ناممکن کو ممکن بنانے پہ قادر اللہ تعالیٰ ۔ اوپر حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر ہوا تھا اور یہ بیان فرمایا گیا تھا کہ وہ اپنے پورے بڑھاپے تک بے اولاد رہے ان کی بیوی کو کچھ ہوا ہی نہ تھا بلکہ اولاد کی صلاحیت ہی نہ تھی اس پر اللہ نے اس عمر میں ان کے ہاں اپنی قدرت سے اولاد عطا فرمائی حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جو نیک کار اور وفا شعار تھے اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر اپنی قدرت کا نظارہ پیش کرتا ہے ۔ حضرت مریم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ کنواری تھیں ۔ کسی مرد کا ہاتھ تک انہیں نہ لگا تھا اور بےمرد کے اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ سے انہیں اولاد عطا فرمائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا فرزند انہیں دیا جو اللہ کے برگزیدہ پیغمبر اور روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے ۔ پس چونکہ ان دو قصوں میں پوری مناسبت ہے اسی لئے یہاں بھی اور سورۃ آل عمران میں بھی اور سورۃ انبیاء میں بھی ان دونوں کو متصل بیان فرمایا ۔ تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کی بےمثال قدرت اور عظیم الشان سلطنت کا معائنہ کرلیں ۔ حضرت مریم علیہ السلام عمران کی صاحبزادی تھیں حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل میں سے تھیں ۔ بنو اسرا ئیل میں یہ گھرانہ طیب وطاہر تھا ۔ سورہ آل عمران میں آپ کی پیدائش وغیرہ کا مفصل بیان گزر چکا ہے اس زمانے کے دستور کے مطابق آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کو بیت المقدس کی مسجد اقدس کی خدمت کے لئے دنیوی کاموں سے آزاد کر دیا تھا ۔ اللہ نے یہ نذر قبول فرما لی اور حضرت مریم کی نشو ونما بہترین طور پر کی اور آپ اللہ کی عبادت میں ، ریاضت میں اور نیکیوں میں مشغول ہوگئیں ۔ آپ کی عبادت وریاضت زہد وتقوی زبان زد عوام ہوگیا ۔ آپ اپنے خالو حضرت زکریا علیہ السلام کی پرورش وتربیت میں تھیں ۔ جو اس وقت کے بنی اسرائیلی نبی تھے ۔ تمام بنی اسرائیل دینی امور میں انہی کے تابع فرمان تھے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام پر حضرت مریم علیہا السلام کی بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں خصوصا یہ کہ جب کبھی آپ ان کے عبادت خانے میں جاتے نئی قسم کے بےموسم پھل وہاں موجودپاتے دریافت کیا کرتے کہ مریم یہ کہاں سے آئے ؟ جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے وہ ایسا قادر ہے کہ جسے چاہے بےحساب روزیاں عطا فرمائے ۔ اب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کرے جو منجملہ پانچ اولوالعزم پیغمبروں کے ایک ہیں ۔ آپ مسجد قدس کے مشرقی جانب گئیں یا تو بوجہ کپڑے آنے کے یا کسی اور سبب سے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب پر بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہونا اور حج کرنا فرض کیا گیا تھا لیکن چونکہ مریم صدیقہ رضی اللہ عنہا بیت المقدس سے مشرق کی طرف گئی تھیں جیسے فرمان الہٰی ہے اس وجہ سے ان لوگوں نے مشرق رخ نمازیں شروع کر دیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت گاہ کو انہوں نے از خود قبلہ بنا لیا ۔ مروی ہے کہ جس جگہ آپ گئی تھیں ، وہ جگہ یہاں سے دور اور بے آباد تھی ۔ کہتے ہیں کہ وہاں آپ کا کھیت تھا ، جسے پانی پلانے کے لیے آپ گئی تھیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہیں حجرہ بنا لیا تھا کہ لوگوں سے الگ تھلگ عبادت الہٰی میں فراغت کے ساتھ مشغول رہیں ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ۔ جب یہ لوگوں سے دور گئیں اور ان میں اور آپ میں حجاب ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس اپنے امین فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا ، وہ پوری انسانی شکل میں آپ پر ظاہر ہوئے ۔ یہاں روح سے مراد یہی بزرگ فرشتے ہیں ۔ جیسے آیت قرآن ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ١٩٣ۙ ) 26- الشعراء:193 ) میں ہے ۔ ابی بن کعب کہتے ہیں کہ روز ازل میں جب کہ ابن آدم کی تمام روحوں سے اللہ کا اقرار لیا گیا تھا ۔ اسی روح نے آپ سے باتیں کیں اور آپ کے جسم میں حلول کر گئی ۔ لیکن یہ قول علاوہ غریب ہونے کے بالکل ہی منکر ہے بہت ممکن ہے کہ یہ بنی اسرئیلی قول ہو ۔ آپ نے جب اس تنہائی کے مکان میں ایک غیر شخص کو دیکھا تو یہ سمجھ کر کہ کہیں یہ کوئی برا آدمی نہ ہو ، اسے اللہ کا خوف دلایا کہ اگر تو پرہیزگار ہے تو اللہ کا خوف کر ۔ میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ۔ اتنا پتہ تو آپ کو ان کے بشرے سے چل گیا تھا کہ یہ کوئی بھلا انسان ہے ۔ اور یہ جانتی تھیں کہ نیک شخص کو اللہ کا ڈر اور خوف کافی ہے ۔ فرشتے نے آپ کا خوف وہراس ڈر اور گھبراہٹ دور کرنے کے لئے صاف کہہ دیا کہ اور کوئی گمان نہ کرو میں تو اللہ کا بھیجا ہوافرشتہ ہوں ، کہتے ہیں کہ اللہ کا نام سن کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کانپ اٹھے اور اپنی صورت پر آگئے اور کہہ دیا میں اللہ کا قاصد ہوں ۔ اس لئے اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ وہ تجھے ایک پاک نفس فرزند عطا کرنا چاہتا ہے لاحب کی دوسری قرأت لیھب ہے ۔ ابو عمر و بن علا جو ایک مشہور معروف قاری ہیں ۔ ان کی یہی قرأت ہے ۔ دونوں قرأت وں کی توجیہ اور مطلب بالکل صاف ہے اور دونوں میں استلزام بھی ہے ۔ یہ سن کر مریم صدیقہ علیہ السلام کو اور تعجب ہوا کہ سبحان اللہ مجھے بچہ کیسے ہوگا ؟ میرا تو نکاح ہی نہیں ہوا اور برائی کا مجھے تصور تک نہیں ہوا ۔ میرے جسم پر کسی انسان کا کبھی ہاتھ ہی نہیں لگا ۔ میں بدکار نہیں پھر میرے ہاں اولاد کیسی بغیا سے مراد زنا کار ہے جیسے حدیث میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں ہے کہ مہر البغی زانیہ کی خرچی حرام ہے ۔ فرشتے نے آپ کے تعجب کو یہ فرما کر دور کرنا چاہا کہ یہ سب سچ ہے لیکن اللہ اس پر قادر ہے کہ بغیر خاوند کے اور بغیر کسی اور بات کے بھی اولاد دے دے ۔ وہ جو چاہے ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس بچے کو اور اس واقعہ کو اپنے بندوں کی تذکیر کا سبب بنا دے گا ۔ یہ قدرت الہٰی کی ایک نشانی ہوگی تاکہ لوگ جان لیں کہ وہ خالق ہر طرح کی پیدائش پر قادر ہے ۔ آدم علیہ السلام کو بغیر عورت مرد کے پیدا کیا حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا ۔ باقی تمام انسانوں کو مرد و عورت سے پیدا کیا سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کہ وہ بغیر مرد کے صرف عورت سے ہی پیدا ہوئے ۔ پس تقیسم کی یہ چار ہی صورتیں ہو سکتی تھیں جو سب پوری کر دی گئیں اور اپنی کمال قدرت اور عظیم سلطنت کی مثال قائم کر دی ۔ فی الواقع نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار ۔ اور یہ بچہ اللہ کی رحمت بنے گا ، رب کا پیغمبر بنے گا اللہ کی عبادت کی دعوت اس کی مخلوق کو دے گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوش خبری سناتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا جو دنیا اور آخرت میں آبرودار ہو گا اور ہوگا بھی اللہ کا مقرب وہ گہوارے میں ہی بولنے لگے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی ۔ اور صالح لوگوں میں سے ہوگا یعنی بچپن اور بڑھاپے میں اللہ کے دین کی دعوت دے گا ۔ مروی ہے کہ حضرت مریم نے فرمایا کہ خلوت اور تنہائی کے موقعہ پر مجھ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بولتے تھے اور مجمع میں اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے یہ حال اس وقت کا ہے جب کہ آپ میرے پیٹ میں تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ کام علم اللہ میں مقدر اور مقرر ہو چکا ہے وہ اپنی قدرت سے یہ کام پورا کر کے ہی رہے گا ۔ بہت ممکن ہے کہ یہ قول بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ہو ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ فرمان الہٰی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو ۔ اور مراد اس سے روح کا پھونک دینا ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ عمران کی بیٹی مریم باعصمت بیوی تھیں ہم نے اس میں روح پھونکی تھی ۔ اور آیت میں ہے وہ باعصمت عورت جس میں ہم نے اپنی روح پھونک دی ۔ پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو ہو کر ہی رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس کا ارادہ کر چکا ہے ۔
وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مَرْيَمَ : زکریا اور مریم (علیہ السلام) کے واقعات میں مناسبت کی وجہ سے ان کا ذکر سورة آل عمران (٣٥ تا ٤٠) ، سورة انبیاء (٣٩ تا ٤١) اور یہاں اکٹھا آیا ہے، کیونکہ ان میں کئی طرح سے مناسبت ہے۔ مریم [ کی کرامت بےموسم پھل دیکھ کر زکریا (علیہ السلام) کے دل میں بےوقت اولاد کی خواہش اور امید پیدا ہوئی۔ پھر زکریا (علیہ السلام) کو خلاف عادت بیٹا عطا ہوا اور مریم [ کے ہاں ان سے بھی بڑھ کر خلاف عادت بیٹا پیدا ہوا۔ دونوں قصے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہیں۔- اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا : ” نَبَذَ “ کا معنی پھینکنا ہے۔ ” انْتَبَذَتْ “ الگ ہوئی، یعنی بالکل الگ ہوگئی، گویا اس نے اپنے آپ کو گھر والوں سے دور پھینک دیا۔ یاد رہے کہ مریم [ کو ان کی والدہ نے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کیا تھا اور وہ اپنے بہنوئی زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں وہاں مصروف عبادت رہتی تھیں۔ حدیث معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو خالہ زاد بھائی فرمایا۔ مریم [ کی نیکی، پاکیزگی اور شرافت ضرب المثل تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ وَمَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَاءِشَۃَ عَلَی النِّسَاءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلٰی سَاءِرِ الطَّعَامِ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قولہ تعالیٰ : ( وضرب اللّٰہ مثلا ۔۔ ) : ٣٤١١۔ مسلم : ٢٤٣١ ] ” مردوں میں بہت سے کامل ہوئے ہیں اور عورتوں میں سے کامل نہیں ہوئیں مگر فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اس طرح ہے جیسے ثرید (گوشت کے سالن میں بھگوئی ہوئی روٹی) کی فضیلت تمام کھانوں پر۔ “ علیحدہ ہونے کا مطلب بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ایام آنے کی وجہ سے الگ ہوئیں اور بعض نے فرمایا کہ عبادت کے لیے مکمل تنہائی کی خاطر الگ ہوئیں، بظاہر ان دونوں میں سے کوئی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وجہ بیان نہیں فرمائی۔ اصل حقیقت وہی بہتر جانتا ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ نصاریٰ نے مشرق کو اسی لیے قبلہ بنا لیا کہ مریم [ کے ہاں مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش بیت المقدس کی مشرقی جانب میں ہوئی۔ [ طبري و صححہ ابن بشیر : ٢٣٧٥٧ ]
خلاصہ تفسیر - اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کتاب (یعنی قرآن کے اس خاص حصہ یعنی سورت) میں (حضرت) مریم (علیہٰا السلام) کا قصہ بھی ذکر کیجئے (کہ وہ زکریا (علیہ السلام) کے قصہ مذکورہ سے خاص مناسبت رکھتا ہے اور وہ اسوقت واقع ہوا) جب کہ وہ اپنے گھر والوں سے علیحدہ (ہوکر) ایک ایسے مکان میں جو مشرق کی جانب میں تھا (غسل کے لئے) گئیں پھر ان (گھروالے) لوگوں کے سامنے سے انھوں نے (درمیان میں پردہ ڈال) لیا (تاکہ اس کی آڑ میں غسل کرسکیں) پس (اس حالت میں) ہم نے اپنے فرشتہ (جبرئیل علیہٰ السلام) بھیجا اور وہ (فرشتہ) ان کے سامنے (ہاتھ پاؤں اور صورت و شکل میں) ایک پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا (چونکہ حضرت مریم نے اس کو انسان سمجھا اس لئے گھبرا کر) کہنے لگیں کہ میں تجھ سے اپنے خدا کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو (کچھ) خدا ترس ہے (تو یہاں سے ہٹ جاوے گا) فرشتہ نے کہا کہ (میں بشر نہیں کہ تم مجھ سے ڈرتی ہو بلکہ) میں تو تمہارے رب کا بھیجا ہوا (فرشتہ) ہوں (اس لئے آیا ہوں) تاکہ تم کو ایک پاکیزہ لڑکا دوں (یعنی تمہارے منہ میں یا گریبان میں دَم کردوں جس کے اثر سے باذن اللہ حمل رہ جاوے اور لڑکا پیدا ہو) وہ (تعجب سے) کہنے لگیں (نہ کہ انکار سے) کہ میرے لڑکا کس طرح ہوجاوے گا حالانکہ (اس کی شرائط عادیہ میں سے مرد کے ساتھ مقاربت ہے اور وہ بالکل مفقود ہے کیونکہ) مجھ کو کسی بشر نے ہاتھ تک نہیں لگایا (یعنی نہ تو نکاح ہوا) اور نہ میں بدکار ہوں، فرشتہ نے کہا کہ (بس بغیر کسی بشر کے چھونے کے) یوں ہی (لڑکا) ہوجاوے گا (اور میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ) تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ بات ( کہ بغیر اسباب عادیہ کے بچہ پیدا کردوں) مجھ کو آسان ہے اور (یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم بغیر اسباب عادیہ کے) اسے خاص طور پر اس لئے پیدا کریں گے تاکہ ہم اس فرزند کو لوگوں کے لئے ایک نشانی (قدرت کی) بنادیں اور (نیز اسکے ذریعہ لوگوں کو ہدایت پانے کے لئے) اس کو باعث رحمت بنادیں اور یہ (بےشک کے اس بچہ کا پیدا ہونا) ایک طے شدہ بات ہے (جو ضرور ہو کر رہے گی) ۔- معَارف ومسَائِل - انْتَبَذَتْ : نبذ سے مشتق ہے جس کے اصلی معنے دور ڈالنے اور پھینکنے کے ہیں۔ انتباذ کے معنی مجمع سے ہٹ کر دور چلے جانے کے ہوئے۔ مکانا شرقیا، یعنی گھر کے اندر مشرقی جانب کے کسی گوشہ میں چلی گیئں۔ ان کا گوشہ میں جانا کس غرض کے لئے تھا اسمیں احتمالات اور اقوال مختلف ہیں بعض نے کہا کہ غسل کرنے کے لئے اس گوشہ میں گئی تھیں۔ بعض نے کہا کہ حسب عادت عبادت الہٰی میں مشغول ہونے کے لئے محراب کی شرقی جانب کے کسی گوشہ کو اختیار کیا تھا۔ قرطبی نے اسی دوسرے احتمال کو احسن قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ نصارٰی نے جو جانب مشرق کو اپنا قبلہ بنایا اور اس جانب کی تعظیم کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے۔
وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مَرْيَمَ ٠ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَہْلِہَا مَكَانًا شَرْقِيًّا ١٦ۙ- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- نبذ - النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص .- ( ن ب ذ) النبذ - کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔- شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق .- والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه .- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔
(١٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم میں سے حضرت مریم (علیہ السلام) کا قصہ بھی بیان کیجیے جو وہ اپنے گھر والوں سے علیحدہ ایک ایسے مکان میں گئیں جو مشرق کی طرف تھا۔
آیت ١٦ (وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ مَرْیَمَ ٧ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَہْلِہَا مَکَانًا شَرْقِیًّا)- حضرت مریم (سلامٌ علیہا) نے اپنے لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر ہیکل سلیمانی کے مشرقی گوشے میں خود کو مقیدّ کرلیا۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کے لیے اعتکاف کی کیفیت تھی۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :13 تقابل کے لیئے تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 42 ، 55 النساء حاشیہ 192 ۔ 191 ۔