30۔ 1 یعنی قضا وقدر ہی میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ مجھے کتاب اور نبوت سے نوازے گا
[٢٩] سیدنا عیسیٰ نے کلام فی المھد سے اپنی والدہ کی بہتان سے مکمل بریّت کردی :۔ تب اس نومولود بچے کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے قوت گویائی عطا فرمائی اور پہلی بات جو اس نے کی وہ یہ تھی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں بالفاظ دیگر میں نہ اللہ ہوں اور نہ ابن اللہ ہوں اور یہ ایسی بنیادی بات تھی جو بعد میں اس کے پیروکاروں میں ہی متنازعہ فیہ بن گئی۔ کسی نے انھیں اللہ ہی کہہ دیا اور کسی نے اللہ کا بیٹا۔ آپ نے اپنے اس معجزانہ کلام کے آغاز میں ہی اس کی تردید فرما دی تھی۔ نیز یہ بھی بتایا کہ اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور اپنا نبی بھی بنایا ہے اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے مجھے کتاب تورات کا علم عطا فرمایا اور دوسرا یہ کہ اللہ مجھے کتاب انجیل بھی عطا فرمانے والا ہے اور نبوت بھی۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کلام دراصل ان کی سب بہتان تراشیوں کا مکمل جواب تھا اور اس کلام میں ان کی والدہ سیدہ مریم کی مکمل بریّت کا اظہار مقصود تھا یعنی اگر ایک نومولود بول سکتا ہے اور ایسا مبنی برحقیقت کلام کرسکتا ہے تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ پیدا بھی معجزانہ طور پر بن باپ کے ہوا ہو۔ بالفاظ دیگر اسی عمر میں ایسے کلام کرنے کے معجزہ سے معجزانہ پیدائش کی توثیق مقصود تھی۔
قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ : گویا سب سے پہلا کلمہ جو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی زبان سے ادا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اعتراف تھا، جو ان کے خود اللہ تعالیٰ ہونے یا اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے یا تین معبودوں میں سے ایک ہونے کی صاف نفی ہے۔- اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ : ظاہر ہے کہ کتاب اور نبوت کا ملنا کچھ مدت بعد ہی ہوا ہوگا، کیونکہ دودھ پیتا بچہ نبوت کے فرائض دعوت و تبلیغ، اصلاح امت وغیرہ کیسے ادا کرسکتا ہے ؟ اس لیے اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک تو یہ کہ ازل سے اللہ تعالیٰ نے میرا نبی ہونا اور مجھے کتاب ملنا لکھ دیا ہے، جیسا کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ ) [ صحیح الجامع للألباني : ٤٥٨١، عن میسرۃ الفجر (رض) ]” میں اس وقت نبی تھا جب آدم (علیہ السلام) روح اور جسم کے درمیان تھے۔ “ حالانکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چالیس برس کی عمر میں نبوت عطا ہوئی، اس لیے مراد تقدیر میں نبی لکھا ہونا ہے۔ دوسرا معنی یہ کہ ماضی کا لفظ بول کر مستقبل مراد لیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اتنے یقینی ہیں کہ سمجھو واقع ہوچکے ہیں۔ یہ اندازبیان قرآن مجید میں عام ہے، جیسے قیامت کے متعلق فرمایا : (اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ) [ النحل : ١ ] ” اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلدی آنے کا مطالبہ مت کرو۔ “ اسی طرح سورة زمر کی آیت (٦٨) میں ماضی کے چاروں صیغے مستقبل کے معنی میں ہیں۔
(آیت) اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ ، ایک روایت میں ہے کہ جس وقت خاندان کے لوگوں نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو ملامت کرنا شروع کی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دودھ پی رہے تھے۔ جب انہوں نے ان لوگوں کی ملامت کو سنا تو دودھ چھوڑ دیا اور اپنی بائیں کروٹ پر سہارا لے کر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ یعنی میں اللہ کا بندہ ہوں، اس پہلے ہی لفظ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا کہ اگرچہ میری پیدائش معجزانہ انداز سے ہوئی ہے مگر میں خدا نہیں خدا کا بندہ ہوں تاکہ لوگ میری پرستش میں مبتلا نہ ہو جائیں - (آیت) اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيًّا ان الفاظ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی شیر خوارگی کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت اور کتاب ملنے کی خبر دی۔ حالانکہ کسی پیغمبر کو چالیس سال کی عمر سے پہلے نبوت و کتاب نہیں ملتی اس لئے مفہوم اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرما دیا ہے کہ مجھے اپنے وقت پر نبوت اور کتاب دیں گے اور یہ بالکل ایسا ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے نبوت اس وقت عطا کردی گئی تھی جب کہ آدم (علیہ السلام) ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ان کا خمیر ہی تیار ہو رہا تھا اس کا مطلب ظاہر ہے کہ اس کے سوا نہیں کہ عطا نبوت کا وعدہ محمد مصطفے ٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قطعی اور یقینی تھا یہاں بھی اسی یقین کو عطا نبوت کے لفظ ماضی سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ عطا نبوت کا اظہار کرنے سے ان لوگوں کی بدگمانی رفع کردی گئی کہ میری والدہ پر بدکاری کا الزام لگانا سراسر غلط ہے کیونکہ میرا نبی ہونا اور مجھے رسالت کا ملنا اس کی دلیل ہے کہ میری پیدائش میں کسی گناہ کا دخل نہیں ہوسکتا۔
قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللہِ ٠ۣۭ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيًّا ٣٠ۙ- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو
(٣٠۔ ٣١) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بول اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے ماں کے پیٹ ہی سے مجھے علم توریت وانجیل دیا (گو آئندہ دے گا مگر بوجہ یقینی ہونے کے ایسا ہے جیسے دے دی) اور ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد مجھے نبی بنایا (یعنی بنائے گا) اور میں جس مقام پر بھی ہوں، مجھے نیکیوں کی تعلیم دینے والا بنایا ہے اور اس نے مجھے نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے جب تک کہ میں زندہ ہوں۔
17: یعنی بڑے ہو کر مجھے انجیل عطا کی جائے گی، اور نبی بنایا جائے گا، اور یہ بات اتنی یقینی ہے جیسے ہو ہی چکی۔ دودھ پیتے بچے کا اس طرح بولنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھلا ہوا معجزہ تھا جس نے حضرت مریم علیہا السلام کی براءت بالکل واضح کردی۔