[١٤] وحی الہی کی لذت :۔ اللہ تعالیٰ کے سوال کا جواب اتنا ہی کافی اور مکمل تھا کہ یہ میری لاٹھی ہے مگر اس آواز میں کچھ ایسی لذت تھی کہ ان لذت کے لمحات کو موسیٰ (علیہ السلام) طول دینا چاہتے تھے۔ لہذا ساتھ ہی اور بھی کئی متعلقہ باتیں بتلا دیں تاکہ انھیں کچھ دیر مزید ہم کلامی کا شرف حاصل رہے۔- [١٥] مثلا اپنی بھیڑوں کو ہانکتا ہوں، ریوڑ کی حفاظت کرتا ہوں، درندوں کے حملہ سے بچاتا اور ان کا تعاقب کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔
قَالَ هِىَ عَصَايَ ۔۔ : جواب میں اگرچہ اتنا ہی کہہ دینا کافی تھا کہ ” یہ میری لاٹھی ہے “ مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بتانے کے بعد اس کے کئی فوائد بھی بیان کردیے۔ اس کی ایک توجیہ تو یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے خیال کیا کہ یہ بات ظاہر ہے کہ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے اور ظاہر بات کے متعلق سوال نہیں ہوتا، اس لیے انھوں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ اس لیے پوچھا ہے کہ میں بتاؤں کہ میں نے لاٹھی کیوں پکڑ رکھی ہے ؟ اس لیے جواب میں ” یہ لاٹھی ہے “ کہہ کر اس کے چند فوائد بیان کیے، مگر آخر میں بات مختصر کردی کہ اگر مزید وضاحت کی ضرورت ہوئی تو پھر پوچھ لیا جائے گا۔ (ابن عاشور)- دوسری توجیہ علمائے معانی نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کی لذت میں بےاختیار بات لمبی ہوتی گئی، مگر ایک طرف فرط محبت کا تقاضا تھا کہ بات لمبی سے لمبی ہوتی جائے، تو دوسری طرف ادب زیادہ بات کرنے سے مانع تھا، اس لیے ایک اپنی ضرورت ” ٹیک لگانا “ اور ایک اپنی بکریوں کی ضرورت ” پتے جھاڑنا “ بیان کر کے آخر میں یہ کہہ کر بات مختصر کردی کہ ” وَلِيَ فِيْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى“ یہ توجیہ بھی بہترین ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی کے بہت سے دیگر فوائد بھی بیان کیے ہوں جن کا ماحصل اللہ تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں بیان فرما دیا ہو۔ اس صورت میں یہ اختصار موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ہوگا۔ (واللہ اعلم)- وَاَهُشُّ بِهَا عَلٰي غَنَمِيْ ۔۔ : حافظ ابن کثیر (رض) نے امام مالک (رض) سے ” ہَشٌّ“ کا معنی یہ نقل کیا ہے کہ لاٹھی کے ساتھ ٹہنی کو ہلانا، تاکہ پتے گرپڑیں مگر شاخ نہ ٹوٹے۔ یہ لفظ لاٹھی مار کر پتے جھاڑنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ” مَاٰرِبُ “ ” مَأْرَبَۃٌ“ (را کے فتحہ، کسرہ اور ضمہ کے ساتھ) کی جمع، حاجت یعنی وہ کام جن کی ضرورت پڑتی ہے۔ لاٹھی کے فوائد پر جاحظ نے ” کتاب العصا “ لکھی ہے جس میں لاٹھی کے فوائد اور عربوں کے بہت سے واقعات لکھے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ ابن الاعرابی سے پوچھا گیا کہ ” وَلِيَ فِيْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى“ سے کیا مراد ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا : ” میں موسیٰ (علیہ السلام) کی تمام ضروریات تو بیان نہیں کرسکتا، البتہ لاٹھی کی ضرورت کی چند چیزیں تمہیں بتاتا ہوں، وہ یہ کہ لاٹھی سانپ، بچھو، بھیڑیے، بپھرے ہوئے سانڈ اور کھیت اجاڑنے والے جانوروں کے لیے ساتھ رکھی جاتی ہے۔ بڑی عمر کے بوڑھے، کمزور و بیمار لوگ، کٹی ہوئی ٹانگ والے اور لنگڑے اس کا سہارا لیتے ہیں، یہ انھیں دوسری ٹانگ کا کام دیتی ہے۔ اندھے کو قائد کا کام دیتی ہے۔ دھوبی، رنگ ریز اور تنور اور چولھے کی راکھ ہلانے والوں کے کام آتی ہے۔ چونا کوٹنے، تل وغیرہ چھڑنے کے کام آتی ہے۔ ڈاک لے جانے والوں اور کرائے کے جانوروں کے ساتھ جانے والوں کے کام آتی ہے کہ فاصلہ لمبا ہو تو وہ لاٹھی کے سہارے چھلانگ لگاتے جاتے ہیں۔ فالج زدہ کے جھکاؤ کو سیدھا کرتی ہے اور رعشہ کے مریض کے لرزہ کو کنٹرول کرتی ہے۔ چرواہے اسے بکریوں کے لیے اور تمام سوار اپنی سواری کے لیے ساتھ رکھتے ہیں۔ کوئی بھاری بوجھ ہو تو اس میں داخل کرکے اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات دو آدمی اس کا ایک ایک کنارہ پکڑ لیتے ہیں۔ چاہو تو دیوار میں ٹھونک کر میخ بنا لو یا کھلی جگہ میں گاڑ کر سترہ بنا لو یا چھتری بنا لو۔ اگر نوک لگا دو تو برچھی بن جائے گی، کچھ اور بڑھا دو تو نیزہ بن جائے گی۔ لاٹھی کوڑے کا کام بھی دیتی ہے اور اسلحہ بھی ہے۔ کندھے پر رکھ کر اس کے ساتھ کمان، ترکش اور پانی یا دودھ وغیرہ کا برتن بھی لٹکا سکتے ہو۔ کنویں سے پانی نکالنے کے لیے رسی چھوٹی ہو تو لاٹھی ساتھ ملا کر پانی نکال سکتے ہو۔ چادر اس کے اوپر ڈال کر سایہ حاصل کرسکتے ہو اور درندوں کا مقابلہ کرسکتے ہو وغیرہ۔ “
قَالَ هِىَ عَصَايَ ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال صرف اتنا ہوا تھا کہ ہاتھ میں کیا چیز ہے اس کا اتنا جواب کافی تھا کہ لاٹھی ہے مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس جگہ تین باتیں اصل سوال کے جواب سے زیادہ عرض کیں اول یہ کہ یہ عصا میری ہے، دوسرے یہ کہ میں اس سے بہت سے کام لیتا ہوں ایک یہ کہ اس پر ٹیک لگا لیتا ہوں دوسرے یہ کہ اس سے اپنی بکریوں کے لئے درختوں کے پتے چھاڑتا ہوں تیسرے یہ کہ اس سے اور بھی میرے بہت سے کام نکلتے ہیں، اس طویل اور تفصیلی جواب میں عشق و محبت اور اس کے ساتھ رعایت ادب کی جامعیت کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔ عشق و محبت کا تقاضا ہے کہ جب محبوب مہربان ہو کر متوجہ ہے تو بات دراز کی جائے تاکہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے مگر ساتھ ہی ساتھ ادب کا مقتضا یہ بھی ہے کہ بہت بےتکلف ہو کر کلام زیادہ طویل بھی نہ ہو۔ اس دوسرے مقتضا پر یہ عمل کرنے کے لئے اخیر میں اختصار کردیا کہ وَلِيَ فِيْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى، یعنی میں اس سے اور بھی بہت سے کام لیا کرتا ہوں اور ان کاموں کی تفصیل بیان نہیں کی (روح و مظہری)- تفسیر قرطبی میں اس آیت سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ ضرورت اور مصلحت سے ایسا کرنا بھی جائز ہے کہ جو بات سوال میں نہ پوچھی گئی ہو اس کو بھی جواب میں بیان کردیا جائے۔- مسئلہ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہاتھ میں عصا رکھنا سنت انبیاء ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی یہی سنت تھی اور اس میں بیشمار دینی و دنیوی فوائد ہیں۔ (قرطبی)
قَالَ ہِىَ عَصَايَ ٠ۚ اَتَـوَكَّؤُا عَلَيْہَا وَاَہُشُّ بِہَا عَلٰي غَنَمِيْ وَلِيَ فِيْہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى ١٨- عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - وكأ - الوِكَاءُ : رباط الشیء، وقد يجعل الوِكَاءُ اسما لما يجعل فيه الشیء فيشدّ به، ومنه أَوْكَأْتُ فلاناً : جعلت له مُتَّكَأً ، وتَوَكَّأَ علی العصا : اعتمد بها وتشدّد بها . قال تعالی: هِيَ عَصايَ أَتَوَكَّؤُا عَلَيْها[ طه 18] ، وفي الحدیث : «كان يُوكِي بين الصّفا والمروة» «2» قال معناه : يملأ ما بينهما سعیا کما يُوكَى السِّقَاءُ بعد الملء، ويقال :- أَوْكَيْتُ السِّقَاءَ ولا يقال أَوْكَأْتُ.- ( و ک ء ) الوکاء - کے معنی کسی چیز کا سر بند کے ہیں اور کبھی واکا اس ظرف کو بھی کہد یا جاتا ہے جس میں کوئی چیز ڈال کر اس کا منہ باندھ دیا گیا ہو ۔ اسی سے اوکات فلان ہے جس کے معنی کسی کے لئے تکیہ لگا دینے کے ہیں ۔ تو کا علی الصا اس نے عصا پر ٹیک لگائی اور اس قوت حاصل کی ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هِيَ عَصايَ أَتَوَكَّؤُا عَلَيْها[ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے اس پر میں سہارا لگاتا ہو ۔ اور حدیث میں ہے ۔ کان یو کی بین الصفا والمرۃ ( یعنی بالکل خاموش یا نہایت تیزی سے طواف کرتے تھے اس کے معنی یہ ہیں کہ سعی سے ان کے مابین کو اس طرح پر کردیتے تھے جیسا کہ مشکیزہ کو بھرنے کے بعد اس کا منہ باندھ دیاجاتا ہے ۔ اور یہ رہے ۔ کہ مشک کا منہ باندھنے کے لئے اوکیت التسقاء ( یعنی یاء کے ساتھ ) بولتے ہیں اور اوکات ہمزہ کے ساتھ اس معنی میں استعمال نہیں ہوتا ۔- هشش - الْهَشُّ : يقارب الهزّ في التّحريك، ويقع علی الشیء اللّيّن كَهَشِّ الورق، أي : خبطه بالعصا .- قال تعالی: وَأَهُشُّ بِها عَلى غَنَمِي[ طه 18] وهَشَّ الرّغيف في التّنّور يَهِشُّ ، وناقة هَشُوشٌ: ليّنة غزیرة اللّبن، وفرس هَشُوشٌ ضدّ الصّلود، والصّلود : الذي لا يكاد يعرق .- ورجل هَشُّ الوجه : طلق المحيّا، وقد هَشَشْتُ ، وهَشَّ للمعروف يَهِشُّ ، وفلان ذو هَشَاشٍ.- ( ھ ش ش ) الھش - ( ض ) کے معنی بھی ھز کی طرح کسی چیز کو حرکت دینے کے ہیں ۔ لیکن یہ کسی نرم چیز کو حرکت دینے پر بولاجاتا ہے جیسے ھش الورق درخت سے پتے جھاڑنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَهُشُّ بِها عَلى غَنَمِي[ طه 18] اور اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں ۔ ھش الرغیف فی التنور ( روٹی کا تنور میں پھول کر نرم ہوجانا ۔ ناقتہ ھشرش نرم نرم مزاج اور بہت دودھ دینے والی اونٹنی اور وہ گھوڑا جسے بہت زیادہ پسینہ آئے ۔ اسے بھی ھشوش کہا جاتا ہے ۔ اس کے بالمقابل جس گھوڑے کو پسینہ نہ ائے اسے صلود کہا جاتا ہے ۔ رجل ھش الوجتہ ہشاش بشاش آدمی ۔ اور ھشمشت وھش للمعروف ( ض ) سخاوت کے وقت خوش ہونا ۔ فلان ذوھشاش نیک خو اور سخی مرد - غنم - الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] .- ( غ ن م ) الغنم - بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔- أرب - الأرب : فرط الحاجة المقتضي للاحتیال في دفعه، فكلّ أربٍ حاجة، ولیس کلّ حاجة أرباً ، ثم يستعمل تارة في الحاجة المفردة، وتارة في الاحتیال وإن لم يكن حاجة، کقولهم : فلان ذو أربٍ ، وأريب، أي : ذو احتیال، وقد أَرِبَ إلى كذا، أي : احتاج إليه حاجةً شدیدة «2» ، وقد أَرِبَ إلى كذا أَرَباً وأُرْبَةً وإِرْبَةً ومَأْرَبَةً ، قال تعالی: وَلِيَ فِيها مَآرِبُ أُخْرى[ طه 18] ، ولا أرب لي في كذا، أي : ليس بي شدة حاجة إليه، وقوله : أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجالِ- [ النور 31] كناية عن الحاجة إلى النکاح، وهي الأُرْبَى «3» ، للداهية المقتضية للاحتیال، وتسمّى الأعضاء التي تشتد الحاجة إليها آراباً ، الواحد :- إِرْب، وذلک أنّ الأعضاء ضربان :- ضرب أوجد لحاجة الحیوان إليه، کالید والرجل والعین .- وضرب للزینة، کالحاجب واللحية .- ثم التي للحاجة ضربان :- ضرب لا تشتد الحاجة إليه .- وضرب تشتد الحاجة إليه، حتی لو توهّم مرتفعاً لاختلّ البدن به اختلالًا عظیماً ، وهي التي تسمی آراباً. وروي أنّه عليه الصلاة والسلام قال : «إذا سجد العبد سجد معه سبعة آرابٍ : وجهه وكفّاه ورکبتاه وقدماه»ويقال : أَرَّب نصیبه، أي : عظّمه، وذلک إذا جعله قدراً يكون له فيه أرب، ومنه : أرّب ماله أي : كثّر «2» ، وأرّبت العقدة : أحكمتها - ( ار ب ) الارب - کے معنی سخت احتیاج کے ہیں جیسے دور کرنے کے لئے حیلہ اور تدبیر کرنی پڑے پس ارب خاص اور حاجۃ عام ہے پھر کبھی ارب کا لفظ صرف حاجت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے اور کبھی محض حیلہ اور تدبیر کرنے کے لئے آتا ہے گو حاجت نہ ہو ۔ مثلا محاورہ ہے ۔ فلان ذو ارب واریب فلاں صاحب حیلہ اور چالاک ہے ۔ ارب الی ٰ کذا ، اربا و اربۃ واربۃ وماربۃ کے معنی ہیں وہ کسی چیز کا سخت محتاج ہوا ۔ ( ماربۃ ۔ سخت حاجت ج مآرب ) قرآن میں ہے ۔ وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى ( سورة طه 18) اور اس میں میرے لئے اور بھی فائدے ہیں ۔ ولاارب لی فی کذا ۔ مجھے اس کی کوئی شدید ضرورت نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ( سورة النور 31) نیز وہ خدمت گزار مرد جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں ۔ میں اربۃ سے بطور کنایہ حاجت نکاح مراد ہے ۔ الاربٰی بڑی مصیبت جس کے دور کرنے کیلئے تدبیر اور حیلہ کرنا پڑے ۔ الاراب ( واحد ارب ) وہ اعضا جن کی انسان کو سخت ضرورت رہتی ہے کیونکہ اعضا دو قسم کے ہیں ایک وہ جنکے ذریعہ ہر جاندار چیز اپنی ضروریات پورا کرتی ہے جیسے ہاتھ ، پاؤں اور آنکھ اور دوسرے وہ جو محض زینت کے لئے بنائے گئے ہیں جیسے بھویں ، داڑھی وغیرہ پھر وہ اعضاء جو حوائج کو پورا کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں دو قسم پر ہیں ایک وہ جن کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرے وہ ہیں جن کی سخت احتیاج رہتی ہے اور ان کے بغیر جسم انسانی کا نظام قائم نہیں رہ سکتا ۔ اس دوسری قسم کے اعضاء کو اراب کہا جاتا ہے حدیث میں ہے (9) اذا سجد العبد سجد معہ سبعۃ اراب کو جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں چہرہ ، دو ہتھلیاں ، دو گھٹنے اور دو پاؤں اور جب کوئی شخص اپنی ضرورت کے مطابق ( وافر ) حصہ لے تو کہا جاتا ہے ارب نصیبہ اس نے بڑا حصہ لیا اور وافر ۔ اسی سے محارہ ہے :۔ ارب مالہ اس نے اپنا مال پڑھالیا اربت العقدۃ میں نے مضبوط گرہ لگائی ۔
آیت ١٨ (قَالَ ہِیَ عَصَایَج ) ” - بظاہر عصا کے بارے میں سوال کا بس یہی جواب کافی تھا ‘ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سلسلے میں زیادہ تفصیل بیان کردی۔ زیادہ تر مفسرین کے نزدیک اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے مخاطبت اور مکالمے کے شوق و ذوق میں اپنی بات کو بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کیا :
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :12 اگرچہ جواب میں صرف اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ حضور ، یہ لاٹھی ہے ، مگر حضرت موسیٰ نے اس سوال کا جو لمبا جواب دیا وہ ان کی اس وقت کی قلبی کیفیت کا ایک دلچسپ نقشہ پیش کرتا ہے ۔ قاعدے کی بات ہے کہ جب آدمی کو کسی بہت بڑی شخصیت سے بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے تو وہ اپنی بات کو طول دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ دیر تک اس کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل رہے ۔