انکار کا سبب جب کبھی یہودیوں اور عرب کے مشرکین کے درمیان لڑائی ہوتی تو یہود کہا کرتے تھے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب لے کر اللہ عزوجل کے ایک عظیم الشان پیغمبر تشریف لانے والے ہیں ہم ان کے ساتھ مل کر تمہیں ایسا قتل و غارت کریں گے کہ تمہارا نام و نشان مٹ جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے کہا اے اللہ تو اس نبی کو جلد بھیج جس کی صفتیں ہم توراۃ میں پڑھتی ہیں تاکہ ہم ان پر ایمان لا کر ان کے ساتھ مل کر اپنا بازو مضبوط کر کے تیرے دشمنوں سے انتقام لیں ۔ مشرکوں سے کہا کرتے تھے کہ اس نبی کا زمانہ اب بالکل قریب آ گیا ہے لیکن جس وقت حضور مبعوث ہوئے تمام نشانیاں آپ میں دیکھ لیں ۔ پہچان بھی لیا ۔ دل سے قائل بھی ہو گئے ۔ مگر چونکہ آپ عرب میں سے تھے ۔ حسد کیا اور آپ کی نبوت سے انکار کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے لعنت یافتہ ہو گئے بلکہ وہ مشرکین مدینہ جو ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں سنتے چلے آتے تھے انہیں تو ایمان نصیب ہوا اور بالاخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر وہ یہود پر غالب آ گئے ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل حضرت بشر بن براء حضرت داؤد بن سلمہ نے ان یہود مدینہ سے کہا بھی کہ تم تو ہمارے شرک کی حالت میں ہم سے حضور نبوت کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ ہمیں ڈرایا کرتے تھے اور اب جب کہ وہ عام اوصاف جو تم حضرت کے بیان کرتے تھے وہ تمام اوصاف آپ میں ہیں ۔ پھر تم خود ایمان کیوں نہیں لاتے؟ آپ کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ تو سلام بن مشکم نے جواب دیا کہ ہم ان کے بارہ میں نہیں کہتے تھے ۔ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ پہلے تو مانتے تھے منتظر بھی تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد حسد اور تکبر سے اپنی ریاست کے کھوئے جانے کے ڈر سے صاف انکار کر بیٹھے ۔
89۔ 1 (یَسْتَفْتِحُوْنَ ) کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے کہ آخری نبی جلد مبعوث فرما تاکہ اس سے مل کر ہم ان مشرکین پر غلبہ حاصل کریں۔ یعنی استفتاح بمعنی استنصار ہے۔ دوسرے معنی خبر دینے کے ہیں۔ ای یخبرونھم بانہ سیبعث یعنی یہودی کافروں کو خبر دیتے کہ عنقریب نبی کی بعثت ہوگی۔ (فتح القدیر) لیکن بعثت کے بعد علم رکھنے کے باوجود نبوت محمدی پر محض حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔
[١٠٥] آنے والے نبی کے واسطہ سے یہود کا نصرت طلب کرنا :۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل یہی یہود جب عرب قبائل سے، جنہیں یہ لوگ ازراہ حقارت امی اور اجڈ سمجھتے تھے، پٹتے تو اکثر اللہ تعالیٰ سے یوں دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ اپنے موعود نبی آخر الزمان کو مبعوث فرما کہ ہم اس کے ساتھ مل کر ان کافروں پر فتح حاصل کریں۔ پھر جب وہ نبی موعود آگیا اور انہوں نے اسے کتاب اللہ (تورات) میں مذکور نشانیوں کے مطابق پوری طرح پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کردیا۔ اور حقیقتاً کافر تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور جن لوگوں کو یہ ان پڑھ اور اجڈ کہا کرتے تھے انہوں نے یہود ہی سے سنی ہوئی باتوں کے مطابق نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے میں سبقت کی تھی۔
يَسْتَفْتِحُوْنَ ) فتح و نصرت طلب کرتے تھے، یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے جب یہودی عرب کے مشرکین سے مغلوب ہوتے تو وہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ نبی آخر الزمان جلد ظاہر ہوں، تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر ان کافروں پر غلبہ حاصل کریں۔ (طبری) ” يَسْتَفْتِحُوْنَ “ کا دوسرا معنی ہے : ” یَفْتَحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا “ ( فَتَحَ عَلَیْہِ ) کا معنی ہے خبر دینا اور سین اور تاء مبالغہ کے لیے ہے، یعنی کافروں کو خوب کھول کر بتاتے تھے۔ (زمخشری)- عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہود، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے آپ کے ساتھ مل کر اوس اور خزرج پر فتح و غلبہ کی دعا کیا کرتے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو عرب میں سے مبعوث فرمایا تو انھوں نے آپ کے ساتھ کفر کیا اور ان سب باتوں کا انکار کردیا جو وہ آپ کے بارے میں کہا کرتے تھے، تو معاذ بن جبل اور بشر بن معرور اور داؤد بن سلمہ (رض) نے ان سے کہا : ” اے یہود کی جماعت اللہ سے ڈرو اور مسلمان ہوجاؤ تم تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر ہم پر فتح و غلبہ کی دعا کیا کرتے تھے، جب ہم شرک میں گرفتار تھے اور تم ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اللہ کے آخری نبی مبعوث ہونے والے ہیں اور آپ کی نشانیاں بیان کیا کرتے تھے۔ “ تو سلام بن مشکم، جو بنو نضیر میں سے تھا، اس نے کہا : ” وہ ہمارے پاس کوئی چیز نہیں لائے جسے ہم پہچانتے ہوں اور یہ وہ نہیں جو ہم تمہیں بتایا کرتے تھے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات پر یہ آیت نازل فرمائی : (وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ ۙ ) [ طبری۔ ابن أبی حاتم بسند حسن : ١؍٢٣٨، ح : ٩٠٨ ]- قرطبی نے ابن عباس (رض) سے ” يَسْتَفْتِحُوْنَ “ کے یہ معنی بھی نقل کیے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور سے پہلے جب یہودیوں کا عرب کے مشرکین سے مقابلہ ہوتا تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلے سے دعا کرتے اور کہتے : ( اَللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْءَلُکَ بِحَقِّ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ وَعَدْتَّنَا أَنْ تُخْرِجَہٗ لَنَا فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ إِلاَّ نَصَرْتَنَا عَلَیْہِمْ ) ” اے اللہ ہم تجھ سے بحق نبی امی سوال کرتے ہیں، جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اسے ہمارے لیے آخر زمانے میں ظاہر کرے گا کہ ہمیں ان پر فتح عطا فرما۔ “ چناچہ جب وہ دشمن سے ملتے یہ دعا کرتے تو انھیں شکست دیتے۔ ( قرطبی) - یہ روایت مستدرک حاکم (٢؍٢٦٣، ح : ٣٠٤٢) میں ہے، امام حاکم (رض) نے فرمایا، یہ روایت تفسیر کی مجبوری کی بنا پر لائی گئی ہے اور اس کی حدیث سے یہ غریب ہے۔ امام ذہبی (رح) نے اس کی تلخیص میں فرمایا کہ اس کی کوئی مجبوری نہیں، کیونکہ راوی عبد المالک متروک ہے، ہلاک ہونے والا ہے، اس کے علاوہ اس مفہوم کی روایات میں سے کوئی بھی صحیح نہیں۔
خلاصہ تفسیر :- اور جب ان کو (ایک) ایسی کتاب پہنچی (یعنی قرآن مجید) جو منجانب اللہ ہے (اور) اس (کتاب) کی (بھی) تصدیق کرنے والی ہے (جو پہلے سے) ان کے پاس ہے (یعنی توراۃ) حالانکہ اس کے قبل (خود) بیان کرتے تھے (اور) کفار سے (یعنی مشرکین عرب سے کہ ایک نبی آنے والے ہیں اور ایک کتاب لانے والے ہیں مگر) پھر جب وہ چیز آپہنچی جس کو وہ (خوب جانتے) پہچانتے ہیں تو اس کا (صاف) انکار کر بیٹھے سو (بس) خدا کی مار ہو ایسے منکروں پر (کہ جان بوجھ کر محض تعصب کے سبب انکار کریں) - فائدہ : قرآن کو جو مصدق توراۃ فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ توراۃ میں بعثت محمدیہ اور نزول قرآن کی جو پیشینگوئیاں تھیں ان سے ان کا صدق ظاہر ہوگیا سو توراۃ کا ماننے والا تو قرآن اور صاحب قرآن (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر ہی نہیں سکتا ورنہ توراۃ کی تکذیب لازم آئے گی، - ایک شبہ اور اس کا جواب :- اور اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ جب وہ حق کو حق جانتے تھے تو پھر ان کو مومن کہنا چائیے کافر کیسے کہا گیا ؟- تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان صرف جاننے کا نام نہیں بلکہ ماننے کا نام ہے ورنہ یوں تو شیطان سب سے زیادہ حق کو حق جانتا ہے مگر جاننے کے باوجود انکار کرنے کی وجہ سے اور بھی کفر میں شدت بڑھ گئی اسی لئے اگلی آیت میں ان کے کفر کی وجہ ان کا عناد بتلایا گیا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے ،
وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ ٠ ۙ وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ٠ ۚ ۖ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِہٖ ٠ ۡفَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ٨٩- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - اسْتِفْتَاحُ :- طلب الفتح أو الفتاح . قال : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال 19] ، أي : إن طلبتم الظّفر أو طلبتم الفتاح۔ أي : الحکم أو طلبتم مبدأ الخیرات۔ فقد جاء کم ذلک بمجیء النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم . وقوله : وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة 89]- الاستفتاح - کے معنی غلبہ یا فیصلہ طلب کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال 19] ( کافرو) اگر تم محمدؤ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فتح چاہتے ہو تو تمہارے پاس فتح آچکی ۔ یعنی اگر تم کامیابی یا فیصلہ طلب کرتے ہو تو وہ آچکا ہے اور یا یہ معنی ہیں کہ اگر تم مبدء خیرات طلب کرتے ہو تو آنحضرت کی بعثت سے تمہیں مل چکا ہے اور آیت کریمہ : وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة 89] اور وہ پہلے ہمیشہ کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے ۔ - عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔
(٨٩) جب ان لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب آئی ہے جو اس کتاب کے جو کہ ان کے پاس ہے توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اور اوصاف اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت اور بعض شرعی امور میں موافقت کرتی ہے تو اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور قرآن حکیم کے نازل ہونے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے ذریعے اپنے دشمن قبیلوں اسد، غطفان ومزنیہ وجہینہ کے خلاف مدد طلب کیا کرتے تھے اور جس وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور یہ لوگ آپ کے صفت واصاف سے سے بخوبی واقف تھے تو انہوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا ان یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کا غصہ اور ناراضگی ہے۔- شان نزول : (آیت) ’ وکانوا من قبل یستفتحون (الخ)- اس آیت کے متعلق امام حاکم (رح) نے مستدرک میں اور بیہقی (رح) نے دلائل میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ خیبر کے یہود قبیلہ غطفان کے ساتھ لڑتے رہتے تھے، چناچہ جس وقت بھی دونوں قبیلوں کی لڑائی ہوتی تو یہودی شکست کھا جاتے، بالآخر یہودیوں نے اس دعا کے ساتھ غطفان سے پناہ چاہی کہ الہ العالمین ہم تجھ سے نبی امی جناب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں۔ جن کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے کہ ہمیں قبیلہ غطفان پر غلبہ دے، چناچہ جب یہودی غطفان کے ساتھ لڑتے اور یہ دعا مانگتے تو غطفان شکست کھاجاتے، جب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا تو انہوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت شریفہ کو نازل کیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے مبعوث ہونے سے پہلے یہ لوگ آپ کے وسیلہ سے کافروں پر نصرت طلب کیا کرتے تھے۔ اور ابی حاتم (رح) نے سعید (رح) یا عکرمہ (رح) ، کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے سے پہلے یہود قبیلہ اوس اور خزرج کے خلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے نصرت طلب کیا کرتے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے عرب میں سے آپ کو مبعوث فرمادیا تو انہوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا اور جو اس سے قبل کہتے تھے اس کا انکار کرنے لگے، تو ان سے حضرت معاذ بن جبل (رض) اور بشر بن براء (رض) اور داؤد بن سلمہ نے کہا، اے یہود اللہ تعالیٰ کا خوف کھاؤ اور اسلام لے آؤ تم اس سے قبل ہمارے خلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے نصرت اور مدد طلب کیا کرتے تھے اور ہم تو مشرک تھے تو نے ہی ہمیں یہ بتایا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہونے والے ہیں اور آپ کے اوصاف وصفت سے ہمیں آگاہ کیا تھا، بنی نضیر میں سے سلام بن شکم کہنے لگے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں آئی تھی جس کے ذریعہ سے ہم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانتے اور نہ ہم تم سے تمہارے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کچھ بیان کرتے تھے تب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٨٩ (وَلَمَّا جَآءَ ہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ) - (مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ لا) جو اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس (پہلے سے موجود) ہے - یہ وضاحت قبل ازیں کی جا چکی ہے کہ قرآن کریم ایک طرف تورات اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور دوسری طرف وہ تورات اور انجیل کی پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آیا ہے۔- (وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ج) - ان کا حال یہ تھا کہ وہ اس کی آمد سے پہلے اللہ کی آخری کتاب اور آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے اور واسطے سے اللہ تعالیٰ سے کافروں کے خلاف فتح و نصرت کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع ‘ بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ وہاں اوس اور خزرج کے قبائل بھی آباد تھے جو یمن سے آئے تھے اور اصل عرب قبائل تھے۔ پھر آس پاس کے قبائل بھی تھے۔ وہ سب امیینّ میں سے تھے ‘ ان کے پاس نہ کوئی کتاب تھی ‘ نہ کوئی شریعت اور نہ وہ کسی نبوت سے آگاہ تھے۔ ان کی جب آپس میں لڑائیاں ہوتی تھیں تو یہودی چونکہ سرمایہ دار ہونے کی وجہ سے بزدل تھے لہٰذا ہمیشہ مار کھاتے تھے۔ اس پر وہ کہا کرتے تھے کہ ابھی تو تم ہمیں مار لیتے ہو ‘ دبا لیتے ہو ‘ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کا وقت آچکا ہے جو نئی کتاب لے کر آئیں گے۔ جب وہ آئیں گے اور ہم ان کے ساتھ ہو کر جب تم سے جنگ کریں گے تو تم ہمیں شکست نہیں دے سکو گے ‘ ہمیں فتح پر فتح حاصل ہوگی۔ وہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ اس نبی آخر الزمان کا ظہور جلدی ہو تاکہ اس کے واسطے سے اور اس کے صدقے ہمیں فتح مل سکے۔ - خزرج اور اوس کے قبائل نے یہود کی یہ دعائیں اور ان کی زبان سے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی پیشین گوئیاں سن رکھی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ١١ نبوی کے حج کے موقع پر جب مدینہ سے جانے والے خزرج کے چھ افراد کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دعوت پیش کی تو انہوں نے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا کہ معلوم ہوتا ہے یہ وہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کا یہودی ذکر کرتے ہیں ‘ تو اس سے پہلے کہ یہود ان پر ایمان لائیں ‘ تم ایمان لے آؤ اس طرح وہ علم جو بالواسطہ طور پر ان تک پہنچا تھا ان کے لیے ایک عظیم سرمایہ اور ذریعۂ ‘ نجات بن گیا۔ مگر وہی یہودی جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد پر اپنے تعصبّ اور تکبرّ کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے بڑھ کر مخالف بن گئے۔- (فَلَمَّا جَآءَ ‘ ہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖز) (فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ )
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :95 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے یہُودی بے چینی کے ساتھ اس نبی کے منتظِر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں ۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مِٹے اور پھر ہمارے عُروج کا دَور شروع ہو ۔ خود اہل مدینہ اس بات کے شا ہد تھے کہ بعشتِ محمدی ؐ سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہُودی آنے والے نبی کی اُمّید پر جِیا کر تے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیہ کلام یہی تھا کہ” اچھا ، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کر لے ، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے ۔ “ اہل مدینہ یہ باتیں سُنے ہوئے تھے ، اسی لیے جب انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا ، کہیں یہ یہُودی تم سے بازی نہ لے جائیں ۔ چلو ، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں ۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہُودی ، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گِن رہے تھے ، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ” وہ اس کو پہچان بھی گئے“ ، تو اس کے متعدّد ثبوت اسی زمانے میں مل گئے تھے ۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت اُمّ المومنین حضرت صَفِیّہ کی ہے ، جو خود ایک بڑے یہُودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں ۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے ، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپ ؐ سے ملنے گئے ۔ بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی ۔ پھر جب گھر واپس آئے ، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سُنا: چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے ، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟ والد: خدا کی قسم ، ہاں ۔ چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟ والد: ہاں ۔ چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟ والد: جب تک جان میں جان ہے اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا ۔ ( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱٦۵ ، طبع جدید )
61: جب یہودیوں کی بت پرستوں سے جنگ ہوتی یابحث ومباحثہ ہوتا تو وہ یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ آپ نے تورات میں جس آخری نبی کی خبر دی ہے اسے جلدی بھیج دیجئے تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر بت پرستوں پر فتح حاصل کریں، مگر جب وہ نبی (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے تو وہ حسد میں مبتلا ہوگئے کہ انہیں بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں کیوں بھیجا گیا ؟ چنانچہ یہ جان لینے کے باوجود کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہ ساری علامتیں صادق آتی ہیں جو تورات میں نبی آخرالزماں کی بیان کی گئی ہیں انہوں نے آپ کو ماننے سے سے انکار کردیا۔