ابو الحجاز علیہ السلام ۔ حضرت اسماعیل بن حضرت ابراہیم علیہما السلام کا ذکر خیر بیان ہو رہا ہے آپ سارے حجاز کے باپ ہیں جو نذر اللہ کے نام کی مانتے تھے جو عبادت کرنے کا ارادہ کرتے تھے پوری ہی کرتے تھے ۔ ہر حق ادا کرتے تھے ہر وعدے کی وفا کرتے تھے ۔ ایک شخص سے وعدہ کیا کہ فلاں جگہ آپ کو ملوں گا وہاں آپ آجانا ۔ حسب وعدہ حضرت اسماعیل علیہ السلام وہاں گئے لیکن وہ شخص نہیں آیا تھا ۔ آپ اس کے انتظار میں وہیں ٹھیرے رہے یہاں تک کہ ایک دن رات پورا گزر گیا اب اس شخص کو یاد آیا اس نے آکر دیکھا کہ آپ وہیں انتظار میں ہیں پوچھا کہ کیا آپ کل سے یہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا جب وعدہ ہو چکا تھا تو پھر میں آپ کے آئے بغیر کیسے ہٹ سکتا تھا اس نے معذرت کی کہ میں بالکل بھول گیا تھا ۔ سفیان ثوری رحمۃاللہ تو کہتے ہیں یہیں انتظار میں ہی آپ کو ایک سال کامل گزر چکا تھا ۔ ابن شوزب کہتے ہیں وہیں مکان کر لیا تھا ۔ عبداللہ بن الحما کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے میں نے آپ سے کچھ تجارتی لین دین کیا تھا میں چلا گیا اور یہ کہہ گیا کہ آپ یہیں ٹھہریے میں ابھی واپس آتا ہوں پھر مجھے خیال ہی نہ رہا وہ دن گزرا وہ رات گزری دوسرا دن گزر گیا تیسرے دن مجھے خیال آیا تو دیکھا آپ وہیں تشریف فرما ہیں ۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھ مشقت میں ڈال دیا میں آج تین دن سے یہیں تمہارا انتظار کرتا رہا ۔ ( خرائطی ) یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس وعدے کا ذکر ہے جو آپ نے بوقت ذبح کیا تھا کہ اباجی آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے ۔ چنانچہ فی الواقع آپ نے وعدے کی وفا کی اور صبرو برداشت سے کام لیا ۔ وعدے کی وفا نیک کام ہے اور وعدہ خلافی بہت بری چیز ہے ۔ قرآن کریم فرماتا ہے ایمان والو وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے اللہ کے نزدیک یہ بات نہایت ہی غضبناکی کی ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں باتوں میں جھوٹ ، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت ۔ ان آفتوں سے مومن الگ تھلگ ہوتے ہیں یہی وعدے کی سچائی حضرت اسماعیل علیہ السلام میں تھی اور یہی پاک صفت جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی تھی ۔ کبھی کسی سے کسی وعدے کے خلاف آپ نے نہیں کیا ۔ آپ نے ایک مرتبہ ابو العاص بن ربیع کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے مجھ سے جو بات کی سچی کی اور جو وعدہ اس نے مجھ سے کیا پورا کیا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تخت خلافت نبوی پر قدم رکھتے ہی اعلان کر دیا کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وعدہ کیا ہو میں اسے پورا کرنے کے لیے تیار ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جس کا قرض ہو میں اس کی ادائیگی کے لیے موجود ہوں ۔ چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا مال آیا تو میں تجھے تین لپیں بھر کر دونگا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب بحرین کا مال آیا تو آپ نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوا کر فرمایا لو لپ بھر لو ۔ آپ کی لپ میں پانچ سو درہم آئے حکم دیا کہ تین لپوں کے پندرہ سو درہم لے لو ۔ پھر حضرت اسماعیل کا رسول نبی ہونا بیان فرمایا ۔ حالانکہ حضرت اسحاق علیہ السلام کا صرف نبی ہونا بیان فرمایا گیا ہے اس سے آپ کی فضیلت اپنے بھائی پر ثابت ہوتی ہے ۔ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے اللہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پسند فرمایا ، الخ ۔ پھر آپ کی مزید تعریف بیان ہو رہی ہے کہ آپ اللہ کی اطاعت پرصابر تھے اور اپنے گھرانے کو بھی یہی حکم فرماتے رہتے تھے ۔ یہی فرمان اللہ تعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ( وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۭ لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ۭ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى ١٣٢ ) 20-طه:132 ) ، اپنی اہل وعیال کو نماز کا حکم کرتا رہ اور خود بھی اس پر مضبوطی سے عامل رہ ۔ اور آیت میں ہے ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ Č ) 66- التحريم:6 ) ، اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنیے اہل وعیال کو اس آگ سے بچا لو جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ۔ جہاں عذاب کرنے والے فرشتے رحم سے خالی زور آور اور بڑے سخت ہیں ۔ ناممکن ہے کہ اللہ کے حکم کا وہ خلاف کریں بلکہ جو ان سے کہا گیا ہے اسی کی تابعداری میں مشغول ہیں ۔ پس مسلمانوں کو حکم الہٰی ہو رہا ہے کہ اپنے گھر بار کو اللہ کی باتوں کی ہدایت کرتے رہیں گناہوں سے روکتے رہیں یونہی بےتعلیم نہ چھوڑیں کہ وہ جہنم کا لقمہ بن جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس مرد پر اللہ کا رحم ہو جو رات کو تہجد پڑھنے کے لئے اپنے بستر سے اٹھتا ہے پھر اپنی بیوی کو اٹھاتا ہے اور اگر وہ نہیں اٹھتی تو اس کے منہ پر پانی چھڑک کر اسے نیند سے بیدار کرتا ہے اس عورت پر بھی اللہ کی رحمت ہو جو رات کو تہجد پڑھنے کے لئے اٹھتی ہے ۔ پھر اپنے میاں کو جگاتی ہے اور نہ جاگے تو اس کے منہ پر پانی کا چھینٹا ڈالتی ہے ( ابو داؤد ، ابن ماجہ ) آپ کا فرمان ہے کہ جب انسان رات کو جاگے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے اور دونوں دو رکعت بھی نماز کی ادا کرلیں تو اللہ کے ہاں اللہ کا ذکر کرنے والے مردوں عورتوں میں دونوں کے نام لکھ لئے جاتے ہیں ( ابوداؤد ، نسائی ابن ماجہ )
[٥١] سیدنا اسماعیل کے اوصاف وخصائل :۔ سیدنا ابراہیم کے دوسرے اور بڑے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ تھے۔ یہ نبی تھے اور رسول بھی جبکہ سیدنا اسحاق نبی تھے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ سیدنا اسماعیل عرب حجاز کے مورث اعلیٰ ہیں (تفصیل کے لئے سورة ابراہیم کی آیت نمبر ٣٧ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے) آپ کو ابراہیمی شریعت دے کر بنی جرہم کی طرف مبعوث کیا گیا۔ رسول اللہ انہی کی اولاد سے ہیں آپ کا صادق الوعد ہونا مشہور تھا۔ اللہ سے یا بندوں سے جو وعدہ کیا اسے ضرور پورا کرتے تھے۔ خواہ اس وعدہ وفائی میں جان تک قربان کرنی پڑے۔ باپ سیدنا ابراہیم نے اللہ کی راہ میں جان کی قربانی کے لئے کہا تو فورا ً تیار ہوگئے اور وعدہ کیا کہ میں اس معاملہ میں بھی انشاء اللہ صبر کروں گا۔ چناچہ آپ نے کمال اطاعت کا مظاہرہ کرکے یہ وعدہ بھی پورا کیا۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ ۔۔ : یہ پانچواں قصہ اسماعیل (علیہ السلام) کا ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے تھے اور تمام حجاز کے باپ۔ (ابن کثیر) گو تمام انبیاء وعدے کے سچے ہوتے ہیں مگر اسماعیل (علیہ السلام) میں یہ صفت خاص طور پر پائی جاتی تھی۔ سب سے پہلے تو ان میں یہ وصف تھا کہ وہ وعدے کے ساتھ ” ان شاء اللہ “ کہہ لیا کرتے تھے، جیسا کہ انھوں نے والد سے وعدہ کرتے وقت کہا تھا : (سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ) [ الصافات : ١٠٢ ] ” اگر اللہ نے چاہا تو تو ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ “ پھر یہ وعدے کی سچائی ہی تھی کہ انھوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا کہ ذبح ہوتے وقت صبر کروں گا، پھر بےدھڑک چھری کے نیچے لیٹ گئے اور اف تک نہ کیا۔ اس سے بڑھ کر وعدہ وفائی کیا ہوگی ؟ وعدہ پورا کرنا ایمان ہے اور وعدہ خلافی نفاق۔ ابوسفیان نے ہرقل کے پاس اقرار کیا تھا : ( یَأْمُرُنَا بالصَّلَاۃِ وَالصَّدَقَۃِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَاء بالْعَھْدِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَۃِ ) [ بخاري، الجھاد، والیسر، باب دعاء النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إلی الإسلام۔۔ : ٢٩٤١ ] کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں نماز، سچ، پاک دامنی، وعدہ پورا کرنے اور امانت ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وعدہ خلافی کو منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک قرار دیا۔ [ بخاری، الإیمان، باب علامات المنافق : ٣٣، عن أبي ہریرہ (رض) ]- 3 یہاں طبری اور ابن کثیر نے سہل بن عقیل سے نقل کیا ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) نے ایک آدمی سے اس کے آنے تک ایک جگہ میں رہنے کا وعدہ کیا، وہ بھول گیا تو ایک دن رات اس کے آنے تک وہیں ٹھہرے رہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ۡ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ) اور سفیان ثوری سے نقل کیا ہے کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ ایک سال وہیں ٹھہرے رہے۔ مگر یہ دونوں روایات بعض علماء کے اقوال ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرگز بیان نہیں فرمائیں۔ ظاہر ہے ان دونوں بزرگوں نے یہ روایات بنی اسرائیل سے لی ہیں اور ہم اہل کتاب کی کسی بات کو سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔ - 3 سنن ابی داؤد وغیرہ میں اسی طرح کا واقعہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بھی مروی ہے کہ نبوت سے پہلے ایک آدمی کے آنے تک ٹھہرنے کے وعدے کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین دن رات وہیں ٹھہرے رہے، مگر شیخ البانی (رض) نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔- وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا : اللہ تعالیٰ نے اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کو صرف نبی (مریم : ٤٩) اور اسماعیل (علیہ السلام) کو ” وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا “ فرمایا، اس سے ان کے بلند مرتبے کا اظہار ہوتا ہے۔ اسماعیل (علیہ السلام) بنو جرہم کی طرف رسول تھے، جن کے وہ داماد بھی تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی مِنْ وَلَدِ إِبْرَاھِیْمَ إِسْمَاعِیْلَ ) [ ترمذي، المناقب عن رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب ما جاء في فضل النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٣٦٠٥ ]” اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا۔ “
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ ، ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد حضرت اسماعیل بن ابراہیم (علیہ السلام) ہیں مگر ان کا ذکر ان کے والد اور بھائی ابراہیم و اسحٰق کے ذکر کے ساتھ نہیں فرمایا بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر درمیان میں آنے کے بعد ان کا ذکر فرمایا۔ شاید اس سے مقصود ان کے ذکر کا خاص اہتمام ہو کہ ضمنی لانے کے بجائے مستقلاً ذکر کیا گیا اور یہاں جتنے انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا گیا ہے ان میں ان کے زمانہ بعثت کی ترتیب نہیں رکھی گئی کیونکہ ادریس (علیہ السلام) جن کا ذکر ان سب کے بعد آرہا ہے وہ زمانے کے لحاظ سے ان سب سے مقدم ہیں۔- كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ، ایفاء وعدہ ایک ایسا خلق حسن ہے کہ ہر شریف آدمی اس کو ضروری سمجھتا ہے اور اس کے خلاف کرنے کو ایک رذیل حرکت قرار دیا جاتا ہے حدیث میں وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت بتلایا ہے، اسی لئے اللہ کا کوئی نبی و رسول ایسا نہیں جو صادق الوعد نہ ہو مگر اس سلسلہ کلام میں خاص خاص انبیاء (علیہم السلام) کے ذکر کے ساتھ کوئی خاص وصف بھی ذکر کیا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ وصف دوسروں میں نہیں بلکہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان میں یہ خاص صفت ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے جیسے ابھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے ساتھ ان کا مخلص ہونا ذکر فرمایا ہے حالانکہ یہ صفت بھی تمام انبیاء (علیہم السلام) میں عام ہے مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس میں ایک خاص امتیاز تھا اس لئے ان کے ذکر میں اس کا ذکر فرمایا گیا۔- حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا صدق وعدہ میں امتیاز اس بناء پر ہے کہ انہوں نے جس چیز کا وعدہ اللہ سے یا کسی بندہ سے کیا اس کو بڑی مضبوطی اور اہتمام سے پورا کیا، انہوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اپنے آپ کو ذبح کرنے کے لئے پیش کردیں گے اور اس پر صبر کریں گے اس میں پورے اترے۔ ایک شخص سے ایک جگہ ملنے کا وعدہ کیا وہ وقت پر نہ آیا تو اس کے انتظار میں تین دن اور بعض روایات میں ایک سال اس کا انتظار کرتے رہے (مظہری) اور ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ترمذی میں بروایت عبداللہ بن ابی الحمساء ایسا ہی واقعہ وعدہ کرکے تین دن تک اسی جگہ انتظار کرنے کا منقول ہے۔ (قرطبی)- ایفائے وعدہ کی اہمیت اور اس کا درجہ :- ایفائے وعدہ انبیاء و صلحاء کا وصف خاص اور تمام شریف انسانوں کی عادت ہے اس کے خلاف کرنا فساق فجار رذیل لوگوں کی خصلت ہے۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے العدة دین، وعدہ ایک قرض ہے یعنی جس طرح قرض کی ادائیگی انسان پر لازم ہے اسی طرح وعدہ پورا کرنے کا اہتمام بھی لازم ہے۔ دوسری ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں وای المومن واجب یعنی وعدہ مومن کا واجب ہے۔- حضرات فقہاء نے باتفاق یہ فرمایا ہے کہ وعدہ کا قرض ہونا اور ایفاء وعدہ کا واجب ہونا اس معنی میں ہے کہ بلا عذر شرعی اس کو پورا نہ کرنا گناہ ہے لیکن وہ ایسا قرض نہیں جس کی چارہ جوئی عدالت سے کی جاسکے اور زبردستی وصول کیا جاسکے جس کو فقہاء کی اصطلاح میں یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ دیانةً واجب ہے قضاء واجب نہیں۔ (قرطبی وغیرہ)
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ ٠ۡاِنَّہٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا ٥٤ۚ- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔
(٥٤) اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجیے، یقینا وہ وعدے کے بڑے سچے تھے اور اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے رسول بھی تھے اور احکام خداوندی سنانے والے بھی تھے۔
آیت ٥٤ (وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَز اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ) ” - یہ خصوصی طور پر اس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو آپ ( علیہ السلام) نے اپنے والد ماجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان الفاظ میں کیا تھا : (یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآء اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ) (الصّٰفٰت) ” ابا جان آپ کر گزرئیے جو آپ ( علیہ السلام) کو حکم ہوا ہے ‘ مجھے آپ ان شاء اللہ صابرین میں سے پائیں گے “۔ یوں آپ ( علیہ السلام) نے ذبح ہونے کے لیے اپنی گردن پیش کردی اور اس سلسلے میں صبر کرنے کا جو وعدہ کیا تھا آخر وقت تک اسے نبھایا۔- (وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ) ” - جیسا کہ ” رسول نبی “ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے قبل ازیں وضاحت کی جا چکی ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) مزاج کے اعتبار سے بہت متحرک اور فعال تھے اس لیے آپ ( علیہ السلام) کو رَسُولاً نَبِیًّا کا لقب عطا ہوا ہے۔ اس ضمن میں اس سے قبل حضرت حمزہ (رض) کے مزاج کی بھی مثال دی گئی ہے۔ حضرت حمزہ (رض) حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی نسل میں سے بھی تھے اور آپ (رض) کی شخصیت حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی شخصیت سے بہت مشابہت بھی رکھتی تھی۔
27: پیچھے آیت نمبر 49 میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کا تذکرہ علیحدہ کرنا مقصود تھا جو اس آیت میں کیا گیا ہے۔ یوں تو سارے انبیاء علیہم السلام ہی وعدے کے سچے ہوتے ہیں، لیکن حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے لیے خاص طور پر یہ صفت اس لیے بیان فرمائی گئی ہے کہ جب انہیں ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا تھا کہ ذبح کے وقت وہ انہیں صبر کرنے والا پائیں گے (جس کا ذکر سورۃ صافات میں آئے گا)۔ موت کو سامنے دیکھ کر بھی انہیں اپنا یہ وعدہ یاد رہا، اور انہوں نے مثالی صبر و ضبط کا مظاہرہ فرمایا۔ اس کے علاوہ بھی وعدے کی پابندی کے معاملے میں ان کے کئی واقعات مفسرین نے بیان فرمائے ہیں۔