Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یہ واقعات اور یہ تمام حق کی باتیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سچی وحی سے تمہیں معلوم ہوئیں ، تم میرے سچے رسول ہو ، میری ان باتوں کی اور خود آپ کی نبوت کی سچائی کا علم ان لوگوں کو بھی ہے جن کے ہاتھوں میں کتاب ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے زوردار پر تاکید الفاظ میں قسم کھا کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی ۔ فالحمداللہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

252۔ 1 یہ گزشتہ واقعات جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقینا آپ کی رسالت و صداقت کی دلیل ہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہ کسی کتاب میں پڑھے ہیں نہ کسی سے سنے ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ آپ پر نازل فرما رہا ہے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کو بیان کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٥٥] یہاں آیات اللہ سے مراد وہ معجزہ نما واقعات ہیں جو بنی اسرائیل کو پیش آئے تھے۔ جیسے وبا سے ڈر کر گھر بار چھوڑنے والے ہزاروں لوگ جنہیں اللہ نے موت کے بعد زندہ کردیا یا جیسے داؤد کا اکیلے جالوت جیسے جابر بادشاہ کو مار ڈالنا اور اللہ تعالیٰ کی ایک مختصر سی جماعت کو غلبہ عطا فرمانا اور داؤد جیسے ایک گمنام چرواہے کو بادشاہی اور نبوت سے سرفراز فرمانا وغیرہ یہ واقعات ٹھیک ٹھیک ہم نے بذریعہ وحی آپ سے بیان کردیئے ہیں اور آپ کا قرون ماضیہ کے ٹھیک ٹھیک حالات لوگوں کو بتلانا یقینا آپ کی رسالت پر ایک بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کی بنا پر آپ ایسے گزشتہ صحیح صحیح حالات جان سکیں اور دوسروں کو بتلا سکیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یعنی پچھلی امتوں کے یہ واقعات جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں، یہ آپ کے نبی صادق ہونے کی واضح دلیل ہیں، کیونکہ آپ نے انھیں نہ کسی کتاب میں پڑھا اور نہ کسی سے سنا، پھر بھی انھیں اس طرح ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں کہ بنی اسرائیل بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ کافروں کی طرف سے آپ کی رسالت کے انکار پر انتہائی تاکیدی الفاظ ” اِنَّ “ اور ” لام تاکید “ کے ساتھ آپ کی رسالت کا اثبات ہے۔ کافر آپ کی رسالت کے انکاری تھے، جیسا کہ فرمایا : (وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا )[ الرعد : ٤٣ ] ” اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کہتے ہیں، تو کسی طرح رسول نہیں ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کے انکار کا رد کرتے ہوئے فرمایا : (وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ” بلاشبہ تو یقیناً رسولوں میں سے ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- چونکہ قرآن کریم کا ایک بڑا مقصد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اثبات بھی ہے اس لئے جس جگہ مضمون کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اس کا اعادہ کردیا جاتا ہے اس موقع پر اس قصہ کی صحیح صحیح خبر دینا جب کہ آپ نے نہ کسی سے پڑھا نہ کہیں سنا نہ دیکھا، ایک معجزہ ہے جو آپ کی نبوت کی صحیح دلیل ہے اس لئے ان آیات میں آپ کی نبوت پر استدلال فرماتے ہیں۔- نبوت محمدیہ پر استدلال :- یہ (آیتیں جن میں یہ قصہ مذکور ہوا) اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جو صحیح صحیح طور ہم تم کو پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں (اس سے ثابت ہوتا ہے کہ) آپ بلاشبہ پیغمبروں میں سے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ اٰيٰتُ اللہِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ۝ ٠ ۭ وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ٢٥٢- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - الحمد لله پاره مکمل هوا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥٢) لیکن اللہ تعالیٰ دشمن کے دور کرنے میں بڑا فضل کرنے والا ہے یہ قرآن کریم جو گزشتہ قوموں کے واقعات بیان کرتا ہے ہم جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے آپ پر نازل کرتے ہیں، تاکہ حق و باطل نکھر جائے، اور بلا شبہ آپ تمام جنات اور انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥٢ (تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْہَا عَلَیْکَ بالْحَقِّ ط) ۔ - یہ قول گویا حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) کی طرف منسوب ہوگا۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مسلمانوں سے خطاب ہے کہ یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا رہے ہیں حق کے ساتھ۔ یہ ایک بامقصد سلسلہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

169: واقعہ بیان کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دِلائی ہے کہ آنحضرتﷺ کی زبان مبارک پر ان آیات کا جاری ہونا آپ کے رسول ہونے کی دلیل ہے، اس لئے کہ آپ کے پاس ان واقعات کو جاننے کا وحی کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اور ’’ٹھیک ٹھیک‘‘ کے الفاظ سے شاید اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اہلِ کتاب نے ان واقعات کو بیان کرنے میں کہیں مبالغے سے کام لیا ہے، اور کہیں من گھڑت قصے مشہور کردیئے ہیں۔ قرآنِ کریم ان میں سے صرف صحیح باتیں بیان کرتا ہے۔