2۔ 1 حضرت زکر یا علیہ السلام، انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ یہ بڑھئی تھے اور یہی پیشہ ان کا ذریعہ آمدنی تھا (صحیح مسلم)
[٣] سیدنا زکریا اور یحییٰ (علیہما السلام) نیز سیدہ مریم اور عیسیٰ (علیہما السلام) کے واقعات پہلے سورة آل عمران کے رکوع نمبر ٣ اور ٤ میں گزر چکے ہیں۔ ان کے حواشی بھی مدنظر رکھے جائیں۔- سیدنا یحییٰ اور سیدنا عیسیٰ (علیہما السلام) دونوں کی پیدائش خرق عادت کے طور پر ہوئی تھی۔ مگر چونکہ سیدنا یحییٰ کی پیدائش نسبتا ً کم خرق عادت ہے۔ اس لئے اسے بطور تمہید پہلے ذکر کیا گیا ہے۔
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِيَّا : یہاں ” ہٰذَا “ محذوف ہے، یعنی یہ تیرے رب کی اپنے بندے زکریا پر رحمت کا ذکر ہے۔ رحمت سے مراد یہاں زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول کرنا اور انھیں سخت بڑھاپے اور بیوی بانجھ ہونے کے باوجود یحییٰ (علیہ السلام) جیسا عظیم مرتبے والا بیٹا عطا فرمانا ہے۔- ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَانَ زَکَرِیَّاءُ نَجَّارًا ) [ مسلم، الفضائل، باب من فضائل زکریا۔ : ٢٣٧٩ ] ” زکریا (علیہ السلام) نجار (ترکھان) تھے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ وہ داؤد (علیہ السلام) کی طرح اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ أَنْ یَّأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ وَ إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ ) [ بخاري، البیوع، باب کسب الرجل و عملہ بیدہ : ٢٠٧٢، عن المقدام (رض) ]” کسی شخص نے کبھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر نہیں کھایا اور اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ “
(٢۔ ٣) یہ تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کے مہربانی فرمانے کا اپنے بندہ زکریا (علیہ السلام) پر کہ ان کو لڑکا عطا فرمایا جب کہ زکریا (علیہ السلام) نے محراب میں اپنی قوم سے پوشیدہ طور پر اپنے پروردگار کو پکارا۔
آیت ٢ (ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا) ” - یہاں ذکر تو حضرت عیسیٰ کا کرنا مقصود ہے مگر آپ کے ذکر سے پہلے حضرت یحییٰ کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ حضرت یحییٰ کی ولادت بھی تو ایک بہت بڑا معجزہ تھی۔ حضرت زکریا بہت بوڑھے ہوچکے تھے اور آپ کی اہلیہ بھی نہ صرف بوڑھی تھیں بلکہ عمر بھر بانجھ بھی رہی تھیں۔ ان حالات میں ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش کوئی معمول کا واقعہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کو یہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :1 تقابل کے لیئے سورہ آل عمران رکوع 4 پیش نظر رہے جس میں یہ قصہ دوسرے الفاظ میں بیان ہو چکا ہے ۔ تفہیم القران ج 1 ۔ ص 246 ۔ 250 ) سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :2 یہ حضرت زکریا جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے حضرت ہارون کے خاندان سے تھے ۔ ان کی پوزیشن ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کے نظام کہانت ( ) کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے فلسطین پر قابض ہونے کے بعد بنی اسرائیل نے ملک کا انتظام اس طرح کیا تھا کہ حضرت یعقوب کی اولاد کے 12قبیلوں میں تو سارا ملک تقسیم کر دیا گیا ، اور تیرھواں قبیلہ ( یعنی لاوی بن یعقوب کا گھرانا ) مذہبی خدمات کے لیئے مخصوص رہا پھر بنی لاوی میں سے بھی اصل وہ خاندان جو ، مقدس میں خداوند کے آگے بخور جلا نے کی خدمت اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کا کام کرتا تھا ، حضرت ہارون کا خاندان تھا ۔ باقی دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جا سکتے تھے بلکہ خداوند کے گھر کی خدمت کے وقت صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے ، سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے ، اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔ بنی ہارون کے چوبیس خاندان تھے جو باری باری سے مقدس کی خدمت کے لیئے حاضر ہوتے ۔ انہی خاندانوں میں سے ایک ابیاہ کا خاندان تھا جس کے سردار حضرت زکریا تھے ۔ اپنے خاندان کی باری کے دنوں میں یہی مقدس میں جاتے اور بخور جلا نے کی خدمت انجام دیتے تھے ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب توار یخ اول ۔ باب 23 ، 24 )