ایمان کی تعریف حضرت عبداللہ فرماتے ہیں ۔ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے ۔ حضرت ابن عباس بھی یہی فرماتے ہیں ۔ حضرت زہری فرماتے ہیں ایمان کہتے ہیں عمل کو ربیع بن انس کہتے ہیں ۔ یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں ۔ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ زبان سے ، دل سے ، عمل سے ، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا ۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے اصولوں پر ، ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے ۔ میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو ، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جیسے فرمایا حدیث ( یومن باللہ ویومن من للمومنین ) یعنی اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا ۔ آیت ( وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ ) 12 ۔ یوسف:17 ) یعنی تو ہمارا یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچے ہوں ۔ اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو ۔ جیسے فرمایا آیت ( اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) 26 ۔ الشعرآء:227 ) ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے ۔ اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی امام احمد اور امام ابو عبیدہ وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا ۔ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کر دی ہیں ۔ فالحمد للہ ۔ بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کئے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ ) 67 ۔ الملک:12 ) جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں ۔ اور جگہ فرمایا آیت ( من خشی الرحمن بالغیب ) الخ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے ۔ حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا ) 35 ۔ فاطر:28 ) جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے آیت ( اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ) 63 ۔ المنافقون:1 ) یعنی منافق جب تیرے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ ہماری تہہ دل سے شہادت ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق تجھ سے جھوٹ کہتے ہیں ۔ اس معنی کے اعتبار سے بالغیب حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں در آنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ غیب کا لفظ جو یہاں ہے ، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہو سکتے ہیں ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر ، فرشتوں پر ، کتابوں پر ، رسولوں پر ، قیامت پر ، جنت دوزخ پر ، ملاقات اللہ پر ، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ، ایمان لانا ہے ۔ قتادہ ابن دعامہ کا یہی قول ہے ۔ ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت ، دوزخ وغیرہ ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے ۔ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے ۔ عطا ابن ابو رباح فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا ، غیب پر ایمان لانے والا ہے ۔ اسماعیل بن ابو خالد فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں ۔ زید بن اسلم کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے ۔ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہو رہے ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے والوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں ۔ پھر آپ نے الم سے لے کر مفلحون تک آیتیں پڑھیں ۔ ( ابن ابی حاتم ۔ ابن مردویہ ۔ مستدرک ۔ حاکم ) امام حاکم اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں ۔ مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے ۔ ابو جمع صحابی سے ابن محریز نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو تم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو ۔ فرمایا میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں ، ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا ، ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ، انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے؟ ہم آپ پر اسلام لائے ، آپ کے ساتھ جہاد کیا ، آپ نے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے ، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہو گا ۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے ۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ ابو جمعہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے ۔ رجاء بن حیوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے ، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے ، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہئے ۔ سنو میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ ۔ کہا سنو ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، ہم دس آدمی تھے ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں تھے ، ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہو گا ؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی ۔ آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے ، وحی الٰہی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے ۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہو گا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے ، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے ، یہ لوگ اجر میں تم سے گنے ہوں گے ۔ اس حدیث میں وجاوہ کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے ۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کر دیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا ، تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے ، انہوں نے کہا ، فرشتے ۔ فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں ، لوگوں نے پھر کہا انبیاء ، فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے ۔ کہا پھر ہم ۔ فرمایا تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں سنو میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے ۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے ۔ اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں ۔ ابو حاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے ۔ مسند ابو یعلی تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں ۔ حضرت انس بن مالک سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت بدیلہ بنت اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں ۔ بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کر چکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر لیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے ۔ عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے ۔ قیام صلوٰۃ کیا ہے ابن عباس فرماتے ہیں فرائض نماز بجا لانا ۔ رکوع سجدہ تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے ۔ قتادہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا ، وضو اچھی طرح کرنا ، رکوع سجدہ پوری طرح کرنا ، اقامت صلوٰۃ ہے ۔ مقاتل کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا ۔ مکمل طہارت کرنا ، رکوع ، سجدہ پورا کرنا ، تلاوت اچھی طرح کرنا ۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں آیت ( وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ) 8 ۔ الانفال:3 ) کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں ۔ ابن عباس بن مسعود اور بعض صحابہ نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے ۔ خرچ میں قربانی دینا جر قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے دی جاتی ہے ۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورۃ برات میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں ۔ قتادہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا ۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ میں اہل و عیال کا خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لئے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے ۔ لہذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا ۔ میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لئے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید ، اس کی ثناء اس کی بزرگی ، اس کی طرف جھکنے ، اس پر توکل کرنے ، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے ۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں ، پھر دور والے اجنبی ۔ لہذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں ۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا ۔ نماز قائم رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ عربی لغت میں صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں ۔ عرب شاعروں کے شعر پر شاہد ہیں ۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لئے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں ۔ صلوٰۃ کو نماز اس لئے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں صلوین کہتے ہیں چونکہ صلوٰۃ میں یہ ہلتی ہیں اس لئے اسے صلوٰۃ کہا گیا ہے ۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے صلی سے ، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا ۔ جیسے قرآن میں آیت ( لَا يَصْلٰىهَآ ) 92 ۔ اللیل:15 ) یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لئے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تصلیہ کہتے ہیں چونکہ مصلی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لئے اسے صلوٰۃ کہتے ہیں ۔ جیسے قرآن میں ہے آیت ( ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۭ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ) 29 ۔ العنکبوت:45 ) یعنی نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے واللہ اعلم ۔ لفظ زکوٰۃ کی بحث انشاء اللہ اور جگہ آئے گی ۔
ف 1 اَمُوْر غَیْبُۃ سے مراد وہ چیزیں ہیں جنکا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ ، وحی، جنت دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔ ف 2 اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔ ف 3 اَنْفَاقْ کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر وثواب ہے۔
[٤] متقین کے اوصاف :۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بن دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور وہ چھ چیزیں ہیں جن پر بن دیکھے ایمان لانا ضروری ہے : اللہ پر، اللہ کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اخروی زندگی پر اور اس بات پر کہ ہر طرح کی بھلائی اور برائی اللہ ہی کی طرف سے مقدر ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی چیز پر بھی ایمان نہ ہونے سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔- [٥] اس کی کم از کم حد دن بھر میں پانچ فرض نمازوں کی بروقت اور باجماعت ادائیگی ہے۔ الا یہ کہ جماعت میں شامل نہ ہونے کے لیے کوئی شرعی عذر موجود ہو۔ یہ دوسری شرط ہوئی۔- [٦] رزق سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں بلکہ ہر وہ نعمت ہے جو جسم یا روح کی پرورش میں مددگار ثابت ہو۔ اگر اللہ نے کسی کو علم و ہنر دیا ہے تو وہ دوسروں کو بھی سکھائے۔ جوانی اور صحت دی تو اسے جہاد میں یا ضعیفوں کی مدد کرنے میں خرچ کرے اور مال و دولت ہے تو اسے فقراء، یتیموں مسکینوں وغیرہ پر خرچ کرے اور اس خرچ کی کم از کم حد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ادا کرنا ہے اور بلند تر درجہ یہ ہے کہ جو کچھ ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دے (٢: ٢١٩) یہ تیسری شرط ہے۔
يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ ) ’ الغیب “ سے مراد وہ حقائق ہیں جو انسان کے حواس اور عقل کی رسائی سے باہر ہیں۔ حدیث جبریل، جس کے راوی امیر المومنین عمر (رض) ہیں، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایمان کی تعریف یہ بیان فرمائی کہ آدمی اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت اور اچھی یا بری تقدیر پر ایمان لائے۔ [ مسلم : ٨ ] یہ سب چیزیں غیب میں شامل ہیں، کیونکہ انھیں دیکھے بغیر ان پر ایمان رکھا جاتا ہے۔ قرآن کی ہدایت سے فیض یاب ہونے والے وہی متقی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان پر اعتبار کرتے ہوئے غیب پر ایمان رکھتے ہیں، اپنے مشاہدے یا اپنی عقل سے معلوم ہونے کا مطالبہ نہیں کرتے، غیب کے منکروں کو قرآن سے کچھ حاصل نہیں، جیسے اندھے کو چراغ کا کوئی فائدہ نہیں۔- ( وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ) قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے غیب پر ایمان کے ساتھ عملاً اطاعت بھی ضروری ہے، اس کی پہلی اور دائمی علامت بلاناغہ نماز ہے، پانچ وقت اذان سن کر نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے سے اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہوجاتا ہے، پھر جو شخص اطاعت پر تیار ہی نہ ہو اسے ہدایت کیسے ہو ؟ نماز قائم کرنے سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کی طرح نماز ادا کرنا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نماز اس طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ “ [ بخاری،- الأذان، باب من قال لیؤذن فی السفر۔۔ : ٦٢٨، عن مالک بن الحویرث (رض) ] - ارکان نماز کو اعتدال اور اطمینان کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اطمینان سے ارکان نماز ادا نہ کرنے والے آدمی سے فرمایا تھا : ” دوبارہ نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ “ [ بخاری، الأذان، باب وجوب القراءۃ ۔۔ : ٧٥٧، عن أبی ہریرۃ (رض) ]- جماعت کا اہتمام بھی نماز قائم کرنے میں شامل ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کوئی تین آدمی نہیں جو کسی بستی میں ہوں یا بادیہ میں، جن میں نماز قائم نہ کی جاتی ہو مگر شیطان ان پر غالب آچکا ہوتا ہے۔ “ [ أبو داوٗد، کتاب الصلوۃ، باب - التشدید فی ترک الصلوۃ : ٥٤٧، عن أبی الدرداء (رض) ]- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اپنی صفیں درست کرو، بلاشبہ صفیں درست کرنا بھی اقامت صلاۃ کا حصہ ہے۔ “ [ بخاری، الأذان، باب إقامۃ الصف۔۔ : ٧٢٣، عن أنس ] اس لیے صحابہ کرام (رض) نماز میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم خوب اچھی طرح ملاتے تھے، انس (رض) فرماتے ہیں : ” جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں صفیں درست کرنے کا حکم دیتے تو ہم اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ہر نمازی اپنا پاؤں اور کندھا ساتھ والے کے پاؤں اور کندھے کے ساتھ چپکا دیتا تھا۔ “ [ بخاری، - الأذان، باب إلزاق المنکب ۔۔ : ٧٢٥ ]- وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ :” جو کچھ ہم نے انھیں دیا “ اس سے مراد ہر نعمت ہے، مثلاً مال و اولاد، علم و عقل، قوت و صحت، عزت و وقار وغیرہ۔” ہر نعمت میں سے کچھ نہ کچھ خرچ کرتے ہیں۔ “ ساری نعمت خرچ کرنے کا مطالبہ ہی نہیں، دیکھیے سورة محمد (٣٦ تا ٣٨) اس میں ذاتی ملکیت کے منکروں ( کمیونسٹوں) کا رد ہے، کیونکہ ملکیت نہ ہوگی تو خرچ کس سے کرے گا۔ خرچ میں فرض و نفل ہر قسم کا خرچ ہے اور جو شخص اللہ کے لیے اس کی عطا کردہ نعمت خرچ کرنے پر تیار ہی نہیں وہ قرآن سے رہنمائی حاصل نہیں کرسکتا۔
(آیت) الَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ :- یعنی خدا سے ڈرنے والے لوگ ایسے ہیں کہ یقین کرتے ہیں بےدیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو، اور جو ہم نے روزی دی ہے اس سے کچھ خرچ کرتے ہیں، - اس آیت میں متقین کی تین صفات بیان کی گئی ہیں : ایمان بالغیب، اقامت صلوٰۃ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، اس کے ضمن میں بہت سے اہم مسائل آگئے ہیں ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے،- پہلا مسئلہ ایمان کی تعریف :- ایمان کی تعریف کو قرآن کریم نے يُؤ ْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ کے صرف دو لفظوں میں پورا بیان کردیا ہے لفظ ایمان اور غیب کے معنی سمجھ لئے جاویں تو ایمان کی پوری حقیقت اور تعریف سمجھ میں آجاتی ہے،- لغت میں کسی کی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے اسی لئے محسوسات ومشاہدات میں کسی کے قول کی تصدیق کرنے کو ایمان نہیں کہتے مثلا شخص سفید کپڑے کو سفید یا سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے اور دوسرا اس کی تصدیق کرتا ہے اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے ایمان لانا نہیں کہا جائے گا کیونکہ اس تصدیق میں قائل کے اعتماد کو کوئی دخل نہیں بلکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بناء پر ہے اور اصطلاح شرع میں خبر رسول کو بغیر مشاہدہ کے محض رسول کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے لفظ غیب لغت میں ایسی چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے جو بدیہی طور پر انسان کو معلوم ہوں، اور نہ انسان کے حواس خمسہ اس کا پتہ لگا سکیں یعنی نہ وہ آنکھ سے نظر آئیں نہ کان سے سنائی دیں، نہ ناک سے سونگھ کر یا زبان سے چکھ کر ان کا علم ہوسکے اور نہ ہاتھ سے چھو کر ان کو معلوم کیا جاسکے،- قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہے اور ان کا علم بداہت عقل اور حواس خمسہ کے ذریعہ نہیں ہوسکتا اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات بھی آجاتی ہیں تقدیری امور جنت و دوزخ کے حالات، قیامت اور اس میں پیش آنیوالے واقعات بھی، فرشتے، تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقین بھی جس کی تفصیل اسی سورة بقرہ کے ختم پر اٰمَنَ الرَسُول میں بیان کی گئی ہے گویا یہاں مجمل کا بیان ہوا ہے اور آخری آیت میں ایمان مفصل کا،- تو اب ایمان بالغیب کے معنے یہ ہوگئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ہدایات وتعلیمات لے کر آئے ہیں ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو جمہور اہل اسلام کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے (عقیدہ طحاوی عقائد نسفی وغیرہ) - اس تعریف میں ماننے کا نام ایمان بتلایا گیا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ محض جاننے کو ایمان نہیں کہتے کیونکہ جہاں تک جاننے کا تعلق ہے وہ تو ابلیس و شیطان اور بہت سے کفار کو بھی حاصل ہے کہ ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق کا یقین تھا مگر اس کو مانا نہیں اس لئے وہ مومن نہیں، - دوسرا مسئلہ اقامت صلو ٰۃ :- اقامت کے معنی محض نماز پڑھنے کے نہیں بلکہ نماز کو ہر جہت اور ہر حیثیت سے درست کرنے کا نام اقامت ہے جس میں نماز کے تمام فرائض، واجبات، مستحبات، اور پھر ان پر دوام والتزام یہ سب اقامت کے مفہوم میں داخل ہیں اور صحیح یہ ہے کہ اس جگہ نماز سے کوئی خاص نماز مراد نہیں بلکہ فرائض وواجبات اور نفلی نمازوں کو یہ لفظ شامل ہے خلاصہ مضمون یہ ہوا کہ وہ لوگ جو نمازوں کی پابندی بھی قواعد شرعیہ کے مطابق کرتے ہیں، اور ان کے پورے آداب بھی بجا لاتے ہیں،- تیسرا مسئلہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا :- اس میں بھی صحیح اور تحقیقی بات جس کو جمہور مفسّرین نے اختیار فرمایا ہے یہی ہے کہ ہر قسم کا وہ خرچ داخل ہے جو اللہ کی راہ میں کیا جائے خواہ فرض زکو ٰۃ ہو، یا دوسرے صدقات واجبہ یا نفلی صدقات و خیرات، کیونکہ قرآن کریم میں جہاں کہیں لفظ انفاق استعمال ہوا عموماً نفلی صدقات میں یا عام معنی میں استعمال کیا گیا ہے زکوٰۃ فرض کے لئے عموماً لفظ زکوٰۃ ہی آیا ہے،- اس مختصر جملہ میں لفظ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ پر غور کیجئے تو ایک یہ لفظ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ایک قوی داعیہ شریف انسان کے دل میں پیدا کردیتا ہے کہ جو کچھ مال ہمارے پاس ہے یہ سب خدا ہی کا عطا کیا ہوا اور اسی کی امانت ہے، اگر ہم اس تمام مال کو بھی اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لئے خرچ کردیں تو حق اور بجا ہے اس میں بھی ہمارا کوئی احسان نہیں، - جان دی ہوئی اسی کی تھی، - حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا،- اس پر مزید اضافہ لفظ مِمَّا نے کردیا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دیئے ہوئے مال کو بھی پورا خرچ کرنا نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ خرچ کرنا ہے،- یہاں متقین کی صفات کا بیان کرتے ہوئے اول ایمان بالغیب کا ذکر فرمایا گیا پھر اقامت نماز اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ایمان کی اہمیت تو سب کو معلوم ہے کہ وہی اصل الاصول اور سارے اعمال کی مقبولیت کا دارومدار ہے لیکن جب ایمان کے ساتھ اعمال کا بیان کیا جائے، تو ان کی فہرست طویل اور فرائض وواجبات کی تعداد کثیر ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعمال میں سے صرف دو عمل نماز اور انفاق مال کے ذکر پر اکتفا کرنے میں کیا راز ہے ؟- اس میں غالبا اسی طرف اشارہ ہے کہ جتنے اعمال انسان پر فرض یا واجب ہیں ان کا تعلق یا انسان کی ذات اور بدن سے ہے یا اس کے مال سے بدنی اور ذاتی عبادات میں سب سے اہم نماز ہے، اس کا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا اور مالی عبادات سب کی سب لفظ انفاق میں داخل ہیں، اس لئے درحقیقت یہ تنہا دو اعمال کا ذکر نہیں بلکہ تمام اعمال و عبادات ان کے ضمن میں آگئے اور پوری آیت کے یہ معنی ہوگئے کہ متقین وہ لوگ ہیں جن کا ایمان بھی کامل ہے اور عمل بھی اور ایمان وعمل کے مجموعہ کا نام ہی اسلام ہے گویا اس آیت میں ایمان کی مکمل تعریف کے ساتھ اسلام کے مفہوم کی طرف بھی اشارہ ہوگیا اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس جگہ اس کی بھی وضاحت کردی جائے کہ ایمان اور اسلام میں کیا فرق ہے ؟- ایمان اور اسلام میں فرق :- لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور اسلام اطاعت و فرمانبرداری کا، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا بھی قلب اور سب اعضاء وجوارح لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعاً اس وقت تک معتبر نہیں جب زبان سے اس تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو،- خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں، - جب اسلام یعنی ظاہری اقرار و فرمانبرداری کے ساتھ دل میں ایمان نہ ہو تو اس کو قرآن کی اصطلاح میں نفاق کا نام دیا گیا ہے اور اس کو کھلے کفر سے زیادہ شدید جرم ٹھہرایا ہے،- (٤: ١٤٧) یعنی منافقین جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں رہیں گے،- اسی طرح ایمان یعنی تصدیق قلبی کے ساتھ اگر اقرار و اطاعت نہ ہو تو اس کو بھی قرآنی نصوص میں کفر ہی قرار دیا ہے ارشاد يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُم (٢: ١٤٦) یعنی یہ کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی حقانیت کو ایسے یقینی طریق پر جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں، - اور دوسری جگہ ارشاد ہے،- وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا (١٤: ٢٧) یعنی یہ لوگ ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں حالانکہ ان کے دلوں میں ان کا یقین کامل ہے اور ان کی یہ حرکت محض ظلم وتکبّر کی وجہ سے ہے،- میرے استاذ محترم حضرت العلاّمہ سیّد محمد انور شاہ کشمیری (رح) ، اس مضمون کو اس طرح بیان فرماتے تھے کہ ایمان اور اسلام کی مسافت ایک ہے فرق صرف ابتداء اسلام ظاہر عمل سے شروع ہوتا ہے اور قلب پر پہنچ کر مکمل سمجھا جاتا ہے اگر تصدیق قلبی ظاہری اقرار و اطاعت تک نہ پہنچنے وہ تصدیق ایمان معتبر نہیں، اسی طرح اگر ظاہری اطاعت و اقرار تصدیق قلبی تک نہ پہنچنے تو وہ اسلام معتبر نہیں، - امام غزالی اور امام سبکی کی بھی یہی تحقیق ہے اور امام ابن ہمام نے مسامرہ میں اس تحقیق پر تمام اہل حق کا اتفاق ذکر کیا ہے،
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ٣ ۙ- ایمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعا دی نشونما دی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔
اقامت صلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ - قول باری ہے : (الذین یومنون بالغیب و یقیمون الصلوۃ و مما رزقنھم ینفقون) لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں) یہ قول باری نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کے امر اور حکم کو متضمن ہے کیونکہ اللہ سبحانہ نے یہ دونوں باتیں متقین کی صفات اور تقویٰ کی شرائط قرار دی ہیں، سج طرح ایمان بالغیب کو تقویٰ کی شرط قرار دیا گیا ہے، ایمان بالغیب سے مراد اللہ اور بعث و نشور پر نیز ان تمام باتوں پر ایمان لانا ہے جن کا اعتقاد ہم پر بطریق استدلال لازم ہوگیا ہے۔ تقویٰ کی شرائط قرار پانا آیت میں مذکورہ صلوۃ و زکوۃ کے ایجاب کا مقتضی بن گیا ہے۔- اقامت صلوۃ کے کئی معانی بیان ہوئے ہیں۔ ایک معنی اتمام صلوۃ ہے اور یہ معنی ” تفویم الشئی و تعقیقہ ایک چیز کو درست کرنا اور اسے حقیقت کا رنگ دینا۔ “ سے ماخوذ ہے۔ اور اسی معنی میں یہ قول باری ہے : واقیموا الوزن بالقسط اور زوزن کو ٹھیک رکھو انصاف کے ساتھ ایک معنی نماز کو اس کے تمام ارکان مثلاً قیام و رکوع و غیر ہما کے ساتھ اذکرنا ہیں۔ قیام کے لفظ سے ان تمام ارکان کی تعبیر کی گئی ہے، کیونکہ قیام نماز کے فرائض میں شامل ہے ، اگرچہ نماز اس کے سوا دیگر فرائض و ارکان پر مشتمل ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے : فاقروا ما تیسر من القرآن (قرآ ن میں سے جو کچھ آسانی سے پڑھا جاسکے اس کی قرأت کرو) یہاں نماز مراد ہے جس کے اندر قرأت کی جاتی ہے۔ اسی طرح قول باری ہے : وقرآن الفجر ( اور قرآن فجر) اس سے مراد فجر کی نماز میں قرأت ہے۔ اسی طرح قول باری : واذا قیل لھم ارکعوا الایرکعون (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تو رکوع نہیں کرتے) نیز وارکعوا و اسجدوا (رکوع اور سجدہ کرو) نیز : وارکعوا مع الراکعین (رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نماز کے ارکان یعنی اس کے فرائض میں سے ایک رکن اور فرض کا ذکر کر کے اس امرپر دلالت قائم کردی کہ مذکورہ رکن نماز کے اندر فرض ہے۔ اس کے ساتھ اس عمل کے ایجاب پر بھی دلالت قائم کردی جس کا شمار نماز کے فرائض ہوتا ہے اس طرح قول باری : ویقتیمون الصلوۃ نماز میں قیام کا موجب اور نماز کے ایک فرض کی خبر دینے والا بن گیا۔- قول باری : یقیمون الصلوۃ میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ متقین نماز کے فرائض پر نماز کے اوقات میں دوام کرتے ہیں، یعنی وہ ہمیشہ اوقات صلوۃ میں نماز کو اس کے فرائض و ارکان کے ساتھ ادا کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتاباً موقوتاً (بےشک) اہل ایمان پ نماز اس کے معلوم و متعین اوقات میں فرض ہے) یعنی نماز اپنے معلوم اوقات میں فرض ہے۔ اسی طرح ارشاد باری ہے : قائماً بالقسط یعنی وہ انصاف کی ترازو کو قائم رکھتا ہے اور انصاف سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرتا۔- عرب کے لوگ ایسی چیز کو قائم کا نام دیتے ہیں جو تسلسل کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہو اور اس کے فاعل کو مقیم کہتے ہیں۔ محاورہ ہے : فلان یقیم ارزاق الجند (فلاں شخص فوج کی خوراک و تنخواہ کا مقیم یعنی منتظم ہے) ایک قول کے مطابق زیر بحث آیت کا مفہوم اس محاورہ سے ماخوذ ہے : قامت السوق (بازار کھل گیا) یہ فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب بازار کے لوگ بازار پہنچ جائیں۔ اس صورت میں آیت کے معنی ہوں گے کہ دوسرے تمام کام کاج چھوڑ کر نماز میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اسی مفہوم میں : قد قامت الصلوۃ (نماز کھڑی ہوگئی) کا فقرہ بھی ہے۔- سطور بالا میں اقامت صلوۃ کے جو مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں ان کے متعلق یہ کہنا جائز ہے کہ وہ سب کے سب آیت کی مراد بن سکتے ہیں۔ قول باری : ومما رزقنھم ینفقون خطاب کے اندر اور اس کے سیاق و سباق ہیں اس بات پر دلالت موجود ہے کہ انفاق سے مراد فرض شدہ انفاق ہے۔ یہ وہ مالی حقوق ہیں جو اللہ کے لئے واجب ہیں، یعنی زکوۃ وغیرہ کیونکہ قول باری ہے : وانفقوا مما رزقنکم من قبل ان یاتی احدکم الموت اور ہم نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے) نیز : والذین یکنرون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ (اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے)- اس بات کی دلیل کہ انفاق سے مراد فرض شدہ انفاق ہے ، یہ ہے کہ اللہ سبحانہ، نے اس کا ذکر فرض نماز اور اللہ اور اس کی کتاب پر ایمان کے ذکر کے ساتھ مقرون کردیا ہے اور اس انفاق کو تقویٰ کی شرائط اور اس کے اوصاف میں شمار کیا ہے۔ زیر بحث آیت میں مذکورہ صلوۃ اور انفاق سے فرض نماز اور زکوۃ مراد ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ لفظ صلوۃ جب کسی وصف یا شرط کے ساتھ مقید ہوئے بغیر علی الاطلاق مذکور ہو تو یہ فرض نمازوں کا مقتضی ہوتا ہے۔ مثلاً قول باری ہے : اقم الصلوۃ لدنوک الشمس (سورج ڈھلنے پر نماز قائم کرو) نیز حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی (نمازوں کی نیز درمیانی نماز کی محافظت کرو) اور اسی طرح کی دیگر آیات۔- جب لفظ صلوۃ کے اطلاق سے فرض نماز مراد ہوگئی تو اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوگئی کہ انفاق سے مراد وہ انفاق ہے جو متعین پر فرض کردیا گیا ہے ۔ جب متقین کی اس بنا پر تعریف کی گئی کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں تو اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوگئی کہ رزق کے اسم کا اطلاق صرف مباح، یعنی حلال رزق کو شامل ہے۔ محظور یعنی حرام مال کو شامل نہیں ہے۔ یعنی اگر ایک شخص کسی کا مال غصب کرلے یا ازراہ ظلم اس کا مال ہتھیا لے تو اس صورت میں یہ نہیں کہ اجائے گا کہ یہ رزق اللہ نے اسے دیا ہے ۔ کیونکہ اگر مذکورہ مال اس شخص کے لئے رزق من اللہ ہوتا تو اس کے لئے یہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس کا صدقہ کرنا اور اس کے ذریعے قرب الٰہی حاصل کرنا جائز ہوتا، جبکہ اہل اسلام کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ غاصب کے لئے غصب شدہ مال صدقہ کرنے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔” غلول یعنی مال غنیمت سے چرائے ہوئے مال کا صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ “- لغت میں رزق حصے کو کہتے ہیں : چناچہ ارشاد باری ہے : وتجعلون رزقکم انکم تکذبون (اور تم نے اپنا حصہ یہ بنا لیا ہے کہ تم تکذیب کرتے ہو) یعنی دعوت اسلام کے اندر تمہارا حصہ یہ ہے کہ تم اسے جھٹلاتے رہتے ہو۔- ایک شخص کا حصہ وہ چیز ہے جو خالص اس کی ہو اور اس میں اس کا کوئی شریک نہ ہو۔ اسے نصیب بھی کہتے ہیں، تاہم اس مقام پر اس سے مراد وہ پاکیزہ اور مباح چیزیں ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کو عنایت کی ہیں۔- رزق کا ایک مفہوم اور بھی ہے اور وہ جانداروں کے لئے اللہ کی پیدا کی ہوئی غذائیں ہیں ان غذائوں کی طرف بھی رزق کی اضافت درست ہے۔ کیونکہ اللہ نے انہیں جانداروں کی خوراک بنایا ہے۔
(٣) وہ لوگ جو کہ ان چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے چھپی ہوئی ہیں، جیسا کہ جنت و دوزخ، پل صراط، میزان اعمال، بعث بعد الموت، حساب کتاب وغیرہ۔ ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ وہ لوگ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں یعنی ان امور میں سے جو قرآن پاک میں نازل کیے گئے ہیں یا وہ جو قرآن کریم میں نازل نہیں ہوئے، ایک قول یہ بھی ہے کہ غیب سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور نماز کو اس کے وضو، رکوع و سجود اور جو امور اس میں واجب ہیں اس کے وقت پر ادا کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور یہ حضرات جناب ابوبکر صدیق (رض) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) ہیں۔
آیت ٣ (الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ ) ” - یہ متقین کے اوصاف میں سے پہلا وصف ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ بس جو کچھ ہماری آنکھوں سے نظر آ رہا ہے ‘ حواس خمسہ کی زد میں ہے بس وہی کل حقیقت ہے۔ نہیں اصل حقیقت تو ہمارے حواس کی سرحدوں سے بہت پرے واقع ہوئی ہے۔- ہدایت قرآنی کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ انسان یہ سمجھ لے کہ جو اصل حقیقت ہے وہ اس کی نگاہوں سے مستور ہے۔ انگلستان کے بہت بڑے فلسفی بریڈلے ( ) کی کتاب کا عنوان ہے : ” “۔ اس نے لکھا ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ حقیقت نہیں ہے ‘ حقیقت اس کے پیچھے ہے ‘ کنفیوشس (٥٥١ تا ٤٧٩ ق م) چین کا بہت بڑا حکیم اور فلسفی تھا ‘ اس کی تعلیمات میں اخلاقی رنگ بہت نمایاں ہے۔ اس کا ایک جملہ ہے :- ; .- یعنی وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جاسکتے اور کانوں سے سنے نہیں جاسکتے ان سے زیادہ یقینی اور واقعی حقائق کوئی اور نہیں ہیں۔ (وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ) ” - اللہ کے ساتھ اپنا ایک ذہنی و قلبی اور روحانی رشتہ استوار کرنے کے لیے نماز قائم کرتے ہیں۔ - (وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ) ’ - یعنی خیر میں ‘ بھلائی میں ‘ نیکی میں ‘ لوگوں کی تکالیف دور کرنے میں اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ‘ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :4 یہ قرآن سے فائدہ اُٹھانے کے لیے دُوسری شرط ہے ۔ ”غیب“ سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہِ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں ۔ مثلاً خدا کی ذات و صفات ، ملائکہ ، وحی ، جنّت ، دوزخ وغیرہ ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے ، ایمان بالغیب ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے ۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سُونگھنے کی شرط لگائے ، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جا سکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :5 یہ تیسری شرط ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے ۔ اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ ہو جائے ۔ اور عملی اطاعت کی اوّلین علامت اور دائمی علامت نماز ہے ۔ ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ مُوٴَذِّن نماز کے لیے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا اطاعت کےلیے بھی تیار ہے یا نہیں ۔ پھر یہ مُوٴَذِّن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے ، اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبّیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہو جاتا ہے کہ مدّعی ایمان اطاعت سے خارج ہو گیا ہے ۔ پس ترکِ نماز دراصل ترکِ اطاعت ہے ، اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص کسی کی ہدایت پر کاربند ہونے کے لیے ہی تیار نہ ہو اس کے لیے ہدایت دینا اور نہ دینا یکساں ہے ۔ یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اقامتِ صلوٰۃ ایک جامع اصلاح ہے ۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی طور پر نماز کا نظام باقاعدہ قائم کیا جائے ۔ اگر کسی بستی میں ایک ایک شخص انفرادی طور پر نماز کا پابند ہو ، لیکن جماعت کے ساتھ اس فرض کے ادا کرنے کا نظم نہ ہو تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں نماز قائم کی جا رہی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :6 یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے کہ آدمی تنگ دل نہ ہو ، زر پرست نہ ہو ، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں اُنہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو ، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے ۔
(٤) جو لوگ قرآن کریم کی ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں یہاں ان کی صفات بیان فرمائی گئ ہیں ان میں سے سب سے پہلی صفت تو یہ ہے کہ وہ ’’ غیب‘‘ یا ان دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں۔ جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی۔ اس میں تمام ایمانیات داخل ہوگئے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا، یا جو کچھ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اس سب پر ایمان لاتے ہیں۔ دوسری چیز نماز قائم کرنا بیان کی گئی ہے جو بدنی عبادتوں میں سب سے اہم ہے اور تیسری چیز اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا جس میں زکوٰۃ و صدقات آجاتے ہیں جو مالی عبادت ہے۔