Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جس سال قتل موقوف تھا اس سال تو حضرت ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس سال قتل عام بچوں کا جاری تھا اس برس حضرت موسیٰ علیہ السلام تولد ہوئے ۔ آپ کی والدہ کی اس وقت کی گھبراہٹ اور پریشانی کا کیا پوچھنا ؟ بے اندازہ تھی ۔ ایک فتنہ تو یہ تھا ۔ چنانچہ یہ خطرہ اس وقت دفع ہوگیا جب کہ اللہ کی وحی ان کے پاس آئی کہ ڈر خوف نہ کر ہم اسے تیری طرف پھر لوٹائیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے ۔ چنانچہ بحکم الٰہی آپ نے اپنے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا جب صندوق نظروں سے اوجھل ہو گیا تو شیطان نے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کئے کہ افسوس اس سے تو یہی بہتر تھا کہ میرے سامنے ہی اسے ذبح کر دیا جاتا تو میں اسے خود ہی کفناتی دفناتی تو سہی لیکن اب تو میں نے خود اسے مچھلیوں کا شکار بنایا ۔ یہ صندوق یونہی بہتا ہوا خاص فرعونی گھاٹ سے جا لگا وہاں اس وقت محل کی لونڈیاں موجود تھیں انہوں نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور ارادہ کیا کہ کھول کر دیکھیں لیکن پھر ڈر گئیں کہ ایسا نہ ہو کہ چوری کا الزام لگے یونہی مقفل صندوق ملکہ فرعون کے پاس پہنچا دیا ۔ یہ بادشاہ بیگم کے سامنے کھولا گیا تو اس میں سے چاند جیسی صورت کا ایک چھوٹا سا معصوم بچہ نکلا جسے دیکھتے ہی فرعون کی بیوی صاحبہ کا دل محبت کے جوش سے اچھلنے لگا ۔ ادھر ام موسیٰ کی حالت غیر ہو گئی سوائے اپنے اس پیارے بچے کے خیال کے دل میں اور کوئی تصور ہی نہ تھا ۔ ادھر ان قصائیوں کو جو حکومت کی طرف سے بچوں کے قتل کے محکمے کے ملازم تھے معلوم ہوا تو وہ اپنی چھریاں تیز کئے ہوئے بڑھے اور ملکہ سے تقاضا کیا کہ بچہ انہیں سونپ دیں تاکہ وہ اسے ذبح کر ڈالیں ۔ یہ دوسرا فتنہ تھا آخر ملکہ نے جواب دیا کہ ٹھہرو میں خود بادشاہ سے ملتی ہوں اور اس بچے کو طلب کرتی ہوں اگر وہ مجھے دے دیں تو خیر ورنہ تمہیں اختیار ہے ۔ چنانچہ آپ آئیں اور بادشاہ سے کہا کہ یہ بچہ تو میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو گا اس خبیث نے کہا بس تم ہی اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو میری ٹھنڈک وہ کیوں ہونے لگا ؟ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی تدابیر اعلیٰ اور محروم ہدایت فرعون ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ حلف بیان فرماتے ہیں کہ اگر وہ بھی کہہ دیتا کہ ہاں بیشک وہ میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ضرور راہ راست دکھا دیتا جیسا کہ اس کی بیوی صاحبہ مشرف بہ ہدایت ہوئی لیکن اس نے خود اس سے محروم رہنا چاہا اللہ نے بھی اسے محروم کر دیا ۔ الغرض فرعون کو جوں توں راضی رضامند کر کے اس بچے کے پالنے کی اجازت لے کر آپ آئیں اب محل کی جتنی دایہ تھیں سب کو جمع کیا ایک ایک کی گود میں بچہ دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کا دودھ آپ پر حرام کر دیا آپ نے کسی کا دودھ منہ میں لیا ہی نہیں ۔ اس سے ملکہ گھبرائیں کہ یہ تو بہت ہی برا ہوا ۔ یہ پیارا بچہ یونہی ہلاک ہو جائے گا ۔ آخر سوچ کر حکم دیا کہ انہیں باہر لے جاؤ ادھر ادھر تلاش کرو اور اگر کسی کا دودھ یہ معصوم قبول کرے تو اسے بہ منت سونپ دو ۔ باہر بازاروں میں میلہ سا لگ گیا ہر شخص اس سعادت سے مالا مال ہونا چاہتا تھا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی کا دودھ نہ پیا ۔ آپ کی والدہ نے اپنی بڑی صاحبزادی آپ کی بہن کو باہر بھیج رکھا تھا کہ وہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ وہ اس مجمع میں موجود تھیں اور تمام واقعات دیکھ سن رہی تھیں جب یہ لوگ عاجز آ گئے تو آپ نے فرمایا اگر تم کہو تو میں ایک گھرانہ ایسا بتلاؤں جو اس کی نگہبانی کرے اور ہو بھی اس کا خیر خواہ یہ کہنا تھا کہ لوگوں کو شک ہوا کہ ضرور یہ لڑکی اس بچے کو جانتی ہے اور اس کے گھر کو بھی پہچانتی ہے ۔ اے ابن جبیر یہ تھا تیسرا فتنہ ۔ لیکن اللہ نے لڑکی کو سمجھ دے دی اور اس نے جھٹ سے کہا کہ بھلا تم اتنا نہیں سمجھے کون بدنصیب ایسا ہو گا جو اس بچے کی خیر خواہی یا پرورش میں کمی کرے جو بچہ ہماری ملککہ کا پیارا ہے ۔ کون نہ چاہے گا کہ یہ ہمارے ہاں پلے تاکہ انعام و اکرام سے اس کا گھر بھر جائے ۔ یہ سن کر سب کی سمجھ میں آ گیا اسے چھوڑ دیا اور کہا بتا تو کون سی دایہ اس کے لئے تجویز کرتی ہے؟ اس نے کہا میں ابھی لائی دوڑی ہوئی گئیں اور والدہ کو یہ خوش خبری سنائی والدہ صاحب شوق و امید سے آئیں اپنے پیارے بچے کو گود میں لیا اپنا دودھ منہ میں دیا بچے نے پیٹ بھر کر پیا اسی وقت شاہی محلات میں یہ خوشخبری پہنچائی گئی ملکہ کا حکم ہوا کہ فوراً اس دایہ کو اور بچے کو میرے پاس لاؤ جب ماں بیٹا پہنچے تو اپنے سامنے دودھ پلوایا اور یہ دیکھ کر کہ بچہ اچھی طرح دودھ پیتا ہے بہت ہی خوش ہوئیں اور فرمانے لگیں کہ دائی اماں مجھے اس بچے سے وہ محبت ہے جو دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں تم یہیں محل میں رہو اور اس بچے کی پرورش کرو ۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کے سامنے اللہ کا وعدہ تھا انہیں یقین کامل تھا اس لئے آپ ذرا رکیں اور فرمایا کہ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اپنے گھر کو اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر یہاں رہوں ۔ اگر آپ چاہتی ہیں تو یہ بچہ میرے سپرد کر دیں میں اسے اپنے گھر لے جاتی ہوں ان کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ کروں گی ملکہ صاحبہ نے مجبوراً اس بات کو بھی مان لیا اور آپ اسی دن خوشی خوشی اپنے بچے کو لئے ہوئے گھر آ گئیں ۔ اس بچے کی وجہ سے اس محلے کے بنو اسرائیل بھی فرعونی مظالم سے رہائی پا گئے ۔ جب کچھ زمانہ گزر گیا تو بادشاہ بیگم نے حکم بھیجا کہ کسی دن میرے بچے کو میرے پاس لاؤ ایک دن مقرر ہو گیا تمام ارکان سلطنت اور درباریوں کو حکم ہوا کہ آج میرا بچہ میرے پاس آئے گا تم سب قدم قدم پر اس کا استقبال کرو اور دھوم دھام سے نذریں دیتے ہوئے اسے میرے محل سرائے تک لاؤ ۔ چنانچہ جب سواری روانہ ہوئی وہاں سے لے کر محل سرائے سلطانی تک برابر تحفے تحائف نذریں اور ہدیے پیشکش ہوتے رہے اور بڑی ہی عزت و اکرام کے ساتھ آپ یہاں پہنچے تو خود بیگم نے بھی خوشی خوشی بہت بڑی رقم پیش کی اور بڑی خوشی منائی گئی ۔ پھر کہنے لگی کہ میں تو اسے بادشاہ کے پاس لے جاؤں گی وہ بھی اسے انعام و اکرام دیں گے ، لے گئیں اور بادشاہ کی گود میں لٹا دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی داڑھی پکڑ کر زور سے گھسیٹی ۔ فرعون کھٹک گیا اور اس کے درباریوں نے کہنا شروع کیا کہ کیا عجب یہی وہ لڑکا ہو آپ اسے فوراً قتل کرا دیجئے ۔ اے ابن جبیر یہ تھا چوتھا فتنہ ملکہ بیتاب ہو کر بول اٹھیں اے بادشاہ کیا ارادہ کر رہے ہو؟ آپ اسے مجھے دے چکے ہیں میں اسے اپنا بیٹا بنا چکی ہوں ۔ بادشاہ نے کہا یہ سب ٹھیک ہے لیکن دیکھو تو اس نے تو آتے ہی داڑھی پکڑ کر مجھے نیچا کر دیا گویا یہی میرا گرانے والا اور مجھے تاخت و تاراج کرنے والا ہے ۔ بیگم صاحبہ نے فرمایا بادشاہ بچوں کو ان چیزوں کی کیا تمیز سنو میں ایک فیصلہ کن بات بتاؤں اس کے سامنے دو انگارے آگ کے سرخ رکھ دو اور دو موتی آبدار چمکتے ہوئے رکھ دو پھر دیکھو یہ کیا اٹھاتا ہے اگر موتی اٹھا لے تو سمجھنا کہ اس میں عقل ہے اور اگر آگ کے انگارے تھام لے تو سمجھ لینا کہ عقل نہیں جب عقل و تمیز نہیں تو اس کی داڑھی پکڑ لینے پر اتنے لمبے خیالات کر کے اس کی جان کا دشمن بن جانا کون سی دانائی کی بات ہے چنانچہ یہی کیا گیا دونوں چیزیں آپ کے سامنے رکھی گئیں آپ نے دہکتے ہوئے انگارے اٹھا لئے اسی وقت وہ چھین لئے کہ ایسا نہ ہو ہاتھ جل جائیں اب فرعون کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور اس کا بدلہ ہوا رخ ٹھیک ہو گیا ۔ حق تو یہ ہے کہ اللہ کو جو کام کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے قدرتی اسباب مہیا ہو ہی جاتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دربار فرعون میں فرعون کے خاص محل میں فرعون کی بیوی کی گود میں ہی پرورش ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ آپ اچھی عمر کو پہنچ گئے اور بالغ ہو گئے ۔ اب تو فرعونیوں کے جو مظالم اسرائیلیوں پر ہو رہے تھے ان میں بھی کمی ہو گئی تھی سب امن و امان سے تھے ۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک فرعونی اور ایک اسرائیلی کی لڑائی ہو رہی تھی اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی آپ کو سخت غصہ آیا اسلئے کہ اس وقت وہ فرعونی اس بنی اسرائیل کو دبوچے ہوئے تھا آپ نے اسے ایک مکا مارا اللہ کی شان مکا لگتے ہی وہ مر گیا یہ تو لوگوں کو عموماً معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیلیوں کی طرف داری کرتے ہیں لیکن لوگ اس کی وجہ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ چونکہ آپ نے انہی میں دودھ پیا ہے اس لئے ان کے طرفدار ہیں اصلی راز کا علم تو صرف آپ کی والدہ کو تھا اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم کو بھی معلوم کرا دیا ہو ۔ اسے مردہ دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے کہ یہ تو شیطانی حرکت ہے وہ بہکانے والا اور کھلا دشمن ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگے کہ باری تعالیٰ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا تو معاف فرما پروردگار نے بھی آپ کی اس خطا سے درگزر فرما لیا وہ تو غفور و رحیم ہے ہی ۔ چونکہ قتل کا معاملہ تھا آپ پھر بھی خوفزدہ ہی رہے تاک جھانک میں رہے کہ کہیں معاملہ کھل تو نہیں گیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 قبولیت دعا کی خوشخبری کے ساتھ مزید تسلی اور حوصلے کے لئے اللہ تعالیٰ بچپن کے اس احسان کا ذکر فرما رہا ہے، جب موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے قتل کے اندیشے سے اللہ کے حکم سے، جب وہ شیر خوار بچے تھے تابوت میں ڈل کر دریا کے سپرد کردیا تھا

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] مطالبات کی منظوری :۔ یعنی جو کچھ درخواستیں تم نے پیش کی ہیں وہ سب کی سب منظور کی جاتی ہیں۔ ان احسانات کے علاوہ پہلے بھی ہم تم پر احسان کرچکے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک ایک کرکے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو وہ احسانات یاد دلاتے ہیں جو ان کی پیدائش سے لے کر تاحال ان پر کئے گئے ہیں اور ان کی تفصیل سورة قصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ تم خاص اسی مہم کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور اسی کام کے لئے ہماری زیرنگرانی تمہاری پرورش ہوتی رہی ہے۔ فرعون جیسے جابر بادشاہ سے ٹکر لینے کے لئے جن صفات کی ضرورت تھی۔ وہ تمہیں ودیعت کرکے اس کام کے لئے تمہارا انتخاب کرلیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً اُخْرٰٓى : اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی، نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہونے، عصا و ید بیضا کے معجزے عطا ہونے، ان کا آنکھوں سے مشاہدہ کرنے اور اس موقع پر کی ہوئی چاروں دعاؤں کی قبولیت میں سے ہر ایک عظیم احسان تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے کیے گئے آٹھ احسانات کا ذکر فرمایا۔ مقصد یہ کہ میں نے تم پر پہلے بھی احسان کیے، اب بھی کیے اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا، کیونکہ میں نے تمہیں بنایا ہی خاص اپنے لیے ہے، فرمایا : (وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي) [ طٰہٰ : ٤١ ] ” اور میں نے تجھے اپنے لیے خاص طور پر بنایا ہے۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آئندہ کے وعدے کا یقین دلانے کے لیے پچھلے احسانات یاد دلائے، فرمایا : (وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى ۝ۭاَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى ۝۠وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى ۝۠وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى ) [ الضحیٰ : ٥ تا ٨ ] ” اور یقیناً عنقریب تیرا رب تجھے عطا کرے گا، پس تو راضی ہوجائے گا۔ کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا، پس جگہ دی اور اس نے تجھے راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھا دیا اور اس نے تجھے تنگدست پایا تو غنی کردیا۔ “ (ابن عاشور) - ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تجھ پر ایک اور بار بھی احسان کیا “ اس میں احسان کو مجمل رکھا ہے، تاکہ شوق پیدا ہو کہ وہ کیا احسان تھا، پھر چار آیات (٣٨ تا ٤١) میں پے در پے آٹھ احسان ذکر فرمائے : 1 ”ۙاِذْ اَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّكَ مَا يُوْحٰٓي “ 2”ۭ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ “ 3” وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ “ 4” فَرَجَعْنٰكَ اِلٰٓى اُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ “ 5” وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ “ 6 ” وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا “ 7 ” فَلَبِثْتَ سِنِيْنَ فِيْٓ اَهْلِ مَدْيَنَ ڏ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰي قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى“ 8 ” وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ہم تو اور دفعہ اور بھی (اس کے قبل بےدرخواست ہی) تم ہر احسان کرچکے ہیں جبکہ ہم نے تمہاری ماں کو وہ بات الہام سے بتلائی جو (بوجہ مہتم بالشان ہونے کے) الہام سے بتلانے کے (قابل) تھی (وہ) یہ کہ موسیٰ کو (جلادوں کے ہاتھ سے بچانے کے لئے) ایک صندوق میں رکھو، پھر ان کو (مع صندوق کے) دریا میں (جس کی ایک شاخ فرعون کے محل تک بھی گئی تھی) ڈال دو پھر دریا ان کو (مع صندوق کے) کنارہ (کے پاس) تک لے آوے گا (آخر کار) ان کو ایک ایسا شخص پکڑے گا جو (کافر ہونے کی وجہ سے) میرا بھی دشمن ہے اور ان کا بھی دشمن ہے (خواہ فی الحال بوجہ اس کے کہ سب بچوں کو قتل کرتا تھا خواہ آئندہ ان کا خاص طور پر دشمن ہوگا) اور (جب صندوق پکڑا گیا اور تم اس میں سے نکالے گئے تو) میں نے تمہارے (چہرے کے) اوپر اپنی طرف سے ایک اثر محبت ڈال دیا (تاکہ جو تم کو دیکھے پیار کرے) اور تاکہ تم میری (خاص) نگرانی میں پرورش پاؤ۔ (یہ اس وقت کا قصہ ہے) جبکہ تمہاری بہن (تمہاری تلاش میں فرعون کے گھر) چلتی ہوئی آئیں، پھر (تم کو دیکھ کر اجنبی بن کر) کہنے لگیں (جبکہ تم کسی انّا کا دودھ نہ پیتے تھے) کیا تم لوگوں کو ایسے شخص کا پتہ دوں جو اس کو (اچھی طرح) پالے رکھے (چنانچہ ان لوگوں نے چونکہ ان کو تلاش تھی منظور کیا اور تمہاری بہن تمہاری ماں کو بلا کر لائیں) پھر (اس تدبیر سے) ہم نے تم کو تمہاری ماں کے پاس پھر پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کو غم نے رہے (جیسا تھوڑے عرصہ تک فراق سے مغموم رہیں) اور (بڑے ہونے کے بعد ایک اور احسان کیا کہ) تم نے (غلطی سے) ایک شخص (قبطی) کو جان سے مار ڈالا (جس کا قصہ سورة قصص میں ہے اور مار کر غم ہوا خوف عقاب سے بھی اور خوف انتقام سے بھی) پھر ہم نے تم کو اس غم سے نجات دی (خوف عقاب سے تو اس طرح کہ استغفار کی توفیق دی اور اس کو قبول کیا اور خوف انتقام سے اس طرح کہ مصر سے مدین پہنچا دیا) اور (مدین پہنچنے تک) ہم نے تم کو خوب خوب محنتوں میں ڈالا (اور پھر ان سے خلاصی دی جن کا ذکر سورة قصص میں ہے کہ خلاصی دینا بھی منت ہے اور خود ابتلاء بھی بوجہ اس کے کہ وہ سبب ہے حصول اخلاق حمیدہ و ملکات فاضلہ کا مستقل احسان ہے) ۔- پھر (مدین پہنچے اور) مدین والوں میں کئی سال رہے پھر ایک خاص وقت پر (جو میرے علم میں تمہاری نبوت اور ہم کلامی کے لئے مقدر تھا) تم (یہاں) آئے اے موسیٰ اور (یہاں آنے پر) میں نے تم کو اپنے (نبی بنانے کے) لئے منتخب کیا (سو اب) تم اور تمہارے بھائی دونوں میری نشانیاں (یعنی معجزات کہ اصل دو معجزے ہیں عصا و ید بیضا اور ہر ایک میں وجوہ اعجاز متعدد ہیں) لے کر (جس موقع کے لئے حکم ہوتا ہے) جاؤ اور میری یادگاری میں (خواہ خلوت میں خواہ تبلیغ کے وقت) سستی مت کرنا (اب موقع جانے کا بتلایا جاتا ہے کہ) دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ بہت نکل چلا ہے پھر (اس کے پاس جا کر) اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید وہ (رغبت سے) نصیحت قبول کرلے یا (عذاب الہٰی سے) ڈر جاوے (اور اس سے مان جاوے) ۔- معارف ومسائل - وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً اُخْرٰٓى، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو انعامات و عنایات حق اس وقت مبذول ہوئیں کہ شرف ہم کلامی سے نوازا گیا، نبوت و رسالت عطا ہوئی، خاص معجزات عطا ہوئے اس کے ساتھ یہاں حق تعالیٰ اپنی وہ نعمتیں بھی ان کو یاد دلاتے ہیں جو شروع پیدائش سے اس وقت تک زندگی کے ہر دور میں آپ پر مبذول ہوتی رہیں اور مسلسل آزمائشوں اور جان کے خطروں کے درمیان قدرت حق نے کن حیرت انگیز طریقوں سے ان کی حفاظت فرمائی۔ یہ نعمتیں جن کا ذکر آگے آتا ہے زمانہ وقوع کے اعتبار سے پہلی ہیں یہاں جو ان کو اخرٰی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ نعمتیں اس کے بعد کی ہیں بلکہ اخریٰ کبھی مطلقاً دوسرے کے معنے میں بھی آتا ہے جس میں مقدم موخر کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا یہاں بھی یہ لفظ اسی معنے میں ہے (روح) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ پورا قصہ حدیث کے حوالہ سے تفصیل کے ساتھ آگے آئے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّۃً اُخْرٰٓى۝ ٣٧ۙ- منن - والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164]- والثاني : أن يكون ذلک بالقول،- وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، - ( م ن ن ) المن - المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔- اور دوسرے معنی منۃ بالقول - یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧۔ ٣٨) اور ہم تو اس احسان کے علاوہ ایک مرتبہ پہلے بھی تم پر احسان کرچکے ہیں، جب کہ ہم نے تمہاری ماں کو وہ بات الہام سے بتلائی جو الہام سے بتانے کے قابل تھی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :17 اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ کو ایک ایک کر کے وہ احسانات یاد دلاتا ہے جو پیدائش کے وقت سے لے کر اس وقت تک اس نے ان پر کیے تھے ۔ ان واقعات کی تفصیل سورہ قصص میں بیان ہوئی ہے ۔ یہاں صرف اشارات کیے گئے ہیں جن سے مقصود حضرت موسیٰ کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم اسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو اور اسی کام کے لیے آج تک خاص طور پر سرکاری نگرانی میں پرورش پاتے رہے ہو جس پر اب تمہیں مامور کیا جا رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani