Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزات ملے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک بہت بڑے اور صاف کھلے معجزے کا ذکر ہو رہا ہے جو بغیر اللہ کی قدرت کے ناممکن اور جو غیر نبی کے ہاتھ پر بھی ناممکن ۔ طور پہاڑ پر دریافت ہو رہا ہے کہ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ یہ سوال اس لئے تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گھبراہٹ دور ہو جائے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سوال بطور تقریر کے ہے یعنی تیرے ہاتھ میں لکڑی ہی ہے یہ جیسی کچھ ہے تجھے معلوم ہے اب یہ جو ہو جائے گی وہ دیکھ لینا ۔ اس سوال کے جواب میں کلیم اللہ عرض کرتے ہیں یہ میری اپنی لکڑی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں یعنی چلنے میں مجھے یہ سہارا دیتی ہے اس سے میں اپنی بکریوں کا چارہ درخت سے جھاڑ لیتا ہوں ۔ ایسی لکڑیوں میں ذرا مڑا ہوا لوہا لگا لیا کرتے ہیں تاکہ پتے پھل آسانی سے اتر آئیں اور لکڑی ٹوٹے بھی نہیں اور بھی بہت سے فوائد اس میں ہیں ۔ ان فوائد کے بیان میں بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہی لکڑی رات کے وقت روشن چراغ بن جاتی تھی ۔ دن کو جب آپ سو جاتے تو یہی لکڑی آپ کی بکریوں کی رکھوالی کرتی جہاں کہیں سایہ دار جگہ نہ ہوتی آپ اسے گاڑ دیتے یہ خیمے کی طرح آپ پر سایہ کرتی وغیرہ وغیرہ لیکن بظاہر یہ قول بنی اسرائیل کا افسانہ معلوم ہوتا ہے ورنہ پھر آج اسے بصورت سانپ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قدر کیوں گھبراتے ؟ وہ تو اس لکڑی کے عجائبات دیکھتے چلے آتے تھے ۔ پھر بعض کا قول ہے کہ دراصل یہ لکڑی حضرت آدم علیہ السلام کی تھی ۔ کوئی کہتا ہے یہی لکڑی قیامت کے قریب وابستہ الارض کی صورت میں ظاہر ہو گی ۔ کہتے ہیں اس کا نام ماشا تھا ۔ اللہ ہی جانے ان اقوال میں کہاں تک جان ہے؟ لاٹھی اژدھا بن گئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لکڑی کا لکڑی ہونا جتا کر انہیں بخوبی بیدار اور ہوشیار کر کے حکم ملا کہ اسے زمین پر ڈال دو ۔ زمین پر پڑتے ہی وہ ایک زبردست اژدھے کی صورت میں پھنپھناتی ہوئی ادھر ادھر چلنے پھرنے بلکہ دوڑنے بھاگنے لگی ۔ ایسا خوفناک اژدھا اس سے پہلے کسی نے دیکھا ہی نہ تھا ۔ اس کی تو یہ حالت تھی کہ ایک درخت سامنے آ گیا تو یہ اسے ہضم کر گیا ۔ ایک چٹان پتھر کی راستے میں آ گئی تو اس کا لقمہ بنا گیا ۔ یہ حال دیکھتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام الٹے پاؤں بھاگے ۔ آواز دی گئی کہ موسیٰ پکڑ لے لیکن ہمت نہ پڑی پھر فرمایا موسیٰ علیہ السلام ڈر نہیں پکڑ لے پھر بھی جھجک باقی رہی تیسری مرتبہ فرمایا تو ہمارے امن میں ہے اب ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا ۔ کہتے ہیں فرمان الٰہی کے ساتھ ہی آپ نے لکڑی زمین پر ڈال دی پھر ادھر ادھر آپ کی نگاہ ہو گئی اب جو نظر ڈالی بجائے لکڑی کے ایک خوفناک اژدھا دکھائی دیا جو اس طرح چل پھر رہا ہے جیسے کسی کی جستجو میں ہو ۔ گابھن اونٹنی جیسے بڑے بڑے پتھروں کو آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اونچے اونچے درختوں کو ایک لقمے میں ہی پیٹ میں پہنچا رہا ہے آنکھیں انگاروں کی طرح چمک رہی ہیں اس ہیبت ناک خونخوار اژدھے کو دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سہم گئے اور پیٹھ موڑ کر زور سے بھاگے پھر اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی یاد آ گئی تو شرما کر ٹھہر گئے وہیں آواز آئی کہ موسیٰ لوٹ کر وہیں آ جاؤ جہاں تھے آپ لوٹے لیکن نہایت خوفزدہ تھے ۔ تو حکم ہوا کہ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے تھام لو کچھ بھی خوف نہ کرو ہم اسے اس کی اسی اگلی حالت میں لوٹا دیں گ ۔ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام صوف کا کمبل اوڑھے ہوئے تھے جسے ایک کانٹے سے اٹکا رکھا تھا آپ نے اسی کمبل کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ کر اس ہیبت ناک اژدھے کو پکڑنا چاہا فرشتے نے کہا موسیٰ علیہ السلام اگر اللہ تعالیٰ اسے کاٹنے کا حکم دے دے تو کیا تیرا یہ کمبل بچا سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں لیکن یہ حرکت مجھ سے بہ سبب میرے ضعف کے سرزد ہو گئی میں ضعیف اور کمزور ہی پیدا کیا گیا ہوں ۔ اب دلیری کے ساتھ کمبل ہٹا کر ہاتھ بڑھا کر اس کے سر کو تھام لیا اسی وقت وہ اژدھا پھر لکڑی بن گیا جیسے پہلے تھا اس وقت جب کہ آپ اس گھاٹی پر چڑھ رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں یہ لکڑی تھی جس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اسی حال میں آپ نے پہلے دیکھا تھا اسی حالت پر اب ہاتھ میں بصورت عصا موجود تھا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] اللہ کی موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلامی :۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال اس لئے نہیں کیا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو پتا نہ تھا کہ یہ میری لاٹھی ہے۔ بلکہ اس لئے کہا تھا کہ اسی لاٹھی کی ہیئت بدلنے والی تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے خود یہ یقین دلانا مقصود تھا کہ وہی تمہاری لکڑی کی لاٹھی اژدھا بنسکتی ہے جسے تم ہر وقت اپنے پاس رکھتے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى : اللہ تعالیٰ کے اس سوال کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم نہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں کیا ہے، بلکہ اس میں حکمت یہ تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کے عصا ہونے کا یقین ہوجائے، بعد میں سانپ بننے پر انھیں یہ شک پیدا نہ ہو کہ شاید میں نے کوئی اور چیز پکڑی ہوئی تھی۔ (واللہ اعلم) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دل سے ہیبت دور کرنے اور مانوس کرنے کے لیے لاٹھی کے متعلق سوال فرمایا ہو، تاکہ انھیں اگلا حکم دیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ بھی فرمایا کہ) یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا چیز ہے اے موسیٰ انہوں نے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے میں (کبھی) اس پر سہارا لگاتا ہوں اور (کبھی) اس سے اپنی بکریوں پر (درختوں کے) پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے اور بھی کام (نکلتے) ہیں (مثلاً کندھے پر رکھ کر اسباب وغیرہ لٹکا لینا یا اس سے موذی جانوروں کو دفع کرنا وغیرہ وغیرہ) ارشاد ہوا کہ اس (عصا) کو (زمین پر) ڈال دو اے موسیٰ سو انہوں نے اس کو (زمین پر) ڈال دیا تو یکایک وہ (خدا کی قدرت سے) ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گیا (جس سے موسیٰ (علیہ السلام) ڈر گئے) ارشاد ہوا کہ اس کو پکڑ لو اور ڈرو نہیں ہم ابھی (پکڑتے ہیں) اس کو اس کی پہلی حالت پر کردیں گے (یعنی یہ پھر عصا بن جاوے گا اور تم کو کوئی گزند نہ پہنچے گا، ایک معجزہ تو یہ ہوا) اور (دوسرا معجزہ اور دیا جاتا ہے کہ) تم اپنا (داہنا) ہاتھ اپنی (بائیں) بغل میں دے لو (پھر نکالو) وہ بلا کسی عیب (یعنی بلا کسی مرض برص وغیرہ) کے (نہایت) روشن ہو کر نکلے گا کہ یہ دوسری نشانی (ہماری قدرت اور تمہاری نبوت کی) ہوگی (اور یہ حکم لاٹھی کے ڈال دینے اور ہاتھ کو گریبان میں دینے کا اس لئے ہے) تاکہ ہم تم کو اپنی (قدرت کی) بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دکھلائیں (تو اب یہ نشانیاں لے کر) تم فرعون کے پاس جاؤ وہ بہت حد سے نکل گیا ہے (کہ خدائی کا دعویٰ کرتا ہے تم اس کو تبلیغ توحید کرو اور اگر نبوت میں شبہ کرے تو یہی معجزے دکھلا دو ) ۔- معارف ومسائل - وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى، بارگاہ رب العالمین کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال کرنا کہ آپ کے ہاتھ میں کیا چیز ہے موسیٰ (علیہ السلام) پر لطف و کرم اور خاص مہربانی کا آغاز ہے تاکہ حیرت انگیز مناظر کے دیکھنے اور کلام ربانی کے سننے سے جو ہیبت اور دہشت ان پر طاری تھی وہ دور ہوجائے یہ ایک دوستانہ انداز کا خطاب ہے کہ تمہارے ہاتھ میں کیا چیز ہے اس کے علاوہ اس سوال میں یہ حکمت بھی ہے کہ آگے اس عصا کو جو ان کے ہاتھ میں تھی ایک سانپ اور اژدھا بنانا تھا۔ اس لئے پہلے ان کو متنبہ کردیا کہ دیکھ لو تمہارے ہاتھ میں کیا چیز ہے جب انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ لکڑی کا عصا ہے تب ان کو سانپ بنانے کا معجزہ ظاہر کیا گیا ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ احتمال ہوسکتا تھا کہ میں رات کے اندھیرے میں شاید لاٹھی کی جگہ سانپ ہی پکڑ لایا ہوں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى۝ ١٧- يمین ( دائیں طرف)- اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ- [ الزمر 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ- [ الصافات 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] ، وعلی هذا حمل :- 477-- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين - ( ی م ن ) الیمین - کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سوال عصائے موسٰی پر جواب موزوں - قول باری ہے (وما تلک بیمینک یا موسیٰ قالھی عصای اتوکا علیھا ۔ اور اے موسیٰ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ موسیٰ نے جواب دیا۔” یہ میری لاٹھی ہے اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں۔ “) ایک قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس لاٹھی کے متعلق پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح بٹھا دی جائے کہ اس وقت جو چیز ان کے ہاتھ میں ہے وہ لاٹھی ہی ہے اور اس کے بارے میں اچھی طرح بات سمجھ لینے اور جانچ پرکھ کرلینے کے بعد جب لاٹھی کی کارکردگی ظاہر ہو تو اس وقت اس کے اعجاز کی حیثیت اور معجز نمائی کیفیت پوری طرح واضح ہو۔ پھر جب حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام نے جواب میں عرض کیا کہ یہ میری لاٹھی ہے جس پر میں تھکاوٹ کے وقت ٹیک لگا لیتا ہوں، اپنی بکریوں کے لئے اس کے ذریعے پتے جھاڑ لیتا ہوں اور اسی طرح کے کئی اور فائدے اٹھا لیتا ہوں تو یہ چیز واضح تھی کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو یہ باتیں معلوم کرانے کی نیت سے نہیں کہی تھیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو لاٹھی کے متعلق اس سے بڑھ کر علم تھا، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوال کیا گیا تھا جس کا جواب دینا ضروری تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ لاٹھی سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر کر کے اس سوال کا جواب دے دیں جس میں یہ پہلو بھی ہو کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان پر جو انعام کیا تھا اس کا اعتراف کیا جائے، اس کے فوائد گنوائے جائیں اور اس پر اس کا شکر بجا لانے کا التزام کیا جائے۔- بعض جاہلوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (وما تلک بیمینک یا موسیٰ ) فرما کر لاٹھی کی ماہیت دریافت کی تھی اس کے فوائد نہیں پوچھتے تھے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس سوال کا درست جواب نہ دے سکے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کی درست توجیہ وہی ہے جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں وہ یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے تو سوال کا (ھی عصای) کہہ کر جواب دیا پھر اس لاٹھی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اور اس عطیے پر اس کا شکر بجا لاتے ہوئے اس کے فوائد گنوائے ایسے سوالات کے موقع پر انبیاء کرام (علیہم السلام) اور اہل ایمان کے جواب کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گنوانا شروع کردیتے ہیں اور ان نعمتوں پر واضح طور پر شکر بجا لاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے (واما بنعمۃ ربک فحدث۔ اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کرو) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧۔ ١٨) اور اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ میری لاٹھی ہے جب تھک جاتا ہوں تو اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے درختوں کے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے میرے اور بھی کئی کام نکلتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :11 یہ سوال طلب علم کے لیے نہ تھا ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کو بھی معلوم تھا کہ موسیٰ کے ہاتھ میں لاٹھی ہے ۔ پوچھنے سے مقصود یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ کے ذہن میں اچھی طرح مستحضر ہو جائے اور پھر وہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani