Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یہ فرشتوں نے ندا دی یا مومنوں نے استہزاء کے طور پر کہا۔ 13۔ 2 یعنی جو نعمتیں اور آسائشیں تمہیں حاصل تھیں جو تمہارے کفر اور سرکشی کا باعث تھیں اور وہ مکانات جن میں تم رہتے تھے اور جن کی خوبصورتی اور پائیداری پر فخر کرتے تھے ان کی طرف پلٹو۔ 13۔ 3 اور عذاب کے بعد تمہارا حال احوال تو پوچھ لیا جائے کہ تم پر یہ کیا بیتی، کس طرح بیتی اور کیوں بیتی ؟ یہ سوال بطور خیال اور مذاق کے ہے، ورنہ ہلاکت کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد وہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہی کب رہتے تھے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] یعنی اب اپنی مجالس کی مسندوں پر کیوں براجمان نہیں ہوتے۔ تاکہ لوگ آپ کے سامنے اپنی درخواستیں پیش کریں۔ اپنے مسائل حل کروائیں۔ آپ سے مشورے کریں۔ آپ کی رائے پوچھیں۔ اب کہاں جاتے ہو یہیں بیٹھو اور کچھ نہیں تو کم از کم بعد میں آنے والوں کو یہی بتلا دینا کہ تم پر عذاب الٰہی کیسے آیا تھا ؟ اور کس کس قسم کے حالات پیش آئے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا تَرْكُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰى مَآ اُتْرِفْتُمْ فِيْهِ ۔۔ : یعنی ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ انھیں کہا جائے یا فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ بھاگو نہیں، بلکہ ان جگہوں کی طرف جن میں تمہیں خوشحالی دی گئی تھی اور اپنے گھروں کی طرف واپس آؤ، تاکہ تم سے پوچھا جائے کہ ان تمام نعمتوں کی تم نے کیا قدر کی ؟ ایک معنی یہ ہے کہ اپنی انھی مجلسوں میں دوبارہ واپس آؤ، تاکہ پہلے کی طرح تمہارے نوکر چاکر ہاتھ باندھ کر تم سے سوال کریں کہ سرکار کیا حکم ہے ؟ تیسرا معنی یہ ہے کہ بھاگو نہیں، بلکہ اپنی وہی پہنچایتیں اور کونسلیں جما کر بیٹھو، تاکہ لوگ اپنے مسائل کا حل تم سے پوچھنے کے لیے آئیں اور مانگنے والے تم سے مانگنے کے لیے آئیں، جنھیں تم فخر و ریا کے لیے دیا کرتے تھے۔ بہرحال یہ سب کچھ انھیں ڈانٹنے اور ان کا مذاق اڑانے کے لیے کہا جا رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا تَرْكُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰى مَآ اُتْرِفْتُمْ فِيْہِ وَمَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْــَٔـلُوْنَ۝ ١٣- ركض - الرَّكْضُ : الضّرب بالرِّجْل، فمتی نسب إلى الرّاكب فهو إعداء مرکوب، نحو : رَكَضْتُ الفرسَ ، ومتی نسب إلى الماشي فوطء الأرض، نحو قوله تعالی: ارْكُضْ بِرِجْلِكَ [ ص 42] ، وقوله : لا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلى ما أُتْرِفْتُمْ فِيهِ [ الأنبیاء 13] ، فنهوا عن الانهزام .- ( ر ک ض ) الرکض - اس کے اصل معنی ٹانگ کو حرکت دینے کے ہیں اگر سوار کے متعلق بولا جائے جیسے : ۔ رکضت الفرس تو اس کے معنی گھوڑے کو تیز دوڑانے کے لئے ایڑھ لگانا کے ہوتے ہیں اور پیادہ پا آدمی کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنی پاؤں کے ساتھ زمین کو روندنا کے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ [ ص 42] یعنی ٹانگ زمین پر مارو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلى ما أُتْرِفْتُمْ فِيهِ [ الأنبیاء 13] مت بھاگو اور سازو سامان ( دنیا کی ) طرف لوٹ جاؤ جس میں تم چین کرتے تھے ۔ میں انہیں شکست خوردہ ہو کر بھاگنے سے منع کیا گیا ہے ۔ ( اور یہ نہی تہدید اور تعجیز کے لئے ہے )- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - ترف - التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود 116] - ( ت ر ف) الترفۃ - ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔ - سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣) فرشتوں نے ان سے کہا بھاگو مت اور اپنے سامان عیش کی طرف اور اپنے مکانوں کی طرف واپس چلو، شاید تم میں سے کوئی ایمان لانے کے بارے میں یا نبی (علیہ السلام) کے قتل کرنے کے بارے میں پوچھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (لَا تَرْکُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰی مَآ اُتْرِفْتُمْ فِیْہِ وَمَسٰکِنِکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْءَلُوْنَ ) ” (- شاید وہاں تمہیں اپنا کوئیُ پرسان حال یا خبر گیری کرنے والا مل جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :14 نہایت معنی خیز فقرہ ہے اور اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ، مثلاً ، ذرا اچھی طرح اس عذاب کا معائنہ کرو تاکہ کل کوئی اس کی کیفیت پوچھے تو ٹھیک بتا سکو ۔ اپنے وہی ٹھاٹھ جما کر پھر مجلسیں گرم کرو ، شاید اب بھی تمہارے خدم و حشم ہاتھ باندھ کر پوچھیں کہ حضور کیا حکم ہے ۔ اپنی وہی کونسلیں اور کمیٹیاں جمائے بیٹھے رہو ، شاید اب بھی تمہارے عاقلانہ مشوروں اور مدبرانہ آراء سے استفادہ کرنے کے لیے دنیا حاضر ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: یہ بات اُن سے طنز کے طور پر کہی گئی۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے عیش و عشرت میں منہمک تھے تو تمہارے نوکر چاکر تم سے پوچھا کرتے تھے کہ ’’کیا حکم ہے؟‘‘ اب ذرا اپنے گھروں میں واپس جا کر دیکھو، شاید تمہارے نوکر چاکر تم سے تمہارا حکم پوچھیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اب نہ تمہیں اپنے گھروں کا کوئی نشان ملے گا، نہ عیش و عشرت کے سامان کا، اور نہ ان نوکروں کا جو تمہارے احکام کے منتظر رہا کرتے تھے۔