25۔ 1 سَرِبّاَ چھوٹی نہر یا پانی کا چشمہ۔ یعنی بطور کرامت اور خلاف قانون قدرت، اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے پاؤں تلے پینے کے لئے پانی کا اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے درخت میں پکی ہوئے تازہ کھجوروں کا انتطام کردیا۔ آواز دینے والے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے، جنہوں نے وادی کے نیچے سے آواز دی اور کہا جاتا ہے کہ سَرِیّ بمعنی سردار ہے اور اس سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور انہی نے حضرت مریم کو نیچے سے آواز دی تھی۔
وَهُزِّيْٓ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ ۔۔ : ” قَرِّيْ عَيْنًا “ مشہور نحوی فراء نے فرمایا کہ قریش اور ان کے آس پاس کے لوگ ” قَرَّ یَقَرُّ “ (قاف کے فتحہ کے ساتھ) کہتے ہیں اور قیس، تمیم اور اہل نجد ” قَرَّ یَقِرُّ “ (قاف کے کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں۔ پہلی صورت میں ” قَرِّيْ “ قاف کے فتحہ کے ساتھ ہوگا جو مشہور قراءت ہے، دوسری صورت میں قاف کے کسرہ کے ساتھ ” قِرِّیْ “ ہوگا جو شاذ قراءت ہے۔ مصدر ” قُرَّۃٌ وَ قُرُوْرٌ“ ہے، ٹھنڈا ہونا۔ (بقاعی) تنہائی، بھوک، پیاس، ولادت کی تکلیف، ولادت کے بعد کی کمزوری اور بدنامی کے خوف میں سے ہر چیز کا اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بہترین علاج فرما دیا۔ ایک کمزور خاتون جو ابھی ولادت کے جان شکن مرحلے سے نکلی ہو، کھجور کے تنے کو کس قدر حرکت دے سکتی ہے ؟ مگر فرمایا کہ اسے حرکت دو ، وہ تازہ پکی ہوئی کھجوریں تم پر گرائے گی۔ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ وہ کھجوروں کے پھل دینے کا وقت نہ تھا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو، کیونکہ مریم [ کو ان کے کمرے میں بےموسم رزق ملتا تھا، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (٣٧) لیکن اگر کھجوروں کے پھل کا موسم بھی مانا جائے تو کوئی جوان اور مضبوط آدمی کھجور کا تنا ہلا کر دیکھ لے کہ کتنی کھجوریں گرتی ہیں ؟ ولادت کی کمزوری کے لیے تمام اطباء تازہ پکی ہوئی کھجور کے مفید ہونے پر متفق ہیں۔ پینے کے لیے ان کے نیچے رب تعالیٰ نے ندی جاری فرما دی۔ تنہائی اور پریشانی کے علاج کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک، خوبصورت اور عظیم المرتبت بیٹا عطا کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی تمام عنایات عام عادت کے خلاف معجزانہ طور پر ہوئیں۔ رہی آئندہ کی ملامت جو قوم کے پاس جانے کی صورت میں پیش آنے والی تھی، اس کا علاج یہ بتایا گیا کہ اگر کسی بھی وقت کوئی آدمی دیکھو تو اسے اشارے سے کہہ دو کہ میں نے رحمٰن کی خاطر روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے میں کسی انسان سے کسی صورت بات نہیں کروں گی۔ کسی بھی وقت کسی انسان کو دیکھنے کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سارے عمل کے دوران وہ تنہا رہیں۔ - اِنِّىْ نَذَرْتُ للرَّحْمٰنِ صَوْمًا : چونکہ شادی کے بغیر بچہ پیدا ہونے پر ملامت کرنے والوں کا کسی طرح کی صفائی دینے سے بھی مطمئن ہونا ممکن نہ تھا، اس لیے ان کے جواب میں مکمل خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔ جاہلوں کے جواب میں دانش مند لوگوں کا یہی وتیرہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا) [ الفرقان : ٦٣ ] ” اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔ “ عربی کا مقولہ ہے : ” أَذَلُّ النَّاسِ سَفِیْہٌ لَا یَجِدُ مُسَافِھًا “ کہ سب سے زیادہ ذلیل وہ بیوقوف ہے جسے اپنے جواب میں کوئی بےوقوفی کرنے والا نہ ملے۔- فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِـيًّا : اس آیت سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں خاموشی کا روزہ رکھنا جائز تھا، مگر ہماری شریعت میں اس سے منع کردیا گیا، بلکہ اس طرح کی نذر ماننا بھی منع ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ( بَیْنَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إِذَا ھُوَ بِرَجُلٍ فَسَأَلَ عَنْہٗ فَقَالُوْا أَبُوْ إِسْرَاءِیْلَ نَذَرَ أَنْ یَّقُوْمَ وَلاَ یَقْعُدَ وَلاَ یَسْتَظِلَّ وَلَا یَتَکَلَّمَ وَیَصُوْمَ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرْہٗ فَلْیَتَکَلَّمْ وَلْیَسْتَظِلَّ وَلْیَقْعُدْ وَلْیُتِمَّ صَوْمَہٗ ) [ بخاري، الأیمان والنذور، باب النذر فیما لا یملک و في معصیۃ : ٦٧٠٤ ]” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے، اس دوران میں آپ نے ایک آدمی کو کھڑے ہوئے دیکھا تو اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو اسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ دھوپ میں کھڑا رہے گا، سائے میں نہیں جائے گا اور کلام نہیں کرے گا اور روزہ رکھے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اسے حکم دو کہ بیٹھ جائے اور سائے میں بھی جائے اور کلام کرے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ “ ” اما “ میں ” اِنْ “ شرطیہ اور ” مَا “ ابہامیہ برائے تاکید ہے، اس لیے ترجمہ ” اگر کبھی “ کیا ہے۔
وَہُزِّيْٓ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ٢٥ۡ- هزز - الْهَزُّ : التّحريك الشّديد، يقال : هَزَزْتُ الرّمح فَاهْتَزَّ وهَزَزْتُ فلانا للعطاء . قال تعالی: وَهُزِّي - إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ [ مریم 25] ، فَلَمَّا رَآها تَهْتَزُّ [ النمل 10] ، واهْتَزَّ النّبات : إذا تحرّك لنضارته، قال تعالی: فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] واهْتَزَّ الكوكب في انقضاضه، وسیف هَزْهَازٌ ، وماء هُزَهِزٌ ورجل هُزَهِزٌ: خفیف .- ( ھ ز ز ) الھز - کے معنی کسی چیز کو زور سے ملانے کے ہیں جیسے ھززت الرمح میں نے نیزہ زور سے ہلا یا اھتز افتعال اس کا مط اور ہے اسی طرح ھززت فلانا للعطآء کے معنی ہیں میں نے فلاں کو بخشش کے لئے حرکت دی یعنی وہ خوشی سے جھومنے لگا قرآن میں ہے : ۔ وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ [ مریم 25] اور کھجور کے تنے کو پکڑا کر اپنی طرف ہلاؤ ۔ فَلَمَّا رَآها تَهْتَزُّ [ النمل 10] جب اسے دیکھا تو اس طرح اہل رہی تھی گویا سانپ ہے اھتزت النبات نباتات ( سبزے کا لہلہا نا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] پھر جب ہم اس پر بارش بر ساتے ہیں تو وہ شاداب ہوجاتی ہے اور ابھر نے لگتی ہے ۔ اھتز الکواکب فی انقضا ضہ ستارے کا تیزی کے ساتھ ٹوٹنا اور سیف ھز ھا ز کے معنی لچکدار تلوار کے ہیں اور شفاف پانی کو ماء ھز ھز کہا جاتا ہے اسی طرح ھز ھز کے معنی سبک اور ہلکے پھلکے آدمی کے بھی آتے ہیں ۔- جذع - الجِذْعُ جمعه جُذُوع، قال : فِي جُذُوعِ النَّخْلِ [ طه 71] .- جَذَعْتُهُ : قطعته قطع الجذع، والجَذَع من الإبل : ما أتت لها خمس سنین، ومن الشاة : ما تمّت له سنة . ويقال للدهم الإزالة : الجذع، تشبيها بالجذع من الحیوان .- ( ج ذ ع ) الجذع - درخت کا تنہ ۔ ج جذوع قرآن میں :۔ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ [ طه 71] جذعہ ( ف ) شاخ یا تنے کی طرح کا ٹ ڈالنا ۔ الجذع ( من الابل ) شتر بسال پنجم ( من الشا ۃ ) گو سپند بسال دوم اور چوپایوں کے ساتھ تشبیہ دے کر زمانہ کو بھی جذع کہا جاتا ہے ( کیونکہ زمانہ بھی کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔- سقط - السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران :- السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع .- ( س ق ط )- السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔- رطب - الرَّطْبُ : خلاف الیابس، قال تعالی: وَلا رَطْبٍ وَلا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ- [ الأنعام 59] ، وخصّ الرُّطَبُ بالرَّطْبِ من التّمر، قال تعالی: وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا [ مریم 25] ، وأَرْطَبَ النّخلُ «1» ، نحو : أتمر وأجنی، ورَطَبْتُ الفرس ورَطَّبْتُهُ : أطعمته الرّطب، فَرَطَبَ الفرس : أكله .- ورَطِبَ الرّجل رَطَباً : إذا تكلّم بما عنّ له من خطإ وصواب «2» ، تشبيها برطب الفرس، والرَّطِيبُ : عبارة عن النّاعم .- ( ر ط ب ) الرطب - ( تر ) یہ یابس ( خشک ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا رَطْبٍ وَلا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ [ الأنعام 59] اور ( دنیا کی ) تر اور خشک چیزیں ( سب ہی تو ) کتاب واضح ( یعنی لوح محفوظ میں ) لکھی ہوئی موجود ہیں ۔ اور رطب کا لفظ ( پختہ اور ) تازہ کھجور کے ساتھ مخصوص ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا [ مریم 25] اور کھجور کی شاخ کو اپنی طرف ہلا تجھ پر تازہ پکی کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ ارطب النخل کے معنی ہیں درخت خرما پکی کھجوروں والا ہوگیا ۔ اس میں صاحب ماخذ ہونے کا خاصہ پایا جاتا ہے ۔ جیسے اثمر واجنی میں ہے عام محاورہ ہے : ارطبت الفرس ورطبتہ : میں نے گھوڑے کو تازہ گھاس کھلائی اور رطب الفرس ( باب علم سے لازمی ہے اور اس ) کے معنی گھوڑے کا تر گھاس کھانا کے ہیں ۔ رطب الرجل ۔ تر و خشک ہر قسم کی باتیں کرنا ۔ خوش گپیاں اڑانا ۔ یہ محاورہ رطب الفرس کے ساتھ بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے : ۔ الرطیب نرم وملائم کو کہتے ہیں ۔- جنی - جَنَيْتُ الثمرة واجْتَنَيْتُهَا، والجَنْيُ : المجتنی من الثمر والعسل، وأكثر ما يستعمل الجني فيما - كان غضّا، قال تعالی: تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] ، وقال تعالی: وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دانٍ [ الرحمن 54] ، وأَجْنَى الشجر : أدرک ثمره، والأرض : كثر جناها، واستعیر من ذلک جَنَى فلان جِنَاية كما استعیر اجترم .- ( ج ن ی )- جنیت ( ض) ) جن یا میں نے درخت سے پھل توڑا ۔ الجنی والجنی چنے ہوئے پھل ، چھتہ سے نکالا ہوا شہد لیکن عام طور پر جنی تازہ پھل کو کہتے ہیں جو حال ہی میں تورا گیا ہو قرآن میں ہے تساقطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دانٍ [ الرحمن 54] اور دونوں باغوں کے میوے قریب ( جھک رہے ) ہیں ۔ اجنی الشجدۃ درخت کے پھل پک گئے توڑنے کے قابل ہوگئے زمین زیادہ پھلوں والی ہوگئی ۔ اسی سے یعنی پھل توڑنے کے معنی سے بطور استعارہ گناہ کرنے کے معنی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ اجترم کا محاورہ بطور استعارہ اس معنی میں آتا ہے
(٢٥) اور اس کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ، اس سے تم پر تازہ کھجوریں جھڑیں گی ،