67۔ 1 اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ جب پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے ہم نے انسان پیدا کردیا، تو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے کیوں کر مشکل ہوگا ؟ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے یا دوبارہ اسے پیدا کرنا ؟ انسان کتنا نادان اور خود فراموش ہے اسی خود فراموشی نے اسے خدا فراموش بنادیا ہے۔
اَوَلَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ ۔۔ : تو کیا جس ذات پاک نے اس وقت اسے پیدا فرمایا جب یہ کچھ بھی نہ تھا، اس کے لیے یہ مشکل ہے کہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندگی دے سکے ؟ دوبارہ زندہ کرنے کی یہ سب سے قوی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة دہر (١، ٢) ، واقعہ (٤٣ تا ٦٢) ، روم (٢٧) ، حج (٥) ، بنی اسرائیل (٥١) اور انبیاء (١٠٤) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِيْ ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ ذٰلکَ ، وَشَتَمَنِيْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ ذٰلِکَ ، فَأَمّا تَکْذِیْبُہُ إِیَّايَ فَقَوْلُہُ : لَنْ یُعِیْدَنِيْ کَمَا بَدأَنِيْ ، وَ لَیْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَھْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِہِ ، وَ أَمَّا شَتْمُہُ إِیَّايَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا، وَأَنَا الْأَحَدُ الصَّمَدُ ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُوْلَدْ ، وَلَمْ یَکُنْ لِّيْ کُفُوًا أَحَدٌ ) [ بخاري، التفسیر، باب تفسیر سورة ( قل ھو اللّٰہ أحد ) : ٤٩٧٤، عن أبي ہریرہ (رض) ]” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا اور ابن آدم نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا، اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح اس نے مجھے پہلے پیدا کیا دوبارہ پیدا نہیں کرے گا، حالانکہ مجھے پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں اور رہا اس کا مجھے گالی دینا، تو اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے، حالانکہ میں ایک ہوں، بےنیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا، نہ کسی نے مجھے جنا اور نہ ہی کبھی میرا کوئی ہمسر ہے۔ “
اَوَلَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَـيْـــــًٔـا ٦٧- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،
آیت ٦٧ (اَوَلَا یَذْکُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْءًا ۔ ) ” - آج جو انسان حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ بھلا مرجانے کے بعد میں پھر سے کیسے زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جاؤں گا ‘ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اسے اس وقت ایک انسان کی صورت میں پیدا کیا تھا جب وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ تو اب اللہ کے لیے اسے دوبارہ زندہ کردینا کیونکر مشکل ہوگا ؟
32: یعنی جب اِنسان کا وجود بالکل تھا ہی نہیں، تب اﷲ تعالیٰ نے اسے محض اپنی قدرت سے پیدا فرمایا تھا، اَب مرنے کے بعد تو اِنسان کے جسم کے کچھ نہ کچھ حصے کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتے ہیں ان کو دوبارہ زندگی دے دینا اُس کے لئے کیا مشکل ہے جو بالکل عدم سے اِنسان کو پیدا کرچکا ہے؟