91۔ 1 ادا کے معنی بہت بھیانک معاملہ اور داھیۃ (بھاری چیز اور مصبیت) کے ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے آسمان و زمین پھٹ سکتے ہیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوسکتے ہیں۔
[٧٩] یہود کے نزدیک عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور دوسرے مشرکین کے دیوتا اور دیویاں سب اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں یا ان کی اولاد ہے۔ گویا ان لوگوں نے اللہ کی نسل ہی چلا دی۔ اللہ تعالیٰ کے حق میں یہ اس قدر گستاخانہ بات ہے کہ اگر آسمان زمین اور پہاڑ وغیرہ ہول کے مارے پھٹ پڑیں اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تو کچھ عجب نہیں۔ اس گستاخی پر اگر اللہ کا غضب بھڑک اٹھے اور زمین و آسمان کے پرخچے اڑ جائیں۔ نظام عالم تباہ و برباد ہوجائے تو سب کچھ ممکن ہے۔ یہ تو محض اس کا حلم ہے جو ایسی بےہودہ بات سن کر بھی دنیا کو یکدم تباہ نہیں کر رہا۔ چناچہ سیدنا ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (گویا یہ حدیث قدسی ہے) کہ ابن آدم نے مجھے جھٹلایا اور اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے اور ابن آدم نے مجھے گالی دی اور اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں اسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا۔ گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میری اولاد ہے حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ کسی کو بیوی یا بچہ بناؤں (بخاری، کتاب التفسیر، سورة مریم، زیر آیت متعلقہ، نیز سورة اخلاص)
اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا ٩١ۚ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔
(٩١۔ ٩٢) اس بات سے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا بناتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی شان نہیں کہ وہ اولاد اختیار کرے۔
آیت ٩١ (اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا ) ” - یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) اور عیسائیوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا ‘ جبکہ قریش مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے تھے۔