[٤١٦] اس جملہ میں اللہ تعالیٰ اپنے قانون سزا و جزا کا کلیہ بیان فرما دیا۔ یعنی جو کام کسی انسان سے استطاعت سے بڑھ کر ہیں ان پر انسان سے باز پرس نہیں ہوگی، باز پرس تو صرف اسی بات پر ہوگی جو انسان کے اختیار اور استطاعت میں ہو اور جہاں انسان مجبور ہوجائے وہاں گرفت نہ ہوگی۔ مگر اس اختیار، استطاعت اور مقدرت کا فیصلہ انسان کو نہایت نیک نیتی سے کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے۔- [٤١٧] اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون جزا و سزا کا دوسرا کلیہ بیان فرمایا جو یہ ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو اور وہ ضرور اسے ملے گا اور جو کوئی برا کام کیا ہو تو اس کی سزا بھی اسے ہی ملے گی اور ضرور ملے گی نہ یہاں آباؤ اجداد کی نیکی کام آسکتی ہے اور نہ اس کا نسب، یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ کسی شخص نے کسی نیک کام کی بنیاد رکھ دی ہو جس کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی جاری رہیں۔ تو اس میں نیکی کے کام میں اس کو بھی برابر کا حصہ ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی برے کام کی بنیاد رکھی ہو۔ اور اس کی موت کے بعد بھی اس کے اثرات جاری رہیں تو وہ اس برائی کے گناہ میں بھی برابر کا حصہ دار ہوگا اور یہ اصول قرآن کریم اور بہت سے احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ بہرحال یہ ممکن نہیں کہ جس بھلائی یا برائی میں انسان کی نیت اور سعی و عمل کو کچھ دخل نہ ہو، اس کی جزا و سزا یا اس میں سے کچھ حصہ اسے مل سکے۔- [٤١٨] اللہ تعالیٰ نے دعا کا یہ جملہ خود ہی مسلمانوں کو سکھلا کر نہ صرف ان کے سابقہ خلجان کو ختم کردیا بلکہ مزید تسلی و تشفی کا سامان بھی مہیا فرما دیا۔ ان کا خلجان یہ تھا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات جو ہمارے اپنے اختیار میں نہیں ہوتے ان پر مواخذہ نہ ہو اور اس آیت کی رو سے ظاہری اعمال جو بھول چوک سے صادر ہوں ان سے بھی معافی کی درخواست سکھلائی گئی اور جب دعا قبول کرنے والا ہی یہ دعا سکھلا رہا ہو تو اس کی قبولیت میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ چناچہ آپ نے فرمایا کہ میری امت سے خطاو نسیان کو معاف کردیا گیا ہے۔- [٤١٩] یہاں بوجھ سے مراد سخت قسم کے شرعی احکام ہیں۔ جیسے بچھڑے کی پرستش کرنے والوں کی توبہ صرف قتل سے قابل قبول ہونا، یہود میں صرف قصاص تھا، دیت یا معافی کی صورت نہ تھی۔ ان پر زکوٰۃ چوتھا حصہ تھی اور کپڑے پر اگر پیشاب لگ جاتا تو اسے کاٹ دینا پڑتا تھا، نیز غنیمت کے اموال ان پر حرام تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سخت احکام میں تخفیف فرما دی۔- [٤٢٠] یہ آیات اس دور میں نازل ہوئیں جب کافروں سے شدید محاذ آرائی تھی اور بہت سے نازک موقعوں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی دعائیں مانگی ہیں۔ بالخصوص غزوہ بدر اور غزوہ خندق کے موقعہ پر آپ نے جو دعائیں فرمائیں ان کا ذکر کثرت سے صحیحہ احادیث میں مذکور ہے۔- [٤٢١] اس دعا کے اختتام پر بعض صحابہ (رض) سے آمین کہنا ثابت ہے اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیتوں کے بعد آمین کہنے کی ترغیب دی۔ (ابن کثیر) نیز آپ نے فرمایا : کہ جو شخص رات کو (سوتے وقت) سورة بقرہ کی آخری دو آیات پڑھ لے تو وہ اس کو کفایت کرتی ہیں (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب شہود الملائکۃ بدرا) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت و استعانت اس کے شامل حال رہتی ہے۔
یہ اور اس سے پہلی آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کے موقع پر سدرۃ المنتہی کے پاس عطا فرمائی گئیں۔ [ مسلم، الإیمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہٰی : ١٧٣ ] ان آیات کی فضیلت میں کئی احادیث آئی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص رات کو سورة بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے تو وہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔ “ [ بخاری، فضائل القرآن، باب فضل - سورۃ البقرۃ : ٥٠٠٩، عن أبی مسعود (رض) ]- ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن جبریل (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے اوپر سے ایک زور دار آواز سنی، انھوں نے سر اٹھایا، پھر فرمایا : ” یہ آسمان کا دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے، آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ “ پھر اس دروازے سے ایک فرشتہ اترا۔ جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا : ” یہ ایک فرشتہ ہے جو آج زمین کی طرف نازل ہوا ہے اور آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا۔ “ پھر اس فرشتے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور کہا : ” دو نوروں کی خوش خبری سنیے، یہ دونوں صرف آپ کو عطا کیے گئے ہیں، آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کیے گئے۔ ایک نور سورة فاتحہ ہے اور دوسرا نور سورة بقرہ کی آخری آیات ہیں، آپ جب کبھی ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کو مانگی ہوئی چیز مل جائے گی۔ “ - [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل الفاتحۃ و خواتیم سورة البقرۃ : ٨٠٦ ] نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس میں سے اس نے دو آیتیں نازل فرمائیں جن کے ساتھ سورة بقرہ کا اختتام کیا، وہ کسی گھر میں تین راتیں نہیں پڑھی جائیں کہ پھر شیطان اس کے قریب آسکے۔ “ [ ترمذی، فضائل القرآن، باب ما جاء فی آخر سورة البقرۃ، ٢٨٨٢ وصححہ الألبانی ]
اس کے بعد دوسری آیت میں ایک خاص انداز سے وہ شبہ دور کیا گیا جو پچھلی آیت کے بعض جملوں سے پیداہو سکتا تھا کہ دل میں چھپے ہوئے خیالات پر حساب ہوا تو عذاب سے کیسے بچیں گے۔ ارشاد فرمایا لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زائد کام کا حکم نہیں دیتے اس لئے غیر اختیاری طور پر جو خیالات و وسوسے دل میں آجائیں اور پھر ان پر کوئی عمل نہ ہو تو وہ سب اللہ تعالیٰ کے نزدیک معاف ہیں حساب اور مؤ اخذہ صرف ان افعال پر ہوگا جو اختیار اور ارادہ سے کئے جائیں۔- تفصیل اس کی یہ ہے کہ جس طرح انسان کے اعمال و افعال جو ہاتھ، سر، آنکھ اور زبان وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کو اعمال ظاہرہ کہا جاتا ہے ان کی دو قسمیں ہیں ایک اختیاری جو ارادہ اور اختیار سے کئے جائیں جیسے ارادہ سے بولنا ارادہ سے کسی کو مارنا دوسرے غیر اختیاری جو بلا ارادہ سرزد ہوجائیں جیسے زبان سے کہنا چاہتا تھا کچھ اور نکل گیا کچھ یا رعشہ سے بلا اختیار ہاتھ کی حرکت ہوئی اس سے کسی کو تکلیف پہنچ گئی ان میں سب کو معلوم ہے کہ حساب و کتاب اور جزاء وسزا افعال اختیار یہ کے ساتھ مخصوص ہیں افعال غیر اختیاریہ کا نہ انسان مکلف ہے نہ ان پر اس کو ثواب یا عذاب ہوتا ہے۔- اسی طرح وہ افعال جن کا تعلق باطن یعنی دل کے ساتھ ہے ان کی بھی دو قسمیں ہیں ایک اختیاری جیسے کفر و شرک کا عقیدہ جس کو قصد واختیار کے ساتھ دل میں جمایا ہے یا سوچ سمجھ کر ارادہ کے ساتھ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا جس کو تکبر کہا جاتا ہے یا پختہ ارادہ کرنا کہ شراب پیوں گا، اور دوسرے غیر اختیاری مثلاً بغیر قصد و ارادہ کے دل میں کسی برے خیال کا آجانا ان میں بھی حساب و کتاب اور مؤ اخذہ صرف اختیاری افعال پر ہے غیر اختیاری پر نہیں۔- اس تفسیر سے جو خود قرآن نے بیان کردی۔ صحابہ کرام (رض) اجمعین کو اطمینان ہوگیا کہ غیر اختیاری وساوس و خیالات کا حساب و کتاب اور ان پر عذاب وثواب نہ ہوگا اسی مضمون کو آخر میں اور زیادہ واضح کرنے کے لئے فرمایا ہے لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ یعنی انسان کو ثواب بھی اس کام کا ہوتا ہے جو ارادہ سے کرے اور عذاب بھی اس کام پر ہوتا ہے جو ارادہ سے کرے۔- اور مراد یہ ہے کہ ابتداءً بلاواسطہ اس عمل کا ثواب یا عذاب ہوگا جو قصد و ارادہ سے کرے کسی ایسے عمل کا ثواب و عذاب بالواسطہ ہوجانا جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا اس کے منافی نہیں، اس سے اس شبہ کا جواب ہوگیا کہ بعض اوقات آدمی کو بلاقصد و ارادہ بھی ثواب یا عذاب ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف کی دوسری آیات اور بہت سی روایات حدیث سے ثابت ہے کہ جو آدمی کوئی ایسا نیک کام کرے جس سے دوسرے لوگوں کو بھی اس نیکی کی توفیق ہوجائے تو جب تک لوگ یہ نیک کام کرتے رہیں گے اس کا ثواب اس پہلے والے کو بھی ملتا رہے اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئی طریقہ گناہ کا جاری کیا تو آئندہ جتنے لوگ اس گناہ میں مبتلا ہوں گے اس کا وبال اس شخص کو بھی پہنچے گا جس نے اول یہ برا طریقہ جاری کیا تھا، اسی طرح روایات حدیث سے ثابت ہے کہ کوئی شخص اپنے عمل کا ثواب دوسرے آدمی کو دینا چاہے تو اس کو یہ ثواب پہنچتا ہے۔ ان سب صورتوں میں بغیر قصد و ارادہ کے انسان کو ثواب یا عذاب ہورہا ہے۔- اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ ظاہر ہے کہ یہ ثواب و عذاب بلاواسطہ اس کو نہیں پہنچا بلکہ دوسرے کے واسطے سے پہنچا ہے اس کے علاوہ جو واسطہ بنا ہے اس میں اس کے اپنے عمل اور اختیار کو بھی دخل ضرور ہے کیونکہ جس شخص نے کسی کا ایجاد کیا ہوا اچھا یا برا طریقہ اختیار کیا اس میں پہلے شخص کے عمل اختیاری کا دخل ضروری ہے اگرچہ اس نے اس خاص اثر کا ارادہ نہ کیا ہو اس طرح کوئی کسی کو ایصال ثواب جبھی کرتا ہے جب اس نے اس پر کوئی احسان کیا ہو اس لحاظ سے یہ دوسرے کے عمل کا ثواب و عذاب بھی درحقیقت اپنے ہی عمل کا ثواب یا عذاب ہے۔- بالکل اخیر میں قرآن کریم نے مسلمانوں کو ایک خاص دعا کی تلقین فرمائی جس میں بھول چوک اور بلاواسطہ خطاء کسی فعل کے سرزد ہونے کی معافی طلب کی گئی فرمایا رَبَّنَا لَا تُؤ َاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا اے ہمارے پروردگار بھول چوک اور خطاء پر ہم سے مؤ اخذہ نہ فرما پھر فرمایا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَارَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ یعنی اے ہمارے پروردگار ہم پر بھاری اور سخت اعمال کا بوجھ نہ ڈالئے جیسا ہم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر ڈالا گیا ہے اور ہم پر ایسے فرائض عائد نہ فرمائیے جن کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔- اس سے مراد وہ سخت اعمال ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد تھے کہ کپڑا پانی سے پاک نہ ہو بلکہ کاٹنا یا جلانا پڑے اور قتل کے بغیر توبہ قبول نہ ہو یا مراد یہ ہے کہ دنیا میں ہم پر عذاب نازل نہ کیا جائے جیسا کہ بنی اسرائیل کے اعمال بد پر کیا گیا اور یہ سب دعائیں حق تعالیٰ نے قبول فرمانے کا اظہار بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ کردیا۔- سورة بقرہ تمام ہوئی وللہ الحمد اولہ ا آخرہ وظاہرہ و باطنہ وہو المستعان، - بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ ٢٥ ذیقعدہ ١٣٨٨ ھ
لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا ٠ ۭ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ ٠ ۭ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ٠ ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَـمَا حَمَلْتَہٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا ٠ ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ٠ ۚ وَاعْفُ عَنَّا ٠ ۪ وَاغْفِرْ لَنَا ٠ ۪ وَارْحَمْنَا ٠ ۪ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ٢٨٦ ۧ- كلف - وصارت الْكُلْفَةُ في التّعارف اسما للمشقّة، والتَّكَلُّفُ : اسم لما يفعل بمشقّة، أو تصنّع، أو تشبّع، ولذلک صار التَّكَلُّفُ علی ضربین :- محمود : وهو ما يتحرّاه الإنسان ليتوصّل به إلى أن يصير الفعل الذي يتعاطاه سهلا عليه، ويصير كَلِفاً به ومحبّا له، وبهذا النّظر يستعمل التَّكْلِيفُ في تكلّف العبادات .- والثاني : مذموم، وهو ما يتحرّاه الإنسان مراء اة، وإياه عني بقوله تعالی: قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] وقول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا وأتقیاء أمّتي برآء من التّكلّف» وقوله : لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] أي : ما يعدّونه مشقّة فهو سعة في المآل . - ( ک ل ف ) التکلف ۔ کوئی کام کرتے وقت شیفتگی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں شفقت پیش آرہی ہو اس لئے عرف میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو مشقت تصنع یا اوپرے جی سے دکھلادے کے لئے کہا جائے - اس لئے تکلیف دو قسم پر ہے - محمود اور مذموم اگر کسی کا م کو اس لئے محنت سے سر انجام دے کہ وہ کام اس پر آسان اور سہل ہوجائے اور اسے اس کام کے ساتھ شیفتگی اور محبت ہوجائے تو ایسا تکلف محمود ہے چناچہ اسی معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور اگر وہ تکلیف محض ریا کاری کے لئے ہو تو مذموم ہے ۔ چناچہ آیت : قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] اور اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں ۔ میں تکلیف کے یہی معنی مراد ہیں اور حدیث میں ہے (99) انا واتقیاء امتی برآء من التکلف کہ میں اور میری امت کے پرہیز گار آدمی تکلف سے بری ہیں اور آیت ؛لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جن احکام کو یہ مشقت سمجھتے ہیں وہ مآل کے لحاظ سے ان کے لئے وسعت کا باعث ہیں - وُسْعُ :- الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔- كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے - حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- صر - الْإِصْرَارُ : التّعقّد في الذّنب والتّشدّد فيه، والامتناع من الإقلاع عنه . وأصله من الصَّرِّ أي :- الشّدّ ، والصُّرَّةُ : ما تعقد فيه الدّراهم، والصِّرَارُ : خرقة تشدّ علی أطباء الناقة لئلا ترضع . قال اللہ تعالی: وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران 135] ، ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِراً- [ الجاثية 8] ، وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْباراً [ نوح 7] ، وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة 46] ، والْإِصْرَارُ : كلّ عزم شددت عليه، يقال : هذا منّي صِرِّي، وأَصِرِّي وصِرَّى وأَصِرَّى وصُرِّي وصُرَّى أي : جدّ وعزیمة، والصَّرُورَةُ من الرّجال والنساء : الذي لم يحجّ ، والّذي لا يريد التّزوّج، وقوله : رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] ، لفظه من الصَّرِّ ، وذلک يرجع إلى الشّدّ لما في البرودة من التّعقّد، والصَّرَّةُ : الجماعة المنضمّ بعضهم إلى بعض كأنّهم صُرُّوا، أي : جُمِعُوا في وعاء . قال تعالی: فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ، وقیل : الصَّرَّةُ الصّيحةُ.- ( ص ر ر ) الاصرار کسی گناہ پر سختی ہے جم جانا اور اس سے باز نہ آنا اصل میں یہ صر سے ہے جس کے معنی باندھنے کے ہیں اور صرۃ اس تھیلی کو کہتے ہیں جس میں نقدی باندھ کر رکھ دی جاتی ہے اور صرار ( پستان بند ) اس لتہ کو کہتے ہیں جس سے اونٹنی کے تھن باندھ دیئے جاتے ہیں تاکہ اس کا بچہ دودھ نہ پی سکے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران 135] اور وہ اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتے ۔ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران 135] مگر پھر غرور سے ضد کرتا ہے ۔ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْباراً [ نوح 7] اور اڑگئے اور اکڑبیٹھے ۔ وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة 46] اور گناہ عظیم پر اڑے ہوئے تھے ۔ الاصرار : پختہ عزم کو کہتے ہیں محاورہ ہے ھذا منی صری واصری وصری وصری وصری وصریٰ ۔ وہ مرد یا عورت جو جج نہ کرے وہ شخص جسے نکاح کی کو اہش نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] زور کی ہوا ( چلائی ) میں صر صر کا لفظ صر سے ہے گویا سخت سرد ہونے کی وجہ سے اس میں پستگی پائی جاتی ہے الصرۃ جماعت جس کے افراد باہم ملے جلے ہوں گویا وہ کسی تھیلی میں باندھ دیئے گئے ہیں قرآن میں ہے فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی چلاتی آئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ صرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ۔ - طاقت - وقد يعبّر بنفي الطَّاقَةِ عن نفي القدرة . وقوله : وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] ، ظاهره يقتضي أنّ المُطِيقَ له يلزمه فدية أفطر أو لم يفطر، لکن أجمعوا أنه لا يلزمه إلّا مع شرط آخر وروي :( وعلی الّذين يُطَوَّقُونَهُ ) أي : يُحَمَّلُونَ أن يَتَطَوَّقُوا .- اور کبھی طاقتہ کی نفی سے قدرت کا انکار مراد ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں ( لیکن رکھیں نہیں ) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں ۔ کے بظاہر معنی تو یہی ہیں کہ جو شخص روزہ کی طاقت رکھتا ہو اس پر فدیہ لازم ہے خواہ روزہ رکھے یا نہ رکھے مگر اس امر پر اجماع ہوچکا ہے کہ صرف دوسری شروط کے ساتھ فدیہ یعنی جن پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ مشقت روزہ رکھیں ۔- عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ امام مالک کا قول ظاہر قرآن سے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ قول باری ہے (قرھان مقبوضۃ) اللہ تعالیٰ نے رہن کو گواہی کے قائمقام کردیا ہے اور اس شخص پر اعتماد نہیں کیا جس پر حق ہے کیونکہ اس سے وثیقہ لیا ہے جس طرح کہ دین کی مقدار کے متعلق اس پر بھروسہ نہیں کیا اس لئے کہ اس پر گواہی قائم کی ہے۔- دستاویز اور گواہ اس پر لازم آنے والے حق کی مقدار کا پتہ دیتے ہیں اس لئے راہن کے قول کی تصدیق نہیں کی گئی اور رہن اس حد تک گواہوں کے قائم مقام ہوگیا جس حد تک اس کی مقدار رہن کی قیمت کے اندر رہی لیکن جب یہ مقدار اس کی قیمت سے تجاوز کر جائے تو پھر وثیقہ کا کوئی کام نہیں اس صورت میں مرتہن مدعی ہوگا اور مدعی علیہ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا استدلال عجیب و غریب قسم کا استدلال ہے۔ وہ اس طرح کہ مستدل کا یہ کنا ہے کہ جب راہن پر اعتماد نہ کیا گیا یہاں تک کہ اس سے رہن رکھوا لیا گیا تو رہن گواہی کے قائم مقام بن گیا اور پھر یہ دعویٰ کیا کہ یہ ظاہر قرآن کے موافق ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا قول معتبر قرار دیا جس پر حق ہے۔- کیونکہ قول باری ہے (والیملل الذی علیہ الحق والیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئاً ) اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں بھی اس کے قول کو معتبر قرار دیا جس میں اسے گواہی قائم کرنے اور دستاویز لکھوانے کا حکم دیا اور طالب یعنی قرض خواہ کی طرف سے مطلوب پر عدم اعتماد کو مطلوب کے قول کے اعتبار کے لئے مانع قرار نہیں دیا۔- تو پھر مرتہن کی طرف سے راہن سے رہن رکھوا کر معاملہ پختہ کرنے کے ذریعے عدم اعتماد کا اظہار مطلوب کے قول کو قبول کرنے سے کس طرح مانع ہوسکتا ہے اور یہ کس طرح طالب کے دعوے کی تصدیق کا موجب بن سکتا ہے۔ مستدل کی بیان کردہ بات ظاہر قرآن کے مخالف ہے اور مرتہن کی طرف سے عدم اعتماد کی تصدیق کے لئے اس کی قائم کردہ علت نص کتاب کی رو سے غلط ہے۔- پھر اس کا یہ دعویٰ کہ اس کی بات ظاہر قرآن کے موافق ہے۔ اتنہائی تعجب انگیز دعویٰ ہے ۔ وہ اس طرح کہ قرآن مجید نے اس کے دعوے کے بطلان کا اس وقت فیصلہ دے دیا جب کہ اس حالت میں بھی مطلوب کے قول کو تسلیم کیا جس میں اس پر اعتماد نہیں کیا گیا۔- بلکہ دستاویز اور گواہوں کے ذریعے اس سے معاملے کو پختہ کرایا گیا اور مستدل کا گمان یہ ہے کہ اس سے رہن رکھوا کر گویا اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ طالب کے قول کا اعتبار کیا جائے اور پھر یہ گمان کرلیا کہ اس کا قول ظاہر قرآن کے موافق ہے اور پھر اس پر اس بات کی بنیاد رکھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر اعتماد نہیں کیا اور یہ کہ رہن پختگی اور بھروسے کا ذریعہ بنا جس طرح گواہی پختگی اور اعتماد کا ذریعہ ہے اور اس طرح رہن گواہی کے قائم مقام ہوگیا۔- مستدل نے یہ جو کچھ بیان کیا ہے اس کا ظاہر قرآن سے کوئی واسطہ نہیں اور ہم نے پہلے ہی دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ یہ قرآن کے خلاف ہے۔ دراصل یہ قیاس ہے اور اس میں رہن کے مسئلے کو گواہی کے مسئلے پر قیاس کیا گیا ہے اور علت یہ بیان کی گئی ہے کہ رہن اور گواہی دونوں صورتوں میں مقروض پر قرض کی اس مقدار کے متعلق اعتماد اور بھروسہ نہیں کیا گیا جو اس کے ذمے ہے یہ قیاس کئی وجوہ سے باطل ہے۔- اول یہ کہ ظاہر قرآن سے اس کی تردید ہو رہی ہے اس کی تفصیل ہم پچھلی سطور میں بیان کر آئے ہیں۔ دوم یہ قیاس ایک مسئلے پر سب کے اتفاق کی وجہ سے منتقض ہوجاتا ہے۔ یہ وہ یہ کہ اگر کسی پر کسی کا قرض ہو اور قرض خواہ مقروض سے کفیل یعنی ضامن لے لے اس کے بعد قرض کی مقدار میں دونوں کا اختلاف ہوجائے تو اس صورت میں سب کے نزدیک مطلوب یعنی مقروض کا قول اس پر لازم آنے والے قرض کے متعلق معتبر ہوگا۔ اور اس طرح کفیل لے کر اس پر جس عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا۔ وہ طالب یعنی قرض خواہ کے قول کی تصدیق کا موجب نہیں بنا حالانکہ مستدل کی بیان کر علت یہاں موجود ہے اس طرح کفالت کے مسئلے میں آ کر اس کی علت منتقض ہوگئی۔- سوم یہ کہ ثبوت یعنی گواہی وغیرہ ملنے کی صورت میں جس سبب کی بنا پر طالب کے قول کی تصدیق نہیں کی گئی وہ یہ ہے کہ گواہوں کی اس بارے میں گواہی قابل قبول ہوتی ہے اور ان کی تصدیق کی بناء پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔- ان گواہوں نے راہن کے بیان کردہ رقم سے زائد رقم کے متعلق مرتہن کے اقرار کے خلاف اور مدعی کے دعوے کے حق میں گواہی دینی ہے اور اس طرح زائد رقم کے متعلق مرتہن کا یہ اقرار قاضی کی عدالت میں اقرار کرنے کے مترادف ہوگیا۔- دوسری طرف رہن کی قیمت کے بارے میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس سے پتہ چل سکے کہ دین کی مقدار اس قیمت کے مساوی ہے۔ اس لئے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرض کی تھوڑی سی رقم کے بدلے اس سے بڑھ کر قیمت والی چیز رہن رکھی جاسکتی ہے اور اس کے برعکس بھی کیا جاسکتا ہے۔ رہن کی قیمت قرض کی مقدار کا پتہ نہیں دے سکتی اور نہ ہی اس میں اس پر دلالت ہی پائی جاتی ہے تو اب بتائیں کہ رہن کس طرح گواہی کے مساوی اور ہم پلہ ہوسکتی ہے ؟- مستدل کے قیاس کے بطلان پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر راہن اور مرتہن دونوں اس پر متفق ہوجائیں کہ قرض کی مقدار رہن کی قیمت سے کم تھی تو اس سے عقد رہن کا بطلان لازم نہیں آئے گا لیکن اگر طالب اقرار کرتا اس کا قرض اس سے کم ہے جس کی گواہوں نے گواہی دی ہے تو اس صورت میں گواہوں کی گواہی باطل ہوجاتی ہے یہ وہ وجوبات ہیں جو اس مستدل کے استدلال کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں۔- قول باری ہے (ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولا تکتموا الشھادۃ) ایک خود مکتفی فقرہ ہے اگرچہ اس کا عطف بیع و شراء کے وقت گواہی قائم کرلینے کے اس امر پر ہے جو پہلے گذر چکا ہے یعنی قو ل باری (واشھدوا اذا تبایعتم) اس لئے یہ فقرہ ان تمام گواہوں کے متعلق عام ہے جن میں گواہ پر گواہ بننا اور پھر عدالت میں اس کی گواہی دینا لازم ہوتا ہے۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (واقیموا الشھادۃ للہ) نیز (یایھا الذین امنوا کونوا قوا مین بالقسط شھدآء للہ ولو علی انفسکم) اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعے گواہ کو گواہی چھپانے سے منع فرما دیا ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں۔- لیکن یہ گواہی فرض کفایہ ہے جیسا کہ ہم نے دستاویزوں کی تحریر کے سلسلے میں گواہی ثبت کرنے اور بعد میں یہ گواہی پیش کرنے کے ضمن میں ذکر کردیا ہے لیکن اگر ایسا موقع ہو کہ ان دو گواہوں کے سوا اور کوئی گواہی دینے والا موجود نہ ہو تو پھر گواہی کی فرضیت کا ان ہی دونوں گواہوں پر ہوجائے گا اور اگر وہ اس فرض کی ادائیگی سے پیچھے ہٹ گئے تو آیت میں مذکورہ وعید کے وہ سزا وار ہوں گے۔- آیت میں کتمان شہادت سے نہی اس کی ادائیگی کے وجوب پر دلالت کر رہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس فرضیت کی اور تاکید فرما دی چناچہ قول باری ہے (ومن یک تھا فافہ اثم قلیہ) اللہ تعالیٰ نے گناہ کی نسبت قلب کی طرف کی اگرچہ حقیقت میں گواہی چھپانے والا گنہگار ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ گناہ کا تعلق عقد قلب یعنی قلب کے اندر پیدا ہونے والے ارادے سے ہوتا ہے۔- نیز گواہی کو چھپا جانا دراصل اس نیت کے تحت ہوتا ہے کہ اس گواہی کو زبان پر نہیں لائیں گے اب نیت کا معاملہ خلاص دل کے افعال میں سے ایک ہے جس کے ساتھ اعضاء و جوارح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بنا پر گواہی کو چھپا جانے والا دو طرح سے گناہ کا مرتکب قرار پائے گا۔ ایک گواہی نہ دینے کے ارادے کی وجہ سے اور دوسرا اپنی زبان پر گواہی کے الفاظ نہ لانے کی وجہ سے۔- قول باری (فانہ ، ثم قلبہ) مجاز ہے، حقیقت نہیں ہے اور اس مقام پر یہ مجاز حقیقت سے زیادہ مئوکد ہے یعنی اس کی جگہ یہ فقرہ کہا جاتا کہ ” جو شخص گواہی کو چھپائے گا وہ گنہگار ہوگا۔ “ تو اس میں اتنی تاکید نہ ہوتی جتنی قرآنی فقرے میں ہے۔- نیز حقیقت کے مقابلے میں یہ زیادہ بلیغ اور وعید پر بڑھ کر دلالت کرنے والا ہے۔ اس میں بیان کی ندرت اور اچھوتا پن نیز معافی کا لطیف انداز میں اظہار پایا جاتا ہے۔ اس کلام کو نازل کرنے والی ذات بہت ہی بلند اور حکیم ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت دین میں دستاویز تیار کرنے میں احتیاط نیز پسندیدہ گواہوں کے حصول اور عقد رھن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے اسکے ذریعے دراصل دین اور دنیا کی فلاح و صلاح کی صورتوں کے متعلق بندوں کو آگاہ کیا گیا ہے۔- دنیاوی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اس کے ذریعے آپس کے تعلقات کی درستی اور باہمی تنازعات اور اختلافات کا خاتمہ ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہیں اور دین و دنیا دونوں کے ہاتھ سے نکل جانے کا سبب بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (ولا تنازعوا فتفثلوا وتذھب ریحکم، آپس میں نہ لڑو ورنہ تم ناکام ہو جائو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ )- تنازعہ ختم ہونے کی صورت یہ ہے کہ جب مطلوب یعنی مقروض کو یہ معلوم ہوگا کہ اس پر قرض ہے اور گواہ بھی موجود ہیں یا دستاویز موجود ہے یا رہن رکھا ہوا ہے جو قرض خواہ کے ہاتھ میں اس کے ذمے عائد شدہ رقم کا ایک ٹھوس ثبوت موجود ہے تو اس میں گڑ بڑ کرنے کی ہمت پیدا نہیں ہوگی۔ کیونکہ اسے اس بات کا علم ہوگا کہ اگر وہ گڑ بڑ کرے گا یا قرض کی رقم کو گھٹا کر پیش کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔- بلکہ گواہوں کی اس کے خلاف گواہی سے الٹا اس کا جھوٹ ظاہر ہوجائے گا دوسری طرف اس انتظام میں قرض خواہ کے لئے بھی اعتماد اور احتیاط کا سامان موجود ہے اس طرح اس انتظام میں قرض خواہ اور قرض دار دونوں کے دین اور دنیاوی صلاح و فلاح کا ذریعہ موجود ہے اس لئے کہ مقروض کا قرض خواہ کے حق کو کم کر کے ظاہر نہ کرنے میں اس کے دین کی بھلائی اور اس کے برعکس عمل کرنے میں اس کے دین کا نقصان ہے کیونکہ وہ جانتے بوجھتے ایسا کر رہا ہے۔- دوسری طرف طالب یعنی قرض خواہ کے پاس اگر ثبوت اور گواہ ہوں گے تو وہ اس کے دعوے اور قرض کو ثابت کردیں گے اور اگر گواہ نہ ہوں اور مقروض انکار کر بیٹھے تو اس سے وہ اس بات پر مجبور ہوجائے گا کہ اپنا حق وصول کرنے کے لئے مقروض کا پوری طرح مقابلہ کرے اور اس کے خلاف ہر قسم کی تدبیر اور چارہ جوئی سے کام لے جس کے نتیجے میں بعض دفعہ وہ صرف اپنا حق لینے پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ مقروض کو پہنچانے کے لئے حتی الامکان اپنے حق سے کئی گناہ زیادہ وصول کرنے کی کوشش کرے گا۔- لوگوں کے آپس کے لین دین کے طور پر نظر رکھنے والوں کو یہ باتیں اچھی طرح معلوم ہیں۔ یہ باتیں بعینہ ان امور کی طرح ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک کے ذریعے حرام قرار دیا ہے یعنی ایسے سودے جن میں مبیع یا ثمن کی مقدار یا مدت کی مقدار نامعلوم ہو۔- ان باتوں پر لوگ زمانہ جاہلیت میں چلتے تھے جبکہ ابھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت نہیں ہوئی تھی جس کے نتیجے میں آپس میں اختلافات پیدا ہوتے ، تعلقات بگڑ جاتے ، بعض عداوت اور نفرت کے بیج بو دیئے جاتے۔- انہی برائیوں کی بیخ کنی کے لئے اللہ تعالیٰ نے قمار، جواء، شراب خوری اور منشیات کے استعمال کو حرام قرار دیا کیونکہ یہی چیزیں نفرت، عداوت، بعض اور کینہ جیسی برائیوں کا سبب بنتی ہیں۔- چنانچہ قول باری ہے (انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والغضآء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلاۃ فھل انتم منتھون شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بعض پیدا کر دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے آیا اب تم باز آ جائو گے ؟ )- اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے یہ بتادیا کہ اس نے جوئے اور شراب سے آپس کے اختلافات اور عداوتیں ختم کرنے کے لئے تمہیں روکا ہے۔ نیز ان باتوں میں مشغولیت اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس لئے جو شخص اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنائے گا، اس کے اوامر کو بجا لائے گا اور اس کے زواجر سے باز رہے گا وہ دین و دنیا دونوں کی صلاح و فلاح کو سمیٹ لے گا۔- ارشاد باری ہے (ولو انھم فعلوا مایو عظون بہ لکان خیراً لھم واشد تثبیتاً واذ الاتینھم من لدنا اجراً عظیماً ولھدینا ھم صراط مستقیماً انہیں جو نصیحت کی جاتی ہے اگر وہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا اور جب یہ ایسا کرتے تو ہم انہیں اپنی طرف سے بہت بڑا اجر دیتے اور انہیں سیدھا راستہ دکھا دیتے۔ )- ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دیوان اور عقود کے متعلق دستاویزات لکھنے اور گواہی قائم کرنے کا حکم دیا ہے نیز ان میں کبھی گواہی کے ذریعے اور کبھی رہن رکھ کر احتیاط کرنے کے لئے کہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مال کی حفاظت واجب ہے اور اسے اڑانے اور ضائع کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی قسم کی روایت ہے ۔ ہمیں ایسے شخص نے روایت بیان کی جس پر روایت حدیث کے متعلق مجھے کوئی اعترا ض نہیں، انہیں معاذ بن المثنٰی نے انہیں مسدد نے انہیں بشربن الفضل نے ، انہیں عبدالرحمٰن بن اسحاق نے سعید المقبری سے، انہوںں نے حضرت ابوہریرہ سے، انہوںں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (لایحب اللہ اضاعۃ المال ولا قیل ولا قال اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ مال ضائع کرنے اور بحث و تکرار نیز سوال و جواب کو پسند نہیں کرتا۔ )- ہمیں ایسے شخص نے روایت بیان کی جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، انہیں محمد بن اسحاق نے انہیں موسیٰ بن عبدالرحمٰن المسروقی نے، انہیں حسن الجعفی نے محمد بن سوقہ سے، انہوں نے وراد سے کہ حضرت معاوضہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو لکھا کہ مجھے وہ حدیثیں لکھ کر بھیجو جو تم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح سنی ہیں کہ تمہارے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان اور کوئی واسطہ نہ ہو۔- وراد کہتے ہیں کہ حضرت مغیرہ نے مجھے یہ لکھوایا :” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ نے فرمایا (ان اللہ حرم ثلاثا و نھی عن ثلاث فاما الثلاث التی حرم فعقوق الامھات ووأ دا البنات ولا وھات والثلاث التی تھی عنھھن فقیل وقال والحاف السوال واضاعۃ المال، اللہ تعالیٰ نے تین باتیں حرام کردی ہیں اور تین باتوں سے روکا ہے جن تین باتوں کو حرام قرار دیا وہ مائوں کی نافرمانی، ڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، اپنے اوپر عائد شدہ حق ادا نہ کرنا اور جس پر حق نہ ہو اس کا مطالبہ کرنا، جن تین باتوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں بحث و مباحثہ اور سوال و جواب، مال برباد کرنا اور اصرا رسے مانگنا ۔- ۔۔۔- آیت 282 اور 283 کی تفسیر ختم ہوئی۔ - ۔۔۔۔۔- آیت 284 ، 285 اور 286 کی تفسیر :- قول باری ہے (وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ تم اپنے دل کی بات خواہ ظاہر کردو خواہ چھپی رہنے دو اللہ اس کا تم سے حساب لے گا۔ ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق یہ آیت قول باری (لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا ، اللہ تعالیٰ کسی متنفس پر اس کی مقدریت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالتے) کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ہے۔- ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق مروزی، انہیں الحسن بن ابی ربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں یہ روایت بیان کی کہ حضرت ابن عمر نے جب یہ آیت پڑھی تو رونے لگے اور فرمایا :” ہمارے دل میں جو خیالات ابھرتے ہیں ان پر بھی ہمارا مواخذہ ہوگا۔ “- یہ کہہ کر روتے ہوئے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ان کے پاس ایک شخص موجود تھا وہ اٹھا اور سیدھا حضرت ابن عباس کے پاس آیا اور حضرت ابن عمر کی حالت بیان کی۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا :” اللہ ابن عمر پر رحم فرمائے اس آیت سے مسلمانوں کو بھی وہی تشویق لاحق ہوگئی تھی جو انہیں ہوئی ہے پھر سا کے بعد یہ آیت (لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا) نازل ہوئی۔ “- شعبی سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوعبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی کہ یہ آیت اس کے بعد والی آیت (لھا ما کسبت وعلیھا مااکتسبت، ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے) سے منسوخ ہوگئی ہے۔- معاویہ بن صالح نے عبداللہ بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے قول باری (وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ) کی تفسیر میں یہ روایت کی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن تمام انسانوں کو اکٹھا کرے گا تو اس سے فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دلوں کی ان باتوں کی اطلاع دیتا ہوں جن سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہ ہو سکے۔ - پھر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ان کے دلوں میں ابھرنے والے خیالات سے آگاہ کر کے انہیں معاف کر دے گا اسی لئے فرمایا (یحاسبکم بہ اللہ فیغفرلمن یشآء و یعذب من یشآء ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا پھر جسے چاہے گا معاف کر دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا)- قول باری ہے (لون یواخذکم بما کسبت قلوبکم، لیکن اللہ تعالیٰ تم سے ان باتوں پر مئواخذہ کرے گا جو تمہارے دلوں نے کمائے ہیں) یعنی شک اور نفاق کی کمائی۔ ربیع بن انس سے اسی قسم کی روایت ہے۔ عمرو بن عبید نے کہا کہ حسن بصری کہا کرتے تھے کہ یہ آیت محکم ہے یعنی منسوخ نہیں ہوئی۔ مجاہد سے روایت ہے کہ یہ آیت شک اور یقین کے متعلق محکم یعنی غیر منسوخ ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دو وجوہ کی بنا پر اس آیت کو منسوخ نہیں مانا جاسکتا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اخبار (یعنی ایسی آیتیں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو آگاہ کیا گیا ہو) میں نسخ جائز نہیں۔ اس لئے کہ ان کے تحت دی گئی خبروں کا نسخ بداء یعنی ایک چیز کے پہلے نامعلوم ہونے اور پھر معلوم ہوجانے پر دلالت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو عواقب یعنی ہر چیز کے انجام کی خبر ہے۔ اس لئے اس کی طرف اس کی نسبت جائز نہیں۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی کو ایسی بات کا مکلف بنانا اور اس پر اس کی ذمہ داری ڈالنا جائز نہیں جو اس کی طاقت سے باہر ہو یہ ایک فضول اور بے وقوفانہ حرکت ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی ذات فضول کاموں سے بلند و برتر ہے جن حضرات سے اس آیت کے منسوخ ہونے کی روایت مقنول ہے تو اس میں راوی سے لفظی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ انہوں نے اس آیت کے معنی بیان کرنے اور اسے کسی اور طرف موڑنے کے تو ہم کے ازالے کا ارادہ کیا تھا۔- مقسم نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت گواہی چھپانے کے متعلق نازل ہوئی۔ عکرمہ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ان دونوں حضرات کے سوا دوسرے مفسرین سے منقول ہے کہ آیت تمام باتوں کے متعلق ہے۔- یہ تفسیر اولیٰ ہے کیونکہ اس میں عموم ہے اور یہ خود مکتفی بھی ہے۔ اس لئے یہ گواہی اور اس کے علاوہ تمام دوسری باتوں کے لئے عام ہے۔ کسب قلب پر مواخذہ کے متعلق اس آیت کی نظیر یہ قول باری ہے (ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم) نیز ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم، جو لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں فواحش پھیل جائیں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے) نیز (فی قلوبھم مرض، ان کے دلوں میں بیماری ہے) یعنی شک کی بیماری۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان اللہ عفا لامتی عما حدثت بہ انفسھا مالم یتکلموا بہ اولعلموابہ، اللہ تعالیٰ نے میری امت کے افراد کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات کو معاف کردیا ہے جب تک وہ انہیں اپنی زبان پر نہ لائیں اور انہیں عملی شکل نہ دے دیں۔ )- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت میں بیان کردہ حکم کا تعلق ان خیالات سے ہے جن کی وجہ سے شرعی احکام لازم ہوتے ہیں۔ اس لئے کسی کی طرف اپنے غلام کو آزاد کرنے یا بیوی کو طلاق دینے یا بیع کرنے یا صدقہ یا ہبہ کا وقوع صرف ارادے اور نیت کی بنا پر نہیں ہوگا جب تک وہ انہیں الفاظ کی شکل نہ دے دے اور اپنی زبان پر نہ لائے۔- آیت میں جس مواخذہ کا ذکر ہے اس کا تعلق ان امور سے ہے جو ” مابین اللہ وبین العبد، ہیں حسن بن عطیہ نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے قول باری (وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ) کے سلسلے میں فرمایا :- تمہارے اعلانیہ اور خفیہ اعمال کا اللہ تعالیٰ حساب لے گا اور جو بھی بندئہ مومن اپنے دل میں کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس پر عمل کرنے کی صورت میں اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اگر وہ اس نیکی پر عمل نہ کرسکتا ہو تو اس کے نامہ اعمال میں اس بنا پر ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے کہ وہ بندہ مومن ہے۔- اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے اعلانیہ اور خفیہ دونوں قسموں کے اعمال سے خوش ہوتا ہے۔ اگر بندہ مومن اپنے دل میں کسی بدکاری کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اس سے آگاہ کر دے گا۔ اگر وہ اس بدی کو عملی شکل نہیں دے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کا مئواخذہ نہیں کرے گا۔ اگر اس نے اسے عملی شکل دیح دی تو اللہ تعالیٰ در گذر کر دے گا۔- جیسا کہ قول باری ہے (اولئک الذین نتقبل عنھم احسن ما عملوا ونتجاوز عن سیاتھم) یہی وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم قبول فرماتے اور ان کی سیآت سے درگذر کرتے ہیں) حضرت ابن عباس کی یہ وضاحت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی درج بالا حدیث کی روشنی میں ہے۔- قول باری ہے (لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا) یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا جسے اٹھانے کی اس کے اندر طاقت قدرت نہ ہو اگر اللہ تعالیٰ ایسا کرتا تو وہ اپنے بندے پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنے والا قرار پاتا۔ (تعالیٰ اللہ عن ذلک)- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” لیس فی وسعی کیت وکیت “ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فلاں فلاں کام کرنے کی مجھ میں قدرت نہیں ہے اور نہ ہی میں اس کی طاقت رکھتا ہوں بلکہ لفظ الوسع مفہوم کے لحاظ سے لفظ الطاقۃ سے کم تر ہے۔- امت میں اس کے متعلق کوئی اختلا ف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف یہ بات ہے کہ وہ اپاہج کو چلنے کا اور اندھے کو دیکھنے کا اور ہتھ کٹے کو پنجہ آزمائی کا مکلف بنائے۔ اس لئے کہ ان میں سے کوئی بھی متعلقہ کام کی نہ طاقت رکھتا ہے اور نہ قدرت ۔ اس کے متعلق امت میں کوئی اختلاف نہیں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کھڑے ہو کر نماز ادا نہیں کرسکتا تو وہ نماز میں قیام کا مکلف نہیں ہے اور جو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا مکلف نہیں بلکہ پہلو پر لیٹ کر اشارے سے پڑھے گا کیونکہ اسے اس صورت کے سوا اور کسی طرح نماز پڑھنے کی قدرت اور طاقت نہیں ہے۔- نص قرآنی نے ان لوگوں سے تکلف ساقط کردی ہے یعنی مکلف ہونے کی حیثیت ختم کردی ہے جو فعل پر اس کی قدرت اور اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ جاہلوں کے ایک گروہ کا جن ہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف (نعوذ باللہ) فضول اور بےوقوفانہ افعال کی نسبت کی ہے۔ … یہ خیال ہے کہ ہر وہ کام جس کے کرنے کا کسی مکلف کو حکم دی اگیا ہو یا جس سے روکا گیا ہو تو جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ضروری نہیں کہ مکلف کو اس کے کرنے کی قدرت بھی دی گئی ہو اسی طرح منہی عنہ فعل کے لئے ضروری نہیں اس کے ترک کی اسے قدرت دی گئی ہو۔- اللہ تعالیٰ نے ان جاہلوں کے اس قول کی تکذیب یہ فرما کردی ہے کہ (لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا) نیز عقل انسانی بھی تکلیف مالایطاق ، (کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ) کی قباحت کی گواہی دے رہی ہے جو ذات فعل قبیح سے باخبر ہو اور اسے اس فعل قبیح کو روبکار لانے کی ضرورت بھی نہ ہو اس سے اس کا صدور نہیں ہوسکتا۔ اس مسئلے کے ساتھ جن احکام کا تعلق ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مکلفین سے ایسے افعال کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے جن کی ادائیگی کی ان کے قویٰ میں طاقت ہی نہ ہو اس لئے کہ لفظ الوسع کا مفہوم لفظ الطاقۃ کے مفہوم سے کم تر ہے۔- نیز ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ایک فرض کی ادائیگی میں اپنی پوری طاقت صرف کردیں مثلاً ایک بوڑھا آدمی جس کے لئے روزہ رکھنا بڑی مشقت کی بات ہے اور جسے روزے کی وجہ سے کسی جسمانی تکلیف کے لاحق ہوجانے کا خطرہ ہو اگرچہ اسے موت کا خطرہ نہ ہو، تو اس پر روزہ رکھنا فرض نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے صرف اسی کام کا مکلف بنایا ہے جو اس کے مقدور میں ہو اور جس کی وجہ سے وہ موت کی حالت تک نہ پہنچے۔- یہی حکم اس مریض کا ہے جسے روزہ رکھنے یا پانی استعمال کرنے کی صورت میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ وہ کسی کو ایسے کام کا مکلف نہیں بناتا ہے جو اس کے مقدور سے باہر ہو اور اس کے امکان سے خارج ہو۔ اس سے اس کا مقصد کسی کو تنگی میں ڈالنا یا مشقت میں مبتلا کرنا نہیں ہوتا۔- چنانچہ ارشاد ہوا (ولو شآء اللہ لاعنتکم، اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں دشواری میں مبتلا کردیتا) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (عزیز علیہ ما عنتم تمہارا دشواری اور مشقت میں پڑجانا ان پر بہت بوجھل ہے ) اللہ کے تمام اوامر اور نواہی کے متعلق یہ ایک مستقل حکم اور طریق کار ہے۔ ان کے ساتھ مکلف ہونے کا انحصار بندے کی طاقت و قدرت پر ہے۔- قول باری ہے (ربنالا تواخذنا ان نسینا اواخطانا اے ہمارے پروردگار اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ نہ کرنا) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ نسیان کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان بھول کر کوئی کام بیٹھتا ہے اس صورت میں اگر اس سے بھول کر کوئی غلطی سر زد ہوجائے تو معذرت کرلینا بہتر ہوتا ہے۔- دوسری یہ کہ جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو اسے کسی پیدا ہونے والے شبہ یا غ لط تاویل کی بنا پر ترک کر دے۔ اگرچہ خود اس فعل کا وقوع سہو اور نسیان کی بنا پر نہ ہو اس صورت میں یہ بہتر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسے افعال کی معافی مانگے۔ نسیان بمعنی ترک لغت میں مصروف ہے۔- قول باری (نسو اللہ فنسیھم) وہ اللہ کو بھول گئے پھر اللہ نے انہیں بھلا دیا یعنی انہوں نے اللہ کے حکم کو ترک کردیا اور اس کے ثواب اور اجر کے مستحق نہیں ٹھہرے۔ اللہ پر نسیا ن کے اسم کا اطلاق اسم کے بالمقابل اسم کے طور پر ہوا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے (وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا ، برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے) نیز (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ماعتدی علیکم ، جو تم سے زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی قدر زیادتی کرو جس قدر کہ اس نے تم سے کی ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ نسیان ذکر یعنی یاد کی ضد ہے اللہ اور اس کے بندے کے مابین جہاں تک مئواخذہ اور استحقاق عقاب کے معاملے کا تعلق ہے نسیان کی بنا پر اس کا حکم مرتفع ہوجاتا ہے اور اس جیسی صورت میں بندے کے مکلف ہونے کی حیثیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور اس پر آخرت میں مواخذہ بھی درست نہیں ہوتا۔- نسیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو جن عبادات کا مکلف بنایا ہے نسیان کی وجہ سے ان کا حکم بندے پر باقی نہیں رہتا اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نسیان کے ہوتے ہوئے بہت سی عبادتوں کے لزوم کا نصاً حکم دیا ہے اور امت کا بھی اس پر اتفاق رہا ہے۔- ان میں سے ایک حکم نماز کے متعلق ہے فرمایا (من نام عن صلوۃ اونسیھا فلیمصلھا اذا ذکرھا، جو شخص کسی نماز کے وقت سوتا رہا یا اسے ادا کرنا بھول گیا تو جب اسے یاد آئے ادا کرے) یہ فرما کر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (واقم الصلوۃ لذکری، اور میری یاد میں نماز قائم کرو)- آپ کی تلاوت سے اس بات پر دلالت حاصل ہوئی کہ قول باری (اقم الصلوۃ لذکری) میں اللہ کی مراد یہ ہے کہ بھولی ہوئی نماز یاد آ تے ہی ادا کرلی جائے۔ اسی طرح قول باری ہے ۔ واذکر ربک اذا نسیت جب تجھے نسیان لاحق ہوجائے تو اپنے رب کو یاد کرے۔ )- یہ آیت ہر بھولی ہوئی عبادت کو یاد آ جانے پر قضا کرنے کے لزوم کے لئے ایک عام حکم پر مشتمل ہے۔ فقہاء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ روزہ، زکواۃ اور دوسری تمام فرض عبادات کو بھول جانے والا یا د آنے پر قضا کرنے کے لزوم کے اعتبار سے نماز کو بھول جانے والے کی طرح ہے۔- اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ نماز میں بھول کر بات کرلینے والے کا حکم عمداً بات کرنے والے کی طرح ہے۔ اس لئے کہ اصول یہ ہے فرض عبادات میں ناسی اور عامد دونوں کا حکم یکساں ہے۔ ان میں سے کسی عبادت کے اسقاط میں نسیان کا کوئی اثر نہیں ہوتا سوائے ان عبادات کے جن کے متعلق شریعت کی طرف سے ہدایات آئی ہوں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نمازی اگر وضو کرنا بھول گیا ہو تو اس کی نماز بھی اسی طرح باطل ہوجائے گی جس طرح جان بوجھ کر وضو نہ کرنے والے کی نماز۔- فقہاء نے رمضان میں دن کے وقت بھول کر کھا لینے کے متعلق کہا ہے کہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا روزہ ٹوٹ جانے اور اس پر قضاء لازم آ جائے لیکن اس سلسلے میں حدیث کی موجودگی کی بنا پر قیاس رتک کردیا گیا۔- ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کے ساتھ سات ھیہ بات بھی ہے کہ ناسی جس طریقے پر بھی فرض کی ادائیگی کرے لے گا وہ اس بوجھ سے سبکدوش سمجھا جائے گا اور سا کا فرض ادا ہوجائے گا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حالت نسیان میں اسے اس کے سوا اور کسی طریقے سے ادائیگی کا مکلف نہیں بنایا۔- قضاء درحقیقت ایک اور فرض ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر لازم ہوجاتا ہے۔ ہم نے اس کے متعلق دلائل کا تذکرہ پہلے کردیا ہے۔ اس لئے نسیان کا اثر صرف یہ ہے کہ اس کی وجہ سے فقط گناہ ساقط ہوجاتا ہے لیکن جہاں تک فرضیت کے لزوم کا تعلق ہے اس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول کہ (رفع عن امتی) الخطائو النسیان، میری امت کو غلطی اور بھول چوک کی معافی ہے) اس کا بھی تعلق گناہ کی معافی تک ہے اس سے رفع حکم مراد نہیں ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے غلطی سے کسی کو قتل کردینے پر دیت اور کفارہ کے لحاظ سے اس کے حکم کے لزوم کو نصاً برقرار رکھا ہے۔ اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں خطاء کے ذکر کے ساتھ نسیان کا بھی ذکر کیا ہے جو اسی معنی پر محمول ہے۔- اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ کا یہ ایک اصل اور قاعدہ ہے کہ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا واجب ہے اور اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کے اس ذبیحے کی حیثیت مردار کی طرح ہوگی اور اگر بسم اللہ پڑھنا بھول گیا ہو تو ذبیحہ حلال ہوگا اور ذبح کا عمل مکمل ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ نے اس ذبیحہ کو اس شخص کی نماز کی طرح کیوں نہیں قرار دیا جو وضو کرنا بھول گیا ہو۔ وہ تو قطعی طور پر وضو کر کے نماز لوٹانے کا پابند ہوگا۔- اسی طرح کی بات بھول کر نماز پڑھ لینے کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ نسیان کی صورت میں اس نے فرض کی ادائیگی جس طرقیے سے کی ہے اس کے سوا کسی اور طریقے کا وہ مکلف ہی نہیں تھا۔ یاد آنے کے بعد اس پر لازم ہونے والا فرض درحقیقت وہ ایک اور فرض ہے جو نئے سرے سے عائد ہوا ہے۔- اسی طرح ہم ذبیحہ پر بسم اللہ نہ پڑھنے کی صورت کو یہ کہہ کر جائز قرار دیں گے کہ وہ نسیان کی حالت میں بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں تھا۔ اس لئے ذبیحہ درست ہوگیا اور چونکہ ایک دفعہ ذبح کرنے کے بعد دوسری مرتبہ ذبح کا عمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے وہ اس کا مکلف نہیں ہوگا جس طرح نماز، روزہ وغیرہ کے اعادے کا مکلف تھا۔- قول باری ہے (لھا ماکسبت وعلیھا ما اکتسبت، ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے۔ اس کا پھل اس کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اس پر ہے) یہ قاس قول باری کی طرح ہے (ولا تکسب کل نفس الا علیھا اور جو متنفس بھی جو کچھ کماتا ہے اس کی ذمہ داری اس پر ہوتی ہے۔ )- نیز (وان لیس للانسان الا ما سعی وان سعیہ سوف یری، اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ دوڑ دھوپ کرتا ہے اور اس کی اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ اسے عنقریب دکھا دیا جائے گا۔ )- ان آیات میں یہ دلالت موجود ہے کہ ہر مکلف کے اعمال کا اس کی ذات کے ساتھ تعلق دوسرے کسی اور کے ساتھ نہیں ہے اور یہ کہ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے فعل کی ذمہ داری کسی اور پر ڈال دے اور اس کے گناہ کسی اور سے مواخذہ ہو۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ابورمثہ کو ان کے اپنے بیٹے کے ساتھ دیکھ کر یہی فرمایا تھا۔ آپ نے ان سے استفسار کیا کہ آیا یہ تمہارا بیٹا ہے، انہوں نے اثبات میں جواب دیا اس پر آپ نے فرمایا (انک لاتجنی علیہ ولایجنی علیک تم اس کے جرم کے ذمہ دار نہیں ہو گے اور وہ تمہارے جرم کا ذمہ دار نہیں ہوگا) آپ کا یہ بھی ارشاد ہے (لا یواخذ احد بجریرۃ ابیہ ولابجریرۃ اخیہ، کوئی شخص اپنے باپ یا اپنے بھائی کے جرم میں نہیں پکڑا جائے گا۔ ) یہ ہے وہ میزان عدل کہ عقل انسانی اس سے بہتر سوچ ہی نہیں سکتی۔- قول باری ہے (لھا ما کسبت و علیھا ما اکتسبت) اس آیت سے کسی شخص پر شرعی وجوہات کی بنا پر پابندی عائد کرنے کی نفی اور اس کی طرف سے قاضی یا کسی اور شخص کو اس کے مال کی خرید و فروخت کی اجازت کے امتناع پر استدلال کیا گیا ہے البتہ وہ صورتیں اس میں شامل نہیں ہیں جن کی تخصیص کے لئے دوسرے دلائل موجود ہیں۔- اس آیت سے امام مالک کے اس قول کے بطلان پر بھی استدلال کیا گیا گیا ہے کہ جو شخص کسی کی طرف سے اس کے امر کے بغیر اس کا قرض ادا کردیتا ہے تو اسے یہ اختیار ہے کہ رقم کے لئے اس کی طرف رجوع کرے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی کمائی کا اس شخص کو ہی ذمہ دار قرار دیا ہے کسی اور کو نہیں اس کا فائدہ بھی اسی کو ملے گا اور اس کا نقصان بھی اسی کو اٹھانا پڑے گا۔- قول باری ہے (ربنا ولا تحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا، اسے ہمارے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ لاد دے جس طرح تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر لاد دیا تھا) الاصر کے معنی کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ ثقل یعنی بوجھ ہے۔ لغنت میں اس کے اصل معنی کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ عطف یعنی تعلق اور رشتہ داری ہے۔- اسی سے اواصر الرحم، کا محاورہ بنا ہے جس کے معنی نسبی رشتہ داری اور تعلقات کے ہیں۔ اس لئے کہ رحم یعنی نسبی تعلق ان رشتہ داریوں کو جوڑے سے رکھتا ہے۔ اس کا واحد، آمرۃ ہے ۔ لفظ الماصر کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ وہ رسی ہے جسے رکاوٹ کی خاطر کسی شاہراہ یادریا کے گھاٹ پر باندھ دیا جائے تاکہ لوگوں کو وہاں سے گذرنے سے روک کر ان سے چنگی اور عشر وغیرہ وصول کیا جاسکے۔- قول باری (لاتحمل علینا اصراً ) میں اصر سے مراد عہد ہے یعنی ایسا حکم جو بوجھل اور بھاری ہو۔ حضرت ابن عباس، مجاہد اور قتادہ سے اسی قسم کی روایت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے قول (وما جعل علیکم فی الدین من حرج اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی کا سامان پیدا نہیں کیا) کے ہم معنی ہے۔ آیت میں حرج سے مراد تنگی ہے۔- نیز (یرید اللہ بکم الیسر، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے نرمی کا سامان پیدا کرنا چاہتا ہے) نیز (مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج ، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تمہارے لئے تنگی کا سامان پیدا کر دے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہے۔- آپ نے فرمایا (جئتکم بالحنیفیۃ (السمعۃ، میں تمہارے پاس دین حنیف لے کر آیا ہوں جس میں بڑی وسعت اور کشادگی ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ (ان بنی اسرائیل شددوا علی انفسھم فشدد اللہ علیھم ، بنی اسرائیل نے اپنے اوپر سختیاں کیں پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کردی۔ )- قول باری (ولا تحمل علینا اصراً ) میں مراد و امرو نواہی کا بوجھ ہے اور قو ل باری (کما حملتہ علی الذین من قلنا) اس قول باری کی طرح ہے (ویضع عنھم اصرھم والا غلال التی کانت علیھم اور ان سے ان کا بوجھ اور زنجیریں اتارتا ہے جو ان پر پڑی ہوئی تھیں۔ )- اس آیت اور اسی طرح کی دوسری آیتوں سے ہر ایسے مسئلے میں تنگی، شدت اور دبائو کی نفی پر استدلال کیا گیا ہے جس میں فقہاء کا اختلاف ہو اور فقہاء نے اس میں اجتہاد کی گنجائش نکالی ہو۔ اس لئے جو شخص مسائل میں تنگی، شدت اور سختی کو واجب سمجھتا ہے مثلاً وضو میں نیت کا وجوب، نیز اس میں ترتیب کا ایجاب اور اسی قسم کی اور باتیں آیت میں اس کے خلاف دلیل موجود ہے۔ اور ہمارے لئے ان مذکورہ آیات کے ظواہر سے تنگی اور شدت کی نفی پر استدلال کا جو ازموجود ہے۔ - قول باری ہے (ربنا ولا تحملنا مالا طاقۃ لنابہ، اے ہمارے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ اول مکلف بنانے کی وہ صورت جس میں شدت اور بوجھ ہو جس طرح بنی اسرائیل کو اس کا مکلف بنادیا گیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں۔- اس میں یہ بھی جائز ہے کہ ایک شخص جس کام کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کے اس عدم طاقت کی تعبیر سختی اور شدت جیسے الفاظ سے کی گئی ہو جس طرح کہ آپ کہیں ” مااطیق کلام فلان ولا اقدران اراہ ‘(میں فلاں سے کلام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا نیز اسے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ - اس جملے سے نفی قدرت مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے لئے یہ کام بہت بھاری اور سخت ہے اس طرح اس فقرے کو بولنے والا بمنزلہ اس عاجز کے ہوتا ہے جو فلاں شخص سے گفتگو کرنے اور اسے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا اس لئے کہ مذکورہ شخص دلی طور سے اس سے دور ہوتا ہے اور اس سے کلام کرنے اور اسے دیکھنے میں وہ کراہت محسوس کرتا ہے۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (وکانوا لایستعطیعون سمعاً ) اور وہ لوگ سن نہیں سکتے تھے) یعنی ان کی سماعت بالکل ٹھیک ٹھاک تھی لیکن انہوں نے کلام الٰہی سننے سے اپنے کان بوجھل کر لئے تھے اور اس سے منہ پھیرلیا تھا اس طرح ان کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگئی تھی جو گویا سنتا ہی نہ تھا۔ )- دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ ہم پر عذاب کا ایسا بوجھ نہ لاد دے جسے برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ یہاں اس بارے میں گنجائش موجود ہے کہ آیت سے دونوں معنی مراد لئے جائیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)
(٢٨٦) اللہ تعالیٰ احکام شرعیہ کا طاقت کے مطابق ہی مکلف بناتے ہیں، اس کا نیکیوں پر ثواب ہے مثلا حدیث نفس، بھول، اور غلطی، اور مجبور کرنے کے ترک کرنے پر ثواب ہے، اور برائیوں مثلا حدیث نفس نسیان اور زبردستی پر عذاب ہے، اب اللہ تعالیٰ دعا کے طریقہ کی تعلیم دیتا ہے، کہ اس طریقہ کے ساتھ بارگاہ الہی میں دعا کرنی چاہیے، تاکہ حدیث نفس (دل کی غلط باتیں) بھول اور غلطی یہ تمام چیزیں معاف ہوجائیں کہ یوں کہو اے ہمارے پالنے والے ہم پر ایسا کوئی شاق حکم نہ نازل کیجیے کہ جس کے چھوڑ دینے سے ہم پر پاکیزہ اور حلال چیزوں کو حرام کردیا جائے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے عہد توڑنے پر تو نے ان پر اونٹ، گائے، بکریوں کے گوشت اور دیگر پاک چیزوں کو حرام کردیا تھا اور یہ بھی درخواست ہے کہ ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالے جس میں ہمیں کسی قسم کی راحت اور نفع نہ ہو ہم سے معاف اور درگزر فرمائے، آپ ہی ہمارے کارساز ہیں۔- اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ ہمیں مسخ کے عذاب سے بچائیے جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کو مسخ کیا گیا، اور زمین میں دھنسا دینے سے ہماری مغفرت فرمائیے، جیسا کہ قارون کو زمین میں دھنسایا گیا، اور سنگسار کردینے سے بھی ہم پر رحم فرمائیے، جیسا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو پتھروں کے ذریعہ سنگسار کیا گیا، جس انہوں نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے دل کی غیراختیاری باتوں اور بھول چوک سے مواخذہ کو اٹھا لیا اور خسف، مسخ اور سنگسار کردینے سے بھی ان کو اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کو محفوظ فرما دیا۔
آیت ٢٨٦ (لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط) - یہ آیت اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل و کرم کا مظہر ہے۔ میں نے آیت ١٨٦ کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دنیا میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا منشور ( ) ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے : (اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ) میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے۔ (فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ ) پس انہیں بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ گویا دو طرفہ بات چلے گی ‘ یک طرفہ نہیں۔ میری مانو ‘ اپنی منواؤ تم دعائیں کرو گے ‘ ہم قبول کریں گے لیکن اگر تم ہماری بات نہیں مانتے تو پھر تمہاری دعا تمہارے منہ پردے ماری جائے گی ‘ خواہ قنوت نازلہ چالیس دن تو کیا اسّی دن تک پڑھتے رہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری دعاؤں کے باوجود تمہیں سقوط ڈھا کہ کا سانحہ دیکھنا پڑا ‘ تمہیں یہودیوں کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اگرچہ ان مواقع پر حرمین شریفین میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی رہی ‘ لیکن تمہاری دعائیں کیونکر قبول ہوتیں تمہارا جرم یہ ہے کہ تم نے اللہ کو پیٹھ دکھائی ہوئی ہے ‘ اس کے دین کو پاؤں تلے روندا ہوا ہے ‘ اللہ کے باغیوں سے دوستی رکھی ہوئی ہے۔ کسی نے ماسکو کو اپنا قبلہ بنا رکھا تھا تو کسی نے واشنگٹن کو۔ لہٰذا تمہاری دعائیں تمہارے منہ پردے ماری گئیں۔- لیکن آیت زیر مطالعہ اس اعتبار سے بہت بڑی رحمت کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھے کی لاٹھی والا معاملہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں سے محاسبہ ایک ہی سطح پر ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ کس کی کتنی وسعت ہے اور اسی کے مطابق کسی کو ذمہّ دارٹھہراتا ہے۔ اور یہ وسعت موروثی اور ماحولیاتی عوامل پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر شخص کو جو ملتے ہیں وہ دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ان کی اپنی اپنی خصوصیات ( ) اور تحدیدات ‘ ( ) ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہر شخص کو دوسرے سے مختلف ماحول میسرّ آتا ہے۔ تو ان موروثی عوامل ( ) اور ماحولیاتی عوامل ( ) کے حاصل ضرب سے انسان کی شخصیت کا ایک ہیولیٰ بنتا ہے ‘ جس کو مستری لوگ پاٹن کہتے ہیں۔ جب لوہے کی کوئی شے ڈھالنی مقصود ہو تو اس کے لیے پہلے مٹی یا لکڑی کا ایک سانچہ ( ) بنایا جاتا ہے۔ اس کو ہمارے ہاں کاریگر اپنی بولی میں پاٹن کہتے ہیں۔ اب آپ لوہے کو پگھلا کر اس میں ڈالیں گے تو وہ اسی صورت میں ڈھل جائے گا۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ شاکلہ ہے جو ہر انسان کا بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖط فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلاً ) (بنی اسرائیل ) کہہ دیجیے کہ ہر کوئی اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ پس آپ کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سیدھی راہ پر ہے۔ اس شاکلہ کے اندر اندر آپ کو محنت کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا شاکلہ وسیع تھا اور کس کا تنگ تھا ‘ کس کے اعلیٰ تھے اور کس کے ادنیٰ تھے ‘ کس کے ہاں ذہانت زیادہ تھی اور کس کے ہاں جسمانی قوت زیادہ تھی۔ اسے خوب معلوم ہے کہ کس کو کیسی صلاحیتیں ودیعت کی گئیں اور کیسا ماحول عطا کیا گیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ماحولیاتی عوامل اور موروثی عوامل کو ملحوظ رکھ کر اس کی استعدادات کے مطابق حساب لے گا۔ فرض کیجیے ایک شخص کے اندر استعداد ہی ٢٠ درجے کی ہے اور اس نے ١٨ درجے کام کر دکھایا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ لیکن اگر کسی میں استعداد سو درجے کی تھی اور اس نے ٥٠ درجے کام کیا تو وہ ناکام ہوگیا۔ حالانکہ کمیت کے اعتبار سے ٥٠ درجے ١٨ درجے سے زیادہ ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کا محاسبہ جو ہے وہ انفرادی سطح پر ہے۔ اس لیے فرمایا گیا : (وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا ) (مریم) اور سب لوگ قیامت کے دن اس کے حضور فرداً فرداً حاضر ہوں گے۔ وہاں ہر ایک کا حساب اکیلے اکیلے ہوگا اور وہ اس کی وسعت کے مطابق ہوگا۔ - (لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط) کے الفاظ میں جو ایک اہم اصول بیان کردیا گیا ہے ‘ بعض لوگ دنیا کی زندگی میں اس کا غلط نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں۔ وہ دنیا کے معاملات میں تو خوب بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہے۔ یہ محض خود فریبی ہے۔ استعداد و استطاعت اور ذہانت و صلاحیت کے بغیر تو دنیا میں بھی آپ محنت نہیں کرسکتے ‘ کوئی نتائج حاصل نہیں کرسکتے ‘ کچھ کما نہیں سکتے۔ لہٰذا اپنے آپ کو یہ دھوکہ نہ دیجیے اور جو کچھ کرسکتے ہوں ‘ وہ ضرور کیجیے۔ اپنی شخصیت کو کھود کھود کر اس میں سے جو کچھ نکال سکتے ہوں وہ نکالیے ہاں آپ نکال سکیں گے اتنا ہی جتنا آپ کے اندر ودیعت ہے۔ زیادہ کہاں سے لے آئیں گے ؟ اور اللہ نے کس میں کیا ودیعت کیا ہے ‘ وہ وہی جانتا ہے۔ تمہارا محاسبہ اسی کی بنیاد پر ہوگا جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے۔ اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ کیجیے کہ یہ قرآن مجید میں پانچ مرتبہ آیا ہے۔ - (لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط) ۔ - اس مقام پر بھی ل اور عَلٰی کے استعمال پر غور کیجیے۔ (لَھَا مَا کَسَبَتْ ) سے مراد ہے جو بھی نیکی اس نے کمائی ہوگی وہ اس کے لیے ہے ‘ اس کے حق میں ہے ‘ اس کا اجر وثواب اسے ملے گا۔ (وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط) سے مراد ہے کہ جو بدی اس نے کمائی ہوگی اس کا وبال اسی پر آئے گا ‘ اس کی سزا اسی کو ملے گی۔ - اب وہ دعا آگئی ہے جو قرآن مجید کی جامع ترین اور عظیم ترین دعا ہے : - (رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا ج) - ایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی شخصیت کے کونوں کھدروں میں سے امکان بھر اپنی باقی ماندہ توانائیوں ( ) کو بھی نکال نکال کر اللہ کی راہ میں لگا لیں ‘ لیکن اس کے بعد بھی اپنی محنت پر ‘ اپنی نیکی ‘ اپنی کمائی اور اپنے کارناموں پر کوئی غرّہ نہ ہو ‘ کوئی غرور نہ ہو ‘ کہیں انسان دھوکہ نہ کھاجائے۔ بلکہ اس کی کیفیت تواضع ‘ عجز اور انکساری کی رہنی چاہیے۔ اور اسے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے پروردگار ہماری بھول چوک پر ہم سے مؤاخذہ نہ فرمانا۔ - انسان کے اندر خطا اور نسیان دونوں چیزیں گندھی ہوئی ہیں : (اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِنَ الْخَطَاأ وَالنِّسْیَانِ ) خطا یہ ہے کہ آپ نے اپنی امکانی حد تک تو نشانہ ٹھیک لگایا تھا ‘ لیکن نشانہ خطا ہوگیا۔ اس پر آپ کی گرفت نہیں ہوگی ‘ اس لیے کہ آپ کی نیت صحیح تھی۔ ایک اجتہاد کرنے والا اجتہاد کر رہا ہے ‘ اس نے امکانی حد تک کوشش کی ہے کہ صحیح رائے تک پہنچے ‘ لیکن خطا ہوگئی۔ اللہ معاف کرے گا۔ مجتہد مخطی بھی ہو تو اس کو ثواب ملے گا اور مجتہد مصیب ہو ‘ صحیح رائے پر پہنچ جائے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔ اور نسیان یہ ہے کہ بھولے سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ ) (٣٧) اللہ تعالیٰ نے میری امتّ سے خطا اور نسیان معاف فرما دیا ہے۔- (رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج) ۔ - ایک حمل (بوجھ) وہ ہوتا ہے جس کو لے کر انسان چلتا ہے۔ اسی سے حمال بنا ہے جو ایک بوری کو یا بوجھ کو اٹھا کر چل رہا ہے۔ جو بوجھ آپ کی طاقت میں ہے اور جسے لے کر آپ چل سکیں وہ حمل ہے ‘ اور جس بوجھ کو آپ اٹھا نہ سکیں اور وہ آپ کو بٹھا دے اس کو اصر کہتے ہیں۔ یہ لفظ سورة الاعراف (آیت ١٥٧) میں پھر آئے گا : (وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط) ان الفاظ میں ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شان بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے لوگوں کے وہ بوجھ جو ان کی طاقت سے بڑھ کر تھے ‘ ان کے کندھوں سے اتار دیے۔ ہم سے پہلے لوگوں پر بڑے بھاری بوجھ ڈالے گئے تھے۔ شریعت موسوی ہماری شریعت کی نسبت بہت بھاری تھی۔ جیسے ان کے ہاں روزہ رات ہی سے شروع ہوجاتا تھا ‘ لیکن ہمارے لیے یہ کتنا آسان کردیا گیا کہ روزے سے رات کو نکال دیا گیا اور سحری کرنے کی تاکید فرمائی گئی : (تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃً ) (٣٨) سحری ضرور کیا کرو ‘ اس لیے کہ سحریوں میں برکت رکھی گئی ہے۔ پھر رات میں تعلق زن و شو کی اجازت دی گئی۔ ان کے روزے میں خاموشی بھی شامل تھی۔ یعنی نہ کھانا ‘ نہ پینا ‘ نہ تعلق زن و شو اور نہ گفتگو۔ ہمارے لیے کتنی آسانی کردی گئی ہے ان کے ہاں یوم سبت کا حکم اتنا سخت تھا کہ پورا دن کوئی کام نہیں کرو گے۔ ہمارے ہاں جمعہ کی اذان سے لے کر نماز کے ادا ہوجانے تک ہر کاروبار دنیوی حرام ہے۔ لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ کاروبار کرسکتے ہیں۔ - (رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج) (وَاعْفُ عَنَّاوقفۃ) ہماری لغزشوں کو معاف کرتا رہ - (وَاغْفِرْ لَنَاوقفۃ) ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی فرما دے - مغفرت کے لفظ کو سمجھ لیجیے۔ اس میں ڈھانپ لینے کا مفہوم ہے۔ مِغْفَرْ ’ خود ‘ (ہیلمٹ) کو کہتے ہیں ‘ جو جنگ میں سر پر پہنا جاتا ہے۔ یہ سر کو چھپا لیتا ہے اور اسے گولی یا تلوار کے وار سے بچاتا ہے۔ تو مغفرت یہ ہے کہ گناہوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ دے ‘ ان کی پردہ پوشی فرما دے ۔- (وَارْحَمْنَآوقفۃ) (اَنْتَ مَوْلٰٹنَا) - تو ہمارا پشت پناہ ہے ‘ ہمارا والی ہے ‘ ہمارا حامی و مددگار ہے۔ ہم یہ آیت پڑھ آئے ہیں : (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط) (آیت ٢٥٧) ۔- (فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ) - انہی الفاظ پر وہ دعا ختم ہوئی تھی جو طالوت کے ساتھیوں نے کی تھی۔ اب اہل ایمان کو یہ دعا تلقین کی جا رہی ہے ‘ اس لیے کہ مرحلہ سخت آ رہا ہے۔ گویا : - تاب لاتے ہی بنے گی غالب - مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز - اب کفار کے ساتھ مقابلے کا مرحلہ آ رہا ہے اور اس کے لیے مسلمانوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ درحقیقت غزوۂ بدر کی تمہید ہے۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم ۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :338 یعنی اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے ۔ ایسا ہرگز نہ ہوگا کہ بندہ ایک کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اللہ اس سے باز پرس کرے کہ تو نے فلاں کام کیوں نہ کیا ۔ یا ایک چیز سے بچنا فی الحقیقت اس کی مقدرت سے باہر ہو اور اللہ اس سے مواخذہ کرے کہ تو نے اس سے پرہیز کیوں نہ کیا ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اپنی مقدرت کا فیصلہ کرنے والا انسان خود نہیں ہے ۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت کس چیز کی قدرت رکھتا تھا اور کس چیز کی نہ رکھتا تھا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :339 “یہ اللہ کے قانون مجازات کا دوسرا قاعدہ کلیہ ہے ۔ ہر آدمی انعام اسی خدمت پر پائے گا ۔ جو اس نے خود انجام دی ہو ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کی خدمات پر دوسرا انعام پائے ۔ اور اسی طرح ہر شخص اسی قصور میں پکڑا جائے گا جس کا وہ خود مرتکب ہوا ہو ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کے قصور میں دوسرا پکڑا جائے ۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک آدمی نے کسی نیک کام کی بنا رکھی ہو اور دنیا میں ہزاروں سال تک اس کام کے اثرات چلتے رہیں اور یہ سب اس کے کارنامے میں لکھے جائیں ۔ اور ایک دوسرے شخص نے کسی برائی کی بنیاد رکھی ہو اور صدیوں تک دنیا میں اس کا اثر جاری رہے اور وہ اس ظالم اول کے حساب میں درج ہوتا رہے ۔ لیکن یہ اچھا یا برا ، جو کچھ بھی پھل ہوگا ، اسی کی سعی اور اسی کے کسب کا نتیجہ ہو گا ۔ بہرحال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بھلائی یا جس برائی میں آدمی کی نیت اور سعی و عمل کا کوئی حصہ نہ ہو ، اس کی جزا یا سزا اسے مل جائے ۔ مکافات عمل کوئی قابل انتقال چیز نہیں ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :340 یعنی ہمارے پیش رووں کو تیری راہ میں جو آزمائشیں پیش آئیں ، جن زبردست ابتلاؤں سے وہ گزرے ، جن مشکلات سے انہیں سابقہ پڑا ، ان سے ہمیں بچا ۔ اگرچہ اللہ کی سنت یہی رہی ہے کہ جس نے بھی حق و صداقت کی پیروی کا عزم کیا ہے ، اسے سخت آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ اور جب آزمائشیں پیش آئیں تو مومن کا کام یہی ہے کہ پورے استقلال سے ان کا مقابلہ کرے ۔ لیکن بہرحال مومن کو اللہ سے دعا یہی کرنی چاہیے کہ وہ اس کے لیے حق پرستی کی راہ آسان کر دے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :341 یعنی مشکلات کا اتنا ہی بار ہم پر ڈال ، جسے ہم سہار لے جائیں ۔ آزمائشیں بس اتنی ہی بھیج کہ ان میں ہم پورے اتر جائیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری قوت برداشت سے بڑھ کر سختیاں ہم پر نازل ہوں اور ہمارے قدم راہ حق سے ڈگمگا جائیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :342 اس دعا کی پوری روح کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ آیات ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نازل ہوئی تھیں ، جبکہ مکے میں کفر و اسلام کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی ، مسلمانوں پر مصائب و مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے ، اور صرف مکہ ہی نہیں ، بلکہ سرزمین عرب پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں کسی بندہ خدا نے دین حق کی پیروی اختیار کی ہو اور اس کے لیے خدا کی سرزمین پر سانس لینا دشوار نہ کر دیا گیا ہو ۔ ان حالات میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ اپنے مالک سے اس طرح دعا مانگا کرو ۔ ظاہر ہے کہ دینے والا خود ہی جب مانگنے کا ڈھنگ بتائے ، تو ملنے کا یقین آپ سے آپ پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ دعا اس وقت مسلمانوں کے لیے غیر معمولی تسکین قلب کی موجب ہوئی ۔ علاوہ بریں اس دعا میں ضمنًا مسلمانوں کو یہ بھی تلقین کر دی گئی کہ وہ اپنے جذبات کو کسی نامناسب رخ پر نہ بہنے دیں ، بلکہ انہیں اس دعا کے سانچے میں ڈھال لیں ۔ ایک طرف ان روح فرسا مظالم کو دیکھیے ، جو محض حق پرستی کے جرم میں ان لوگوں پر توڑے جارہے تھے ، اور دوسری طرف اس دعا کو دیکھیے ، جس میں دشمنوں کے خلاف کسی تلخی کا شائبہ تک نہیں ۔ ایک طرف اس جسمانی تکلیفوں اور مالی نقصانات کو دیکھیے ، جن میں یہ لوگ مبتلا تھے ، اور دوسری طرف اس دعا کی دیکھیے جس میں کسی دنیوی مفاد کی طلب کا ادنٰی نشان تک نہیں ہے ۔ ایک طرف ان حق پرستوں کی انتہائی خستہ حالی کو دیکھیے ، اور دوسری طرف ان بلند اور پاکیزہ جذبات کو دیکھیے ، جن سے یہ دعا لبریز ہے ۔ اس تقابل ہی سے صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اہل ایمان کو کس طرز کی اخلاقی و روحانی تربیت دی جارہی تھی ۔