Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یہاں الاحزاب سے مراد کتاب کے فرقے اور خود عیسائیوں کے فرقے ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں باہم اختلاف کیا۔ یہود نے کہا کہ وہ جادوگر اور یوسف نجار کے بیٹے ہیں نصا ریٰ کے ایک فرقے نے کہا کہ وہ ابن اللہ ہیں۔ (کیتھولک) فرقے نے کہا وہ ثالث ثَلَاثلَۃِ (تین خداؤں میں سے تیسرے) ہیں اور تیسرے فرقے یعقوبیہ (آرتھوڈکس) نے کہا، وہ اللہ ہیں۔ پس یہودیوں نے تفریط اور تقصیر کی عیسائیوں نے افراط وغلو (الیسرا لتفاسیر، فتح القدیر) 37۔ 2 ان کافروں کے لئے جنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اس طرح اختلاف اور افراط کا ارتکاب کیا، قیامت والے دن جب وہاں حاضر ہوں گے، ہلاکت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] سیدھی راہ یہ ہے کہ میرا اور تمہارا یعنی سب لوگوں کا خالق اور پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اب جو لوگ اس سیدھی راہ میں رخنے ڈالتے، اللہ کے لئے بیٹے، پوتے، بیٹیاں یا دوسرے شریک تجویز کرتے، پھر ان پر بحثیں کرکے جدا جدا فرقے بنا رہے ہیں انھیں قیامت کے دن کی ہولناک تباہیوں سے خبردار کیجئے اور اس ہلاکت سے ڈرائیے جو اس دن انھیں یقینا پیش آنے والی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْ : عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق حق بات تفصیل سے بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ پھر بنی اسرائیل سے باہر کے کسی گروہ نے نہیں بلکہ خود ان کے اپنے گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ ” مِنْۢ بَيْنِهِمْ “ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ یہود نے انھیں ولد الزنا اور جادوگر قرار دیا اور نصاریٰ کئی گروہوں میں بٹ گئے، کسی نے کہا اللہ مسیح ہی تو ہے۔ (مائدہ : ٧٢) کسی نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ (توبہ : ٣٠) کسی نے کہا مسیح تین (معبودوں) میں سے تیسرا ہے وغیرہ۔ مائدہ (٧٣) یہود نے ان کی شان گھٹانے کی کوشش کی تو نصاریٰ نے انھیں ان کی حد سے بڑھا دیا۔ ہاں اہل حق نے یہی کہا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ یہود ان کی شان گھٹانے اور ان پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے کافر ہوگئے اور نصاریٰ ان کی شان میں غلو کی وجہ سے کافر ہوگئے، البتہ اہل حق ایمان پر قائم رہے۔ - فَوَيْلٌ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۔۔ : ” فَوَيْلٌ“ پر تنوین (تہویل) یعنی اس کی ہولناکی کے اظہار کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑی ہلاکت “ کیا ہے۔ ” مَّشْهَدِ “ یہاں راجح قول میں مصدر میمی ہے، یعنی اس عظیم دن میں حاضری کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے بہت بڑی ہلاکت ہے جنھوں نے کفر کیا، اگر اس دن کی حاضری نہ ہوتی تو یہ لوگ اس ہلاکت سے بچ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ” ان لوگوں کے لیے “ کہنے کے بجائے صراحت سے فرمایا : ” ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا بہت بڑی ہلاکت ہے۔ “ معلوم ہوا کہ اس ویل کا باعث کفر ہے۔ یوم عظیم پچاس ہزار سال کا دن (معارج : ٤) اور اللہ کے سامنے حساب کے لیے پیش ہونے کا دن ہے۔ [ اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِہِمْ۝ ٠ۚ فَوَيْلٌ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْہَدِ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝ ٣٧- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - حزب - الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] - ( ح ز ب ) الحزب - وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے - ويل - قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر .- ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2]- ( و ی ل ) الویل - اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے مونں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ان پر افسوس ہے اس لئئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ويجري علمت مجراه في القسم، فيجاب بجواب القسم - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے - مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔- ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے - چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے بعض نے کہاز ہے کہ اگر اشھد کے ساتھ باللہ نہ بھی ہو تب بھی یہ قسم کے معنی میں ہوگا اور کبھی علمیت بھی اس کے قائم مقام ہوکر قسم کے معنی دیتا ہے اور اس کا جواب بھی جواب قسم کی طرح ہوتا ہے ۔ شاھد اور شھید کے ایک ہی معنی ہیں شھید کی جمع شھداء آتی ہے قرآن میں ہے۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مون ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) اور جس توحید کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں وہ سیدھا راستہ یعنی دین اسلام ہے تو کافروں نے باہم اختلاف ڈال دیا، بعض کہنے لگے کہ یہی اللہ ہیں بعض کہنے لگے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں بعض بولے کہ اللہ کے شریک ہیں سو ان لوگوں کے لیے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں باہم اختلاف کیا قیامت کے دن کے عذاب سے بہت بڑی خرابی ہے دوزخ میں پیپ اور خون کی ایک وادی ہے، اس کا نام ” ویل “ ہے یا یہ کہ اس سے مراد دوزخ کا گڑھا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد عذاب کی سختی ہے، اس دن یہ کافر کیسے شنوا اور بینا ہوجائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْم بَیْنِہِمْج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ مَّشْہَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ )- قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہوگی اور تمام حقائق کھل کر سامنے آئیں گے تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں بھی حقیقت واضح ہوجائے گی۔ چناچہ اس بارے میں جن لوگوں نے من گھڑت عقیدے بنائے اور پھر ان غلط عقائد پر ہی جمے رہے حتیٰ کہ اسی حالت میں انہیں موت آگئی ‘ ایسے لوگوں کے لیے اس دن ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :24 یعنی عیسائیوں کے گروہ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani