آسمان وزمین کوئی کھیل تماشہ نہیں آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے ۔ اس نے انہیں بیکار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا ۔ اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے ۔ دوسری آیت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اگر ہم کھیل تماشہ ہی چاہتے تو اسے بنالیتے ۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اگر ہم عورت کرنا چاہتے ۔ لہو کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں ۔ یعنی یہ دونوں معنے ہے اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے کسی کو بنا لیتے ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر ہم اولاد چاہتے ۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم ملزوم ہیں ۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ Ć ) 39- الزمر:4 ) ، یعنی اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو مخلوق میں کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے ۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر ۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں ۔ ان عیسائیوں یہودیوں اور کفار مکہ کی لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے ۔ آیت ( ان کنا فاعلین ) میں ان کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے ۔ بلکہ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لئے ہی ہے ۔ فرشتوں کا تذکرہ ہم حق کو واضح کرتے ہیں ، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے ، ٹوٹ کر چورا ہوجاتا ہے اور فورا ہٹ جاتا ہے ۔ وہ ہے بھی لائق ، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے ۔ اللہ کے لئے جو لوگ اولادیں ٹھیرا رہے ہیں ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لئے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے ۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو آسمان وزمین کی ہر چیز اسی کی ملکیت میں ہے ۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں ۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں نہ حضرت مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم ، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار ، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آرہاہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہوگا اور اپنا کیا بھرے گا ۔ یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں ، گھبراتے بھی نہیں ، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی ۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں اس کی عبادت میں اس کی تسبیح واطاعت میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں ۔ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں تھے کہ فرمایا لوگو جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو؟ سب نے جواب دیا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو کچھ بھی نہیں سن رہے ۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہے اس لئے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو ۔ عبداللہ حارث بن نوفل فرماتے ہیں میں حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا اللہ کا پیغام لے کر جانا عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا ؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہو کر آپ نے فرمایا یہ بچہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا بنوعبدالمطلب سے ہے آپ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا ۔ دیکھو چلتے پھرتے بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے ۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے ۔
16۔ 1 بلکہ اس کے کئی مقاصد اور حکمتیں ہیں، مثلاً بندے میرا ذکر و شکر کریں، نیکوں کو نیکیوں کی جزا اور بدوں کو بدیوں کی سزا دی جائے۔ وغیرہ۔
[١٤] دنیا دار اور اللہ کی یاد سے غافل انسان ہمیشہ یہی سمجھتے رہے ہیں کہ یہ دنیا بس ایک کھیل تماشا ہے۔ ہم یہاں عیش و عشرت کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے یہاں ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ جتنی عیش و عشرت اپنے لئے مہیا کرسکتا ہے اور جس طرح کرسکتا ہے، کرلے۔ گویا دنیا دار لوگوں کا منتہائے مقصود ہی یہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے بھی دنیا کو متعدد مقامات پر کھیل تماشا قرار دیا ہے مگر یہ بات صرف اس پہلو سے کہ یہ چند روزہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک کھیل تماشا کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ تھوڑی مدت بعد فنا ہوجانے والی ہے اور آخرت کی زندگی دائمی اور پائیدار ہے لہذا تمہیں اپنی تمام تر توجہ دنیا پر مرکوز کرنے کے بجائے آخرت پر مرکوز کرنا چاہئے۔ یہاں اس مقام پر صرف دنیا کی زندگی پر نہیں بلکہ کائنات کے پورے نظام کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ یہ کچھ کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ جس میں اس دنیا کی زندگی بھی شامل ہے جو زمین و آسمان ہی کے سہارے قائم ہے۔ اور انسان کی تمام ضروریات زمین، ہوا، سورج اور بادلوں وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ سمین میں اشرف المخلوقات یعنی انسان کو پیدا کیا تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ اسے کھیل تماشا سمجھتے ہوئے جیسے چاہے یہاں زندگی گزار کر یہیں سے رخصت ہوجائے اور اس سے کچھ مواخذہ نہ ہو۔ خالق کائنات بسی یہی تماشا دیکھتا رہے کہ اس دنیا میں لوگ کیسے ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اور وہ بس دیکھ کر اسے محض تفریح طبع کا ہی سامان سمجھتا رہے۔ جیسا کہ رومی اکھاڑے میں ہوتا تھا کہ انسانوں کا درندوں سے مقابلہ کرایا جاتا تھا اور درندے جس انداز سے انسانوں کو پھاڑ کھاتے تھے۔ بادشاہ اور اس کے درباری یہ منظر دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اور یہ ان کی تفریح طبع کا سامان تھا۔ ایسی بات ہرگز نہیں۔ اگر اللہ کو محض تفریح طبع ہی منظور ہوتی تو اس کے کئی اور بھی طریقے ہوسکتے تھے جن میں ظلم و جور کا نام و نشان تک نہ ہوتا نہ ہی انسان جیسی کوئی ذی شعور اور صاحب ارادہ و اختیار کوئی مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ ۔۔ : پچھلی آیات میں ظالم بستیوں کو برباد کرنے کا ذکر فرمایا تھا، اب اس کی حکمت بیان فرمائی کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اس زمین و آسمان کو کھیلتے ہوئے پیدا کردیا ہے کہ لوگ جیسے چاہیں ظلم و ستم کرتے پھریں اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ بلکہ ان کے پیدا کرنے میں ہماری بیشمار حکمتیں اور مصلحتیں ہیں اور کائنات میں ہر عمل کی جزا یا سزا کا عمل جاری ہے۔ لہٰذا اگر ان ظالموں کو ہلاک کیا گیا تو یہ عدل و انصاف اور جزا و سزا کے قانون کے عین مطابق تھا۔ تمہیں چاہیے کہ آنے والی دوسری زندگی میں جو ابدہی کے لیے تیاری کرو۔
خلاصہ تفسیر - اور (ہمارے یکتا ہونے پر ہماری مصنوعات دلالت کر رہی ہیں کیونکہ) ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اس کو اس طور پر نہیں بنایا کہ ہم فعل عبث کرنے والے ہوں (بلکہ ان میں بہت سی حکمتیں ہیں جن میں بڑی حکمت توحید حق پر دلات ہے اور) اگر ہم کو (آسمان اور زمین کے بنانے سے کوئی حکمت مقصود نہ ہوتی بلکہ ان کو محض) مشغلہ ہی بنانا منظور ہوتا ( جس میں کوئی معتدبہ فائدہ مقصود نہیں ہوتا محض دل بہلانا منظور ہوتا ہے) تو ہم خاص اپنے پاس کی چیز کو مشغلہ بناتے (مثلاً اپنی صفات کمال کے مشاہدہ کو) اگر ہم کو یہ کرنا ہوتا (کیونکہ مشغلہ کو مشاغل کی شان سے مناسبت چاہئے تو کہاں ذات خالق کائنات اور کہاں یہ مصنوعات حادثہ البتہ صفات کو بوجہ قدیم اور لازم ذات ہونے کے باہم مناسبت سے سو جب بدلائل عقلیہ و اجماع اہل ملل اس کا بھی مشغلہ قرار دیا جانا محال ہے تو مصنوعات حادثہ میں تو کسی کو اس کا وہم بھی نہ ہونا چاہئے پس ثابت ہوا کہ ہم نے عبث یعنی فضول پیدا نہیں کیا) بلکہ اثبات حق اور ابطال باطل کے لئے پیدا کیا ہے اور) ہم (اس) حق بات کو (جس کے ثبوت پر مصنوعات دلالت کرتی ہیں اس) باطل بات پر (اس طرح غالب کردیتے ہیں جیسے یوں سمجھو کہ ہم اس کو اس پر) پھینک مارتے ہیں سو وہ (حق) اس (باطل) کا بھیجا نکال دیتا ہے (یعنی اس کو مغلوب کردیتا ہے) سو وہ (باطل مغلوب ہو کر) دفعتہ جاتا رہتا ہے (یعنی دلائل توحید جو ان مصنوعات سے حاصل ہوتے ہیں شرک کی بالکلیہ نفی کردیتے ہیں جس کی جانب مخالف کا احتمال ہی نہیں رہتا) اور (تم جو باوجود ان دلائل قاہرہ کے شرک کرتے ہو تو) تمہارے لئے اس بات سے بڑی خرابی ہے۔ جو تم (خلاف حق کے) گھڑتے ہو اور (حق تعالیٰ کی وہ شان ہے کہ) جتنے کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسی کے (مملوک) ہیں اور (ان میں سے) جو اللہ کے نزدیک (بڑے مقبول و مقرب) ہیں ( ان کی بندگی کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ اس کی عبادت سے عار نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں (بلکہ) شب و روز (اللہ کی) تسبیح (و تقدیس) کرتے ہیں (کسی وقت) موقوف نہیں کرتے (جب ان کی یہ حالت ہے تو عام مخلوق تو کس شمار میں ہے پس لائق عبادت کے وہی ہے اور جب کوئی دوسرا ایسا نہیں تو پھر اس کا شریک سمجھنا کتنی بےعقلی ہے) کیا (باوجود ان دلائل توحید کے) ان لوگوں نے خدا کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ( بالخصوص) زمین کی چیزوں میں سے (جو کہ اور بھی ادنی تر اور نازل تر ہیں جیسے پتھر یا معدنیات کے بت) جو کسی کو زندہ کرتے ہیں (یعنی جو جان بھی نہ ڈال سکتا ہو ایسا عاجز کب معبود ہونے کے قابل ہوگا اور) زمین (میں یا) آسمان میں اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود (واجب الوجود) ہوتا تو دونوں (کبھی کے) درہم برہم ہوجاتے (کیونکہ عادة دونوں کے ارادوں اور افعال میں تزاحم ہوتا، ایک دوسرے سے ٹکراتے اور اس کے لئے فساد لازم ہے لیکن فساد واقع نہیں ہے اس لئے متعدد معبود بھی نہیں ہو سکتے) سو (ان تقریرات سے ثابت ہوا کہ) اللہ تعالیٰ جو کہ مالک ہے عرش کا ان امور سے پاک ہے جو کچھ یہ لوگ بیان کر رہے ہیں (کہ نعوذ باللہ اس کے اور شرکاء بھی ہیں حالانکہ اس کی ایسی عظمت ہے کہ) وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا اور اوروں سے باز پرس کی جاسکتی ہے (یعنی اللہ تعالیٰ باز پرس کرسکتا ہے پس کوئی عظمت میں اس کا شریک نہیں ہوا پھر معبودیت میں کوئی کیسے شریک ہوسکتا ہے، یہاں تک تو بطور ابطال اور نقص و استلزام محال کے کلام تھا آگے بطور سوال اور منع کے کلام ہے کہ) کیا خدا کو چھوڑ کر انہوں نے اور معبود بنا رکھے ہیں ( ان سے) کہئے کہ تم اپنی دلیل (اس دعویٰ پر) پیش کرو (یہاں تک تو سوال اور دلیل عقلی سے شرک کا ابطال تھا آگے دلیل نقلی سے استدلال ہے کہ) یہ میرے ساتھ والوں کی کتاب (یعنی قرآن) اور مجھ سے پہلے لوگوں کی کتابیں (یعنی توراة و انجیل و زبور) موجود ہیں ( جن کا صدق اور منزل من اللہ ہونا دلیل عقلی سے ثابت ہے اور اوروں میں گو تحریف ہوئی ہے مگر قرآن میں تحریف کا احتمال نہیں، پس جو مضمون ان کتب کا قرآن کے مطابق ہوگا وہ یقینا صحیح ہے اور ان سب دلائل مذکورہ کا مقتضا یہ تھا کہ یہ لوگ توحید کے قائل ہوجاتے لیکن پھر بھی قائل نہیں) بلکہ ان میں زیادہ وہی ہیں جو امر حق کا یقین نہیں کرتے سو (اس وجہ سے) وہ (اس کے قبول کرنے سے) اعراض کر رہے ہیں اور (یہ توحید کوئی جدید بات نہیں جس سے تو خوش ہو بلکہ شرع قدیم ہے چنانچہ) ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا پیغمبر نہیں بھیجا جس کے پاس ہم نے یہ وحی نہ بھیجی ہو کہ میرے سوا کوئی معبود (ہونے کے لائق) نہیں پس میری (ہی) عبادت کیا کرو اور یہ (مشرک) لوگ (جو بیں ان میں بعضے) یوں کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کو) اولاد بنا رکھی ہے (توبہ توبہ) وہ (اللہ تعالیٰ اس سے) پاک ہے (اور وہ فرشتے اس کی اولاد نہیں ہیں) بلکہ (اس کے) بندے ہیں (ہاں) معزز (بندے ہیں اسی سے بےعقلوں کو اشتباہ ہوگیا اور ان کی عبدیت اور محکومیت اور ادب کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ اس سے آگے بڑھ کر بات نہیں کرسکتے (بلکہ منتظر حکم رہتے ہیں) اور وہ اسی کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں (اس کے خلاف نہیں کرسکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ ان کے اگلے پچھلے احوال کو (خوب) جانتا ہے (پس جو حکم ہوگا اور جب حکم ہوگا موافق حکمت کے ہوگا اس لئے نہ عملی مخالفت کرتے ہیں نہ قولی مسابقت کرتے ہیں) اور (ان کے ادب کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ بجز اس (شخص) کے جس کے لئے (شفاعت کرنے کی) اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو اور کسی کی سفارش نہیں کرسکتے اور وہ سب اللہ تعالیٰ کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں اور (یہ تو بیان تھا ان کی مغلوبیت اور محکومیت کا آگے بیان ہے اللہ تعالیٰ کی غالبیت اور حاکمیت کا، گو حاصل دونوں کا متقارب ہے یعنی) ان میں سے جو شخص (بالفرض) یوں کہئے کہ (نعوذ باللہ) میں علاوہ خدا کے معبود ہوں سو ہم اس کو سزائے جہنم دیں گے (اور) ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں (یعنی خدا کا ان پر پورا بس ہے جیسے اور مخلوقات پر، پھر وہ خدا کی اولاد جس کے لئے خدا ہونا ضروری ہے کیسے ہو سکتے ہیں۔ )- معارف ومسائل - وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ ، یعنی ہم نے آسمان اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو لعب اور کھیل کے لئے نہیں بنایا۔ پچھلی آیتوں میں بعض بستیوں کو تباہ و ہلاک کرنے کا ذکر آیا تھا اس آیت میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جس طرح زمین و آسمان اور ان کی تمام مخلوقات کی تخلیق بڑی بڑی اہم حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے جن بستیوں کو تباہ کیا گیا ان کا تباہ کرنا بھی عین حکمت تھا، اس مضمون کو اس آیت میں تعبیر اس طرح کیا گیا کہ یہ توحید یا رسالت کے منکر کیا ہماری قدرت کاملہ اور علم و بصیرت کی ان نمایاں نشانیوں کو جو زمین و آسمان کی تخلیق میں اور تمام مخلوقات کی صنعت گری میں مشاہدہ کی جا رہی ہیں دیکھتے سمجھتے نہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے یہ سب چیزیں فضول ہی محض کھیل کے لئے پیدا کی ہیں۔- لٰعِبِيْنَ ، لعب سے مشتق ہے، لعب ایسے کام کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی صحیح مقصد متعلق نہ ہو (راغب) اور لہو اس کام کو کہتے ہیں جس سے کوئی صحیح یا غلط مقصد ہی نہ ہو خالی وقت گزاری کا مشغلہ بنایا جائے منکرین اسلام جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر اعتراض اور توحید کا انکار کرتے ہیں، قدرت حق کی ان عظیم الشان نشانیوں کے باوجود نہیں مانتے تو ان کا یہ عمل گویا اس کا دعویٰ ہے کہ یہ سب چیزیں فضول ہی کھیل کے لئے بنائی گئی ہیں، ان کے جواب میں یہ ارشاد ہوا کہ یہ کھیل اور فضول نہیں ذرا بھی غور و فکر سے کام لو تو کائنات کے ایک ایک ذرہ میں اور قدرت کی ایک ایک صنعت میں ہزاروں حکمتیں ہیں اور سب کی سب معرفت حق سبحانہ اور اس کی توحید کے خاموش سبق ہیں۔- ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہ لاشریک لہ گوید
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا لٰعِبِيْنَ ١٦- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - لعب - أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ،- ( ل ع ب ) اللعب - ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64]
(١٦) اور ہم نے زمین و آسمان اور تمام مخلوقات کو اس طرح نہیں بنایا کہ ہم فضول کام کرنے والے ہوں کہ اوامرو نواہی کی کوئی ضرورت نہ ہو۔
آیت ١٦ (وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ ) ” - یعنی ہم نے یہ دنیا کھیل تماشے اور شغل کے لیے نہیں بنائی ہے۔ ہماری ہر تخلیق بامقصد اور اٹل قوانین پر مبنی ہے۔ اسی طرح دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کے بارے میں بھیُ ” سنتّ اللہ “ اور قواعد و ضوابط بالکل غیرمبدلّ اور ناقابل تغیر ہیں۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :15 یہ تبصرہ ہے ان کے اس پورے نظریۂ حیات پر جس کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر توجہ نہ کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان دنیا میں بس یونہی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ۔ جو کچھ چاہے کرے اور جس طرح چاہے جیے ، کوئی باز پرس اس سے نہیں ہونی ہے ۔ کسی کو اسے حساب نہیں دینا ہے ۔ چند روز کی بھلی بری زندگی گزار کر سب کو بس یونہی فنا ہو جانا ہے ۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں بھلائی کی جزا اور برائی کی سزا ہو ۔ یہ خیال درحقیقت اس بات کا ہم معنی تھا کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض کسی کھلنڈڑے کا کھیل ہے جس کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے ۔ اور یہ خیال دعوت پیغمبر سے ان کی بے اعتنائی کا اصل سبب تھا ۔
6: جو لوگ دنیا کے بعد آخرت کی زندگی کا انکار کرتے ہیں، در حقیقت ان کے دعوے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات یونہی کسی مقصد کے بغیر ایک کھیل بنا کر پیدا کردی ہے، اور جو کچھ اس دنیا میں ہو رہا ہے، اس کو کائی نتیجہ بعد میں ظاہر ہونے والا نہیں ہے، نہ کسی شخص کو اس کی نیکی کا کوئی صلہ ملے گا، اور نہ کسی ظالم اور بدکار کو اس کے گناہ کی سزا ملے گی۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی بات کی نسبت بہت بڑی گستاخی ہے۔