كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًا ۔۔ : یعنی ان دعاؤں سے ہمیں کوئی دنیاوی مفاد مقصود نہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے تعاون سے تیری تسبیح اور تیرا ذکر بہت زیادہ کرسکیں گے، مثلاً دنیوی ضروریات آپس میں تقسیم کرلیں گے تو تسبیح و ذکر اور دعوت کے لیے زیادہ وقت نکل سکے گا۔
صالح رفقاء ذکر و عبادت میں بھی مددگار ہوتے ہیں :- كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًا، وَّنَذْكُرَكَ كَثِيْرًا، یعنی حضرت ہارون کو وزیر اور شریک نبوت بنانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم کثرت سے آپ کی تسبیح و ذکر کیا کریں گے۔ یہاں سے یہ سوال ہوسکتا ہے کہ تسبیح و ذکر تو ایسی چیز ہے کہ ہر انسان تنہا بھی جتنا چاہے کرسکتا ہے اس کے لئے کسی ساتھی کے عمل کا کیا دخل لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر و تسبیح میں بھی سازگار ماحول اور اللہ والے ساتھیوں کا بڑا دخل ہوتا ہے جس کے ساتھی اللہ والے نہ ہوں وہ اتنی عبادت نہیں کرسکتا جتنی وہ کرسکتا ہے جس کا ماحول اللہ والوں کا اور ساتھی ذاکر شاغل ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص ذکر اللہ میں مشغول رہنا چاہے اس کو سازگار ماحول کی بھی تلاش کرنا چاہئے۔
كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًا ٣٣ۙ- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو :- وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔