91۔ 1 یعنی ذوالقرنین کی بابت ہم نے جو بیان کیا ہے وہ اسی طرح ہے کہ پہلے وہ انتہائی مغرب اور پھر انتہائی مشرق میں پہنچا اور ہمیں اس کی تمام صلاحیتوں، اسباب و وسائل اور دیگر تمام باتوں کا پورا علم ہے۔
[٧٥] ذوالقرنین کی دوسری مہم مشرق کو :۔ لفظ کذلک کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ دوسرے لوگ یا مؤرخ خواہ ذوالقرنین کے کیسے حالات بتائیں اصل واقعہ یہی ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ذوالقرنین کو کیا کیا حالات پیش آئے اور اس کے پاس کیا کچھ موجود تھا اور کذلک کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین نے اس قوم سے بھی اسی طرح کا سلوک کیا جیسا مغربی قوم سے کیا تھا یعنی انھیں اسلام کی تعلیم اور دعوت دی جن لوگوں نے سرکشی کی ان کے ساتھ سختی کی گئی اور جنہوں نے فرماں برداری کی راہ اختیار کی ان سے نرمی کا سلوک کیا گیا۔
ۙكَذٰلِكَ ۭ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا۔۔ : یعنی اہل مشرق سے اس کا سلوک بھی اہل مغرب جیسا تھا، یا مطلب یہ ہے کہ کوئی اس کے مغرب و مشرق اور اس کے درمیان تمام علاقوں کے پامال کرنے کو ناممکن نہ سمجھے، یقیناً ایسے ہی ہوا اور اس مقصد کے لیے اس نے جو افواج اور سازو سامان مہیا کیا اور اپنا عیش و آرام ترک کرکے مسلسل سفر اور جنگوں کی جو تکالیف برداشت کیں اس کی پوری خبر ہم ہی کو ہے، کسی دوسرے کو کیا خبر ؟- 3 ذوالقرنین کی زندگی سے جو سبق حاصل ہوتے ہیں ان میں سے پہلا سبق یہ ہے کہ اقتدار حاصل ہوتے ہی بلند ہمت مسلم حکمران نو عمری ہی میں تمام دنیا کو فتح کرنے کا عزم کرلیتے ہیں، کیونکہ ذوالقرنین کے اتنی بےپناہ افواج کو لے کر اتنے طویل اور دشوار گزار سفر اور پیش آنے والے معرکوں کے لیے طویل عرصے کی بھی ضرورت تھی۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ اگرچہ شاہی محلات، طاؤس و رباب، قالین و کمخواب، حسیناؤں اور حاشیہ نشینوں کے جھرمٹ میں زندگی گزارنے میں بھی لذت اور لطف ہے، مگر گھوڑے کی پشت پر پہاڑوں، صحراؤں، جنگلوں اور دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے اور زخم کھانے کے بعد فتح میں جو سرور اور اسلام کو سربلند کرنے میں جو لذت ہے عیش پرستی کی لذت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں۔- 3 اقتدار حاصل ہونے کے بعد ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے خلفاء کا مشن بھی مسلسل جہاد کے ذریعے سے مشرق سے مغرب تک اسلام پھیلانا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس وقت تک تمام دنیا کے لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا جب تک وہ اسلام قبول نہ کریں، یا جزیہ دے کر محکوم و مقہور نہ بن جائیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے تمام مشارق و مغارب دکھا دیے اور بتادیا کہ آپ کی امت کی سلطنت یہاں تک پہنچے گی۔ [ ابن ماجہ، الفتن، باب ما یکون من الفتن : ٣٩٥٢ ] اور فی الواقع چند ہی سال میں مشرق کے آخر تک قتیبہ بن مسلم (رض) پہنچ چکے تھے اور مغرب کے آخر تک عقبہ بن نافع (رض) ۔ جنوب و شمال کی طرف جو علاقے رہ گئے ان کے متعلق بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ یَبْقٰی عَلٰی ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الْإِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِیْلٍ إِمَّا یُعِزُّھُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَجْعَلُھُمْ مِنْ أَھْلِھَا أَوْ یُذِلُّھُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَھَا ) [ مسند أحمد : ٦؍٤، ح : ٢٣٨٧٦، عن المقداد و عائشۃ ]” زمین کی پشت پر اینٹوں یا بالوں کا بنا ہوا کوئی گھر (یا خیمہ) باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمۂ اسلام کو داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت بخش کر اور ذلیل کو ذلت دے کر، یا تو انھیں عزت دے گا اور انھیں یہ کلمہ پڑھنے والوں میں داخل کر دے گا، یا انھیں ذلیل کرے گا اور وہ اس کے محکوم بن جائیں گے۔ “ اب دیکھیے وہ محمدی ذوالقرنین کب اٹھتا ہے جو یہ کارنامہ سرانجام دے گا ؟ بہرحال ہم سب کو کسی ذوالقرنین کا انتظار کرنے کے بجائے جتنا ہو سکے خود ہی اسلام کی سربلندی اور کفر کو مٹانے کے لیے جہاد کی ضروریات مہیا کرنے اور دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے مسلسل جہاد میں مصروف رہنا لازم ہے، کیا خبر اللہ کس کو یہ سعادت بخش دے یہی ذوالقرنین کا مشن اور عمل تھا اور یہی ہمارے پیارے پیغمبر اور آپ کے خلفاء کا مشن اور عمل تھا اور یہی کام ہمارے ذمے ہے۔ - 3 جیسا کہ شروع سورت کی تفسیر میں گزرا کہ اس سورت کی ابتدائی یا آخری آیات کا حفظ کرنا دجال کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے، جس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا بَیْنَ خَلْقِ آدَمَ اِلٰی قِیَام السَّاعَۃِ خَلْقٌ أَکْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ ) [ مسلم، الفتن، باب في بقیۃ من أحادیث الدجال : ٢٩٤٦، عن عمران بن حصین (رض) ] ” آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے لے کر قیامت قائم ہونے تک کوئی مخلوق دجال سے بڑی نہیں ہوئی۔ “ پھر جو شخص اس سے محفوظ رہا وہ دوسرے فتنوں سے تو بالاولیٰ محفوظ رہے گا۔ اصحاب کہف اور ذوالقرنین دونوں کے قصوں کا خلاصہ یہ ہے کہ فتنے میں مبتلا کرنے والے کفار کے ساتھ مومن گزارا نہیں کرسکتا۔ اگر اس کے پاس اقتدار نہیں تو وہ ایمان بچانے کے لیے غاروں اور پہاڑوں میں چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی جان و ایمان دونوں کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر صاحب اقتدار ہے تو پوری عمر کفر اور کفار کی کمر توڑنے میں مصروف رہتا ہے، تاکہ وہ غالب آکر اس کے ایمان کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف اس سورت یا اس کی چند آیات کا پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے تقاضوں پر عمل بھی فتنوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ سے دوستی گانٹھ لے، اپنی ایمانی غیرت کو تھپکیاں دے کر سلا دے، کفر و شرک پر زبان بند رکھ کر کافر معاشرے میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا رہے اور ہر جمعہ کو سورة کہف کی تلاوت کرلیا کرے، بلکہ حفظ آیات میں ان پر عمل بھی شامل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة کہف (١٠٢ تا ١٠٤) ۔
كَذٰلِكَ ٠ۭ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْہِ خُبْرًا ٩١- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - لدی - لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔- خبر - الخُبْرُ : العلم بالأشياء المعلومة من جهة الخَبَر، وخَبَرْتُهُ خُبْراً وخِبْرَة، وأَخْبَرْتُ : أعلمت بما حصل لي من الخبر، وقیل الخِبْرَة المعرفة ببواطن الأمر، والخَبَار والخَبْرَاء : الأرض اللّيِّنة «2» ، وقد يقال ذلک لما فيها من الشّجر، والمخابرة : مزارعة الخبار بشیء معلوم، والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، وقیل أي : عالم ببواطن أمورکم، وقیل : خبیر بمعنی مخبر، کقوله : فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة 105] ، وقال تعالی: وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] ، قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة 94] ، أي : من أحوالکم التي نخبر عنها .- ( خ ب ر ) الخبر - ۔ جو باتیں بذریعہ خبر کے معلوم ہوسکیں ان کے جاننے کا نام ، ، خبر ، ، ہے کہا جاتا ہے ۔ خبرتہ خبرۃ واخبرت ۔ جو خبر مجھے حاصل ہوئی تھی اس کی میں نے اطلاع دی ۔ بعض نے کہا ہے کہ خبرۃ کا لفظ کسی معاملہ کی باطنی حقیقت کو جاننے پر بولا جاتا ہے ۔ الخبارو الخبرآء نرم زمین ۔ اور کبھی درختوں والی زمین پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ المخابرۃ ۔ بٹائی پر کاشت کرنا ۔ اسی سے کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے :۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تمہارے باطن امور سے واقف ہے ۔ اور بعض نے خبیر بمعنی مخیر کہا ہے ۔ جیسا کہ آیت ۔ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة 105] پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائیگا سے مفہوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور تمہارے حالات جانچ لیں ۔ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة 94] خدا نے ہم کو تمہارے سب حالات بتادئے ہیں ۔ یعنی تمہارے احوال سے ہمیں آگاہ کردیا گیا ہے ۔
آیت ٩١ (كَذٰلِكَ )- پھر یہاں بھی ویسا ہی معاملہ ہوا جیسا کہ پہلی مہم کے سلسلے میں ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل فتح عطا فرمائی اور علاقے میں آباد قبائل کے معاملات میں نرمی یا سختی کرنے کا پورا اختیار دیا۔ یہاں بھی ذوالقرنین نے ظالم اور شریر لوگوں کے ساتھ سختی جبکہ نیک اور شریف لوگوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ - (وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا)- جو کچھ ذوالقرنین کے پاس تھا اور جن حالات سے اس کو سابقہ پیش آیا ہم اس سے پوری طرح باخبر تھے۔