Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں انصار (جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی۔ اس طرح یہود مدینہ کے تین قبیلہ تھے، بنو قینقاع، بنو نفیر اور بنو قریظ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف (ساتھی) اور بنو قینقاع اور بنو نفیر، بنو خزرج کے حلیف تھے۔ جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں (ساتھیوں کی مدد کرتے اور اپنے ہی مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کو لوٹتے اور انہیں جلا وطن کردیتے حالانکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لئے حرام تھا۔ لیکن پھر انہی یہودیوں کو جب وہ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو فدیہ دے کر چھڑاتے کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنا لیا تھا۔ بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو ترک کردیتے، کسی حکم پر عمل کرلیتے اور کسی وقت شریعت کے حکم کو کوئی اہمیت ہی نہ دیتے۔ قتل، اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مدد کرنا ان کی شریعت میں بھی حرام تھا، ان امور کا توا نہوں نے بےمحابا ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑالینے کا جو حکم تھا، اس پر عمل کرلیا، حالانکہ اگر پہلے تین امور کا وہ لحاظ رکھتے تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٧] مدینہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے بیشتر مشرکین مدینہ کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج مدینہ میں آباد تھے اور یہ آپس میں ہمیشہ لڑتے رہتے تھے اور یہود مدینہ کے دو قبائل بنو قریظہ اور بنو نضیر ان عرب قبائل کے حلیف بن کر ان کو باہم لڑاتے رہنے کا کردار ادا کیا کرتے تھے۔ بنو قریظہ تو قبیلہ اوس کے حلیف تھے اور بنو نضیر قبیلہ خزرج کے۔ یہود گو تعداد میں کم تھے مگر یہ مالدار قوم تھی اور اوس و خزرج کو لڑا کر اپنا سیاسی تفوق بھی برقرار رکھتے تھے اور اسلحہ بھی بیچتے تھے۔ جس کے یہ تاجر تھے۔ ان یہود کی بالکل وہی مثال سمجھئے جو آج سے کچھ مدت پیشتر روس اور امریکہ کی تھی۔ یہ دونوں طاقتیں اسلام کی دشمن تھیں اور آپس میں بھی ان میں اختلاف تھا لیکن اسلام دشمنی میں دونوں متحد ہو کر مسلمان ممالک کو آپس میں لڑاتی رہتی تھیں۔ ان میں سے کوئی ایک، ایک مسلمان ملک کا حلیف بن جاتا اور دوسرا دوسرے کا۔ اس طرح یہود کئی طرح کے فوائد اٹھاتے تھے۔ ان کا اسلحہ بھی فروخت ہوتا تھا اور سیاسی تفوق بھی برقرار رہتا تھا۔- یہود کا اپنے قبیلہ کے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑانا :۔ اللہ تعالیٰ نے یہود سے چار عہد لیے تھے (١) وہ ایک دوسرے کا خون نہ کریں گے (٢) ایک دوسرے کو جلاوطن نہ کریں گے (٣) ظلم اور زیادتی پر مدد نہ کریں گے (٤) اور فدیہ دے کر قیدیوں کو چھڑایا کریں گے۔ اب قبیلہ اوس و خزرج کی جنگ میں بنو قریظہ اور بنو نضیر بھی آپس میں حلیف ہونے کی حیثیت سے لڑتے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹتے تھے۔ اب ایک جنگ میں مثلاً اوس اور بنو قریظہ کو فتح ہوئی تو لازماً بنو نضیر کے قیدی بھی ان کے ہاتھ آتے تھے اور بنو نضیر ان کا فدیہ ادا کر کے انہیں چھڑا لیتے تھے۔ جب ان سے اس کی وجہ پو چھی جاتی تو کہتے کہ قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑانا اللہ کا حکم ہے اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ ان سے جو جنگ کرتے ہو تو وہ اللہ کے کس حکم کے تحت کرتے ہو ؟ تو کہتے کیا کریں اپنے دوستوں (حلیفوں) کو ذلیل نہیں کرسکتے۔ گویا تین کام تو اللہ کے حکم کے خلاف کرتے تھے اور ایک کام اللہ کے حکم کے مطابق جس کا سبب بھی وہ خود ہی بنتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انکی ایسی حرکات پر گرفت کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم اللہ کی کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کردیتے ہو ؟ - جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص بعض احکام شرعیہ کی تعمیل کرے اور جو حکم اس کی طبیعت یا عادت یا مرضی کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دے تو بعض احکام کی تعمیل اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتی اور ایسا انکار دراصل پوری کتاب اللہ کا انکار ہوتا ہے۔ ایسے لوگ حقیقتاً اپنے نفس کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ کتاب اللہ کے نہیں ہوتے۔- [٩٨] دور نبوی میں یہود کا انجام :۔ دنیا میں یہ یہود عبرتناک انجام سے دو چار ہوئے۔ بنو نضیر تو ٤ ھ میں اس ذلت سے دو چار ہوئے جس کا تفصیلی ذکر سورة حشر میں کیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کرلیا اور ان کے بعض باغات کو نذر آتش کردیا۔ اور وہ قلعہ بند ہو کر اپنے گھروں کو خود بھی برباد اور توڑ پھوڑ رہے تھے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ اب جلاوطنی ان کا مقدر بن چکی ہے اور وہ یہ گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمان ان کے تعمیر شدہ مکانات سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح لڑائی کے بغیر ہی انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ انہیں فوری جلاوطنی کا حکم دیا گیا تو انہوں نے شام کا رخ کیا اور جزیہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ان سے جزیہ وصول کیا جاتا رہا اور بنو قریظہ پر جنگ خندق (احزاب ٥ ھ) کے فوراً بعد چڑھائی کی گئی اور ان کے مردوں کو تہ تیغ کردیا گیا اور عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنا لیا گیا، اور آخرت کو جو عذاب انہیں ہوگا وہ تو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- تتمہ میثاق میں جو حکم ان کو دیا گیا ہے اس کے متعلق عہد شکنی کا بیان اس آیت میں فرمایا ہے پھر (اس اقرار صریح کے بعد) تم (جیسے ہو) یہ (آنکھوں کے سامنے) موجود (ہی) ہو کہ باہم قتل و قتال بھی کرتے ہو اور ایک دوسرے کو ترک وطن بھی کراتے ہو، (اس طور پر کہ) ان اپنوں کے مقابلہ میں (ان کی مخالف قوموں کی) امداد کرتے ہو، گناہ اور ظلم کے ساتھ (سو ان دونوں حکموں کو تو یوں غارت کیا) اور (ایک تیسرا حکم جو سہل سا سمجھا اس پر عمل کرنے کو خوب تیار رہتے ہو کہ) اگر ان لوگوں میں سے کوئی گرفتار ہو کر تم تک پہنچ جاتا تو ایسوں کو کچھ خرچ کرا کر رہا کرا دیتے ہو حالانکہ یہ بات (بھی معلوم) ہے کہ تم کو ان کا ترک وطن کرا دینا (اور قتل تو اور بھی بدرجہ اولیٰ ) نیز ممنوع ہے،- معارف و مسائل :- فائدہ : اس باب میں ان پر تین حکم لازم تھے اول قتل نہ کرنا، دوم اخراج یعنی ترک وطن نہ کرانا، سوم اپنی قوم میں سے کسی کو قید وبند میں گرفتار دیکھیں تو روپیہ خرچ کرکے چھڑا دینا تو ان لوگوں نے اول کے دو حکم کو تو چھوڑ دیا اور تیسرے حکم کو اہتمام کرنے لگے اور صورت اس کی یہ ہوئی تھی کہ اہل مدینہ میں دو قومیں تھیں : اوس و خزرج، اور ان میں باہم عداوت رہتی تھی اور کبھی کبھی قتال کی نوبت بھی آجاتی تھی اور مدینہ کے گرد ونواح میں یہودیوں کی دو قومیں بنی قریظہ اور بنی نضیر آباد تھیں اوس وبنی قریظہ کی باہم دوستی تھی اور خزرج و بنی نضیر میں باہم یارانہ تھا جب اوس و خزرج میں باہم لڑائی ہوتی تو دوستی کی بنا پر بنو قریظہ تو اوس کے مددگار ہوتے اور بنو نضیر خزرج کی طرفداری کرتے تو جہاں اوس و خزرج مارے جاتے اور خانماں آوارہ ہوتے ان کے دوستوں اور حامیوں کو بھی یہ مصیبت پیش آتی اور ظاہر ہے کہ بنو قریظہ کے قتل واخراج میں بنو نضیر کا بھی ہاتھ ہوتا اور ایسا ہی بالعکس البتہ یہود کی دونوں جماعتوں میں سے اگر کوئی جنگ میں قید ہوجاتا تو ہر جماعت اپنے دوستوں کو مال پر راضی کرکے اس قیدی کو رہائی دلا دیتے اور کوئی پوچھتا کہ ایسا کیوں کرتے ہو تو اس کو جواب دیتے کہ اسیر کر رہا کرا دینا ہم پر واجب ہے اور اگر کوئی قتل و قتال میں معین و مددگار بننے پر اعتراض کرتا تو کہتے کہ کیا کریں دوستوں کا ساتھ نہ دینے سے عار آتی ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کی شکایت فرمائی ہے اور ان کی حیلہ سازیوں کا پردہ چاک فرمایا ہے ،- اس آیت میں جن مخالف قوموں کی امداد کا ذکر ہے اس سے اوس و خزرج مراد ہیں کہ اوس بنی قریظہ کی موافقت میں بنی نضیر کے مخالف تھے اور خزرج بنی نضیر کی موافقت میں بنی قریظہ کے مخالف تھے،- اثم وعدوان (ظلم وگناہ) دو لفظ لانے سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ اس میں دو حق ضائع ہوتے ہیں حکم الہی کی تعمیل نہ کرکے حق ضائع کیا اور دوسرے کو آزار پہنچا کر حق العباد بھی ضائع کردیا،- آگے اس عہد شکنی پر ملامت و شکایت کے ساتھ ساتھ سزا کو بھی بالتصریح بیان فرمایا ہے ارشاد ہے،- کیا تو (بس یوں کہو کہ) کتاب (تورات) کے بعض (احکام) پر تم ایمان رکھتے ہو اور بعض (احکام) پر ایمان نہیں رکھتے تو اور کیا سزا ہونا (چاہئے) ایسے شخص کی جو تم لوگوں میں سے ایسی حرکت کرے بجز رسوائی کے دنیوی زندگانی میں اور روز قیامت کو بڑے سخت عذاب میں ڈال دیئے جاویں گے اور اللہ تعالیٰ (کچھ) بیخبر نہیں ہیں تمہارے اعمال (زشت) سے،- فائدہ : ہرچند کہ وہ یہودی جن کا قصہ میں ذکر ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرنے کی بناء پر کافر ہی تھے مگر یہاں ان کا کفر مذکور نہیں بلکہ بعض احکام پر عمل نہ کرنے کو کفر سے تعبیر فرمایا ہے حالانکہ جب تک حرام کو حرام سمجھے کافر نہیں ہوتا سو اس شبہ کو جواب یہ ہے کہ جو گناہ بہت شدید ہوتا ہے اس پر محاورات شرعیہ میں اس کی شدت کے پیش نظر کفر کا اطلاق کردیا جاتا ہے ہم اپنے محاورات عرفیہ میں اس کی مثالیں دن رات دیکھتے ہیں جیسے کسی ذلیل حرکت کرنے والے کو کہہ دیتے ہیں تو باکل چمار ہے، حالانکہ مخاطب چمار یقیناً نہیں ہے اس سے مقصود شدت نفرت اور اس کام کی قباحت ظاہر کرنا ہوتا ہے اور یہی معنی ہیں اس حدیث من ترک الصلوم متعمدا فقد کفر وغیرہ، - اس مقام پر جن دو سزاؤں کا ذکر ہے ان میں سے پہلی سزا یعنی دنیا میں ذلت و رسوائی تو اس کا وقوع اس طرح ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے سبب بنی قریظہ قتل وقید کئے گئے اور بنی نضیر ملک شام کی طرف بہزار ذلت و خواری نکال دئیے گئے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِيْـقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِيَارِھِمْ۝ ٠ ۡتَظٰھَرُوْنَ عَلَيْہِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝ ٠ ۭ وَاِنْ يَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْھُمْ وَھُوَمُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ اِخْرَاجُہُمْ۝ ٠ ۭ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۝ ٠ ۚ فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ۝ ٠ ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ ٨٥- «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - ظَاهَرَ ( مدد)- وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] ، وظاهَرْتُهُ :- عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ- [ التحریم 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ- ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تار کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب 26] اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر :- تعلّى الندی في متنه وتحدّراوقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة 283] .- وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما .- وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) " تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔- عُدْوَانِ- ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] ، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ عُدْواناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ ناراً [ النساء 30] ، وقوله تعالی: فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ، أي : غير باغ لتناول لذّة، وَلا عادٍأي متجاوز سدّ الجوعة . وقیل : غير باغ علی الإمام ولا عَادٍ في المعصية طریق المخبتین «2» . وقد عَدَا طورَهُ : تجاوزه، وتَعَدَّى إلى غيره، ومنه : التَّعَدِّي في الفعل . وتَعْدِيَةُ الفعلِ في النّحو هو تجاوز معنی الفعل من الفاعل إلى المفعول . وما عَدَا كذا يستعمل في الاستثناء، وقوله : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] ، أي : الجانب المتجاوز للقرب .- اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔ وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ عُدْواناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ ناراً [ النساء 30] اور جو تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل کریں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ہاں جو ناچار ہوجائے بشر طی کہ خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد ضرورت سے باہر نہ نکل جائے ۔ میں باغ سے وہ شخص مراد ہے جو لذت اندوزی کے لئے مردار کا گوشت کھانے کی خواہش کرتا ہے اور عاد سے مراد وہ شخص ہے جو قدر کفایت سے تجاوز کرتا ہے بعض نے باغ کے معنی خلیفہ وقت کا باغی اور عاد سے وہ شخص مراد لیا ہے جو عجزو نیاز کرنے والوں کے طریق سے تجاوز کرنے والا ہو اور یہ عدی طور سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں اپنے رتبہ سے تجاوز کرنے والا اور اسی سے تعدیتہ فی الفعل ہے اور علم نحو میں فعل کے تعدیتہ سے مراد ہوتا ہے فعل کا اپنے فاعل سے گزر کر مفعول تک پہنچ جانا اور ماعدا کا لفظ استثناء کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافربعید کے ناکے پر ۔ میں عدوٹ الدنیا سے مدینہ کی جانب کا کنارہ مراد ہے جو حد قریب سے کچھ دور تھا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : وان یاتوکم اسری تفادوھم وھو محرم علیکم اخراجہم افتومنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض (اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو ا ن کی رہائی کے لئے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھ، تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ )- یہ قول باری اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ لڑائی میں قید ہوجانے پر یہودیوں کا فدیہ دے کر انہیں چھڑا لینا ان پر واجب تھا اور ان میں سے ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکالنا ان پر حرام تھا۔ جب ان میں سے بعض لوگوں اپنے دشمنوں کو گرفتار کرلیتے تو ان پر ان کی رہائی کے لئے فدیہ دینا واجب ہوتا۔ اس طرح یہ لوگ خود یہودیوں کے ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکال کر کتاب اللہ یعنی تورات کے ایک حصے کے ساتھ کفر کرتے کیونکہ اس طرح وہ اللہ کی طرف سے ایک ممنوعہ فعل کے مرتکب ہوجاتے تھے اور پھر گرفتار شدہ یہودیوں کی رہائی کے لئے فدیہ کالین دین کر کے تورات کے ایک حصے پر ایمان رکھتے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اللہ کی طرف سے ان پر واجب شدہ کام سر انجام دے دیتے، اس پورے پس منظر کو ذہن نشین کرنے کے لئے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔- ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے مدینے کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنے ہمسایہ عرب قبائل (اوس اور خزرج ) سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ جب ایک عرب قبیلہ دوسرے قبیلے سے برسر جنگ ہوتا تو دونوں کے حلیف یہودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے تھے اور ایک دوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما ہوجاتے تھے، ان کا یہ فعل صریح طور پر کتاب اللہ کے خلاف تھا اور وہ جانتے بوجھتے کتاب اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مگر لڑائی کے بعد جب ایک یہودی قبیلے کے اسیران جنگ دوسرے یہودی قبیلے کے ہاتھ آتے تو غالب قبیلہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑتا اور مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر انہیں چھڑاتا تھا اور اس فدیے کے لین دین کو جائز ٹھہرانے کے لئے کتاب اللہ سے استدلال کیا جاتا تھا۔ گویا وہ کتاب اللہ کی اس اجازت کو تو سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اسیران جنگ کو فدیے کو چھوڑا جائے مگر اس حکم کو ٹھکرا دیتے تھے کہ آپس میں جنگ ہی نہ کی جائے۔ (تفہیم القرآن جلد اول)- قیدیوں کو فدیہ کا لین دین کر کے چھڑانے کے وجوب کا حکم ہم پر بھی ثابت ہے، الحجاج بن ارطاۃ نے الحکم سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرات مہاجرین و انصار کے درمیان ایک تحریر لکھ دی تھی کہ وہ ایک دوسرے پر لازم ہونے والا خون بہا اور تاوان ادا کریں گے۔ اپنے قیدیوں کا فدیہ معروف طریقے سے ادا کریں گے اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو درست رکھیں گے۔ منصوبے نے شقیق بن سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کھانا کھلائو، سلام کو عام کرو، مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو چھڑائو۔ “ یہ دونوں حدیثیں قیدی کو چھڑانے پر دلالت کرتی ہیں، اس لئے کہ مذکورہ لفظ (العانی) کے معنی اسیر اور قیدی کے ہیں۔ حضرت عمران بن حصین اور حضرت سلمہ بن الاکوع نے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کی رہائی کے بدلے میں مسلمان قیدیوں کو رہا کرایا تھا۔ سفیان ثوری نے عبداللہ بن شریک سے اور انہوں نے بشربن غالب سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت حسین بن علی (رض) سے پوچھا گیا کہ اسیر کو فدیہ دے کر چھڑانا کس کے ذمہ ہوتا ہے تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ : اس سر زمین کے لوگوں پر جس کے دفاع میں مذکورہ قیدی جنگ کرتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٥) مگر اے قبول کرنے والو اس کے بعد پھر تم لوگوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا اور ایک دوسرے کو گھروں سے نکالا، ایک دوسرے کی ظلم و زیادتی کرنے پر مدد کرتے ہو اور جس وقت تمہارا ہم مذہب تمہارے پاس قید ہو کر آتا ہے تو دشمن کو فدیہ دے کر چھڑالیتے، حالانکہ ان کو نکالنا اور قتل کرنا دونوں چیزیں تم پر حرام کردی گئی تھیں تو کیا تم کتاب کے بعد احکام پر ایمان لاتے ہو کہ اپنے قیدیوں کا اپنے دشمنوں کو فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو اور اپنے ساتھیوں کے قیدیوں کو چھوڑ دیتے ہو، اس کا فدیہ نہیں ادا کرتے، اور ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ کتابی احکام میں سے جن احکام کو تمہارا نفس چاہے ہیں ان کو کرتے ہو اور جو تمہاری خواہش کے مطابق نہیں ہوتے ان کو چھوڑدیتے ہو۔ ایسے آدمی کی سزا یہی ہے کہ اسے دنیا میں قتل اور قید کیا جائے اور آخرت میں درد ناک عذاب دیاجائے، اور اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں اور تمہاری خفیہ باتوں پر عذاب دینے کو دینے کو ترک کرنے والے نہیں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ (ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ ) (وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِہِمْ ز) (تَظٰہَرُوْنَ عَلَیْہِمْ بالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ط) (وَاِنْ یَّاْتُوْکُمْ اُسٰرٰی تُفٰدُوْہُمْ ) (وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُہُمْ ط) - اب دیکھئے اس واقعہ سے جو اخلاقی سبق ( ) دیا جا رہا ہے وہ ابدی ہے۔ اور جہاں بھی یہ طرز عمل اختیار کیا جائے گا تاویل عام کے اعتبار سے یہ آیت اس پر منطبق ہوگی۔- (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج) ’ - (فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ ) (اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج) (وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ الآی اَشَدِّ الْعَذَابِط ) ’ (وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ) - یہ ایک بہت بڑی آفاقی سچائی ( ) بیان کردی گئی ہے ‘ جو آج امت مسلمہ پر صد فی صد منطبق ہو رہی ہے۔ آج ہمارا طرز عمل بھی یہی ہے کہ ہم پورے دین پر چلنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم میں سے ہر گروہ نے کوئی ایک شے اپنے لیے حلال کرلی ہے۔ ملازمت پیشہ طبقہ رشوت کو اس بنیاد پر حلال سمجھے بیٹھا ہے کہ کیا کریں ‘ اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ کاروباری طبقہ کے نزدیک سود حلال ہے کہ اس کے بغیر کاروبار نہیں چلتا۔ یہاں تک کہ یہ جو طوائفیں ” بازار حسن سجا کر بیٹھی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ کیا کریں ‘ ہمارا یہ دھندا ہے ‘ ہم بھی محنت کرتی ہیں ‘ مشقت کرتی ہیں۔ ان کے ہاں بھی نیکی کا ایک تصور موجود ہے۔ چناچہ محرم کے دنوں میں یہ اپنا دھندا بند کردیتی ہیں ‘ سیاہ کپڑے پہنتی ہیں اور ماتمی جلوسوں کے ساتھ بھی نکلتی ہیں۔ ان میں سے بعض مزاروں پر دھمال بھی ڈالتی ہیں۔ ان کے ہاں اس طرح کے کام نیکی شمار ہوتے ہیں اور جسم فروشی کو یہ اپنی کاروباری مجبوری سمجھتی ہیں۔ چناچہ ہمارے ہاں ہر طبقے میں نیکی اور بدی کا ایک امتزاج ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ کلیّ اطاعت کا ہے ‘ جزوی اطاعت اس کے ہاں قبول نہیں کی جاتی ‘ بلکہ الٹا منہ پردے ماری جاتی ہے۔ آج امت مسلمہ عالمی سطح پر جس ذلتّ و رسوائی کا شکار ہے اس کی وجہ یہی جزوی اطاعت ہے کہ دین کے ایک حصے کو مانا جاتا ہے اور ایک حصے کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل کی پاداش میں آج ہم ” ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ کا مصداق بن گئے ہیں اور ذلت و مسکنت ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔ باقی رہ گیا قیامت کا معاملہ تو وہاں شدید ترین عذاب کی وعید ہے۔ اپنے طرز عمل سے تو ہم اس کے مستحق ہوگئے ہیں ‘ تاہم اللہ تعالیٰ کی رحمت دست گیری فرما لے تو اس کا اختیار ہے۔- آیت کے آخر میں فرمایا :- (وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ) ” اور اللہ غافل نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو۔ - سیٹھ صاحب ہر سال عمرہ فرما کر آ رہے ہیں ‘ لیکن اللہ کو معلوم ہے کہ یہ عمرے حلال کمائی سے کیے جا رہے ہیں یا حرام سے وہ تو سمجھتے ہیں کہ ہم نہا دھو کر آگئے ہیں اور سال بھر جو بھی حرام کمائی کی تھی سب پاک ہوگئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوتوں سے ناواقف نہیں ہے۔ وہ تمہاری داڑھیوں سے ‘ تمہارے عماموں سے اور تمہاری عبا اور قبا سے دھوکہ نہیں کھائے گا۔ وہ تمہارے اعمال کا احتساب کر کے رہے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

58 : اس کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو قبیلے آباد تھے، بنو قریظہ اور بنو نضیر، دوسری طرف بت پرستوں کے بھی دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، قریظہ کی دوستی اوس قبیلے سے تھی، اور بنو نضیر کی خزرج سے، جب اوس وخزرج میں لڑائی ہوئی تو قریظہ اوس کا ساتھ دیتے اور بنو نضیر خزرج کا، نتیجہ یہ کہ یہودیوں کے دونوں قبیلے بالواسطہ ایک دوسرے کے مدمقابل آجاتے اور ان لڑائیوں میں جہاں اوس اور خزرج کے آدمی مارے جاتے وہاں قریظہ اور نضیر کے یہودی بھی قتل ہوتے یا اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوتے، اس طرح اگرچہ بنو قریظہ اور بنو نضیر دونوں قبیلے یہودی تھے مگر وہ ایک دوسرے کے دشمنوں کی امداد کرکے آپس میں ایک دوسرے کے قتل اور خانماں بربادی میں حصہ دار ہوتے تھے، ہاں اگر کوئی یہودی دشمن کے ہاتھوں قید ہوجاتا تو وہ سب مل کر اس کا فدیہ ادا کرتے اور اسے چھڑالیتے جس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں تورات نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی یہودی دشمن کی قید میں چلا جائے تو اسے چھڑائیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جس تورات نے یہ حکم دیا ہے اسی نے یہ حکم بھی تو دیا تھا کہ نہ ایک دوسرے کو قتل کرنا نہ ایک دوسرے کو گھر سے نکالنا، ان احکام کو تو تم نے چھوڑدیا اور صرف فدیہ کے حکم پر عمل کرلیا۔