Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اللہ تعالیٰ کے حکم پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو اچانک وہ سانپ بن گیا جو دوڑتا تھا، یعنی حقیقی اور زندہ سانپ تھا۔ قرآن مجید میں اس کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں ” حَیَّةٌ“ (سانپ) ، ” جَانٌّ“ (پتلا چھڑی جیسا چمکتا ہوا سانپ) اور ” ثُعْبَانْ “ (بہت بڑا اژدہا) ۔ معلوم ہوا کہ لاٹھی پھینکتے ہی پتلے سانپ جیسی بنی، پھر بڑھتے بڑھتے بہت بڑا اژدہا بن گئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) خوف زدہ ہو کر بےاختیار بھاگ اٹھے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ دیکھیے سورة نمل (١٠) اور قصص (٣١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے پکڑو اور ڈرو نہیں، ہم اسے دوبارہ پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ - 3 اہل علم نے لاٹھی کے ایک لمحہ میں سانپ اور پھر دوبارہ لاٹھی بننے میں کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح اپنی قدرت کا عین الیقین عطا فرما دیا کہ کس طرح اس کے حکم سے ایک بےجان چیز اتنی خطرناک ہوجاتی ہے کہ اس کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی اور پھر کس طرح اتنی خطرناک چیز اس کے حکم سے بےجان لکڑی بن جاتی ہے، جو حرکت بھی نہیں کرسکتی۔ مقصد یہ یقین دلانا تھا کہ فرعون اپنی تمام تر قہرمانیوں کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ دوسری حکمت یہ کہ اس زمانے میں جادو اپنے عروج پر تھا، اس کے توڑ کے لیے یہ معجزہ دیا اور انھیں مشاہدہ بھی کروا دیا، تاکہ میدان میں لاٹھی کے سانپ بننے سے موسیٰ (علیہ السلام) خوف زدہ ہو کر بھاگ نہ اٹھیں، بلکہ انھیں آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوت کا ہر وقت احساس رہے۔ تیسری حکمت بقاعی (رض) نے ربط آیات کے ضمن میں لکھی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کے آغاز سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے آنے کا ذکر فرمایا ہے، جسے ” اَلسَّاعَۃُ “ کہتے ہیں، یعنی ایک لمحہ، ایک گھڑی، قیامت کا ذکر کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک لمحے میں لاٹھی کو سانپ اور سانپ کو لاٹھی بنا کر ایک گھڑی میں قیامت قائم ہونے کا مشاہدہ کروا دیا۔ (نظم الدرر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَلْقِہَا يٰمُوْسٰى۝ ١٩- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢٠) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے زمین پر ڈال دو چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ڈال دیا تو یکایک وہ ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ڈر کر بھاگے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani