Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 یعنی ایسی جگہ پہنچ گیا جو مشرقی جانب کی آخری آبادی تھی، اس کو مطلع الشمس کہا گیا ہے۔ جہاں اس نے ایسی قوم دیکھی جو مکانوں میں رہنے کے بجائے میدانوں اور صحراؤں میں بسیرا کیے ہوئے، لباس سے بھی آزاد تھی۔ یہ مطلب ہے کہ ان کے اور سورج کے درمیان کوئی پردہ اور اوٹ نہیں تھی۔ سورج ان کے ننگے جسموں پر طلوع ہوتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٤] دوسرا سفر مشرق کی طرف تھا وہ علاقے فتح کرتا ہوا بالآخر وہاں تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا ختم ہوجاتی تھی اور اسے ایسی جانگلی غیرمہذب قوم سے واسطہ پڑا جو اپنا گھر بنانا بھی نہ جانتے تھے۔ سورج کی گرمی یا بارش سے بچنے کے لیے ان کے پاس نہ خیمے کے ہلکے پھلکے گھر تھے اور نہ مکان تھے اور وہ پہاڑوں کی غاروں اور کھو ہوں میں اپنا گزر اوقات کیا کرتے تھے یا پھر وہ آفتاب کی تپش اور بارش وغیرہ کو برداشت کرنے کے عادی بن چکے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَہَا تَطْلُعُ عَلٰي قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّہُمْ مِّنْ دُوْنِہَا سِتْرًا۝ ٩٠ۙ- طلع - طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ- [ طه 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] ، فَاطَّلَعَ- [ الصافات 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ.- ( ط ل ع ) طلع - ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ستر - السَّتْرُ : تغطية الشّيء، والسِّتْرُ والسُّتْرَةُ : ما يستتر به، قال : لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِها سِتْراً [ الكهف 90] ، حِجاباً مَسْتُوراً [ الإسراء 45] ، والِاسْتِتَارُ : الاختفاء، قال :- وَما كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ [ فصلت 22] .- ( س ت ر ) استر - ( مصدر ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو چھپا دینے کے ہیں اور ستر وستر ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کوئی چیز چھپائی جائے قرآن میں ہے : ۔ لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِها سِتْراً [ الكهف 90] جن کے لئے ہم نے اس ( سورج ) سے بچنے کیلئے کوئی اوٹ نہیں بنائی ۔ حِجاباً مَسْتُوراً [ الإسراء 45] ایک گاڑھا پڑدہ ( حائل کردیتے ہیں ) الاستبار اس کے معنی چھپا جانے کے ہیں قرآن میں ہے وما كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ [ فصلت 22] اور اس لئے نہ چھپتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٠ (حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ )- اس مہم کے سلسلے میں تاریخی طور پر مکران کے علاقے تک ذوالقرنین کی پیش قدمی ثابت ہے۔ (واللہ اعلم ) ممکن ہے ساحل مکران پر کھڑے ہو کر بھی انہوں نے محسوس کیا ہو کہ وہ اس سمت میں بھی زمین کی آخری حد تک پہنچ گئے ہیں۔ - (وَجَدَهَا تَـطْلُعُ عَلٰي قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًا )- اس زمانے میں یہ علاقہ کہلاتا تھا۔ یہاں ایسے وحشی قبائل آباد تھے جو زمین پر صرف دیواریں کھڑی کر کے اپنے گھر بناتے تھے اور اس زمانے تک ان کے تمدن میں گھروں پر چھتیں ڈالنے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :66 یعنی وہ ممالک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانب ایسے علاقے تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا کی سرحد ختم ہو گئی تھی اور آگے ایسی وحشی قوموں کا علاقہ تھا جو عمارتیں بنانا تو درکنار خیمے بنانا تک نہ جانتی تھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

46: یہ ذوالقرنین کے دوسرے سفر کا ذکر ہے، اس سفر میں وہ دنیا کی انتہائی مشرقی آبادی تک جا پہنچے تھے، یہاں کچھ غیر متمدن لوگ رہتے تھے، ان میں مکان بنانے اور چھتیں ڈالنے کا دستور نہیں تھا، سب کھلے میدان میں رہتے تھے، اس لئے دھوپ سے بچاؤ کے لئے کوئی اوٹ نہیں تھی، بلکہ سورج کی کرنیں ان پر براہ راست پڑتی تھیں۔