Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 اس میں مشرکین کا کہنا ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ فرمایا وہ بیٹیاں نہیں، اس کے ذی عزت بندے اور اس کے فرما بردار ہیں۔ علاوہ ازیں بیٹے، بیٹیوں کی ضرورت، اس وقت پڑتی ہے۔ جب عالم پیری میں ضعف و بڑھاپا، ایسے عوارض ہیں جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ اس لئے اسے اولاد کی یا کسی سہارے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۙلَا يَسْبِقُوْنَهٗ بالْقَوْلِ یعنی ان کی بندگی اور فرماں برداری کا یہ حال ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر بات تک نہیں کرتے۔- وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ : ” بِاَمْرِهٖ “ کو پہلے لانے سے دو باتیں واضح ہوئیں، ایک یہ کہ وہ جو کرتے ہیں اس کے حکم سے کرتے ہیں، اس کے حکم کے بغیر نہیں کرتے۔ دوسری یہ کہ وہ ہر کام صرف اس کے حکم سے کرتے ہیں، کسی اور کے حکم سے نہیں۔ غور کرو، بندگی اور غلامی کی انتہا ہے کہ مولا کی مرضی کے بغیر نہ بولتے ہیں نہ کچھ کرتے ہیں، بھلا اولاد بھی اس طرح ہوتی ہے ؟ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ سے اولاد کی نفی فرمائی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ ، یعنی فرشتے حق تعالیٰ کی اولاد تو کیا ہوتے وہ تو ایسے خائف اور مؤ دب رہتے ہیں کہ نہ قول میں اللہ تعالیٰ سے سبقت کرتے ہیں نہ عمل میں اس کے خلاف کبھی کچھ کرتے ہیں۔ قول میں سبقت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک حق تعالیٰ ہی کی طرف سے کوئی ارشاد نہ ہو خود کوئی کلام کرنے میں مسابقت کی ہمت نہیں کرتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑوں کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ جب مجلس میں کوئی بات آئے تو جو اس مجلس کا بڑا ہے اس کے کلام کا انتظار کیا جائے پہلے ہی کسی اور کا بول پڑنا خلاف ادب ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ يَعْمَلُوْنَ۝ ٢٧- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ) ” - فرشتے اللہ تعالیٰ کے آگے بڑھ کر بات نہیں کرتے۔ وہ اللہ کے احکام کے منتظر رہتے ہیں اور اس کے ہر فرمان کی تعمیل کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani