاجوج ماجوج، نزول مسیح، دجال، دا بۃ الارض سب پر یقین آجاتا ہے اور اگر ایمان نہ ہو تو انسان ” ایک جمع ایک، جمع ایک، برابر تین “ کے بجائے ” برابر ایک “ جیسی صریح خلاف عقل بات پر اڑ جاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے رازوں تک اپنی نا رسائی کو تسلیم نہیں کرتا۔
خلاصہ تفسیر :- پھر (مغرب و مشرق فتح کرکے) ایک اور راہ پر ہو لئے (قرآن میں اس سمت کا نام نہیں لیا مگر آبادی زیادہ جانب شمال ہی ہے اس لئے مفسرین نے اس سفر کو شمالی ممالک کا سفر قرار دیا تاریخی شہادتیں بھی اس کی مؤ ید ہیں) یہاں تک کہ جب ایسے مقام پر جو دو پہاڑوں کے درمیان تھا پہنچے تو ان پہاڑوں سے اس طرح ایک قوم کو دیکھا جو (زبان اور لغت سے ناواقف وحشیانہ زندگی کی وجہ سے) کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں پہنچتے تھے (ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف زبان سے ناواقفیت نہ تھی کیونکہ سمجھ بوجھ ہو تو غیر زبان والے کی باتیں بھی کچھ اشارے کنائے سے سمجھی جاسکتی ہیں بلکہ وحشیانہ زندگی نے سمجھ بوجھ سے بھی دور رکھا تھا مگر پھر شاید کسی ترجمان کے واسطے سے) انہوں نے عرض کیا اے ذوالقرنین قوم یاجوج وماجوج (جو اس گھاٹی کے اس طرف رہتے ہیں ہماری) اس سر زمین میں (کبھی کبھی آکر) بڑا فساد مچاتے ہیں (یعنی قتل و غارتگری کرتے ہیں اور ہم میں ان کے مقابلے کی طاقت نہیں) سو کیا ہم لوگ آپ کے لئے چندہ کرکے کچھ رقم جمع کردیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی روک بنادیں (کہ وہ اس طرف نہ آنے پائیں) ذوالقرنین نے جواب دیا کہ جس مال میں میرے رب نے مجھ کو (تصرف کرنے کا) اختیار دیا ہے وہ بہت کچھ ہے (اس لئے چندہ جمع کرنے اور مال دینے کی تو ضرورت نہیں البتہ) ہاتھ پاؤں کی طاقت (یعنی محنت مزدوری) سے میری مدد کرو تو میں تمہارے اور ان کے درمیان خوب مضبوط دیوار بنادوں گا (اچھا تو) تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ (قیمت ہم دیں گے ظاہر یہ ہے کہ اس آہنی دیوار بنانے کے لئے اور بھی ضرورت کی چیزیں منگوائی ہوں گی مگر یہاں وحشی ملک میں سب سے زیادہ کم یاب چیز لوہے کی چادریں تھیں اس لئے ان کے ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا سب سامان جمع ہوجانے پر دونوں پہاڑوں کے درمیان آہنی دیوار کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا) یہاں تک کہ جب (اس دیوار کے ردے ملاتے ملاتے) ان (دونوں پہاڑوں) کے دونوں سروں کے بیچ (کے خلاء) کو (پہاڑوں کے) برابر کردیا تو حکم دیا کہ دھونکو (دھونکنا شروع ہوگیا) یہاں تک کہ جب (دھونکتے دھونکتے) اس کو لال انگارا کردیا تو حکم دیا کہ اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ (جو پہلے سے تیار کرا لیا ہوگا) کہ اس پر ڈال دوں (چنانچہ یہ پگھلا ہوا تانبا لایا گیا اور آلات کے ذریعہ اوپر سے چھوڑ دیا گیا کہ دیوار کی تمام درزوں میں گھس کر پوری دیوار ایک ذات ہوجائے اس کا طول و عرض خدا کو معلوم ہے) تو (اس کی بلندی اور چکناہٹ کے سبب) نہ تو یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ سکتے اور نہ اس میں (غایت استحکام کے سبب کوئی) نقب لگا سکتے تھے ذوالقرنین نے (جب اس دیوار کو تیار دیکھا جس کا تیار ہونا کوئی آسان کام نہ تھا تو بطور شکر کے) کہا کہ یہ میرے رب کی ایک رحمت ہے (مجھ پر بھی کہ میرے ہاتھوں یہ کام ہوگیا اور اس قوم کے لئے بھی جن کو یاجوج و ماجوج ستاتے تھے) پھر جس وقت رب کا وعدہ آئے گا (یعنی اس کی فنا کا وقت آئے گا) تو اس کو ڈھا کر (زمین کے) برابر کردے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے (اور اپنے وقت پر ضرور واقع ہوتا ہے)
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا ٩٢- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے