Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

علم قرآن سب سے بڑی دولت ہے ۔ سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں سورتوں کے اول حروف مقطعات کی تفسیر پوری طرح بیان ہو چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ گو یہ بھی مروی ہے کہ مراد طہ سے اے شخص ہے کہتے ہیں کہ یہ نبطی کلمہ ہے ۔ کوئی کہتا ہے معرب ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ایک پاؤں زمین پر ٹکاتے اور دوسرا اٹھا لیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری یعنی طہ یعنی زمین پر دونوں پاؤں ٹکا دیا کر ۔ ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تجھے مشقت و تکلیف میں ڈال دیں ۔ کہتے ہیں کہ جب قرآن پر عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ نے شروع کر دیا تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ لوگ تو اچھی خاصی مصیبت میں پڑ گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ یہ پاک قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنے کو نہیں اترا بلکہ یہ نیکوں کے لئے عبرت ہے یہ الہامی علم ہے جسے یہ ملا اسے بہت بڑی دولت مل گئی ۔ چنانچہ بخاری مسلم میں ہے کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہو جاتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے حافظ ابو القاسم طبرانی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرفوع صحیح حدیث لائے ہیں کہ قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے فرمانے کے لئے اپنی کرسی پر اجلاس فرمائے گا تو علماء سے فرمائے گا کہ میں نے اپنا علم اور اپنی حکمت تمہیں اسی لئے عطا فرمائی تھی کہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دوں اور کچھ پرواہ نہ کروں کہ تم نے کیا کیا ہے؟ پہلے لوگ اللہ کی عبادت کے وقت اپنے آپ کو رسیوں میں لٹکا لیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ مشقت اپنے اس کلام پاک کے ذریعہ آسان کر دی اور فرما دیا کہ یہ قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا جیسے فرمان ہے جس قدر آسانی سے پڑھا جائے پڑھ لیا کرو یہ قرآن شقاوت اور بدبختی کی چیز نہیں بلکہ رحمت و نور اور دلیل جنت ہے ۔ یہ قرآن نیک لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں خوف الٰہی ہے تذکرہ وعظ و ہدایت و رحمت ہے ۔ اسے سن کر اللہ کے نیک انجام بندے حلال حرام سے واقف ہو جاتے ہیں اور اپنے دونوں جہان سنوار لیتے ہیں ۔ یہ قرآن تیرے رب کا کلام ہے اسی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ہر چیز کا خالق مالک رازق قادر ہے ۔ جس نے زمین کو نیچی اور کثیف بنایا ہے اور جس نے آسمان کو اونچا اور لطیف بنایا ہے ۔ ترمذی وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی راہ ہے اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ بھی پانچ سو سال کا ہے حضرت عباس والی حدیث میں امام ابن ابی حاتم نے اسی آیت کی تفسیر میں وارد کی ہے ۔ وہ رحمان اپنے عرش پر مستوی ہے اس کی پوری تفسیر سورہ اعراف میں گزر چکی ہے یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں سلامتی والا طریقہ یہی ہے کہ آیات و احادیث صفات کو بطریق سلف صالحین ان کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہی مانا جائے بغیر کیفیت طلبی کے اور بغیر تحریف و تشبیہ اور تعطیل و تمثیل کے ۔ تمام چیزیں اللہ کی ہی ملک ہیں اسی کے قبضے اور ارادے اور چاہت تلے ہیں وہی سب کا خالق مالک الہ اور رب ہے کسی کو اس کے ساتھ کسی طرح کی شرکت نہیں ۔ ساتویں زمین کے نیچے بھی جو کچھ ہے سب اسی کا ہے ۔ کعب کہتے ہیں اس زمین کے نیچے پانی ہے پانی کے نیچے پھر زمین ہے پھر اس کے نیچے پانی ہے اسی طرح مسلسل پھر اس کے نیچے ایک پتھر ہے اس کے نیچے ایک فرشتہ ہے اس کے نیچے ایک مچھلی ہے جس کے دونوں بازو عرش تک ہیں اس کے نیچے ہوا خلا اور ظلمت ہے یہیں تک انسان کا علم ہے باقی اللہ جانے ۔ حدیث میں ہے ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے ۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں چوتھی میں جہنم کی گندھک پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا بھی غور طلب ہے ۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم غزوہ تبوک سے لوٹ رہے تھے گرمی سخت تڑاخے کی پڑ رہی تھی دو دو چار چار آدمی منتشر ہو کر چل رہے تھے میں لشکر کے شروع میں تھا اچانک ایک شخص آیا اور سلام کر کے پوچھنے لگا تم میں سے محمد کون ہیں؟ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ میں اس کیساتھ ہو گیا میرے ساتھی آگے بڑھ گئے ۔ جب لشکر کے درمیان کا حصہ آیا تو اس میں حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے اسے بتلایا کہ یہ ہیں حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہیں سر پر بوجہ دھوپ کے کپڑا ڈالے ہوئے ہیں وہ آپ کی سواری کے پاس گیا اور نکیل تھام کر عرض کرنے لگا کہ آپ ہی محمد ہیں؟ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اس نے کہا میں چند باتیں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں جنہیں زمین والوں میں سے بجز ایک دو آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ آپ نے فرمایا تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو ۔ اس نے کہا بتائیے انبیاء اللہ سوتے بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ان کی آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے ۔ اس نے کہا بجا ارشاد ہوا ہے ۔ اب یہ فرمائیے کہ کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی تو باپ کی شباہت پر ہوتا ہے کبھی ماں کی؟ آپ نے فرمایا سنو مرد کا پانی سفید اور غلیظ ہے اور عورت کا پانی پتلا ہے جو پانی غالب آ گیا اسی پر شبیہ جاتی ہے اس نے کہا بجا ارشاد فرمایا ۔ اچھا یہ بھی فرمائیے کہ بچے کے کون سے اعضاء مرد کے پانی سے بنتے ہیں اور کون سے عورت کے پانی سے؟ فرمایا مرد کے پانی سے ہڈیاں رگ اور پٹھے اور عورت کے پانی سے گوشت خون اور بال اس نے کہا یہ بھی صحیح جواب ملا ۔ اچھا یہ بتایئے کہ اس زمین کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا ایک مخلوق ہے ۔ کہا ان کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا زمین کہا اس کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا پانی ۔ کہا پانی کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا اندھیرا ۔ کہا اس کے نیچے؟ فرمایا ہوا ۔ کہا ہوا کے نیچے؟ فرمایا تر مٹی ، کہا اس کے نیچے؟ آپ کے آنسو نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ مخلوق کا علم تو یہیں تک پہنچ کر ختم ہو گیا ۔ اب خالق کو ہی اس کے آگے کا علم ہے ۔ اے سوال کرنے والے اس کی بابت تو جس سے سوال کر رہا ہے وہ تجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں ۔ اس نے آپ کی صداقت کی گواہی دی آپ نے فرمایا اسے پہچانا بھی؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے آپ نے فرمایا یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے اور اس میں جو واقعہ ہے بڑا ہی عجیب ہے اس کے راویوں میں قاسم بن عبدالرحمٰن کا تفرد ہے جنہیں امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ کسی چیز کے برابر نہیں ۔ امام ابو حاتم رازی بھی انہیں ضعیف کہتے ہیں ۔ امام ابن عدی فرماتے ہیں یہ معروف شخص نہیں اور اس حدیث میں غلط ملط کر دیا ہے اللہ ہی جانتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا ایسی ہی کسی سے لی ہے ۔ اللہ وہ ہے جو ظاہر و باطن اونچی نیچی چھوٹی بڑی سب کچھ جانتا ہے جیسے فرمان ہے کہ اعلان کر دے کہ اس قرآن کو اس نے نازل فرمایا ہے جو آسمان و زمین کے اسرار عمل کو اس کے علم سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ مخلوق کا علم اس کے پاس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا علم ۔ سب کی پیدائش اور مار کر جلانا بھی اس کے نزدیک ایک شخص کی پیدائش اور اس کی موت کے بعد کی دوسری بار کی زندگی کے مثل ہے ۔ تیرے دل کے خیالات کو اور جو خیالات نہیں آتے ان کو بھی وہ جانتا ہے ۔ تجھے زیادہ سے زیادہ آج کے پوشیدہ اعمال کی خبر ہے اور اسے تو تم کل کیا چھپاؤ گے ان کا بھی علم ہے ۔ ارادے ہی نہیں بلکہ وسوسے بھی اس پر ظاہر ہیں ۔ کئے ہوئے عمل اور جو کرے گا وہ عمل اس پر ظاہر ہیں ۔ وہی معبود برحق ہے اعلیٰ صفتیں اور بہترین نام اسی کے ہیں ۔ سورہ اعراف کی تفسیر کے آخر میں اسماء حسنی کے متعلق حدیثیں گزر چکی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] یہ سورت سورة مریم کے بعد بلکہ ہجرت حبشہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور ہجرت حبشہ سن ٥ نبوی میں ہوئی تھی۔ نیز یہ سورة سیدنا عمر کے اسلام لانے سے پہلے نازل ہوئی تھی، عام روایت کے مطابق یہی سورت سن کر سیدنا عمر کے دل میں اسلام جاگزیں ہوا تھا اور سیدنا عمر سن ٦ نبوی میں اسلام لائے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

طٰهٰ : ظاہر یہی ہے کہ یہ حروف مقطعات میں سے ہیں، کیونکہ یہ دونوں حرف دوسری جگہ مقطعات میں استعمال ہوئے ہیں، ” طا “ ” طٰسۗمّۗ“ (شعراء) میں اور ” ہا “ ” كۗهٰيٰعۗصۗ“ (مریم) میں۔ مقطعات کی تفسیر کے لیے سورة بقرہ کی پہلی آیت کی تفسیر دیکھیے۔ عبد الرزاق نے اپنی صحیح سند کے ساتھ قتادہ اور حسن کا قول نقل کیا ہے کہ ” طٰهٰ “ کا معنی ہے ” یَا رَجُلُ “ اے آدمی کیونکہ قبیلہ بنوعک میں یہ لفظ اس معنی میں بولا جاتا تھا، مگر پہلی بات زیادہ صحیح ہے، کیونکہ قرآن مجید قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سورة طہٰ- سورة طہ مکہ میں نازل ہوئی اور اس کی ایک سو پینتیس آیتیں ہیں اور آٹھ رکوع - اس سورت کا دوسرا نام سورة کلیم بھی ہے (کما ذکر السخاوی) وجہ یہ ہے کہ اس میں حضرت کلیم اللہ موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ مفصل مذکور ہے۔- مسند دارمی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کرنے سے بھی دو ہزار سال پہلے سورة طہٰ و یٰسن پڑھی (یعنی فرشتوں کو سنائی) تو فرشتوں نے کہا کہ بڑی خوش نصیب اور مبارک ہے وہ امت جس پر یہ سورتیں نازل ہوں گی اور مبارک ہیں وہ سینے جو ان کو حفظ رکھیں گے اور مبارک ہیں وہ زبانیں جو ان کو پڑھیں گی، یہی وہ مبارک سورت ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا تہیہ کر کے نکلنے والے عمر بن خطاب کو ایمان قبول کرنے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں گرنے پر مجبور کردیا جس کا واقعہ کتب سیرت میں معروف و مشہور ہے۔- ابن اسحٰق کی روایت اس طرح ہے کہ عمر بن خطاب ایک روز تلوار لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے۔ راستہ میں نعیم بن عبداللہ مل گئے، پوچھا کہاں کا ارادہ ہے عمر بن خطاب نے کہا کہ میں اس گمراہ شخص کا کام تمام کرنے کے لئے جا رہا ہوں جس نے قریش میں تفرقہ ڈال دیا، ان کے دین و مذہب کو برا کہا ان کو بیوقوف بنایا اور ان کے بتوں کو برا کہا۔ نعیم نے کہا کہ عمر تمہیں تمہارے نفس نے دھوکہ میں مبتلا کر رکھا ہے کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردو گے اور ان کا قبیلہ بنو عبد مناف تمہیں زندہ چھوڑے گا کہ زمین پر چلتے پھرتے رہو۔ اگر تم میں عقل ہے تو اپنی بہن اور بہنوئی کی خبر لو کہ وہ مسلمان اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کے تابع ہوچکے ہیں، عمر بن خطاب پر ان کی بات اثر کرگئی اور یہیں سے اپنی بہن بہنوئی کے مکان کی طرف پھرگئے۔ ان کے مکان میں حضرت خباب بن ارت صحابی ان دونوں کو قرآن کی سورت طٰہٰ پڑھا رہے تھے جو ایک صحیفہ میں لکھی ہوئی تھی۔- ان لوگوں نے جب محسوس کیا کہ عمر بن خطاب آرہے ہیں تو حضرت خباب گھر کے کسی کمرہ یا گوشہ میں چھپ گئے اور ہمشیرہ نے یہ صحیفہ اپنی ران کے نیچے چھپا لیا مگر عمر بن خطاب کے کانوں میں خباب بن ارت کی اور ان کے کچھ پڑھنے کی آواز پہنچ چکی تھی اس لئے پوچھا کہ یہ پڑھنے پڑھانے کی آواز کیسی تھی جو میں نے سنی ہے ؟ انہوں نے (اول بات کو ٹالنے کے لئے) کہا کہ کچھ نہیں، مگر اب عمر بن خطاب نے بات کھود لی کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم دونوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع اور مسلمان ہوگئے ہو اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی سعید بن زید پر ٹوٹ پڑے۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ نے جب دیکھا تو شوہر کو بچانے کے لئے کھڑی ہوگئیں۔ عمر بن خطاب نے ان کو بھی مار کر زخمی کردیا۔- جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو بہن بہنوئی دونوں نے بیک زبان کہا کہ سن لو ہم بلا شبہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں اب جو تم کرسکتے ہو کرلو ہمشیرہ کے زخم سے خون جاری تھا اس کیفیت کو دیکھ کر عمر بن خطاب کو کچھ ندامت ہوئی اور بہن سے کہا کہ وہ صحیفہ مجھے دکھلاؤ جو تم پڑھ رہی تھیں تاکہ میں بھی دیکھوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تعلیم لائے ہیں۔ عمر بن خطاب لکھے پڑھے آدمی تھے اس لئے صحیفہ دیکھنے کے لئے مانگا۔ بہن نے کہا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہم نے یہ صحیفہ اگر تمہیں دے دیا تو تم اس کو ضائع کردو یا بےادبی کرو۔ عمر بن خطاب نے اپنے بتوں کی قسم کھا کر کہا کہ تم یہ خوف نہ کرو میں اس کو پڑھ کر تمہیں واپس کردوں گا۔ ہمشیرہ فاطمہ نے جب یہ رخ دیکھا تو ان کو کچھ امید ہوگئی کہ شاید عمر بھی مسلمان ہوجائیں۔ اس وقت کہا کہ بھائی بات یہ ہے کہ تم نجس ناپاک ہو اور اس صحیفہ کو پاک آدمی کے سوا کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اگر تم دیکھنا ہی چاہتے ہو تو غسل کرلو۔ عمر نے غسل کرلیا پھر صحیفہ ان کے حوالہ کیا گیا تو اس میں سورة طٰہٰ لکھی ہوئی تھی اس کا شروع حصہ ہی پڑھ کر عمر نے کہا کہ یہ کلام تو بڑا اچھا اور نہایت محترم ہے۔ خباب بن ارت جو مکان میں چھپے ہوئے یہ سب کچھ سن رہے تھے عمر کے یہ الفاظ سنتے ہی سامنے آگئے اور کہا کہ اے عمر بن خطاب مجھے اللہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے رسول کی دعا کے لئے منتخب فرما لیا ہے کیونکہ گزشتہ کل میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے کہ اللھم اید الاسلام بابی الحکم بن ہشام اور بعمر بن الخطاب، یا اللہ اسلام کی تائید وتقویت فرما ابوالحکم بن ہشام (یعنی ابو جہل) کے ذریعہ یا پھر عمر بن خطاب کے ذریعہ۔ مطلب یہ تھا کہ ان دونوں میں سے کوئی مسلمان ہوجائے تو مسلمانوں کی کمزور جماعت میں جان پڑجائے۔ پھر خباب نے کہا کہ اے عمر اب تو اس موقع کو غنیمت سمجھ، عمر بن خطاب نے خباب سے کہا کہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے چلو (قرطبی) آگے ان کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونا اور اسلام قبول کرنا مشہور و معروف واقعہ ہے۔ - خلاصہ تفسیر - طٰہٰ (کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) ہم نے آپ پر قرآن (مجید) اس لئے نہیں اتارا کہ آپ تکلیف اٹھائیں بلکہ ایسے شخص کی نصیحت کے لئے (اتارا ہے) جو (اللہ سے) ڈرتا ہو یہ اس (ذات) کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے (اور) وہ بڑی رحمت والا عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہے (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے اور وہ ایسا ہے کہ) اسی کی ملک ہیں جو چیزیں آسمانوں میں اور جو چیزیں زمین میں ہیں اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میں ہیں (یعنی آسمان سے نیچے اور زمین سے اوپر) اور جو چیزیں تحت الثریٰ میں ہیں (یعنی زمین کے اندر جو تر مٹی ہے جس کو ثریٰ کہتے ہیں جو چیز کہ اس کے نیچے ہے، مراد یہ کہ زمین کی تہہ میں جو چیزیں ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت و سلطنت تھی) اور (علم کی یہ شان ہے کہ) اگر تم (اے مخاطب) پکار کر بات کہو تو (اس کے سننے میں تو کیا شبہ ہے) وہ تو (ایسا ہے کہ) چپکے سے کہی بات کو اور (بلکہ) اس کے سوا کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں اس کے (بڑے) اچھے اچھے نام ہیں (جو اوصاف و کمالات پر دلالت کرتے ہیں سو قرآن ایسی ذات جامع الصفات کا نازل کیا ہوا ہے اور یقینی حق ہے) ۔ - معارف و مسائل - طٰہ، اس لفظ کی تفسیر میں علماء تفسیر کے اقوال بہت ہیں۔ حضرت ابن عباس سے اس کے معنی یا رجل اور ابن عمر سے یا حبیبی منقول ہیں، بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طٰہ اور یٰسٓ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسماء گرامی میں سے ہیں اور بےغبار بات وہ ہے جو حضرت صدیق اکبر اور جمہور علماء نے فرمائی کہ جس طرح قرآن کی بہت سی سورتوں کے ابتداء میں آئے ہوئے حروف مقطعہ مثلاً الٓمّٓ وغیرہ متشابہات یعنی اسرار میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا لفظ طٰہ بھی اسی میں داخل ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

طٰہٰ۝ ١ۚ مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي۝ ٢ۙ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- شقي - الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ،- . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] - ( ش ق و ) اشقاوۃ - ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢۔ ٣) یہ قرآن کریم آپ پر ہم نے اس لیے نہیں اتارا کہ آپ تکلیف اٹھائیں بلکہ ایسے شخص کی نصیحت کے لیے جو کہ مطیع وفرمانبردار ہو، یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور اس وقت آپ رات کو تہجد میں اس قدر دیر تک قیام فرماتے تھے کہ قدم مبارک تک ورم آجاتا تھا تو اس آیت مبارکہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپ پر آسانی فرما دی،- یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ قرآن کریم آپ پر بذریعہ جبریل امین اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ خود کو تکلیف دیں، طہ کے معنی مکی اصطلاح میں اے آدمی کے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ طٰہٰ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسمائے گرامی میں سے ایک نام ہے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ ان حروف مقطعات میں سے ہے جو مختلف سورتوں کے شروع میں آئے ہیں اور ان کے ٹھیک ٹھیک معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا