Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت عیسیٰ کے بارے میں مختلف اقوال ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں جن جن لوگوں کا اختلا ف تھا ان میں جو بات صحیح تھی وہ اتنی ہی تھی جتنی ہم نے بیان فرما دی ۔ قول کی دوسری قرأت قول بھی ہے ۔ ابن مسعود کی قرأت میں قال الحق ہے ۔ قول کا رفع زیادہ ظاہر ہے جیسے ( اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ١٤٧؁ۧ ) 2- البقرة:147 ) ، میں ۔ یہ بیان فرما کر کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی تھے اور اس کے بندے پھر اپنے نفس کی پاکیزگی بیان فرماتا ہے کہ اللہ کی شان سے گری ہوئی بات ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ یہ جاہل عالم جو افواہیں اڑا رہے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ پاک اور دور ہے وہ جس کام کو کرنا چاہتا ہے اسے سامان اسباب کی ضرورت نہیں پڑتی فرما دیتا ہے کہ ہو جا اسی وقت وہ کام اسی طرح ہو جاتا ہے ۔ ادھر حکم ہوا ادھر چیز تیار موجود ۔ جیسے فرمان ہے ( اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 59؀ ) 3-آل عمران:59 ) یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے نزدیک مثل آدم علیہ السلام کے ہے کہ اسے مٹی سے بنا کر فرمایا ہو جا اسی وقت وہ ہوگیا یہ بالکل سچ ہے اور اللہ کا فرمان تجھے اس میں کسی قسم کا شک نہ کرنا چاہئے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ بھی فرمایا کہ میرا اور تم سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے تم سب اسی کی عبادت کرتے رہو ۔ سیدھی راہ جسے میں اللہ کی جانب سے لے کر آیا ہوں یہی ہے ۔ اس کی تابعداری کرنے والا ہدایت پر ہے اور اس کا خلاف کرنے والا گمراہی پر ہے یہ فرمان بھی آپ کا ماں کی گود سے ہی تھا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اپنے بیان اور حکم کے خلاف بعد والوں نے لب کشائی کی اور ان کے بارے میں مختلف پارٹیوں کی شکل میں یہ لوگ بٹ گئے ۔ چنانچہ یہود نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نعوذ باللہ ولد الزنا ہیں ، اللہ کی لعنتیں ان پر ہوں کہ انہوں نے اللہ کے ایک بہترین رسول پر بدترین تہمت لگائی ۔ اور کہاکہ ان کا یہ کلام وغیرہ سب جادو کے کرشمے تھے ۔ اسی طرح نصاریٰ بہک گئے کہنے لگے کہ یہ تو خود اللہ ہے یہ کلام اللہ کا ہی ہے ۔ کسی نے کہا یہ اللہ کا لڑکا ہے کسی نے کہا تین معبودوں میں سے ایک ہے ہاں ایک جماعت نے واقعہ کے مطابق کہا کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں یہی قول صحیح ہے ۔ اہل اسلام کا عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہی ہے اور یہی تعلیم الہٰی ہے ۔ کہتے ہیں کہ بنواسرائیل کا مجمع جمع ہوا ہے اور اپنے میں سے انہوں نے چار ہزار آدمی چھانٹے ہر قوم نے اپنا اپنا ایک عالم پیش کیا ۔ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھ جانے کے بعد کا ہے ۔ یہ لوگ آپس میں متنازع ہوئے ایک تو کہنے لگایہ خود اللہ تھا جب تک اس نے چاہا زمین پر رہا جسے چاہا جلایا جسے چاہا مارا پھر آسمان پر چلا گیا اس گروہ کو یعقوبیہ کہتے ہیں لیکن اور تینوں نے اسے جھٹلایا اور کہا تو نے جھوٹ کہا اب دو نے تیسرے سے کہا اچھا تو کہہ تیرا کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا وہ اللہ کے بیٹے تھے اس جماعت کا نام نسطوریہ پڑا ۔ دو جو رہ گئے انہوں نے کہا تو نے بھی غلط کہا ہے ۔ پھر ان دو میں سے ایک نے کہا تم کہو اس نے کہا میں تو یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ وہ تین میں سے ایک ہیں ایک تو اللہ جو معبود ہے ۔ دوسرے یہی جو معبود ہیں تیسرے ان کی والدہ جو معبود ہیں ۔ یہ اسرائیلیہ گروہ ہوا اور یہی نصرانیوں کے بادشاہ تھے ان پر اللہ کی لعنتیں ۔ چوتھے نے کہا تم سب جھوٹے ہو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں اور رسول تھے اللہ ہی کا کلمہ تھے اور اس کے پاس کی بھیجی ہوئی روح ۔ یہ لوگ مسلمان کہلائے اور یہی سچے تھے ان میں سے جس کے تابع جو تھے وہ اسی کے قول پر ہوگئے اور آپس میں خوب اچھلے ۔ چونکہ سچے اسلام والے ہر زمانے میں تعداد میں کم ہوتے ہیں ان پر یہ ملعون چھاگئے انہیں دبا لیا انہیں مارنا پیٹنا اور قتل کرنا شروع کردیا ۔ اکثر مورخین کا بیان ہے کہ قسطنطین بادشاہ نے تین بار عیسائیوں کو جمع کیا آخری مرتبہ کے اجتماع میں ان کے دو ہزار ایک سو ستر علماء جمع ہوئے تھے لیکن یہ سب آپس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مختلف آراء رکھتے تھے ۔ سو کچھ کہتے تو ستر اور ہی کچھ کہتے ، پچاس کچھ اور ہی کہہ رہے تھے ، ساٹھ کا عقیدہ کچھ اور ہی تھا ہر ایک کا خیال دوسرے سے ٹکرا رہا تھا ۔ سب سے بڑی جماعت تین سو آٹھ کی تھی ۔ بادشاہ نے اس طرف کثرت دیکھ کر کثرت کا ساتھ دیا ۔ مصلحت ملکی اسی میں تھی کہ اس کثیر گروہ کی طرفداری کی جائے لہذا اس کی پالیسی نے اسے اسی طرف متوجہ کر دیا ۔ اور اس نے باقی کے سب لوگوں کو نکلوا دیا اور ان کے لئے امانت کبریٰ کی رسم ایجاد کی جو دراصل سب سے زیادہ بدترین خیانت ہے ۔ اب مسائل شرعیہ کی کتابیں ان علماء سے لکھوائیں اور بہت سی رسومات ملکی اور ضروریات شہری کو شرعی صورت میں داخل کر لیا ۔ بہت سی نئی نئی باتیں ایجاد کیں اور اصلی دین مسیحی کی صورت کو مسخ کر کے ایک مجموعہ مرتب کرایا اور اسے لوگوں میں رائج کر دیا اور اس وقت سے دین مسیحی یہی سمجھا جانے لگا ۔ جب اس پر ان سب کو رضامند کر لیا تو اب چاروں طرف کلیسا ، گرجے اور عبادت خانے بنوانے اور وہاں ان علماء کو بٹھانے اور ان کے ذریعے سے اس اپنی نومولود میسیحت کو پھیلانے کی کوشش میں لگ گیا ۔ شام میں ، جزیرہ میں ، روم میں تقریبا بارہ ہزار ایسے مکانات اس کے زمانے میں تعمیر کرائے گئے اس کی ماں ہیلانہ نے جس جگہ سولی گڑھی ہوئی تھی وہاں ایک قبہ بنوادیا اور اس کی باقاعدہ پرستش شروع ہوگئی ۔ اور سب نے یقین کرلیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی پر چڑھ گئے حالانکہ ان کا یہ قول غلط ہے اللہ نے اپنے اس معزز بندے کو اپنی جانب آسمان پر چڑھا لیا ہے ۔ یہ عیسائی مذہب کم اختلاف کی ہلکی سی مثال ۔ ایسے لوگ جو اللہ پر جھوٹ افترا باندھیں اس کی اولادیں اور شریک وحصہ دار ثابت کریں گو وہ دنیا میں مہلت پالیں لیکن اس عظیم الشان دن کو ان کی ہلاکت انہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی اور برباد ہوجائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو گو جاری عذاب نہ کرے لیکن بالکل چھوڑتا بھی نہیں ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے لیکن جب اس کی پکڑ نازل ہوتی ہے تو پھر کوئی جائے پناہ باقی نہیں رہتی یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآن ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ١٠٢؀ ) 11-ھود:102 ) تلاوت فرمائی ۔ یعنی تیرے رب کی پکڑ کا طریقہ ایسا ہی ہے جب وہ کسی ظلم سے آلودہ بستی کو پکڑتا ہے ۔ یقین مانو کہ اس کی پکڑ نہایت المناک اور سخت ہے ۔ بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ناپسند باتوں کو سن کر صبر کرنے والا اللہ سے زیادہ کوئی نہیں ۔ لوگ اس کی اولاد بتلاتے ہیں اور وہ انہیں روزیاں دے رہا ہے اور عافیت بھی ۔ خود قرآن فرماتا ہے ( وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا ۚ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ 48؀ۧ ) 22- الحج:48 ) بہت سی بستیوں والے وہ ہیں جن کے ظالم ہونے کے باوجود میں نے انہیں ڈھیل دی پھر پکڑ لیا آخر لوٹنا تو میری ہی جانب ہے ۔ اور آیت میں ہے کہ ظالم لوگ اپنے اعمال سے اللہ کو غافل سمجھیں انہیں جو مہلت ہے وہ اس دن تک ہے جس دن آنکھیں اوپر چڑھ جائیں گی ۔ یہی فرمان یہاں بھی ہے کہ ان پر اس بہت بڑے دن کی حاضری نہایت سخت دشوار ہوگی ۔ صحیح حدیث میں ہے جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ ایک ہے وہی معبود برحق ہے اس کے سوا لائق عبادت اور کوئی نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر ہیں اور اسکا کلمہ ہیں جسے حضرت مریم علیہ السلام کی طرف ڈالا تھا اور اس کے پاس کی بھیجی ہوئی روح ہیں اور یہ کہ جنت اور دوزخ حق ہے اس کے خواہ کیسے ہی اعمال ہوں اللہ اسے ضرور جنت میں پہنچائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی یہ ہیں وہ صفات، جن سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صفت کئے گئے تھے نہ کہ ان صفات کے حامل، جو نصاریٰ نے حد سے گزر کر ان کے بارے میں باور کرائیں اور نہ ایسے، جو یہودیوں نے کمی کی اور نقص نکالنے سے کام لیتے ہوئے ان کی بابت کہا۔ اور یہی حق بات ہے۔ جس میں لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١] سیدنا عیسیٰ کے بارے میں افراط وتفریط میں مبتلا فرقے ان کے جھگڑے اور کلام فی المہد کے اہم نکات :۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی حقیقت بالکل یہی ہے جو یہاں بیان کردی گئی۔ لیکن اہل کتاب نے اس میں کئی اختلاف اور جھگڑے کھڑے کردیئے۔ یہود نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اتنا گھٹایا کہ نعوذ باللہ انھیں ولدالزنا قرار دے کر اس پر دلائل پیش کرنے لگے اور نصاریٰ نے ان کا درجہ اس قدر چڑھایا کہ انھیں عین اللہ قرار دے لیا یا کچھ دوسرے انھیں ابن اللہ کہنے لگے اور اپنے ایسے عقائد کے دلائل پیش کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دونوں گروہ افراط وتفریط اور غلو فی الدین میں مبتلا ہیں۔ جو کچھ اصل حقیقت تھی وہ یہاں بیان کردی گئی ہے۔ پھر اس اصل حقیقت کے بیان ہوجانے کے بعد اب مسلمانوں کے ایک فرقہ نے جو معجزات کے منکر ہیں اس حقیقت سے اختلاف کیا اور کہنے لگے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش بھی معجزانہ طور پر نہیں بلکہ عام فطری دستور کے مطابق ہوئی تھی اور قرآن کے بیان کے علی الرغم قرآن ہی کی معنوی تحریف کرکے ایسے دلائل ڈھونڈنے لگے۔ ایسے تمام لوگوں کا اور ان کے اختلاف کا اب قیامت کے دن فیصلہ ہوگا۔ (سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ پیدائش کے منکرین کے سلسلہ میں دیکھئے سورة آل عمران کی آیت نمبر ٥٥ کا حاشیہ)- اور عیسائی حضرات اللہ کو باپ سیدہ مریم کو ماں اور سیدنا عیسیٰ کو بیٹا کہتے ہیں۔ مگر سیدہ مریم کو اللہ کی بیوی نہیں کہتے۔ یعنی ماں باپ مان کر بھی ان کے ہاں سیدنا عیسیٰ کی پیدائش کا وہ طریقہ نہیں جو والدین کے واسطہ سے ہوتا ہے۔ پھر اگر کوئی بات خرق عادت ماننا ہی ہے تو بدوں باپ پیدائش مان لینے میں کیا اشکال ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۔۔ : ” قَوْلَ الْحَــقِّ “ اصل میں ” اَلْقَوْلَ الْحَقَّ “ تھا، یعنی وہ بات جو حق اور سچ ہے، تخفیف کے لیے موصوف کو صفت کی طرف مضاف کردیا، یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں سچ بات صرف وہ ہے جو یہاں خود ان کی زبانی بیان کردی گئی کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے سچے رسول ہیں اور ان کا نسب ہر شک و شبہ اور ہر عیب سے پاک ہے۔ رہے ان کی والدہ اور ان پر تہمت تراشنے والے یہود اور انھیں رب قرار دینے والے نصاریٰ ، تو ان کی بات محض شکوک و شبہات پر مبنی ہے، اس میں حق کا کوئی شائبہ نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ ہیں عیسیٰ بن مریم (جن کے اقوال و احوال مذکور ہوئے جس سے ان کا بندہ قبول ہونا معلوم ہوتا ہے نہ جیسے کہ عیسائیوں نے ان کو بندوں کی فہرست سے خارج کرکے خدا تک پہنچا دیا ہے اور نہ ویسے جیسا کہ یہودیوں نے ان کو مقبولیت سے خارج کر کے طرح طرح کی تہمتیں لگائی ہیں) میں (بالکل) سچی بات کہہ رہا ہوں جس میں یہ (افراط وتفریط کرنے والے) لوگ جھگڑ رہے ہیں (چنانچہ یہود و نصاریٰ کے اقوال اوپر معلوم ہوئے اور چونکہ یہود کا قول ظاہراً بھی موجب تنقیص نبی تھا جو کہ بداہتاً باطل ہے اس لیے اس کے رد کی طرف اس مقام پر توجہ نہیں فرمائی بخلاف قول نصارٰی کے کہ ظاہراً مثبت زیادت کمال تھا کہ نبوت کے ساتھ خدا کا بیٹا ہونا ثابت کرتے تھے اس لیے آگے اس کو رد فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اس میں حق تعالیٰ کی تنفیص بوجہ انکار توحید کے لازم آتی ہے حالانکہ) اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ (کسی کو) اولاد بنائے وہ (بالکل) پاک ہے (کیونکہ اس کی یہ شان ہے کہ) کمال کے واسطے اولاد کا ہونا عقلاً نقص ہے) اور (آپ اثبات توحید کے لئے لوگوں سے فرما دیجئے کہ مشرکین بھی سن لیں کہ) بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے سو (صرف) اسی کی عبادت کرو (اور) یہی (خالص خدا کی عبادت کرنا یعنی توحید اختیار کرنا (دین کا) سیدھا راستہ ہے سو (توحید پر باوجود ان عقلی اور نقلی دلائل قائم ہونے کے پھر بھی) مختلف گروہوں نے (اس بارہ میں) باہم اختلاف ڈال دیا (یعنی توحید کا انکار کر کے طرح طرح کے مذاہب ایجاد کرلئے) سو ان کافروں کے لئے ایک بڑے (بھاری) دن کے آجانے سے بڑی خرابی (ہونے والی) ہے (مراد اس سے قیامت کا دن ہے کہ یہ دن ایک ہزار سال دراز اور ہولناک ہونے کی وجہ سے بہت عظیم ہوگا) جس روز یہ لوگ (حساب و جزا کے لئے) ہمارے پاس آویں گے (اس روز) کیسے کچھ شنوا اور بینا ہوجائیں گے۔ (کیونکہ قیامت میں یہ حقائق پیش نظر ہوجاویں گے اور تمام تر غلطیاں رفع ہوجاویں گی) لیکن یہ ظالم آج (دنیا میں کیسی) صریح غلطی میں (مبتلا ہو رہے) ہیں، اور آپ لوگوں کو حسرت کے دن سے ڈرائیے جبکہ (جنت دوزخ کا) اخیر فیصلہ کردیا جاوے گا (جس کا ذکر حدیث میں ہے کہ جنت اور دوزخ والوں کو موت دکھلا کر اس کو ذبح کردیا جاوے گا اور دونوں کو خلود (یعنی ہمیشہ ہمیشہ اسی حال میں زندہ رہنے کا حکم سنا دیا جاوے گا، رواہ الشیخان والترمذی، اور اس وقت کی حسرت کا بیحد ہونا ظاہر ہے) اور وہ لوگ (آج دنیا میں) غفلت میں (پڑے) ہیں اور وہ لوگ ایمان نہیں لاتے (لیکن آخر ایک دن مریں گے) اور تمام زمین اور زمین پر رہنے والوں کے وارث (یعنی آخر مالک) ہم ہی رہ جاویں گے اور یہ سب ہمارے ہی پاس لوٹائے جاویں گے (پھر اپنے کفر و شرک کی سزا بھگتیں گے) ۔- معارف مسائل - (آیت) ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق یہود و نصاریٰ کے بیہودہ خیالات میں افراط وتفریط کا یہ عالم تھا کہ نصاریٰ نے تو تعظیم میں اتنی زیادتی کی کہ ان کو خدا تعالیٰ کا بیٹا بنادیا، اور یہود نے ان کی توہین و تذلیل میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ یوسف نجار کی ناجزئز اولاد میں ہیں۔ معاذاللہ، حق تعالیٰ نے ان دونوں غلط کاروں کی غلطی بتلا کر اس کی صحیح حیثیت ان آیات میں واضح فرمادی۔ (قرطبی)- قَوْلَ الْحَــقِّ بفتح لام اس کی واضح ترکیب نحوی یہ ہے کہ اقول قول الحق اس کی اصل ہے اور بعض قراءتوں میں قول الحق بضم لام بھی ہے تو اس صورت میں مراد یہ ہوگا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خود قول حق ہیں جیسا کہ ان کو کلمة اللہ کا لقب بھی دیا گیا ہے کیونکہ ان کی پیدائش بلا واسطہ سبب ظاہری کے صرف اللہ تعالیٰ کے قول سے ہوئی ہے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ۝ ٠ۚ قَوْلَ الْحَــقِّ الَّذِيْ فِيْہِ يَمْتَرُوْنَ۝ ٣٤- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال :- عَاسَهَا يَعِيسُهَا «2» .- ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34]- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) یہ ہے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا واقعہ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بالکل سچی بات جس میں نصاری شک کر رہے ہیں کہ بعض ان کو اللہ اور بعض اللہ کا بیٹا اور بعض کا شریک کہتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: اس پورے واقعے کو ذکر فرما کر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو افراط و تفریط اختیار کر رکھی ہے وہ حقیقت نہیں ہے۔ نہ وہ الزامات درست ہیں جو یہودیوں نے ان پر لگا رکھے ہیں، اور نہ انہیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننا صحیح ہے جیسا کہ عیسائیوں نے مان رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی بیٹے کی ضرورت نہیں ہے۔