دعا اور قبولیت ۔ اس سورت کے شروع میں جو پانچ حروف ہیں انہیں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان کا تفصیلی بیان ہم سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر چکے ہیں ۔ اللہ کے بندے حضرت زکریا نبی علیہ السلام پر جو لطف الہٰی نازل ہوا اس کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ ایک قرأت ہے ۔ یہ لفظ مد سے بھی ہے اور قصر سے بھی ۔ دونوں قرأتیں مشہور ہیں ۔ آپ بنو اسرائیل کے زبر دست رسول تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ بڑھئی کا پیشہ کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے ۔ رب سے دعا کرتے ہیں لیکن اس وجہ سے کہ لوگوں کے نزدیک یہ انوکھی دعا تھی کوئی سنتا تو خیال کرتا کہ لو بڑھاپے میں اولاد کی چاہت ہوئی ہے ۔ اور یہ وجہ بھی تھی کہ پوشیدہ دعا اللہ کو زیادہ پیاری ہوتی ہے اور قبولیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ متقی دل کو بخوبی جانتا ہے اور آہستگی کی آواز کو پوری طرح سنتا ہے ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو شخص اپنے والوں کی پوری نیند کے وقت اٹھے اور پوشیدگی سے اللہ کو پکارے کہ اے میرے پروردگار اے میرے پالنہار اے میرے رب اللہ تعالیٰ اسی وقت جواب دیتا ہے کہ لبیک میں موجود ہوں میں تیرے پاس ہوں ۔ دعا میں کہتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ اسی وقت جواب دیتا ہے کہ لبیک میں موجود ہوں میں تیرے پاس ہوں ۔ دعا میں کہتے ہیں کہ اے اللہ میرے قوی کمزور ہوگئے ہیں میری ہڈیاں کھوکھلی ہوچکی ہیں میرے سر کے بالوں کی سیاہی اب تو سفیدی سے بدل گئی ہے یعنی ظاہری اور پوشیدگی کی تمام طاقتیں زائل ہوگئی ہیں اندرونی اور بیرونی ضعف نے گھیر لیا ہے ۔ میں تیرے دروازے سے کبھی خالی ہاتھ نہیں گیا تجھ کریم سے جو مانگا تو نے عطا فرمایا ۔ موالی کو کسائی نے موالی پڑھا ہے ۔ مراد اس سے عصبہ ہیں ۔ امیرا لمومنین حضرت عثمان بن عفان سے خفت کو خفت پڑھنا مروی ہے یعنی میرے بعد میرے والے بہت کم ہیں ۔ پہلی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ چونکہ میری اولاد نہیں اور جو میرے رشتے دار ہیں ان سے خوف ہے کہ مبادہ یہ کہیں میرے بعد کوئی برا تصرف نہ کردیں تو تو مجھے اولاد عنایت فرماجو میرے بعد میری نبوت سنبھالے ۔ یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ آپ کو اپنے مال املاک کے ادھر ادھر ہو جانے کا خوف تھا ۔ انبیاء علیہم السلام اس سے بہت پاک ہیں ۔ ان کا مرتبہ اس سے بہت سوا ہے کہ وہ اس لئے اولاد مانگیں کہ اگر اولاد نہ ہوئی تو میرا ورثہ دور کے رشتے داروں میں چلا جائے گا ۔ دوسرے بہ ظاہر یہ بھی ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام جو عمر بھر اپنی ہڈیاں پیل کر بڑھئی کا کام کر کے اپنا پیٹ اپنے ہاتھ کے کام سے پالتے رہے ان کے پاس ایسی کون سی بڑی رقم تھی کہ جس کے ورثے کے لئے اس قدر پس وپیش ہوتا کہ کہیں یہ دولت ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔ انبیاء علہم السلام تو یوں بھی ساری دنیا سے زیادہ مال سے بےرغبت اور دنیا کے زاہد ہوتے ہیں ۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ بخاری ومسلم میں کئی سندوں سے حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہمارا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں سب صدقہ ہے ۔ ترمذی میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ہم اس سے مطلب ورثہ نبوت ہے نہ کہ مالی ورثہ ۔ اسی لئے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ ( وورث سلیمان داود ) سلیمان داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے ۔ یعنی نبوت کے وراث ہوئے ۔ نہ کہ مال کے ورنہ مال میں اور اولاد بھی شریک ہوتی ہے ۔ تخصیص نہیں ہوتی ۔ چوتھی وجہ یہ بھی ہے اور یہ بھی معقول وجہ ہے کہ اولاد کا وارث ہونا تو عام ہے ، سب میں ہے تمام مذہبوں میں ہے پھر کوئی ضرورت نہ تھی کہ حضرت زکریا اپنی دعا میں یہ وجہ بیان فرماتے اس سے صاف ثابت ہے کہ وہ ورثہ کوئی خالص ورثہ تھا اور وہ نبوت کا وارث بننا تھا ۔ پس ان تمام وجوہ سے ثابت ہے کہ اس سے مراد ورثہ نبوت ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ہم جماعت انبیاء کا ورثہ نہیں بٹتا ہم جو چھوڑ جائیں صدقہ ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں مراد ورثہ علم ہے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام اولاد یعقوب علیہ السلام میں تھے ۔ ابو صالح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ وہ بھی اپنے بڑوں کی طرح نبی ہے ۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نبوت اور علم کا وارث بنے ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے میری اور آل یعقوب علیہ السلام کی نبوت کا وہ وراث ہو ۔ زید بن اسلم بھی یہی فرماتے ہیں ابو صالح کا قول یہ بھی ہے کہ میرے مال کا اور خاندان حضرت یعقوب علیہ السلام کی نبوت کا وہ وارث ہو ۔ عبد الرزاق میں حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ زکریا علیہ السلام پر رحم کرے بھلا انہیں وراثت مال سے کیا غرض تھی ؟ اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم کرے وہ کسی مضبوط قلعے کی تمنا کرنے لگے ۔ ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی زکریا پر اللہ کا رحم ہو کہنے لگے اے اللہ مجھے اپنے پاس سے والی عطا فرما جو میرا اور آل یقوب کا وارث بنے لیکن یہ سب حدیثیں مرسل ہیں جو صحیح احادیث کامعارضہ نہیں کر سکتیں واللہ اعلم ۔ اور اے اللہ اسے اپنا پسندیدہ غلام بنالے اور ایسا دین دار دیانتدار بنا کہ تیری محبت کے علاوہ تمام مخلوق بھی اس سے محبت کرے اس کا دین اور اخلاق ہر ایک پسندیدگی اور پیار کی نظر سے دیکھے ۔
[١] اس سورة کا نام مریم اس لئے ہے کہ اس میں سیدہ مریم کے حالات کا تفصیلی ذکر آیا ہے اور یہی ایک خاتون ہیں جن کا قرآن میں نام مذکور ہے اور کم از کم تیس مقامات پر ان کا نام آیا ہے۔ - [٢] ہجرت حبشہ :۔ یہ سورت مکہ میں ہجرت حبشہ یعنی ٥ نبوی سے پیشتر نازل ہوئی تھی۔ قریش کے ناروا مظالم اور سختیوں میں مسلمان پس رہے تھے اور کوئی غلام تھا یا آزاد، کمزور تھا یا قوی سب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ بالآخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ وہاں کا عیسائی بادشاہ جسے مسلمان نجاشی کہتے تھے۔ اپنے عدل کی وجہ سے مشہور تھا اور حبشہ کی طرف ہجرت کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ وہاں تبلیغ کے لئے میدان کھلا تھا۔ چناچہ پہلی دفعہ سیدنا عثمان (رض) کی سر کردگی میں جو وفد حبشہ کو روانہ ہوا اس میں گیارہ مرد اور چار عورتیں شامل تھیں۔ ان عورتوں میں سیدنا عثمان (رض) کی بیوی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی رقیہ بھی شامل تھیں۔ اسی موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سیدنا ابراہیم کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے نکلا رفتہ رفتہ ان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ چند ہی ماہ میں ٨٣ مرد اور ١١ عورتیں حبشہ کو منتقل ہوگئے جن میں سات غیر قریشی مسلمان بھی تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ میں صرف ٤٠ آدمی رہ گئے۔ اس صورت حال نے کفار مکہ کو سخت بےچین کردیا۔ کیونکہ ہجرت کرنے والے تقریبا ً سب ہی کسی نہ کسی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ کسی کا بیٹا، کسی کا داماد، کسی کی بیٹی، کسی کی بہن وغیرہ تھے۔ اس صدمہ سے متاثر ہو کر کچھ لوگ تو مسلمان ہوئے اور زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے مسلمانوں پر سختیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ ایک تجویز طے ہوئی کہ جیسے بھی بن پڑے مہاجرین حبشہ کو یہاں واپس مکہ لایا جائے۔- ہجرت حبشہ اور قریشی وفد کی ناکامی :۔ اس غرض کے لئے دو ماہرین سفارت عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابوجہل کا ماں جایا بھائی) اور عمرو بن عاص (فاتح مصر، جو ابھی تک اسلام نہ لائے تھے) کا انتخاب کیا گیا۔ یہ دونوں بادشاہ اور پادریوں کے لئے تحفے تحائف لے کر حبشہ پہنچے۔ پہلے پادریوں سے ملے اور انھیں تحفے تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ جب ہم بادشاہ کے سامنے اپنی عرضداشت پیش کریں تو وہ ان کی ہاں میں ہاں ملا دیں۔ چناچہ دوسرے دن اس وفد نے بادشاہ کے سامنے حاضر ہو کر نذرانے پیش کرنے کے بعد عرض کی کہ ہمارے چند مجرموں نے مکہ سے بھاگ کر آپ کے ہاں پناہ لی ہے۔ وہ ہمیں واپس کردیئے جائیں۔ ساتھ ہی رشوت خور درباریوں اور پادریوں نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ مگر نجاشی انصاف پسند انسان تھا۔ ان کی باتوں میں نہ آیا اور کہہ دیا کہ جب تک میں ان لوگوں کی بات نہ سن لوں ان کی واپسی کا کیسے حکم دے سکتا ہوں۔ چناچہ مسلمانوں کو بلایا گیا اور ان سے صورت حال دریافت کی گئی۔ مسلمانوں نے سیدنا جعفر طیار کو اپنا نمائندہ یا ترجمان مقرر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم فلاں فلاں قسم کی گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان نبی مبعوث کیا جس پر ہم ایمان لے آئے تو یہ لوگ ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑگئے۔ انہی لوگوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہم نے آپ کے ملک میں پناہ لی ہے۔ نجاشی کہنے لگا : تمہارے نبی پر جو کلام نازل ہوا ہے۔ اس کا کچھ حصہ تو سناؤ چناچہ سیدنا جعفر طیار نے اسی سورة مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں جن میں سیدنا زکریا اور سیدہ مریم کا ذکر ہے۔ یہ کلام سن کر نجاشی پر رقت طاری ہوگئی۔ سنتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا حتیٰ کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی اور جب سیدنا جعفر طیار نے تلاوت ختم کی تو کہنے لگا : یہ کلام اور وہ کلام جو سیدنا عیسیٰ ( علیہ السلام) پر نازل ہوا دونوں ایک ہی منبع سے پھوٹے ہیں۔ واللہ میں ان لوگوں کو تمہارے حوالہ نہ کروں گا - نجاشی کے انکار پر قریشی وفد سخت مایوس ہوگیا اور موجودہ صورتحال پر غور کرنے کے لئے سر جوڑ بیٹھے۔ عمرو بن عاص یکدم پکار اٹھا کہ بادشاہ سے دوبارہ ملاقات کی جائے میں کل ایسی بات پیش کروں گا جس سے یقینا ً ہم کامیاب ہوں گے۔ چناچہ دوسرے دن عمرو بن عاص نے رسائی حاصل کرکے بادشاہ سے کہا : حضور آپ کو یہ بھی علم ہے کہ یہ لوگ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہیں ؟- بادشاہ نے اس سوال کے جواب کے لئے دوبارہ مسلمانوں کو بلا بھیجا۔ انھیں بھی اس بات کی خبر ہوگئی تھی۔ بہرحال انہوں نے یہ طے کرلیا کہ حالات جیسے بھی پیش آئیں ہمیں سچی بات ہی کہنا چاہئے اور جب نجاشی نے یہ سوال کیا تو سیدنا جعفر طیار کہنے لگے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے، اس کے رسول، روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے یہ جواب سن کر نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا : واللہ جو کچھ تم نے کہا : عیسیٰ ( علیہ السلام) اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں نجاشی کے اس تبصرہ پر درباری لوگ برہم ہوئے مگر نجاشی نے اس کی کچھ پروا نہ کی۔ قریشی سفارت مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ نجاشی نے ان کے تحائف انھیں واپس کردیئے اور مسلمانوں کو امن و اطمینان سے اس ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔
كۗهٰيٰعۗصۗاس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر - کھیعص (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (جو آئندہ قصہ آتا ہے) تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کے مہربانی فرمانے کا اپنے (مقبول) بندہ (حضرت) زکریا (علیہ السلام کے حال) پر جبکہ انہوں نے اپنے پروردگار کو پوشیدہ طور پر پکارا (جس میں یہ) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میری ہڈیاں (بوجہ پیری کے) کمزور ہوگئیں اور (میرے) سر میں بالوں کی سفیدی پھیل پڑی (یعنی تمام بال سفید ہوگئے اور اس حالت کا مقتضاء یہ ہے کہ میں اس حالت میں اولاد کی درخواست نہ کروں مگر چونکہ آپ کی قدرت و رحمت بڑی کامل ہے) اور (میں اس قدرت و رحمت کے ظہور کا خوگر ہمیشہ رہا ہوں چناچہ اس کے قبل کبھی) آپ سے (کوئی چیز) مانگنے میں اے میرے رب ناکام نہیں رہا ہوں (اس بنا پر بعید سے بعید مقصود بھی طلب کرنا مضائقہ نہیں) اور (اس طلب کا مرجح یہ امر خاص ہوگیا ہے کہ) میں اپنے (مرنے کے) بعد (اپنے) رشتہ داروں (کی طرف) سے (یہ) اندیشہ رکھتا ہوں (کہ میری مرضی کے موافق شریعت اور دین کی خدمت نہ بجالاویں گے۔ یہ امر مرجح ہے طلب اولاد کے لئے جس میں خاص خاص اوصاف پائے جاویں جن کو توقع خدمت دین میں داخل ہو) اور (چونکہ میری پیرانہ سالی کے ساتھ) میری بیوی (بھی) بانجھ ہے (جس کے کبھی باوجود صحت مزاج کے اولاد ہی نہیں ہوئی اس لئے اسباب عادیہ اولاد ہونے کے بھی مفقود ہیں سو (اس صورت میں) آپ مجھ کو خاص اپنے پاس سے (یعنی بلا توسط اسباب عادیہ کے) ایک ایسا وارث (یعنی بیٹا) دے دیجئے کہ وہ (میرے علوم خاصہ میں) میرا وارث بنے اور (میرے جد) یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان (کے علوم متوارثہ میں ان) کا وارث بنے (یعنی علوم سابقہ و لاحقہ اس کو حاصل ہوں) اور (بوجہ باعمل ہونے کے) اس کو اے میرے رب (اپنا) پسندیدہ (ومقبول) بنائیے (یعنی عالم بھی ہو اور عامل بھی ہو۔ حق تعالیٰ کا بواسطہ ملائکہ کے ارشاد ہوا کہ) اے زکریا ہم تم کو ایک فرزند کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا کہ اس کے قبل (خاص اوصاف میں) ہم نے کسی کو اس کا ہم صفت نہ بنایا ہوگا (یعنی جس علم و عمل کی تم دعا کرتے ہو وہ تو اس فرزند کو ضرور ہی عطا کریں گے اور مزید برآں کچھ اوصاف خاصہ بھی عنایت کئے جاویں گے مثلاً خشیت الٰہی سے خاص درجہ کی رقت قلب وغیرہ۔ چونکہ اس اجابت دعا میں کوئی خاص کیفیت حصول ولد کی بتلائی نہ گئی تھی اس لئے اس کے استفار کیلئے) زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے رب میرے اولاد کس طرح پر ہوگی حالانکہ میری بی بی بانجھ ہے اور (ادھر) میں پڑھاپے کے انتہائی درجہ کو پہنچ چکا ہوں (پس معلوم نہیں کہ ہم جوان ہوں گے یا مجھ کو دوسرا نکاح کرنا ہوگا یا بحالت موجودہ اولاد ہوگی) ارشاد ہوا کہ حالت (موجودہ) یوں ہی رہے گی (اور پھر اولاد ہوگی اے زکریا) تمہارے رب کا قول ہے کہ یہ (امر) مجھ کو آسان ہے اور (یہ کیا اس سے بڑا کام کرچکا ہوں مثلاً ) میں نے تم کو (ہی) پیدا کیا ہے حالانکہ (پیدائش کے قبل) تم کچھ بھی نہ تھے (اسی طرح خود اسباب عادیہ بھی کوئی چیز نہ تھے جب معدوم کو موجود کرنا آسان ہے تو ایک موجود سے دوسرا موجود کردینا کیا مشکل ہے یہ سب ارشاد تقویت رجا کے لئے تھا نہ کہ دفع شبہ کے لئے، کیونکہ زکریا (علیہ السلام) کو کوئی شبہ نہ تھا جب) زکریا (علیہ السلام کو قوی امید ہوگئی تو انہوں) نے عرض کیا کہ اے میرے رب (وعدہ پر تو اطمینان ہوگیا اب اس وعدہ کے قریب وقوع یعنی حمل کی بھی) کوئی علامت میرے لئے مقرر فرمادیجئے (تاکہ زیادہ شکر کروں اور خود وقوع تو محسوسات ظاہرہ ہی میں سے ہے) ارشاد ہوا کہ تمہاری (وہ) علامت یہ ہے کہ تم تین رات (اور تین دن تک) آدمیوں سے بات (چیت) نہ کرسکو گے حالانکہ تندرست ہوگے (کوئی بیماری وغیرہ نہ ہوگی اور اسی وجہ سے ذکر اللہ کے ساتھ تکلم پر قدرت رہے گی چناچہ باذن اللہ تعالیٰ زکریا (علیہ السلام) کی بیوی حاملہ ہوئیں اور حسب انبار الٰہی زکریا (علیہ السلام) کی زبان پستہ ہوگئی) پس حجرے میں سے اپنی قوم کے پاس برآمد ہوئے اور ان کو ارشارہ سے فرمایا (کیونکہ زبان سے تو بول نہ سکتے تھے) کہ تم لوگ صبح اور شام خدا کی پاکی بیان کیا کرو۔ (یہ تسبیح اور امر بالتسبیح یا تو حسب معمول تھا ہمیشہ تذکیرا زبان سے کہتے تھے آج اشارہ سے کہا یا اس نعمت جدیدہ کے شکر میں خود بھی تسبیح کی کثرت فرمائی اور اوروں کو بھی اسی طور پر امر فرمایا غرض پھر یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور سن شعور کو پہنچے تو ان کو حکم ہوا کہ) اے یحییٰ کتاب کو (یعنی توریت کو کہ اس وقت وہی کتاب شریعت تھی اور انجیل کا نزول بعد میں ہوا) مضبوط ہو کرلو (یعنی خاص کوشش کی ساتھ عمل کرو) اور ہم نے ان کو (انکے) لڑکپن ہی میں (دین کی) سمجھ اور خاص اپنے پاس سے رقت قلب (کی صفت) اور پاکیزگی (اخلاق کی) عطا فرمائی تھی (حکم میں علم کی طرف اور حنان اور زکوٰة میں اخلاق کی طرف اشارہ ہوگیا) اور (آگے اعمال ظاہرہ کیطرف اشارہ فرمایا کہ) وہ بڑے پرہیزگار اور اپنے والدین کے خدمت گزار تھے (اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی طرف اشارہ ہوگیا) اور وہ (خلق کے ساتھ) سرکشی کرنے والے (یا حق تعالیٰ کی) نافرمانی کرنے والے نہ تھے اور (عنداللہ ایسے وجیہ اور مکرم تھے کہ انکے حق میں منجانب اللہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ) ان کو (اللہ تعالیٰ کا) سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن کہ وہ انتقال کریں گے اور جس دن (قیامت میں) زندہ ہو کر اٹھائے جاویں گے۔- معارف ومسائل - سورة کہف کے بعد سورة مریم شاید اس مناسبت سے رکھی گئی جیسے سورة کہف بہت سے واقعات عجیبہ پر مشتمل تھی اسی طرح سورة مریم بھی ایسے واقعات غریبہ پر مشتمل ہے (روح المعانی) کھیعص حروف مقطعہ اور متشابہات میں سے ہے جسکا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے بندوں کے لئے اس کی تفتیش بھی اچھی نہیں۔
كۗہٰيٰعۗصۗ ١ۣۚ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَہٗ زَكَرِيَّا ٢ۖ- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔
(١) کھیعص۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد وثنا فرمائی ہے یعنی وہ کافی ہے ہدایت عطا فرمانے والا ہے اور عالم ہے، صادق ہے یا یہ ہے کاف کا مطلب وہ اپنی مخلوق کو کافی ہے اور ھاء سے مراد ہدایت فرمانے والا ہے اور یا سے مراد ہے کہ اس کا تسلط اور غلبہ تمام مخلوق پر ہے اور عین سے مراد کہ وہ تمام مخلوق کے احوال جاننے والا ہے اور صاد یعنی کہ اپنے وعدے میں سچا ہے یا یہ کہ کاف سے کریم اور لفظ ھا سے ھاد یا حلیم اور عین سے علیم اور صاد سے صادق کنایہ ہے یا یہ کہ صدوق سے کنایہ ہے یعنی کہ بہت ہی زیادہ سچا اور یا یہ کہ ایک قسم ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے کھائی ہے۔
آیت ١ (كۗهٰيٰعۗصۗ)- قرآن مجید کی یہ واحد سورت ہے جس کے آغاز میں اکٹھے پانچ حروف مقطعات ہیں۔ اگرچہ سورة الشوریٰ کے شروع میں بھی پانچ حروف مقطعات ہیں لیکن وہاں یہ دو آیات میں ہیں۔ دو حروف (حٰمٓ ) پہلی آیت میں جبکہ تین حروف (عٓسٓقٓ) دوسری آیت میں ہیں۔ بہر حال سورة مریم کو اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس کے آغاز میں اکٹھے پانچ حروف مقطعات آئے ہیں۔
1: جیسا کہ سورۂ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا، مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروفِ مقطعات آئے ہیں، اُن کاٹھیک ٹھیک مطلب اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔