انتباہ پہلے بھی اس جیسی آیت شروع سورت میں گزر چکی ہے اور اس کی مفصل تفسیر بھی بیان ہو چکی ہے یہاں صرف تاکید کے طور پر ذکر کیا گیا اور انہیں نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کی رغبت دلائی گئی جن کی صفتیں وہ اپنی کتابوں میں پاتے تھے جن کا نام اور کام بھی اس میں لکھا ہوا تھا بلکہ ان کی امت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے پس انہیں اس کے چھپانے اور اللہ کی دوسری نعمتوں کو پوشیدہ کرنے سے ڈرایا جا رہا ہے اور دینی اور دنیوی نعمتوں کو ذکر کرنے کا کہا جا رہا ہے اور عرب میں جو نسلی طور پر بھی ان کے چچا زاد بھائی ہیں اللہ کی جو نعمت آئی ان میں جس خاتم الانبیاء کو اللہ نے مبعوث فرمایا ان سے حسد کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور تکذیب پر آمادہ نہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے ۔
[١٤٨] بنی اسرائیل کا ذکر پانچویں رکوع سے شروع ہو کر چودھویں رکوع تک پورے دس رکوعات میں پوری تفصیل سے کیا گیا اور بتلایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو تمام اقوام عالم پر فضیلت دے کر تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کا فریضہ انہیں سونپا تھا۔ مگر ان میں بیشمار ایسی اخلاقی بیماریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ جن کی وجہ سے یہ امامت کے قابل ہی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی تمام اخلاقی بیماریوں کا ذکر تفصیل سے بیان کردیا ہے اور آخر میں انہیں وہی ہدایت کی جا رہی ہے جو ابتداء میں بھی کی گئی تھی کہ اس دن سے ڈر کر اب بھی اپنی خباثتوں سے باز آجاؤ۔ جس دن کوئی شخص دوسرے کے کام نہ آسکے گا، نہ بدلہ قبول کیا جائے گا نہ کسی کی سفارش فائدہ دے سکے گی اور نہ ہی مدد کا کوئی اور ذریعہ کام آسکے گا۔
بنی اسرائیل سے خطاب کی ابتدا اللہ کی نعمتیں یاد دلانے اور قیامت اور اس کی ہولناکیوں سے ڈرانے سے ہوئی۔ مسلسل چوراسی آیات میں ان پر اللہ کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ ان کی نافرمانیوں کا ذکر بھی فرمایا گیا۔ آخر میں دوبارہ انھیں اللہ کی نعمتیں یاد دلائی گئیں اور آخرت کے دن سے ڈرایا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ اوپر بیان کی ہوئی بدکرداریوں کی وجہ سے تم ظالم ٹھہرے، سو اب امامت و قیادت بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں منتقل ہو رہی ہے، جن میں ایک پیغمبر مبعوث کرنے کی دعا ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت کی تھی۔ ان آیات اور پچھلی تمام آیات کا مقصود اہل کتاب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور آپ کی پیروی کرنے پر ابھارنا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اوپر کی آیت تک بنی اسرائیل کے متعلق جن خاص مضامین کا بیان کرنا مقصود تھا وہ تو ختم ہوئے اب ان مضامین کی ابتدائی تمہید جن کے اجمال کے یہ سارے مضامین تفصیل تھے اس کو دوبارہ پھر بیان کرتے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ تمہید کا مضمون خاص یعنی ترغیب کے لئے انعام عام وخاص کا یاد دلانا اور ترہیب کیلئے قیامت کو پیش نظر کردینا بوجہ تکرار خوب ذہن نشین ہوجائے کیونکہ مقصود اعظم کلیات ہوتے ہیں جن کا خود استحضار ان کے اختصار کی وجہ سے سہل اور آسان ہوتا ہے اور بوجہ جامعیت اور انطباق کے ان کے ذریعہ سے ان کے جزئیات کا محفوظ رکھنا آسان ہوتا ہے اور محاورات میں یہ طرز بلیغ بھی اعلیٰ درجہ کا سمجھا جاتا ہے کہ مفصل اور مطول بات کرنے سے پہلے ایک مجمل عنوان سے اس کی تقریر کردی جائے جس کا قدر مشترک تمام تفاصیل کے سمجھنے میں معین و مددگار ہو اور آخر میں بطور خلاصہ اور نتیجہ تفصیل اسی مجمل عنوان کا پھر اعادہ کردیا جائے مثلاً یہ کہا جائے کہ تکبر بڑی مضر خصلت ہے اس میں ایک ضرر یہ دوسرا یہ تیسرا یہ دس بیس مضرتیں گنوا کر پھر آخر میں کہہ دیا جائے کہ غرض تکبر بڑی مضر خصلت ہے اسی طور پر اس آیت يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ کا اعادہ فرمایا گیا ہے،- اے اولاد یعقوب (علیہ السلام) میری ان نعمتوں کو یاد کرو جن کا میں نے تم پر (وقتا فوقتا) انعام کیا اور اس کو (بھی یاد کرو) کہ میں نے تم کو بہت لوگوں پر (بہت سی باتوں میں) فوقیت دی اور تم ڈرو ایسے دن سے (یعنی روز قیامت سے) جس میں کوئی شخص کسی کی طرف سے نہ کوئی مطالبہ (اور حق واجب) ادا کرنے پاوے گا اور نہ کسی کی طرف سے کوئی معاوضہ (بجائے حق واجب کے) قبول کیا جاوے گا اور نہ کسی کی کوئی سفارش (جبکہ ایمان نہ ہو) مفید ہوگی اور نہ ان لوگوں کو کوئی (بزور) بچا سکے گا۔
يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ١٢٢- اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .- (إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
(١٢٢) اب پھر اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنے انعامات اور احسانات کا ذکر فرماتے ہیں، اے یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میرے ان انعامات کو یاد کرو جو میں نے تمہارے باپ داد پر فرعون اور اس کی قوم سے آزادی دے کر کیے ہیں اور اس کے علاوہ اور مزید انعامات کیے ہیں اور اسلام کی وجہ سے تمام جہان پر فضیلت دی۔
فرمایا :- آیت ١٢٢ (یٰبَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) - یہ آیت بعینہٖ ان الفاظ میں چھٹے رکوع کے آغاز میں آچکی ہے۔ (آیت ٤٧) دوسری آیت بھی جوں کی توں آرہی ہے ‘ صرف الفاظ کی ترتیب تھوڑی سی بدلی ہے۔ عبارت کے شروع اور آخر والی بریکٹس ایک دوسرے کا عکس ہوتی ہیں۔ ایک کی گولائی دائیں طرف ہوتی ہے تو دوسری کی بائیں طرف۔ اسی طرح یہاں دوسری آیت کی ترتیب درمیان سے تھوڑی سی بدل دی گئی ہے۔
سوْرَةُ الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :123 یہاں سے ایک دُوسرا سلسلہ تقریر شروع ہو تا ہے ، جسے سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل امور کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے: ( ۱ ) حضرت نوح ؑ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے کے لیے مقرر کیا تھا ۔ انہوں نے پہلے خود عراق سے مصر تک اور شام و فلسطین سے ریگستانِ عرب کے مختلف گوشوں تک برسوں گشت لگا کر اللہ کی اطاعت و فرماں برداری ( یعنی اسلام ) کی طرف لوگوں کو دعوت دی ۔ پھر اپنے اس مِشن کی اشاعت کے لیے مختلف علاقوں میں خلیفہ مقرر کیے ۔ شرق اُردن میں اپنے بھتیجے حضرت لُوط ؑ کو ، شام و فلسطین میں اپنے بیٹے اسحاق ؑ کو ، اور اندرُونِ عرب میں اپنے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ کو مامور کیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکّے میں وہ گھر تعمیر کیا ، جس کا نام کعبہ ہے اور اللہ ہی کے حکم سے وہ اس مِشن کا مرکز قرار پایا ۔ ( ۲ ) حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں: ایک حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد جو عرب میں رہی ۔ قریش اور عرب کے بعض دُوسرے قبائل کا تعلق اسی شاخ سے تھا ۔ اور جو عرب قبیلے نسلاً حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد نہ تھے وہ بھی چونکہ ان کے پھیلائے ہوئے مذہب سے کم و بیش متاثر تھے ، اس لیے وہ اپنا سلسلہ انہی سے جوڑتے تھے ۔ دُوسرے حضرت اسحاق ؑ کی اولاد ، جن میں حضرات یعقوب ؑ ، یوسف ؑ ، موسیٰ ؑ ، دا ؤد ؑ ، سلیمان ؑ ، یحییٰ ؑ ، عیسیٰ ؑ اور بہت سے انبیا علیہم السّلام پیدا ہوئے اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ، حضرت یعقوب ؑ کا نام چونکہ اسرائیل تھا اس لیے یہ نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی ۔ ان کی تبلیغ سے جن دُوسری قوموں نے ان کا دین قبول کیا ، انہوں نے یا تو اپنی انفرادیّت ہی ان کے اندر گم کر دی ، یا وہ نسلاً تو ان سے الگ رہے ، مگر مذہباً ان کے متِبع رہے ۔ اسی شاخ میں جب پستی و تنزّل کا دَور آیا ، تو پہلے یہُودیّت پیدا ہوئی اور پھر عیسائیت نے جنم لیا ۔ ( ۳ ) حضرت ابراہیم ؑ کا اصل کام دنیا کو اللہ کی اطاعت کی طرف بُلانا اور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے مطابق انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام درست کرنا تھا ۔ وہ خود اللہ کے مطیع تھے ، اس کے دیے ہوئے علم کی پیروی کرتے تھے ، دنیا میں اس علم کو پھیلاتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ سب اِنسان مالک کائنات کے مطیع ہو کر رہیں ۔ یہی خدمت تھی ، جس کے لیے وہ دنیا کے امام و پیشوا بنائے گئے تھے ۔ ان کے بعد یہ امامت کا منصب ان کی نسل کی اس شاخ کو مِلا ، جو حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ سے چلی اور بنی اسرائیل کہلائی ۔ اسی میں انبیا پیدا ہوتے رہے ، اسی کو راہِ راست کا علم دیا گیا ، اسی کے سپرد یہ خدمت کی گئی کہ اس راہِ راست کی طرف اقوامِ عالم کی رہنمائی کرے ، اور یہی وہ نعمت تھی ، جسے اللہ تعالیٰ بار بار اس نسل کے لوگوں کو یاد دلا رہا ہے ۔ اس شاخ نے حضرت سلیمان ؑ کے زمانے میں بیت المَقْدِس کو اپنا مرکز قرار دیا ۔ اس لیے جب تک یہ شاخ امامت کے منصب پر قائم رہی ، بیت المقدس ہی دعوت اِلی اللہ کا مرکز اور خدا پرستوں کا قبلہ رہا ۔ ( ٤ ) پچھلے دس رکوعوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے ان کی تاریخی فردِ قرار دادِ جُرم اور ان کی وہ موجودہ حالت ، جو نزولِ قرآن کے وقت تھی ، بےکم و کاست پیش کر دی ہے اور ان کو بتا دیا ہے کہ تم ہماری اس نعمت کی انتہائی ناقدری کر چکے ہو جو ہم نے تمہیں دی تھی ۔ تم نے صرف یہی نہیں کیا کہ منصبِ امامت کا حق ادا کرنا چھوڑ دیا ، بلکہ خود بھی حق اور راستی سے پھر گئے ، اور اب ایک نہایت قلیل عنصرِ صالح کے سوا تمہاری پُوری اُمت میں کوئی صلاحیّت باقی نہیں رہی ہے ۔ ( ۵ ) اس کے بعد اب انہیں بتایا جا رہا ہے کہ امامتِ ابراہیم ؑ کے نُطفے کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ اس سچّی اطاعت و فرماں برداری کا پھل ہے ، جس میں ہمارے اس بندے نے اپنی ہستی کو گم کر دیا تھا ، اور اس کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں ، جو ابراہیم ؑ کے طریقے پر خود چلیں اور دنیا کو اس طریقے پر چلانے کی خدمت انجام دیں ۔ چونکہ تم اس طریقے سے ہٹ گئے ہو اور اس خدمت کی اہلیّت پُوری طرح کھو چکے ہو ، لہٰذا تمہیں امامت کے منصب سے معزُول کیا جا تا ہے ۔ ( ٦ ) ساتھ ہی اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ جو غیر اسرائیلی قومیں موسیٰ اور عیسیٰ علیہماالسّلام کے واسطے سے حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتی ہیں وہ بھی ابراہیمی طریقے سے ہٹی ہوئی ہیں ، نیز مشکرینِ عرب بھی ، جو ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام سے اپنے تعلق پر فخر کرتے ہیں ، محض نسل و نسب کے فخر کو لیے بیٹھے ہیں ۔ ورنہ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کے طریقے سے اب ان کو دُور کا واسطہ بھی نہیں رہا ہے ۔ لہٰذا ان میں سے بھی کوئی امامت کا مستحق نہیں ہے ۔ ( ۷ ) پھر یہ بات ارشاد ہوتی ہے کہ اب ہم نے ابراہیم ؑ کی دُوسری شاخ ، بنی اسماعیل ؑ میں وہ رسُول ؐ پیدا کیا ہے ، جس کے لیے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے دُعا کی تھی ۔ اس کا طریقہ وہی ہے ، جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ اور دُوسرے تمام انبیا کا تھا ۔ وہ اور اس کے پیرو تمام ان پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہیں جو دنیا میں خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی راستہ کی طرف دنیا کو بُلاتے ہیں جس کی طرف سارے انبیا دعوت دیتے چلے آئے ہیں ۔ لہٰذا اب امامت کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو اس رسول کی پیروی کریں ۔ ( ۸ ) تبدیلِ امامت کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی قدرتی طور پر تحویلِ قبلہ کا اعلان ہونا بھی ضروری تھا ۔ جب تک بنی اسرائیل کی امامت کا دَور تھا ، بیت المقدس مرکزِ دعوت رہا اور وہی قبلہء اہل حق بھی رہا ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو بھی اس وقت تک بیت المقدس ہی کو قبلہ بنائے رہے ۔ مگر جب بنی اسرائیل اس منصب سے باضابطہ معزُول کر دیے گئے ، تو بیت المقدس کی مرکزیّت آپ سے آپ ختم ہو گئی ۔ لہٰذا اعلان کیا گیا کہ اب وہ مقام دین الہٰی کا مرکز ہے ، جہاں سے اس رسُول کی دعوت کا ظہُور ہوا ہے ۔ اور چونکہ ابتدا میں ابراہیم ؑ کی دعوت کا مرکز بھی یہی مقام تھا ، اس لیے اہل کتاب اور مشرکین ، کسی کے لیے بھی تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ قبلہ ہونے کا زیادہ حق کعبے ہی کو پہنچتا ہے ۔ ہٹ دھرمی کی بات دُوسری ہے کہ وہ حق کو حق جانتے ہوئے بھی اعتراض کیے چلے جائیں ۔