112۔ 1 یعنی اس وعدہ الٰہی میں تاخیر، میں نہیں جانتا کہ تمہاری آزمائش کے لئے ہے یا ایک خاص وقت تک فائدہ اٹھانے کے لئے مہلت دینا ہے۔ 112۔ 2 یعنی میری بابت جو تم مختلف باتیں کرتے رہتے ہو، یا اللہ کے لئے اولاد ٹھہراتے ہو، ان سب باتوں کے مقابلے میں وہ رب ہی مہربانی کرنے والا اور وہی مدد کرنے والا ہے۔
[٩٩] اکثر انبیاء جب اپنی زندگی بھر اللہ کی طرف دعوت دینے کے بعد کافروں کی طرف سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے ایسی ہی یا ان الفاظ سے ملے جلے الفاظ میں دعا کی کہ یا اللہ اب تو ہی ان کافروں کے اور ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرما دے۔ چناچہ اس رسول (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کافروں کو مخاطب کرکے فرمایا : کہ جس طرح تم اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے رہے ہو اور مسلمانوں کو اپنی تضحیک اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے ہو تو اس کے ردعمل کے طور پر ہم اپنے پروردگار کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں جو نہایت مہربان ہے اور ایسے مشکل اوقات میں اسی سے مدد طلب کرنا چاہئے۔
قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ ۔۔ : پہلے انبیاء کی امتوں نے جب حق کو جھٹلایا تو انھوں نے حق تعالیٰ سے اس دعا سے ملتی جلتی دعا کی جو اس آیت میں مذکور ہے، چناچہ شعیب (علیہ السلام) نے دعا کی : (رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ ) [ الأعراف : ٨٩ ] ” اے ہمارے رب ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ “ اور ان سب پیغمبروں کے متعلق فرمایا جنھیں ان کی قوم نے کفر اختیار نہ کرنے کی صورت میں اپنی بستی سے نکالنے کی دھمکی دی تھی : (وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ ) [ إبراہیم : ١٥ ] ” اور انھوں نے (حق تعالیٰ سے) فیصلہ مانگا اور ہر سرکش، سخت عناد رکھنے والا نامراد ہوا۔ “ - ” قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ “ کے ” قٰلَ “ میں دو قراءتیں ہیں، ایک امر کے صیغے کے ساتھ ” قُلْ “ ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ یہ کہیں جو اس آیت میں مذکور ہے۔ دوسری قراءت ، جو ہمارے ہاں رائج ہے، اس کے مطابق یہ ماضی کا صیغہ ” قَالَ “ ہے، جس کا معنی ہے، اس نے کہا۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے اس رسول نے بھی کفار کے جھٹلانے اور جلاوطن کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ہم سے یہ کہا جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کوئی بھی داعی جب ایسے حالات سے دو چار ہو تو اسے یہ دعا کرنی چاہیے۔ - 3 قرآن مجید کے رسم الخط میں اس آیت کا پہلا لفظ الف کے بغیر ” قٰلَ “ لکھا گیا ہے، جسے ” قُلْ “ اور ” قَالَ “ دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہے، جس طرح ” مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ “ میں ” مَلِکِ “ اور ” مَالِکِ “ دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہے اور یہ قرآن مجید کے رسم الخط کا کمال ہے۔
قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ ٠ۭ وَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ ١١٢ۧ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- استِعَانَةُ :- طلب العَوْنِ. قال : اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45]- الا ستعانہ - مدد طلب کرنا قرآن میں ہے : ۔ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] صبر اور نماز سے مدد لیا کرو ۔- وصف - الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ :- الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116]- ( و ص ف ) الوصف - کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو
(١١٢) آپ فرما دیجیے کہ میرے اور مکہ والوں کے درمیان حق اور عدل کے موافق فیصلہ فرما دیجیے اور ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے ہم ان جھوٹی باتوں کے مقابلہ میں مدد چاہتے ہیں جو تم بنایا کرتے ہو۔
آیت ١١٢ (قٰلَ رَبِّ احْکُمْ بالْحَقِّ ط) ” - چونکہ کفار کے ساتھ کش مکش اور ردّوکدح کا سلسلہ بہت طوالت اختیار کر گیا تھا ‘ اس لیے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اب آخری فیصلہ آجانا چاہیے۔- (وَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ ) ” - اس فرمان کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ اے گروہ منکرین تم لوگوں کی مخالفت ‘ ہٹ دھرمی اور سازشوں کے خلاف میں اپنے پروردگار سے مدد کا طلب گار ہوں جو مجھ پر بہت مہربان ہے۔ چناچہ پچھلے کئی برس سے جو رویہ تم لوگ میرے خلاف ‘ میری دعوت کے خلاف اور میرے پیروکاروں کے خلاف اپنائے بیٹھے ہو وہ اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ یقیناً ہماری مدد فرمائے گا اور تم لوگوں کو تمہارے کرتوتوں کی قرار واقعی سزا دے گا۔