[٤٨] سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا طور الایمن جا پہنچنا :۔ جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سیدنا شعیب (علیہ السلام) کے ہاں سے فارغ ہو کر مدین سے مصر کی طرف جارہے تھے تو یہ آواز ان کی دائیں طرف سے ہوئی کیونکہ وہ طور جو بیت المقدس کے پاس ہے مدین سے مصر آنے والوں کی دائیں طرف پڑتا ہے اور وہی طور مراد ہے، سویس کا طور مراد نہیں کیونکہ وہ بائیں طرف پڑتا ہے۔- [٤٩] سیدنا موسیٰ کی اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی :۔ قربنٰہ نجیّا۔ کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے اسے راز کی بات کہنے کے لئے اپنے پاس بلا لیا، دوسرا یہ کہ ہم نے راز کی بات کہہ کر اسے اپنا مقرب بنا لیا اور تیسرا یہ کہ ہم نے سیدنا موسیٰ کو آسمانوں پر اٹھا لیا اور انہوں نے قلم چلنے کی آواز سنی جو لوح محفوظ پر چلتی ہے۔ سیدنا ابن عباس (رض) اور تابعین کی ایک جماعت سے یہی مطلب منقول ہے۔
وَنَادَيْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ ۔۔ : طور کا معنی پہاڑ ہے، بعض خاص پہاڑوں کا نام بھی طور ہے، جیسے ایلہ کے قریب صحرائے سینا کے ایک پہاڑ کو طور سینا یا طور سینین کہتے ہیں۔ صاحب قاموس نے چند اور مقامات پر واقع پہاڑوں کا بھی ذکر کیا ہے جنھیں طور کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ موسیٰ (علیہ السلام) کے مدین سے واپس مصر جاتے ہوئے پیش آیا۔ اس کی تفصیل سورة طٰہٰ (٩ تا ٣٦) ، نمل (٧ تا ١٤) اور قصص (٢٩ تا ٣٥) میں موجود ہے۔ ابن کثیر نے سورة قصص کی آیت (٣٠) ( نُوْدِيَ مِنْ شَا ٨ الْوَادِ الْاَيْمَنِ ) کی تفسیر میں فرمایا : ” یعنی وادی کی اس جانب سے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے دائیں طرف پہاڑ کے مغربی کنارے سے ملتی تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ اِذْ قَضَيْنَآ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ ) [ القصص : ٤٤ ] ” اور اس وقت تو مغربی جانب نہیں تھا جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم کی وحی کی۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے آگ کی طرف رخ قبلہ کی جانب کیا تھا اور انھوں نے پہاڑ کے مغربی حصے کو اپنی دائیں طرف کیا ہوا تھا۔ “ آلوسی نے فرمایا : ” مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَيْمَنِ “ سے مراد پہاڑ کی وہ جانب ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی دائیں جانب تھی، کیوں کہ خود پہاڑ کا کوئی دایاں ہوتا ہے نہ بایاں۔ ” الْاَيْمَنِ “ ” یُمْنٌ“ سے بھی ہوسکتا ہے جس کا معنی برکت ہے، یعنی اس کی مبارک جانب سے، اس معنی کے لحاظ سے پہاڑ کی مبارک جانب بھی مراد ہوسکتی ہے، مگر پہلا معنی بہتر ہے۔ ” نَادَيْنٰهُ “ (ہم نے اسے آواز دی) آواز دینے سے مراد اس جانب سے اللہ کا کلام ظاہر ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا کلام الفاظ کی صورت میں سنا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو سنا تھا اس میں نہ حرف تھے، نہ آواز تھی۔ انھوں نے صرف کانوں سے نہیں بلکہ تمام اعضاء کے ساتھ سنا تھا، جس سے انھیں یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اسی لیے کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ہم نے اسے طور کی مبارک جانب سے آتے ہوئے آواز دی، مگر یہ بات عقل کی دسترس سے باہر ہے اور احادیث کے دلائل اس کے صاف خلاف ہیں۔ - اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا آواز دینا اور کلام کرنا ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر اس کے کلام کے بھی منکر ہیں، اس لیے وہ نہ اس میں حروف مانتے ہیں، نہ آواز اور نہ اس کا کانوں سے سنا جانا۔ مگر الفاظ اور آواز سے خالی چیز کو کلام کہنا جس طرح عقل سے بعید ہے اسی طرح قرآن و حدیث کے بھی صریح خلاف ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٤٣) ، کہف (١٠٩) اور توبہ (٦) ۔- وَقَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا : ” نَجِيًّا “ ” فَعِیْلٌ“ بمعنی ” مُفَاعِلٌ“ ہے، جیسے ” جَلِیْسٌ“ بمعنی ” مُجَالِسٌ“ اور ” نَدِیْمٌ“ بمعنی ” مُنَادِمٌ“ ہے۔ ” مَنَاجَاۃٌ“ ایک دوسرے سے چھپی آواز میں بات کرنا، سرگوشی کرنا، یعنی ہم نے اسے سرگوشی کرتے ہوئے قریب کرلیا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ان سے کلام ہوا، بیچ میں فرشتہ نہ تھا۔ “ (موضح) اللہ تعالیٰ نے جس طرح واضح الفاظ میں موسیٰ (علیہ السلام) سے خود کلام کرنے کا ذکر فرمایا ہے کسی اور کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا۔
مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ ، یہ مشہور پہاڑ ملک شام میں مصر اور مدین کے درمیان واقع ہے آج بھی اسی نام سے مشہور ہے حق تعالیٰ نے اس کو بھی بہت سی چیزوں میں ایک خصوصیت و امتیاز دیا ہے۔- الْاَيْمَنِ ، طور کی یہ داہنی جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعتبار سے بتلائی گئی ہے کیونکہ وہ مدین سے چلے تھے جب طور کے بالمقابل پہنچے تو طور ان کی داہنی جانب تھا۔ نَجِيًّا، سرگوشی اور خصوصی کلام کو مناجات اور جس شخص سے ایسا کلام کیا جائے اس کو نجی کہا جاتا ہے۔
وَنَادَيْنٰہُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَيْمَنِ وَقَرَّبْنٰہُ نَجِيًّا ٥٢- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ - طور - طَوَارُ الدّارِ وطِوَارُهُ : ما امتدّ منها من البناء، يقال : عدا فلانٌ طَوْرَهُ ، أي : تجاوز حدَّهُ ، ولا أَطُورُ به، أي : لا أقرب فناء ه . يقال : فعل کذا طَوْراً بعد طَوْرٍ ، أي : تارة بعد تارة، وقوله :- وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] ، قيل : هو إشارة إلى نحو قوله تعالی: خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ، وقیل : إشارة إلى نحو قوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] ، أي : مختلفین في الخَلْقِ والخُلُقِ. والطُّورُ اسمُ جبلٍ مخصوصٍ ، وقیل : اسمٌ لكلّ جبلٍ وقیل : هو جبل محیط بالأرض «2» . قال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] ، وَطُورِ سِينِينَ- [ التین 2] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] .- ( ط و ر )- طوارا لدار وطوارھ کے معنی گھر کی عمارت کے امتداد یعنی لمبا ہونے اور پھیلنے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ عدا فلان طوارہ فلاں اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ۔ لاوطور بہ میں اسکے مکان کے صحن کے قریب تک نہیں جاؤں گا ۔ فعل کذا طورا بعد طور اس نے ایک بار کے بعد دوسری باریہ کام کیا اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کہ اطوارا سے ان مختلف منازل ومدارج کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت : ۔ خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ہم نے تم کو ( پہلی بار بھی ) تو پیدا کیا تھا ( یعنی ابتداء میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بناکر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بناکر پھر اس سے بوٹی بناکر ۔ میں مذکور ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مختلف احوال مراد ہیں جن کی طرف آیت : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے یعنی جسمانی اور اخلاقی تفاوت جو کہ ہر معاشرہ میں نمایاں طور پر پا یا جاتا ہے ۔ الطور ( ایلہ کے قریب ایک خاص پہاڑ کا نام ہے) اور بعض نے کہا ہے کہ ہر پہاڑ کو طور کہہ سکتے ہیں اور بعض کے نزدیک طور سے وہ سلسلہ کوہ مراد ہے جو کرہ ارض کو محیط ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] کوہ طور کی قسم اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے ۔ وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے تھے ۔ وَطُورِ سِينِينَ [ التین 2] اور طورسنین کی ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کر کھڑا کیا ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے - نجو) سرگوشي)- والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا - [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80]- ( ن ج و )- النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔
(٥٢) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور کے دائیں جانب سے آواز دی اور ہم نے ان کو مصاحب خاص بنایا یہاں تک کہ قلم کی آواز انہوں نے سنی۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :31 کوہ طور کے داہنی جانب سے مراد اس کا مشرقی دامن ہے ۔ چونکہ حضرت موسی مدین سے مصر جاتے ہوئے اس راستہ سے گزر رہے تھے جو کوہ طور کے جنوب سے جاتا ہے ، اور جنوب کی طرف سے اگر کوئی شخص طور کو دیکھے تو اس کے دائیں جانب مشرق اور بائیں جانب مغرب ہوگا ، اس لئے حضرت موسی کی نسبت سے طور کے مشرقی دامن کو داہنی جانب فرمایا گیا ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بجائے خود پہاڑ کا کوئی دایاں یا بایاں رخ نہیں ہوتا ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :32 تشریح کے لیئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، النساء حاشیہ 206 ۔