34۔ 1 یہ دعاؤں کی علت بیان کی کہ اس طرح ہم تبلیغ رسالت کے ساتھ ساتھ تیری تسبیح اور تیرا ذکر بھی زیادہ کرسکیں۔
[٢٠] سیدنا موسیٰ کے دل میں ہیأات :۔ اللہ کا یہ حکم سن کر آپ نے اپنی حالت کا جائزہ لیا اور چند معروضات پیش کردیں۔ ایک یہ کہ مجھے اتنا حوصلہ عطا فرما کہ میں یہ کام سرانجام دے سکوں اور مجھے اس کام کے کرنے کی توفیق عطا فرما۔ دوسرے یہ کہ میری زبان سے لکنت دور کردے۔ کہتے ہیں کہ بچپن میں آپ نے اپنی زبان پر آگ کا کوئلہ رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان میں گرہ پڑگئی تھی اور آپ ہکلا کر بات کرتے تھے۔ اس گرہ کو دور کردینے کی آپ نے درخواست کی تاکہ میں وضاحت سے بات کرسکوں اور لوگ میری بات آسانی سے سمجھ سکیں اور تیسرے یہ کہ اس گرانار ذمہ داری کے کام کے لئے مجھے ایک مددگار بھی عطا فرما اور چوتھے یہ کہ اس کام کے لئے مناسب ترین آدمی میرا بھائی ہارون ہے۔ اس کو بھی نبوت عطا فرما اور میرے ہمراہ کردے۔ وہ مجھ سے فصیح اللسان بھی ہے۔ پھر ایک ایک دو گیارہ والا معاملہ ہے۔ کم از کم ہم دونوں تو ایک دوسرے کے مونس و غمگسار ہوں گے۔ پھر ہم مل کر ہی تیری تسبیح و تقدیس اور ذکر بھی کرتے رہا کریں گے
وَّنَذْكُرَكَ كَثِيْرًا ٣٤ۭ اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيْرًا ٣٥- بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
11: اگرچہ تسبیح اور ذکر تنہا بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر اچھے رفقاء میسر ہوں، اور ماحول ساز گار ہو تو یہ رفاقت خود بخود اس تسبیح اور ذکر کا داعیہ بن جاتی ہے