Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 خفیہ دعا اس لئے کی کہ ایک تو یہ اللہ کو زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں تضرع وانابت اور خشوع وخضوع زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ انھیں بیوقوف نہ قرار دیں کہ یہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہوچکے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] اس کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ مثلا ً رات کی نماز تہجد میں جب انسان کو کوئی دیکھ نہیں رہا ہوتا اور وہ بڑی دلجمعی اور سکون کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ بڑھاپے اور مایوسی کی عمر میں ایسی بات کی درخواست کی کہ اگر دوسرے لوگ سن لیں تو مذاق اڑائیں۔ اس لئے آہستہ آواز سے دعا کی۔ تیسرے یہ کہ جب سیدہ مریم کے پاس بےموسم میوے دیکھے تو دل ہی دل میں اللہ کو پکارنے لگے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا : اس آیت میں اس جگہ اور وقت کا ذکر نہیں جب ان کے دل میں اس دعا کا داعیہ پیدا ہوا۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (٣٧، ٣٨) ۔- نِدَاۗءً خَفِيًّا : چھپی آواز سے آہستہ آواز بھی مراد ہوسکتی ہے اور لوگوں سے الگ جگہ میں دعا بھی۔ اس کی وجہ بعض اہل علم نے یہ لکھی ہے کہ بڑھاپے میں بیٹا مانگنا لوگوں کی ہنسی کا باعث ہوتا، پھر اگر نہ ملتا تو لوگ مزید ہنستے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ خفیہ دعا ریا کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے افضل ہوتی ہے، چناچہ فرمایا : (اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ) [ الأعراف : ٥٥ ] ” اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو۔ “ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز کو قرار دیا۔ [ مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم : ١١٦٣، عن أبي ہریرہ (رض) ] اور اس شخص کو عرش کا سایہ پانے والے سات خوش نصیبوں میں شمار فرمایا جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہ پڑیں، حدیث کے الفاظ ہیں : ( ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہٗ ) اسی طرح اس شخص کو بھی جس نے اس طرح چھپا کر صدقہ کیا کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہیں کہ دایاں کیا خرچ کر رہا ہے، حدیث کے الفاظ ہیں : ( تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہٗ ) [ بخاري، الزکوٰۃ، باب الصدقۃ بالیمین : ١٤٢٣ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

نِدَاۗءً خَفِيًّا : اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا آہستہ اور خفیہ کرنا افضل ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان خیر الذکر الخفی وخیر الرزق مایکفی، یعنی بہتر ذکر خفی (آہستہ) ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کافی ہوجائے (ضرورت سے نہ گٹھے نہ بڑھے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ نَادٰى رَبَّہٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا۝ ٣- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

آداب دعا - قول باری ہے (اذ نادی ربہ نداء خفیاً ۔ جب کہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا) اللہ تعالیٰ نے چپکے چپکے دعا کرنے پر حضرت زکریا (علیہ السلام) کی تعریف فرمائی۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ چپکے چپکے دعا مانگنا بلند آواز سے دعا مانگنے سے افضل ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (ادعوا ربکم تضرعاً وخفیۃ اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارو) حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ صخیر الذکر الخفی وخیر الرزق مایکفی بہترین ذکر، ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو ضروریات کے لئے کافی ہو) حسن بصری سے مروی ہے کہ ان کی رائے میں امام قنوت کے اندر دعا مانگے اور مقتدی آمین کہیں۔ انہیں آواز بلند کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں تھے۔ آپ نے کچھ لوگوں کو با آواز بلند دعا مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے ان سے فرمایا (انکم لا تدعون اصما ولا غائباً ان الذی تدعونہ اقرب الیکم من حبل الورید۔ تم کسی بہری اور غیر موجو د ذات کو نہیں پکار رہے ہو جس ذات کو تم پکار رہے ہو وہ تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا)- یعنی حضرت زکریا نے دل ہی دل میں اپنے رب سے دعا کی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani