35۔ 1 یعنی تجھے سارے حالات کا علم ہے اور بچپن میں جس طرح تو نے ہم پر احسان کئے، اب بھی اپنے احسانات سے ہمیں محروم نہ رکھ۔
اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيْرًا : ” كُنْتَ “ میں ” کَانَ “ استمرار کے لیے ہے کہ ” بیشک تو ہمیشہ ہمارا نگران اور نگہبان رہا ہے۔ “ یعنی جب ہم بچے تھے اس وقت بھی تو نے ہماری پرورش کی اور ہمیں دشمنوں سے محفوظ رکھا، اب بھی تیری اسی رحمت کے وسیلے سے تیری جناب میں درخواست ہے کہ ہماری یہ دعائیں قبول فرما۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور پہلی نوازشوں کے وسیلے سے دعا کا سبق بھی ہے۔
قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى ٣٦- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔
آیت ٣٥ (اِنَّکَ کُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا ) ” - تو خود ہمارے حالات کا چشم دید گواہ ہے۔