44۔ 1 یعنی شیطان کے وسوسے اور اس کے بہکاوے سے آپ جو ایسے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو سننے اور دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ نفع نقصان پہنچانے کی قدرت، تو یہ دراصل شیطان ہی کی پرستش ہے۔ جو اللہ کا نافرمان ہے اور دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر ان کو اپنے جیسا بنانے پر تلا رہتا ہے۔
[٤١] یعنی شیطان کی اطاعت کرنا دراصل اس کی عبادت کرنا ہے، ورنہ معروف معنوں میں تو شیطان کی کوئی بھی عبادت نہیں کرتا۔ شیطان نے تو تمہارے باپ آدم کو سجدہ کرنے کے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرلی تھی۔ مگر آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا۔ پھر بھی تم اسی کی فرمانبرداری کرتے ہو ؟
يٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ ۔۔ : تیسری بات کی ابتدا بھی محبت اور ادب میں ڈوبے ہوئے الفاظ ” ابا جان “ سے کی اور اسے بت پرستی سے منع کرنے اور ہٹانے کے لیے اس کی حقیقی تصویر ایسی کھینچی کہ ہر عقلمند کو اس سے نفرت ہوجائے، یعنی یہی نہیں کہ بت پرستی کسی بھی نفع سے خالی ہے، بلکہ اس میں بیحد نقصان ہے، کیونکہ یہ درحقیقت شیطان کی عبادت ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١١٧) کیونکہ وہی اس پر آمادہ کرتا اور اسے خوش نما بنا کر دکھاتا ہے، خود شیطان کی عبادت تو کوئی نہیں کرتا۔ ”ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَان للرَّحْمٰنِ عَصِيًّا “ میں ” اِنَّ “ کے ساتھ شیطان کی عبادت سے منع کرنے کی وجہ بیان فرمائی، جو یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ سے تمہارے اس رب کا سخت نافرمان ہے جس کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے ناشکرے اور سخت نافرمان کی بات ماننے والا بھی سخت نافرمان ہوگا۔ ہمیشہ کا معنی ’ کَانَ “ سے واضح ہو رہا ہے۔
يٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ ٠ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِيًّا ٤٤- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔
(٤٤) میرے باپ بتوں کی عبادت کرنے میں شیطان کی بات ہرگز مت مانو، شیطان اللہ کی نافرمانی کرنے والا ہے۔
آیت ٤٤ (یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَان للرَّحْمٰنِ عَصِیًّا ) ” - اس شیطان کی فرمانبرداری مت کیجیے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بغاوت اور سرکشی کا ارتکاب کرچکا ہے۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :27 اصل الفاظ ہیں لا تعبد الشیطن ، یعنی شیطان کی عبادت نہ کریں اگرچہ حضرت ابراہیم کے والد اور قوم کے دوسرے لوگ عبادت بتوں کی کرتے تھے ، لیکن چونکہ اطاعت وہ شیطان کی کر رہے تھے ۔ اس لیئے حضرت ابراہیم نے ان کی اس اطاعت شیطان کو عبادت شیطان قرار دیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت محض پوجا اور پرستش ہی کا نام نہیں بلکہ اطاعت کا نام بھی ہے ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی پر لعنت کرتے ہوئے بھی اس کی بندگی بجا لائے تو وہ اس کی عبادت کا مجرم ہے ، کیونکہ شیطان بہرحال کسی پر لعنت کرتے ہوئے بھی اس کی بندگی بجا لائے تو وہ اس کی عبادت کا مجرم ہے ، کیونکہ شیطان بہرحال کسی زمانے میں بھی لوگوں کا معبود ( بمعنی معروف ) نہیں رہا ہے بلکہ ان کے نام پر ہر زمانے میں لوگ لعنت ہی بھیجتے رہے ہیں ۔ ( تشریح کے لیئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن معروف ) جلد سوم ، الکہف ، حاشیہ 49 ۔ 50 ۔ )
21: بتوں کی عبادت کرنے کا خیال درحقیقت شیطان کا ڈالا ہوا خیال تھا، اس لیے بتوں کی عبادت کا مطلب یہی تھا کہ انسان شیطان کو قابل اطاعت سمجھ کر اس کی عبادت کرے۔