Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑجائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا) 18 ۔ الکہف :6) پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔ واضح اور نمایاں ہوجائے گویا یہاں شقآء عنآء اور تعب کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] قرآن اتنا ہی پڑھنا چاہئے جتنا کہ دل کی خوشی سے پڑھا جائے :۔ یعنی یہ قرآن اس لئے نہیں اتارا گیا کہ آپ لوگوں کے ہدایت کے سلسلہ میں سارے جہان کا درد سر مول لے لیں۔ آپ کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ پھر جس کسی کے دل میں کچھ بھی اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا۔ وہ ضرور اس قرآن کی ہدایت کو قبول کرے گا اور اس کے لئے یاددہانی کا کام دے گا اور جو لوگ اللہ سے بےخوف ہوچکے ہیں وہ اگر اس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے تو آپ کو اس بارے میں پریشان نہ ہونا چاہئے اور نہ ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلکان کردینا چاہئے۔ قرآن کے نزول کا مقصد آپ کو مشقت میں ڈالنا ہرگز نہیں۔- بعض روایات میں آیا ہے کہ ان دنوں رسول اللہ اور صحابہ کرام (رض) رات کو کھڑے ہو کر بہت زیادہ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس محنت اور ریاضت کو دیکھ کر کافر کہتے تھے کہ قرآن کیا اترا ہے۔ بےچارے محمد مصیبت میں پڑگئے۔ اس وقت یہ آیت اتری۔ اور کافروں کی بات کا جواب بھی دیا گیا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ مصیبت نہیں، بلکہ نصیحت اور یاددانی ہے۔ رحمت ہے نور ہے۔ اور جو شخص جس قدر قرآن شوق اور نشاط سے پڑھنا چاہے اتنا ہی پڑھ لے۔ اگر کوئی زیادہ پڑھتا ہے تو وہ اپنی رضا ورغبت سے پڑھتا ہے محنت اور مشقت سمجھ کر نہیں پڑھتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی : ” شَقِيَ یَشْقٰی شَقَاوَۃً وَ شَقَاءً “ بروزن ” رَضِیَ یَرْضَی “ یہ سعادت کی ضد ہے۔ سعادت کی دو قسمیں ہیں، دنیوی اور اخروی۔ اسی طرح شقاوت کی بھی دو قسمیں ہیں، دنیوی اور اخروی۔ اخروی شقاوت بدبختی و بدنصیبی ہے، جیسا کہ کفار کہیں گے : ( رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا ) [ المؤمنون : ١٠٦ ] ” پروردگار ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی۔ “ دنیوی شقاوت ایسے کاموں میں پھنس جانا جو مشقت اور تھکاوٹ کا باعث ہوں، جیسے کہتے ہیں ” فُلاَنٌ أَشْقَی مِنْ رَاءِضِ مُھْرٍ “ ” فلاں گھوڑی کے بچھیرے کو سدھانے والے سے بھی زیادہ مشقت اور مصیبت میں پھنسا ہوا ہے۔ “ مفسرین نے اس آیت کے دو معنی بیان فرمائے ہیں اور دونوں درست ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نزول وحی کے بعد ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں، اس کے لیے آپ دن رات دعوت و تبلیغ کے لیے اتنی مشقت اٹھاتے اور کفار کی بےرخی پر اس قدر غمزدہ ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ اتنی بھی مشقت اور فکر کیا کہ آپ مصیبت ہی میں پڑجائیں، ہم نے آپ پر یہ قرآن شقاوت کے لیے نہیں بلکہ آپ کی سعادت کے لیے اتارا ہے۔ آپ کے ذمے یہ نہیں کہ تمام لوگوں کو مسلمان کرکے چھوڑیں۔ آپ کا کام نصیحت ہے، پھر جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ قبول کرلے گا، دوسروں کے آپ ذمہ دار نہیں ہیں۔ لوگوں کے مسلمان نہ ہونے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غم و افسوس کا اور آپ کو تسلی دینے کا ذکر بہت سی آیات میں ہے، مثلاً : (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا ) [ الکہف : ٦ ] ” پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کرلینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ “ اور فرمایا : (لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ) [ الشعراء : ٣ ] ” شاید تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہے، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ “ دوسرا معنی اس آیت کا یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبادت خصوصاً قیام میں بہت محنت کرتے، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں میانہ روی کا حکم دیا اور فرمایا : (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ) [ المزمل : ٢٠ ] یعنی اے نبی آپ جتنا قیام آسانی سے کرسکتے ہیں کریں۔ تفصیل کے لیے سورة مزمل کا آخری رکوع ملاحظہ فرمائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي، لتشقیٰ ، شقاء سے مشتق ہے جس کے معنی تعب اور مشقت و تکلیف کے ہیں۔ نزول قرآن کی ابتداء میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام تمام رات عبادت کے لئے کھڑے رہتے اور نماز تہجد میں تلاوت قرآن میں مشغول رہتے تھے یہاں تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدمین مبارک پر ورم آ گیا اور دن بھر اس کی فکر میں رہتے تھے کہ کسی طرح کفار کو ہدایت ہو وہ قرآن کی دعوت کو قبول کرلیں۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان دونوں قسم کی مشقت سے بچانے کے لئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت اور تکلیف میں پڑجائیں، تمام رات جاگنے اور تلاوت قرآن میں مشغول رہنے کی ضرورت نہیں۔ چناچہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول یہ بن گیا کہ شروع رات میں آرام فرماتے تھے اور آخر شب میں بیدار ہو کر تہجد ادا فرماتے تھے۔- اسی طرح اس آیت میں اس کی طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ آپ کا فرض صرف تبلیغ و دعوت کا ہے جب آپ نے یہ کام کرلیا تو پھر اس کی فکر آپ کے ذمہ نہیں کہ کون ایمان لایا اور کس نے دعوت کو قبول نہیں کیا۔ (تلخیص از قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

شان نزول : ( آیت ) ”۔ ماانزلنا علیک القران “۔ (الخ)- ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب پہلی بار اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی تو آپ کے نماز کیلیے جس وقت کھڑے ہوتے تو بہت ہی دیر تک کھڑے ہوتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی یعنی ہم نے قرآن آپ پر اس لیے نہیں اتارا کہ آپ تکلیف اٹھائیں۔- اور عبد بن حمید نے اپنی تفسیر میں ربیع بن انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دونوں پیروں میں سے ہر ایک پیر باری باری اٹھاتے رہتے تھے تاکہ نماز میں ایک قدم مبارک پر دیر تک کھڑے رہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور نیز ابن مردویہ (رح) نے عوفی کے ذریعے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کفار نے کہا کہ اس شخص کو یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے رب نے تکلیف میں ڈال دیا ہے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْآٰی ) ” - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچا دینے کی حد تک ہے۔ اب اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پیچھے خود کو ہلکان نہ کریں۔ یہی مضمون اس سے پہلے سورة الکہف میں اس طرح آچکا ہے : (فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَآٰی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا ) ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ شاید اپنے آپ کو غم سے ہلاک کرلیں گے ان کے پیچھے ‘ اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات (قرآن) پر “۔ سورة الشعراء میں بھی فرمایا گیا : (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ) ” شاید کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہلاک کر ڈالیں اپنے آپ کو (اس وجہ سے) کہ وہ ایمان نہیں لا رہے “۔ بہر حال یہ تو اس آیت کا وہ ترجمہ اور مفہوم ہے جو عمومی طور پر اختیار کیا گیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک اس کا زیادہ بہتر مفہوم یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناکام ہوں۔ اس لیے کہ شَقِیَ یَشْقٰی کے معنی ناکام و نامراد ہونے کے ہیں۔- عربی زبان کے بہت سے مادے ایسے ہیں جن کے حروف کی آپس میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ مثلاً ” رب ب “ مادہ سے رَبَّ یَرُبُّ کا معنی ہے : مالک ہونا ‘ انتظام کرنا۔ اس سے لفظ ” رب “ بنا ہے۔ ” ر ب و “ سے رَبَا یَرْبُوْ رَبْوًاکا مفہوم ہے : (مال) زیادہ ہونا ‘ بڑھنا۔ اس سے ربا (سود) مستعمل ہے۔ جبکہ ” ر ب ی “ سے رَبّٰی یُرَبِّیْ تَرْبِیَۃً کا معنی و مراد ہے : پرورش کرنا ‘ نشوونما دینا۔ ان مادوں کے معنی اگرچہ الگ الگ ہیں مگر حروف کے اشتراک کی وجہ سے ان میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ” ش ق ی “ اور ” ش ق ق “ بھی دو مختلف المعانی لیکن باہم مشابہ مادے ہیں۔ ایسے مشابہ مادوں سے مشتق اکثر اسماء و افعال بھی باہم مشابہ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے بہت سے الفاظ ذو معنی بھی قرار پاتے ہیں۔ چناچہ تَشْقٰی کو اگر ” ش ق ق “ سے مشتق مانا جائے تو اس کے معنی مشقت اور محنت کے ہوں گے اور اگر اس کا تعلق ” ش ق ی “ سے تسلیم کیا جائے تو معنی ناکامی و نامرادی کے ہوں گے۔ یہاں اگر اس لفظ کا دوسرا ترجمہ مراد لیا جائے تو یہ آیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے گویا ایک بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ قرآن قول فیصل بن کر نازل ہوا ہے ‘ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مشن میں ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عنقریب کامیابی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدم چومے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: اس تکلیف سے مراد وہ تکلیفیں بھی ہوسکتی ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی طرف سے پہنچ رہی تھیں، اس صورت میں مطلب یہ ہے کہ یہ تکلیفیں ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو دور فرما کر آپ کو فتح عطا فرمائے گا۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شروع میں ساری ساری رات جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت فرماتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔ اس آیت نے ارشاد فرمایا کہ آپ کو اتنی تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ نے رات کے شروع حصے میں سونا اور آخری حصے میں عبادت کرنا شروع کردیا۔