Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شک کے مارے لوگ حرف کے معنی شک کے ایک طرف کے ہیں ۔ گویا وہ دین کے ایک کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں فائدہ ہوا تو پھولے نہیں سماتے ، نقصان دیکھا بھاگ کھڑے ہوئے ۔ صحیح بخاری شریف میں ( ابن عباس سے مروی ) ہے کہ اعراب ہجرت کرکے مدینے پہنچتے تھے اب اگر بال بچے ہوئے جانوروں میں برکت ہوئی تو کہتے یہ دین بڑا اچھا ہے اور اگر نہ ہوئے تو کہتے یہ دین تو نہایت برا ہے ۔ ابن حاتم میں آپ سے مروی ہے کہ اعراب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اسلام قبول کرتے واپس جاکر اگر اپنے ہاں بارش ، پانی پاتے ، جانوروں میں ، گھر بار میں برکت دیکھتے تو اطمینان سے کہتے بڑا اچھا دین ہے اور اگر اس کے خلاف دیکھتے توجھٹ سے بک دیتے کہ اس دین میں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ بروایت عوفی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ایسے لوگ بھی تھے جو مدینے پہنچتے ہی اگر ان کے ہاں لڑکا ہوتا یا ان کی اونٹنی بچہ دیتی تو انہیں راحت ہوئی تو خوش ہوجاتے اور ان کی تعریفیں کرنے لگتے اور اگر کوئی بلا ، مصیبت آگئی ، مدینے کی ہوا موافق نہ آئی ، گھر میں لڑکی پیدا ہوگئی ، صدقے کا مال میسر نہ ہوا توشیطانی وسوسے میں آجاتے اور صاف کہہ دیتے کہ اس دین میں تو مشکل ہی مشکل ہے ۔ عبدالرحمن کا بیان ہے کہ یہ حالت منافقوں کی ہے ۔ دنیا اگر مل گئی تو دین سے خوش ہیں جہاں نہ ملی یا امتحان آگیا فوراً پلہ جھاڑلیاکرتے ہیں ، مرتد کافر ہوجاتے ہیں ۔ یہ پورے بدنصیب ہیں دنیا آخرت دونوں برباد کرلیتے ہیں اس سے زیادہ اور بربادی کیا ہوتی ؟ جن ٹھاکروں ، بتوں اور بزرگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں ، جن سے فریاد کرتے ہیں ، جن کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جاتے ہیں ، جن سے روزیاں مانگتے ہیں وہ تو محض عاجز ہیں ، نفع نقصان ان کے ہاتھ ہی نہیں ۔ سب سے بڑی گمراہی یہی ہے ۔ دنیا میں بھی ان کی عبادت سے نقصان نفع سے پیشتر ہی ہوجاتا ہے ۔ اور آخرت میں ان سے جو نقصان پہنچے گا اس کا کہنا ہی کیا ہے؟ یہ بت تو ان کے نہایت برے والی اور نہایت برے ساتھی ثابت ہوں گے ۔ یا یہ مطلب کہ ایسا کرنے والے خود بہت ہی بد اور بڑے ہی برے ہیں لیکن پہلی تفسیر زیادہ اچھی ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 حرف کے معنی ہیں کنارہ۔ ان کناروں پر کھڑا ہونے والا، غیر مستقر ہوتا ہے یعنی اسے قرار و ثبات نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، اسے دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیاوی مفادات کی رہتی ہے، ملتے رہے تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر وہ پھر دین آبائی یعنی کفر اور شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتے اور ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ وصف نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے (فتح الباری، باب مذکور)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] یعنی کفر اور اسلام کی سرحد پر ہی کھڑا رہتا ہے۔ اسلام میں داخل ہوتا ہی نہیں اور اس انتظار میں وہاں کھڑا ہے کہ اگر اسلام لانے سے کوئی مادی فائدہ پہنچنے کی توقع ہے تو پھر تو اسے اسلام گوارا ہے لیکن اگر اسلام میں داخل نہ ہونے میں کوئی مشکل یا مادی نقصان نظر آرہا ہو تو اس۔۔ سے فوراً کفر کی طرف نکل بھاگے۔ جیسا کہ عموماً منافقوں کا حال ہوتا ہے۔ گویا ایسے لوگوں کا مطمع نظر صرف مادی فوائد ہوتے ہیں۔ وہ جس طرف نظر آئیں ادھر ہی لڑھک جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے خسارہ میں رہتے ہیں۔ دینی نقصان تو واضح ہے کہ ایسے لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں داخل کئے جائیں گے اور دنیوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ نہ کافر انھیں اپنا ہمدرد اور ساتھی سمجھتے ہیں اور نہ مسلمان، دونوں طرف سے ان کی ساکھ تباہ ہوجاتی ہے اور بمصداق دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا انھیں کبھی بھی پذیرائی اور عزت نصیب نہیں ہوتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧوَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۔۔ :” حَرْفٍ “ کا معنی کنارا ہے، یعنی وہ دین کے دائرے کے وسط میں داخل نہیں ہوتا، بلکہ کنارے ہی پر رہتا ہے، یا اس کے دل میں ایمان جاگزیں نہیں ہوتا، صرف زبان اسلام کا اقرار کرتی ہے، جیسے کوئی شخص کسی لشکر کے کنارے پر رہے، اگر فتح نظر آرہی ہو تو جا ملے، ورنہ فرار اختیار کرے۔ یہ آیت ان اعراب (بادیہ نشین) لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو صحرا سے ہجرت کرکے آتے۔ پھر اگر جان و مال میں برکت ہوتی تو اسلام پر بڑے اطمینان کا اظہار کرتے اور اگر تکلیف اور دکھ میں مبتلا ہوجاتے تو مرتد ہو کر واپس بھاگ جاتے۔ بعض ” مؤلفۃ القلوب “ کی بھی یہی حالت تھی۔ (کبیر) اور دیکھیے سورة بقرہ (١٧ تا ٢٠) ۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : ( کَان الرَّجُلُ یَقْدَمُ الْمَدِیْنَۃَ ، فَیُسْلِمُ ، فَإِنْ وَلَدَتِ امْرَأَتُہُ غُلَامًا وَنُتِجَتْ خَیْلَُہُ قَالَ ہٰذَا دِیْنٌ صَالِحٌ وَ إِنْ لَّمْ تَلِدِ امْرَأَتُہُ وَ لَمْ تُنْتَجْ خَیْلُہُ قَالَ ھٰذَا دِیْنُ سُوْءٍ ) [ بخاري، التفسیر، باب ( و من الناس من یعبد اللہ علی حرف ) : ٤٧٤٢ ] ” آدمی مدینے آتا، پھر اگر اس کی بیوی لڑکے کو جنم دیتی اور اس کی گھوڑیاں بچے دیتیں تو کہتا، یہ اچھا دین ہے اور اگر بیوی کے ہاں بچہ نہ ہوتا اور نہ گھوڑیاں بچے دیتیں تو کہتا یہ دین برا ہے۔ “ - انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ یعنی مرتد ہوگیا اور پھر کفر و شرک کی طرف پلٹ گیا۔ - ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں، یعنی دنیا کا فائدہ اور بھلائی دیکھے تو بندگی پر قائم رہے اور اگر آزمائش آجائے اور کوئی تکلیف پہنچے تو بندگی چھوڑ دے۔ ادھر (تکلیف اور مصیبت سے) دنیا گئی ادھر (بندگی چھوڑ کر مرتد ہونے سے) دین گیا۔ کنارے پر کھڑا ہے، یعنی دل ابھی نہ اس طرف ہے اور نہ اس طرف، جیسے کوئی مکان کے کنارے کھڑا ہے، جب چاہے نکل جائے۔ (موضح )

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور بعض آدمی اللہ کی عبادت (ایسے طور پر) کرتا ہے (جیسے کوئی کسی چیز کے) کنارہ پر ( کھڑا ہو اور موقع پا کر چل دینے پر تیار ہو) پھر اگر اس کو کوئی (دنیوی) نفع پہنچ گیا تو اس کی وجہ سے (ظاہری) قرار پا لیا اور اگر اس پر کچھ آزمائش ہوگئی تو منہ اٹھا کر (کفر کی طرف) چل دیا (جس سے) دنیا و آخرت دونوں کو کھو بیٹھا یہی ہے کھلا نقصان (دنیا کا نقصان تو دنیاوی آزمائش جو کسی مصیبت سے ہوتی وہ ظاہر ہی ہے اور آخرت کا نقصان یہ ہوا کہ اسلام اور) خدا کو چھوڑ کر اسی چیز کی عبادت کرنے لگا جو (اس قدر عاجز اور بےبس ہے کہ) نہ اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے نہ نفع پہنچا سکتی ہے (یعنی اس کی عبادت نہ کرو تو کوئی نقصان پہنچانے کی اور کرو تو نفع پہنچانے کی کوئی قدرت نہیں۔ ظاہر ہے کہ قادر مطلق کو چھوڑ کر ایسی بےبس چیز کو اختیار کرنا خسارہ ہی خسارہ ہے) یہ انتہا درجہ کی گمراہی ہے (صرف یہی نہیں کہ اس کی عبادت سے کوئی نفع نہ پہنچے بلکہ الٹا ضرر اور نقصان ہے کیونکہ) وہ ایسے کی عبادت کر رہا ہے کہ اس کا ضرر اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔ ایسا کار ساز بھی برا اور ایسا رفیق بھی برا (جو کسی طرح کسی حال کسی کے کام نہ آوے کہ اس کو مولیٰ اور آقا بنا لو یا دوست اور ساتھی بنا لو کسی حال اس سے کچھ نفع نہیں) ۔- معارف و مسائل - وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ، بخاری اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں مقیم ہوگئے تو بعض ایسے لوگ بھی آ کر مسلمان ہوجاتے تھے (جن کے دل میں ایمان کی پختگی نہیں تھی) اگر اسلام لانے کے بعد اس کی اولاد اور مال میں ترقی ہوگئی تو کہتا تھا کہ یہ دین اچھا ہے اور اگر اس کے خلاف ہوا تو کہتا تھا کہ یہ برا دین ہے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ ایمان کے ایک کنارہ پر کھڑے ہیں۔ اگر ان کو ایمان کے بعد دنیوی راحت اور مال و سامان مل گیا تو اسلام پر جم گئے اور اگر وہ بطور آزمائش کسی تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہوگئے تو دین سے پھرگئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۝ ٠ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۝ ٠ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ۝ ٠ۣۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۝ ١١- حرف - حَرْفُ الشیء : طرفه، وجمعه : أحرف وحروف، يقال : حرف السیف، وحرف السفینة، وحرف الجبل، وحروف الهجاء : أطراف الکلمة، والحروف العوامل في النحو : أطراف الکلمات الرابطة بعضها ببعض، وناقة حرف «3» ، تشبيها بحرف الجبل، أو تشبيها في الدّقة بحرف من حروف الکلمة، قال عزّ وجلّ : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلى حَرْفٍ [ الحج 11] ، قد فسّر ذلک بقوله بعده : فَإِنْ أَصابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلى وَجْهِهِ [ الحج 11] ، وفي معناه : مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِكَ [ النساء 143] . وانحرف عن کذا، وتحرّف، واحترف، والاحتراف : طلب حرفة للمکسب، والحرفة : حالته التي يلزمها في ذلك، نحو : القعدة والجلسة، والمحارف : المحروم الذي خلا به الخیر، وتَحریفُ الشیء : إمالته، کتحریف القلم، - ( ح رٖ ف) حرف الشئی کے معنی کسی چیز کے کنارہ کے ہیں حرف کی جمع احرف وحروف آتی ہے اور پہاڑ ، کشتی اور تلوار کے کنارہ کو حرف کہا جاتا ہے اور حروف الھجا کے معنی اطراف کلمہ کے ہیں اور اصطلاح نحاۃ میں الحروف العومل ان حروف کو کہا جاتا ہے ہے جو کلموں کے اطراف میں واقع ہوتے ہیں اور ان کو باہم مرتبط کرتے ہیں اور حرف الجبل یعنی پہاڑ کے کنارے اور با ی کی میں حرف کے ساتھ تشبیہ دے کر لاغر اونٹنی کو حرف کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلى حَرْفٍ [ الحج 11] اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں ۔ جو کنارے پرد گھڑا ہو کر ) خدا کی عبادت کرتے ہیں سب میں علیٰ حرف کے معنی خود قرآن نے ہی بعد میں فان اصابہ خیر الایۃ سے بیان کردئیے ہیں یعنی جب تک اطاعت و عبادت میں کچھ دنیاوی فائدہ نظر آتا ہے کرتا رہتا ہے اور جب کوئی تکلیف نظر آتی ہے تو چھوڑ بیٹھتا ہے ۔ اور یہی معنی آیت ؛مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِكَ [ النساء 143] کے ہیں ۔ کسی چیز سے کنارہ کرنا ایک جانب مائل ہونا ۔ الاحتراف کوئی پیشہ اختیار کرنا ۔ الحرفہ ( فعلۃ ) پیشے کی حالت جیسے قعدۃ وجسلۃ المحارف ۔ وہ شخص جو خیر سے محروم اور اس کے کنارہ پر ہو ( کم نصیب ) صوب - الصَّوَابُ يقال علی وجهين : أحدهما : باعتبار الشیء في نفسه، فيقال : هذا صَوَابٌ: إذا کان في نفسه محمودا ومرضيّا، بحسب مقتضی العقل والشّرع، نحو قولک : تَحَرِّي العدلِ صَوَابٌ ، والکَرَمُ صَوَابٌ. والثاني : يقال باعتبار القاصد إذا أدرک المقصود بحسب ما يقصده، فيقال : أَصَابَ كذا، أي : وجد ما طلب، کقولک : أَصَابَهُ السّهمُ ، - وذلک علی أضرب :- الأوّل :- أن يقصد ما يحسن قصده فيفعله، وذلک هو الصَّوَابُ التّامُّ المحمودُ به الإنسان .- والثاني :- أن يقصد ما يحسن فعله، فيتأتّى منه غيره لتقدیره بعد اجتهاده أنّه صَوَابٌ ، وذلک هو المراد بقوله عليه السلام : «كلّ مجتهد مُصِيبٌ» «4» ، وروي «المجتهد مُصِيبٌ وإن أخطأ - فهذا له أجر» «1» كما روي : «من اجتهد فَأَصَابَ فله أجران، ومن اجتهد فأخطأ فله أجر» «2» .- والثالث :- أن يقصد صَوَاباً ، فيتأتّى منه خطأ لعارض من خارج، نحو من يقصد رمي صيد، فَأَصَابَ إنسانا، فهذا معذور .- والرّابع :- أن يقصد ما يقبح فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يقصده، فيقال : أخطأ في قصده، وأَصَابَ الذي قصده، أي : وجده، والصَّوْبُ- ( ص و ب ) الصواب - ۔ ( صحیح بات ) کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کی ذات کے اعتبار سے یعنی خب کوئی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے قابل تعریف ہو اور عقل و شریعت کی رو سے پسندیدہ ہو مثلا تحری العدل صواب ( انصان کو مدنظر رکھنا صواب ہے ) الکرم صواب ( کرم و بخشش صواب ہے ) (2) قصد کرنے والے کے لحاظ سے یعنی جب کوئی شخص اپنے حسب منشا کسی چیز کو حاصل کرلے تو اس کے متعلق اصاب کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے مثلا اصابہ بالسھم ( اس نے اسے تیر مارا ) پھر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اس کی چند قسمیں ہیں - (1) اچھی چیز کا قصد کرے اور اسے کر گزرے یہ صواب تام کہلاتا ہے اور قابل ستائش ۔ - (2) مستحسن چیز کا قصد کرے - لیکن اس سے غیر مستحسن فعل شرزہ اجتہاد کے بعد اسے صواب سمجھ کر کیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کل مجتھد مصیب ( کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ) کا بھی یہی مطلعب ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ المجتھد مصیب وان اخطاء فھذا لہ اجر کہ مجتہد مصیب ہوتا ہے اگر خطا وار بھی ہو تو اسے ایک اجر حاصل ہوتا ہے جیسا کہ ا یک اور روایت میں ہے من اجتھد فاصاب فلہ اجران ومن اجتھد فاخطا فلہ اجر کہ جس نے اجتہاد کیا اور صحیح بات کو پالیا تو اس کے لئے دواجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ - (3) کوئی شخص صحیح بات یا کام کا قصد کرے مگر کسی سبب سے اس سے غلطی سرزد ہوجائے مثلا ایک شخص شکار پر تیز چلاتا ہے مگر اتفاق سے وہ کسی انسان کو الگ جاتا ہے اس صورت میں اسے معذور سمجھا جائے گا ۔ - ( 4 ) ایک شخص کوئی برا کام کرنے لگتا ہے مگر اس کے برعکس اس سے صحیح کام صحیح کام سرز د ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ گو اس کا ارادہ غلط تھا مگر اسنے جو کچھ کیا وہ درست ہے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- طمن - الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] - ( ط م ن ) الطمانینۃ - والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ - وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ - وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے - پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١) اور بعض آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طریقے سے کرتے ہیں جیسے کہ کسی چیز کے کنارے پر کھڑے ہوں اور شک میں ہوں اور کسی نعمت کے انتظار میں مبتلا ہوں، یہ آیت بنوحلاف اور منافقین بنی اسد وغطفان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- پھر اگر اس کو کوئی دنیاوی فائدہ پہنچ گیا تو ظاہری طور پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین سے رضا مندی کا اظہار کردیا اور اگر کسی قسم کی کوئی سختی آگئی تو اپنے سابقہ مشرکانہ دین کو اختیار کرلیا جس سے دنیا و آخرت دونوں کو کھو بیٹھا، دنیا کی ذات کو برباد کیا اور آخرت میں جنت ہاتھ سے چھوٹی، یہ دنیا وا آخرت کے برباد ہونے کا نقصان واضح نقصان کہلاتا ہے۔- شان نزول : ومن الناس من یعبد اللہ “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی مدینہ منورہ آکر اسلام قبول کرلیتا تھا پھر اگر اس کی بیوی کے لڑکا پیدا ہوجائے اور اس کی گھوڑ بچہ دے دے تب تو کہتا تھا تب تو کہتا تھا کہ یہ دین اچھا ہے اور اگر اس کی بیوی کے لڑکا نہ پیدا ہوا اور اس کی گھوڑی نے بچہ نہ دیا تو کہتا کہ یہ دین برا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ بعض آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے طور پر کرتا ہے جیسے کوئی چیز کے کنارا پر کھڑا ہو۔- اور ابن مردویہ (رح) نے عطیہ (رح) کے ذریعے سے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے ایک شخص مشرف بااسلام ہوا، اسلام لاتے ہی اس کی بینائی مال و اولاد سب چیزیں جاتی رہیں، اس نے اسلام سے برا شگون لیا اور کہنے لگا میرے اس دین سے مجھے نعوذ باللہ کوئی بھلائی نہیں حاصل ہوئی، میری نظر اور مال جاتا رہا، میرا لڑکا مرگیا، اور پر آیت مبارکہ نازل ہوئی ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ ج) ” - انسانی دل کے اس روگ کی نشان دہی سورة البقرۃ کی آیت ١٠ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے : (فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ) ” ان کے دلوں میں مرض ہے “۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حق کا ساتھ دینا تو چاہتے ہیں ‘ لیکن اس کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کو تیار نہیں۔ وہ گہرے پانی میں جانے کا خطرہ مول لینے کے بجائے کنارے پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مبادا کہ اس سفر میں کوئی گزند پہنچ جائے یا کوئی مالی نقصان اٹھانا پڑجائے۔ وہ لوگ بڑی چالاکی کے ساتھ اس قسم کے سب خطرات سے خود کو محفوظ فاصلے پر رکھ کر حق کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں ‘ لیکن اس راستے میں ایسا طرز عمل قابل قبول نہیں ہے۔ یہ تو سرا سر قربانی کا راستہ ہے۔ اس راستے میں اپنی جان اور اپنے مال کو بچا بچا کر رکھنے والے فرزانوں کی نہیں بلکہ قدم قدم پر قربانیاں دینے والے دیوانوں کی ضرورت ہے۔ اسی فلسفے کو اقبال ؔ نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے : ؂- تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ - کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں - ایسے لوگوں کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ وہ لوگ ہیں جو حق کو قبول کرتے ہی یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے منجدھار میں کود پڑتے ہیں : ع ” ہر چہ بادا باد ‘ ماکشتی در آب انداختیم “ کہ اب جو ہو سو ہو ‘ ہم تو حق کی اس کشتی میں سوار ہو کر اسے دریا میں ڈال چکے ہیں۔ اب یہ تیرے گی تو ہم بھی تیریں گے اور اگر اس راستے میں ہماری جان بھی چلی جائے تو ہم اس قربانی کے لیے بھی تیار ہیں۔- (وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ ج) ” - ایسے لوگ موافق حالات میں تو ہر کام میں اہل ایمان کے ساتھ شریک رہتے ہیں ‘ لیکن اگر کہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کا مرحلہ آجائے یا کسی اور قربانی کا تقاضا ہو تو چپکے سے واپسی کی راہ لے لیتے ہیں۔- (ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ) ” - یہ بہت ہی نمایاں اور واضح تباہی ہے۔- اس آیت میں منافقانہ کردار کا ذکر ہے۔ اسی طرح اس سورت میں جہاد کا ذکر بھی ملتا ہے۔ منافقت اور جہاد چونکہ مدنی سورتوں کے موضوعات ہیں اس لیے سورة الحج کو بعض مفسرین مدنی سورت مانتے ہیں ‘ لیکن میرے نزدیک یہ مکی ہے۔ تفسیر طبری میں منقول حبر الامت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول سے اس خیال کی تائیدہوتی ہے کہ اس سورت کی کچھ آیات (٣٨ تا ٤١) اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئیں۔ چناچہ ان آیات کو ” برزخی آیات “ کہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ سورة الحج کو اس بنا پر بھی مدنی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی بعض آیات کی سورة البقرۃ کی بعض آیات کے ساتھ گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ مثلاً سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ اور سورة الحج کی آخری آیت میں ” شہادت علی الناس “ کا مضمون بالکل ایک جیسے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اسی طرح زیر نظر آیت میں منافقین کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے وہ اس کیفیت سے بہت مشابہت رکھتی ہے جس کا نقشہ سورة البقرۃ کے دوسرے رکوع میں کھینچا گیا ہے کہ جب بجلی چمکتی ہے تو یہ لوگ کچھ چل پھر لیتے ہیں لیکن جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ بہر حال مدینہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے منافقین کا بالکل وہی حال تھا جس کی تصویر سورة البقرۃ کی مذکورہ تمثیل اور زیر مطالعہ آیت میں دکھائی گئی ہے۔ جب کسی جنگ یا کسی مہم کا تقاضا نہ ہوتا تو یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے اور بڑے بڑے دعوے کرتے ‘ مگر جونہی کسی قربانی کا مرحلہ آتا تو گویا اوندھے منہ گرپڑتے تھے۔ دعا کریں کہ اللہ ہمیں اس بیماری سے بچائے اور اقامت دین کی جدوجہد میں پورے خلوص کے ساتھ ہمہ تن اور ہمہ وجوہ اپنے آپ کو جھونک دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :15 یعنی دائرہ دین کے وسط میں نہیں بلکہ کنارے پر ، یا بالفاظ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے ۔ جیسے ایک مذبذب آدمی کسی فوج کے کنارے پر کھڑا ہو ، اگر فتح ہوتی دیکھے تو ساتھ آ ملے اور شکست ہوتی دیکھے تو چپکے سے سٹک جائے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :16 اس سے مراد ہیں وہ خام سیرت ، مضطرب العقیدہ اور بندۂ نفس لوگ جو اسلام قبول تو کرتے ہیں مگر فائدے کی شرط کے ساتھ ۔ ان کا ایمان اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں ، ہر طرح چین ہی چین نصیب ہو ، نہ خدا کا دین ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے ، اور نہ دنیا میں ان کی کوئی خواہش اور آرزو پوری ہونے سے رہ جائے ۔ یہ ہو تو خدا سے وہ راضی ہیں اور اس کا دین ان کے نزدیک بہت اچھا ہے ۔ لیکن جہاں کوئی آفت آئی ، یا خدا کی راہ میں کسی مصیبت اور مشقت اور نقصان سے سابقہ پیش آ گیا ، یا کوئی تمنا پوری ہونے سے رہ گئی ، پھر ان کو خدا کی خدائی اور رسول کی رسالت اور دین کی حقانیت ، کسی چیز پر بھی اطمینان نہیں رہتا ۔ پھر وہ ہر اس آستانے پر جھکنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جہاں سے ان کو فائدے کی امید اور نقصان سے بچ جانے کی توقع ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :17 یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جو چند لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے ۔ مذبذب مسلمان کا حال درحقیقت سب سے بدتر ہوتا ہے ۔ کافر اپنے رب سے بے نیاز ، آخرت سے بے پروا ، اور قوانین الہٰی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب یکسوئی کے ساتھ مادی فائدوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو چاہے وہ اپنی آخرت کھو دے ، مگر دنیا تو کچھ نہ کچھ بنا ہی لیتا ہے ۔ اور مومن جب پورے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ خدا کے دین کی پیروی کرتا ہے تو اگرچہ دنیا کی کامیابی بھی آخر کار اس کے قدم چوم کر رہتی ہے ، تاہم اگر دنیا بالکل ہی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے ، آخرت میں بہرحال اس کی فلاح و کامرانی یقینی ہے ۔ لیکن یہ مذبذب مسلمان نہ اپنی دنیا ہی بنا سکتا ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے لیے فلاح کا کوئی امکان ہے ۔ دنیا کی طرف لپکتا ہے تو کچھ نہ کچھ خدا اور آخرت کے ہونے کا گمان جو اس کے دل و دماغ کے کسی کونے میں رہ گیا ہے ، اور کچھ نہ کچھ اخلاقی حدود کا لحاظ جو اسلام سے تعلق نے پیدا کر دیا ہے ، اس کا دامن کھینچتا رہتا ہے ، اور خالص دنیا طلبی کے لیے جس یکسوئی و استقامت کی ضرورت ہے وہ کافر کی طرح اسے بہم نہیں پہنچتی ۔ آخرت کا خیال کرتا ہے تو دنیا کے فائدوں کا لالچ اور نقصانات کا خوف ، اور خواہشات پر پابندیاں قبول کرنے سے طبیعت کا انکار اس طرف جانے نہیں دیتا بلکہ دنیا پرستی اس کے عقیدے اور عمل کو اتنا کچھ بگاڑ دیتی ہے کہ آخرت میں اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں رہتا ۔ اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخرت بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ کچھ لوگ اس لالچ میں اسلام لائے کہ اسلام کی وجہ سے انہیں دنیا میں کچھ فوائد حاصل ہوں گے ؛ لیکن جب ان کی توقع پوری نہیں ہوئی ؛ بلکہ کوئی آزمائش آگئی تو دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے، یہ آیت ان کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ یہ لوگ حق کو حق ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرتے ؛ بلکہ دنیا کے مفادات کی خاطر قبول کرتے ہیں، اور ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی جنگ میں اس نیت سے ایک کنارے کھڑا ہوگیا ہو کہ دونوں لشکروں میں سے جس کا پلہ بھاری نظر آئے گا اسکے ساتھ ہوجاؤں گا ؛ تاکہ کچھ مفادات حاصل کرسکوں، سبق یہ دیا گیا ہے کہ اسلام پر عمل اس لالچ میں نہ کرو کہ اس دنیا ہی میں تمہیں کوئی فائدہ مل جائے گا ؛ بلکہ اس لئے کرو کہ وہ برحق ہے، اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا تقاضا یہی ہے، جہاں تک دنیا کے مفادات کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ مشیت ہے کہ کس کو کیا دیا جائے ؛ چنانچہ اسلام لانے کے بعددنیوی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور کوئی آز مائش بھی آسکتی ہے جس میں صبر وتحمل سے کام لینا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ مصیبت دور فرما کر آزمائش سے نکال دے۔