خلوص ابراہیم علیہ السلام ۔ اپنے خلیل علیہ السلام کا بیان فرما کر اب اپنے کلیم علیہ السلام کا بیان فرماتا ہے ۔ مُخلَصاً کی دوسری قرأت مُخلِصاً بھی ہے ۔ یعنی وہ بااخلاص عبات کرنے والے تھے ۔ مروی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اے روح اللہ ہمیں بتائیے مخلص شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو محض اللہ کے لئے عمل کرے اسے اس بات کی چاہت نہ ہو کہ لوگ میری تعریفیں کریں ۔ دوسری قرأت میں مُخلَصا ہے یعنی اللہ کے چیدہ اور برگزیدہ بندے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے فرمان باری ہے ( اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ڮ فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُكَ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤ ) 7- الاعراف:144 ) آپ اللہ کے نبی اور رسول تھے پانچ بڑے بڑے جلیل القدر اولو العزم رسولوں میں سے ایک آپ ہیں یعنی ، نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم وعلی سائر الانبیاء اجمعین ۔ ہم نے انہیں مبارک پہاڑطور کی دائیں جانب سے آواز دی سرگوشی کرتے ہوئے اپنے قریب کر لیا ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ آگ کی تلاش میں طور کی طرف یہاں آگ دیکھ کر بڑھے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اس قدر قریب ہوگئے کہ قلم کی آواز سننے لگے ۔ مراد اس سے توراۃ لکھنے کی قلم ہے ۔ سدی کہتے ہیں آسمان میں گئے اور کلام باری سے مشرف ہوئے ۔ کہتے ہیں انہی باتوں میں یہ فرمان بھی ہے کہ اے موسیٰ جب کہ میں ترے دل کو شکر گزار اور تیری زبان کو اپنا ذکر کرنے والی بنا دوں اور تجھے ایسی بیوی دوں جو نیکی کے کاموں میں تیری معاون ہو تو سمجھ لے کہ میں نے تجھ سے کوئی بھلائی اٹھا نہیں رکھی ۔ اور جسے میں یہ چیزیں نہ دوں سمجھ لے کہ اسے کوئی بھلائی نہیں ملی ۔ ان پر ایک مہربانی ہم نے یہ بھی کی کہ ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر ان کی امداد کے لئے ان کے ساتھ کر دیا جیسے کہ آپ کی چاہت اور دعا تھی ۔ فرمایا تھا ( وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْٓ ۡ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ 34 ) 28- القصص:34 ) ، اور آیت میں ہے ( قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى 36 ) 20-طه:36 ) موسیٰ تیرا سوال ہم نے پورا کر دیا ۔ آپ کی دعا کے لفظ یہ بھی وارد ہیں ( فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ 13 ) 26- الشعراء:13 ) ، ہارون کو بھی رسول بنا الخ کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ دعا اور اس سے بڑھ کر شفاعت کسی نے کسی کی دنیا میں نہیں کی ۔ حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیھما ۔
51۔ 1 مخلص، مصطفیٰ ، مجتبیٰ اور مختار، چاروں الفاظ کا مفہوم ایک ہے یعنی رسالت وپیامبری کے لیے چنا ہوا پسندیدہ شخص رسول بمعنی مرسل ہے (بھیجا ہوا) اور نبی کے معنی اللہ کا پیغام لوگوں کو سنانے والا یا وحی الہٰی کی خبر دینے والا تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہے کہ اللہ جس بندے کو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے چن لیتا ہے اور اسے اپنی وحی سے نوازتا ہے، اسے رسول اور نبی کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اہل علم میں ایک بحث یہ چلی آرہی ہے کہ آیا کہ ان دونوں میں فرق ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے ؟ فرق کرنے والے بالعموم کہتے ہیں کہ صاحب شریعت یا صاحب کتاب کو رسول اور نبی کہا جاتا ہے اور جو پیغمبر اپنی سابقہ پیغمبر کی کتاب یا شریعت کے مطابق ہی لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا رہا، وہ صرف نبی ہے، رسول نہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ان کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوا ہے اور بعض جگہ مقابلہ کرنے والے بھی آئے ہیں، مثلاً سورة الحج آیت 52 میں۔ ْْ
[٤٧] نبی اور رسول کا فرق :۔ سیدنا اسحاق اور یعقوب کی اولاد میں سے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر غالبا ً اس وجہ سے کیا جارہا ہے کہ آپ اولوالعزم پیغمبر، مشرع اعظم اور قدآور شخصیت ہیں اور آپ کو فرمایا جارہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے ان کا ذکر کیجئے۔ آپ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں انتہائی مخلص تھے۔ آپ نبی بھی تھے اور صاحب شریعت رسول بھی۔ نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ نبی عام ہے، اور رسول خاص۔ یعنی ہر رسول نبی تو ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ روایات کے مطابق رسولوں کی تعداد صرف ٣١٣ یا ٣١٥ تھی جبکہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ ( نبی اور رسول کے فرق کے لئے دیکھئے سورة مائدہ کی آیت نمبر ٦٧ کا حاشیہ)
ۧوَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مُوْسٰٓى ۡ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا : ” مُخْلَصًا “ کا معنی ہے ” خالص کیا ہوا، چنا ہوا۔ “ اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے فرمان : (وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ ) [ طٰہٰ : ٤١ ] (اور میں نے تجھے خاص طور پر اپنے لیے بنایا ہے) ، طٰہٰ کی آیت (١٣) اور اعراف کی آیت (١٤٤) سے ہوتی ہے۔- وَّكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا : ” رَسُوْلًا “ کا لفظی معنی بھیجا ہوا ہے اور ” نَّبِيًّا “ ، ” نَبَأٌ“ سے ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر ہے جو فاعل اور مفعول دونوں معنوں میں آتا ہے۔ مفعول ہو تو وہ جسے اللہ کی طرف سے خبر دی جائے اور اگر فاعل ہو تو وہ جو اللہ کی طرف سے خبر دینے والا ہو۔ ” نَبَأٌ“ عام خبر کو نہیں بلکہ اس خبر کو کہتے ہیں جو بڑی عجیب یا اہم ہو۔ قرآن مجید میں یہ دونوں لفظ عموماً ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوئے ہیں، تاہم بعض مقامات ایسے ہیں جن سے دونوں کے مرتبہ یا کام کی نوعیت کے اعتبار سے کافی فرق پایا جاتا ہے۔ دیکھیے سورة حج (٥٢) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جس کو اللہ تعالیٰ کی وحی آئی وہ نبی، ان میں سے جو خاص ہیں اور امت رکھتے ہیں یا کتاب، وہ رسول ہیں۔ “ (موضح)- یہاں ” رَسُوْلًا “ کے بعد ” نَّبِيًّا “ لانے کی ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پیغام پہنچانے کے لیے کوئی بھی بھیجا جائے اسے رسول کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھیجے تو اس کا رسول، کوئی اور بھیجے تو اس کا رسول۔ جیسا کہ بعض مفسرین کے قول کے مطابق سورة یس میں مذکور مرسلین کسی نبی کی طرف سے بھیجے ہوئے داعی تھے اور جیسا کہ یزید بن شیبان (رض) فرماتے ہیں کہ ہم عرفات میں ایک جگہ وقوف کیے ہوئے تھے (ان کے شاگرد عمرو بن عبداللہ وہ جگہ امام کی جگہ سے دور بیان کرتے تھے) تو ہمارے پاس ابن مربع انصاری آئے اور انھوں نے کہا : ( إِنِّيْ رَسُوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیْکُمْ ) [ أبوداوٗد، المناسک، باب موضع الوقوف بعرفۃ : ١٩١٩۔ ابن ماجہ : ٣٠١١ و صححہ الألباني ] ” میں تمہاری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رسول یعنی پیغام لانے والا ہوں۔ “ اس آیت میں ” رسول “ کی تاکید ” نبیا “ کے ساتھ اس لیے فرمائی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو کسی کی طرف سے بھیجا ہوا محض ایک داعی نہ سمجھا جائے، بلکہ وہ نبی بھی تھے جو وحی الٰہی سے سرفراز تھے۔
خلاصہ تفسیر - اور اس کتاب (یعنی قرآن) میں موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجئے (یعنی لوگوں کو سنائیے ورنہ کتاب میں ذکر کرنے والا تو فی الحقیقت اللہ تعالیٰ ہے) وہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے خاص کئے ہوئے (بندے) تھے اور وہ رسول بھی تھے، نبی بھی تھے اور ہم نے ان کو کوہ طور کی داہنی جانب سے آواز دی اور ہم نے ان کو راز کی باتیں کرنے کے لئے مقرب بنایا اور ہم نے ان کو اپنی رحمت (اور عنایت) سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر عطا کیا (یعنی ان کی درخواست کے موافق ان کو نبی کیا کہ ان کی مدد کریں) اور اس کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجئے بلا شبہ وہ وعدے کے (بڑے) سچے تھے اور وہ رسول بھی تھے نبی بھی تھے اور پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے اور اس کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجئے بیشک وہ بڑی راستی والے نبی تھی اور ہم نے ان کو (کمالات میں) بلند رتبہ تک پہنچا دیا یہ (حضرات جن کا شروع سورت سے یہاں تک ذکر ہوا زکریا (علیہ السلام) سے ادریس (علیہ السلام) تک یہ) وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے (خاص) انعام فرمایا ہے (چنانچہ نبوت سے بڑھ کر کون سی نعمت ہوگی) منجملہ (دیگر) انبیاء (علیہم السلام) کے (یہ وصف سب مذکورین میں مشترک ہے اور یہ سب) آدم (علیہ السلام) کی نسل سے (تھے) اور بعض ان میں ان لوگوں کی نسل سے (تھے) جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا تھا (چنانچہ بجز ادریس (علیہ السلام) کے کہ وہ اجداد نوح (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں باقی سب میں یہ وصف ہے) اور (بعضے ان میں) ابراہیم (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کی نسل سے (تھے چناچہ حضرت زکریا و یحییٰ و عیسیٰ و موسیٰ (علیہم السلام) دونوں کی اولاد میں تھے اور اسحاق و اسماعیل و یعقوب (علیہم السلام) صرف حضرت ابراہیم کی اولاد میں تھے) اور (یہ سب حضرات) ان لوگوں میں سے (تھے) جن کو ہم نے ہدایت فرمائی اور ان کو مقبول بنایا (اور باوجود اس مقبولیت و اختصاص کے ان سب حضرات موصوفین کی عبدیت کی یہ کیفیت تھی کہ) جب ان کے سامنے (حضرت) رحمٰن کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو (غایت افتقار و انکسار وانقیاد کے اظہار کے لئے) سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے (زمین پر) گر جاتے تھے۔- معارف و مسائل - كَانَ مُخْلَصًا، مخلص بفتح لام وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خالص کرلیا ہو یعنی جس کو غیر اللہ کی طرف التفات نہ ہو، اس نے اپنے نفس اور تمام خواہشات کو اللہ کی مرضی کے لئے مخصوص کردیا ہو۔ یہ شان خصوصی طور پر انبیاء (علیہم السلام) کی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہے اِنَّآ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ ، یعنی ہم نے ان کو مخصوص کردیا ہے ایک خاص کام یعنی دار آخرت کی یاد کے لئے۔ امت میں جو حضرات کاملین انبیاء (علیہم السلام) کے نقش قدم پر ہوں ان کو بھی اس مقام کا ایک درجہ ملتا ہے اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ قدرتی طور پر گناہوں اور برائیوں سے بچا دئیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت ان کے ساتھ ہوتی ہے۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مُوْسٰٓى ٠ۡاِنَّہٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا ٥١- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔
(٥١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجیے، وہ کفر وشرک اور تمام بری باتوں سے پاک اور عبادت و توحید کے لیے اللہ تعالیٰ کے خاص کیے ہوئے بندے تھے، اور ان کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی طرف نبی اور رسول بنا کر بھیجا تھا۔
آیت ٥١ (وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ مُوْسٰٓیز اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ) ” - ہم نے انہیں خاص اپنا بنا لیا تھا۔ یہ مضمون سورة طٰہٰ (آیت ٤١) میں بھی آئے گا۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :29 اصل میں لفظ مخلص استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں خالص کیا ہوا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسی ایک ایسے شخص جن کو اللہ تعالی نے خالص اپنا کر لیا تھا ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :30 رسول کے معنی ہیں فرستادہ بھیجا ہوا اس معنی کے لحاظ سے عربی زبان میں قاصد پیغام بر ، ایلچی اور سفیر کے لئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور قرآن میں یہ لفظ یا تو ان ملائک کے لئے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے کسی کار خاص پر بھیجے جاتے ہیں یا پھر ان انسانوں کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالی نے خلق کی طرف اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مامور فرمایا ۔ نبی کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض اس کو لفظ نبا سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی خبر کے ہیں ، اور اس اصل کے لحاظ سے نبی کے معنی خبر دینے والے کے ہیں ۔ بعض کے نزدیک اس کا مادہ نبو ہے ، یعنی رفعت اور بلندی اور اس معنی کے لحاظ سے نبی کا مطلب ہے بلند مرتبہ اور عالی مقام ۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دراصل نبی ہے جس کے معنی طریق اور راستے کے ہیں ، اور انبیاء کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ ہیں ۔ پس کسی شخص کو رسول نبی کہنے کا مطلب یا تو عالی مقام پیغمبر ہے ، اللہ تعالی کی طرف سے خبریں دینے والا پیغمبر یا پھر وہ پیغمبر جو اللہ کا راستہ بتانے والا ہے ۔ قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ بالعموم ہم معنی استعمال ہوئے ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے ۔ اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ ۔ لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے ۔ مثلاً سورہ حج ، رکوع 7 میں فرمایا وما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبی الا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی دو الگ اصطلاحیں ہیں جن کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے ۔ اسی بنا پر اہل تفسیر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس فرق کی نوعیت کیا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعی دلائل کے ساتھ رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کا تعین نہیں کر سکا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جو بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول کا لفظ ان جلیل القدر ہستیوں کے لئے بولا گیا ہے جن کو عام انبیاء کی بہ نسبت زیادہ اہم منصب سپرد کیا گیا تھا ۔ اسی کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت ابو امامہ سے اور حاکم نے حضرت ابوذر سے نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے 313 یا 315 بتائی اور انبیاء کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ایک لاکھ 24 ۔ ہزار بتائی ۔ اگرچہ اس حدیث کی سندیں ضعیف ہیں ، مگر کئی سندوں سے ایک بات کا نقل ہونا اس کے ضعف کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے ۔
26: حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کا مفصل واقعہ اگلی سورت میں آرہا ہے