مخالفین نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہلاک ہوں یعنی جو یہ جان رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ دنیا میں کرے گا نہ آخرت میں وہ یقین مانے کہ اس کا یہ خیال محض خیال ہے ۔ آپ کی مدد ہو کر ہی رہے گی چاہے ایسا شخص اپنے غصے میں ہار ہی جائے بلکہ اسے چاہے کہ اپنے مکان کی چھت میں رسی باندھ کر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنے آپ کو ہلاک کردے ۔ ناممکن ہے کہ وہ چیز یعنی اللہ کی مدد اس کے نبی کے لئے نہ آئے گویہ جل جل کر مرجائیں مگر ان کی خیال آرائیاں غلط ثابت ہو کر رہیں گی ۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی سمجھ کے خلاف ہو کر ہی رہے گا ۔ اللہ کی امداد آسمان سے نازل ہوگی ۔ ہاں اگر اس کے بس میں ہو تو ایک رسی لٹکا کر آسمان پر چڑھ جائے اور اس اترتی ہوئی مدد آسمانی کو کاٹ دے ۔ لیکن پہلا معنی زیادہ ظاہر ہے اور اس میں ان کی پوری بےبسی اور نامرادی کا ثبوت ہے کہ اللہ اپنے دین کو اپنی کتاب کو اپنے نبی کو ترقی دے گا ہی چونکہ یہ لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے اس لئے انہیں چاہئے کہ یہ مرجائیں ، اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51ۙ ) 40-غافر:51 ) ہم اپنے رسولوں کی اور ایماندروں کی مدد کرتے ہی ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یہاں فرمایا کہ یہ پھانسی پر لٹک کر دیکھ لے کہ شان محمدی کو کس طرح کم کرسکتا ہے؟ اپنے سینے کی آگ کو کسی طرح بجھا سکتا ہے اس قرآن کو ہم نے اتارا ہے جس کی آیتیں الفاظ اور معنی کے لحاظ سے بہت ہی واضع ہیں ۔ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر یہ حجت ہے ۔ ہدایت گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی حکمت وہی جانتا ہے کوئی اس سے باز پرس نہیں کرسکتا وہ سب کا حاکم ہے ، وہ رحمتوں والا ، عدل والا ، غلبے والا ، حکمت والا ، عظمت والا ، اور علم والا ہے ۔ کوئی اس پر مختار نہیں جو چاہے کرے سب سے حساب لینے والا وہی ہے اور وہ بھی بہت جلد ۔
15۔ 1 اس کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ ایسا شخص، جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہ کرے، کیونکہ اس کے غلبہ و فتح سے اسے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ اپنے گھر کی چھت پر رسی لٹکا کر اور اپنے گلے میں اس کا پھندا لے کر اپنا گلا گھونٹ لے، شاید یہ خود کشی اسے غیظ و غضب سے بچا لے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھ کر اپنے دل میں پاتا ہے۔ اس صورت میں سماء سے مراد گھر کی چھت ہوگی۔ دوسرے معنی ہیں کہ ایک رسہ لے کر آسمان پر چڑھ جائے اور آسمان سے جو وحی یا مدد آتی ہے، اس کا سلسلہ ختم کرا دے (اگر وہ کرسکتا ہے) اور دیکھے کہ کیا اس کے بعد اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا ہے ؟ امام ابن کثیر نے پہلے مفہوم کو اور امام شوکانی نے دوسرے مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے اور سیاق سے یہی دوسرا مفہوم زیادہ قریب لگتا ہے۔
[١٤] اس آیت میں ایسا خیال کرنے والے سے مراد وہی منافق ہے جو کفر اور اسلام کی سرحد پر کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتا ہے مگر اللہ کی رضا پر راضی اور شاکر نہیں رہتا۔ اور جب اسے کفر و شرک کی صف میں شامل ہونے میں کوئی مفاد نظر آتا ہے تو فوراً ادھر لڑھک آتا ہے اور انھیں حقیر دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کو چھوڑ کر دوسرے آستانوں پر جانا اور در در کی خاک چھانتا ہے۔ مگر پھر بھی اسے وہ مفادات حاصل نہیں ہوتے تو الٹا اللہ اور اس کی تقدید کو کو سنے لگتا ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی تقدیر کو بدلنے کی خاطر اپنی مقدور بھر کوشش کرکے دیکھے اور جو کچھ وہ کرسکتا ہے کر دیکھے اور بتلائے کہ کیا ایسے کرنے سے وہ اللہ کی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب ہوسکا ہے ؟ اس آیت میں جو آسمان کی طرف رسی تانے اور پھر اسے قطع کرنے کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ بطور محاورہ ہیں ان سے لفظی معنی مراد نہیں ہیں۔ اور ایسے الفاظ تقریباً ہر زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً اردو میں اس محاورہ کے قریب المعنی الفاظ یہ ہیں بیشک وہ الٹا سیدھا ہو کر دیکھ لے اور پنجابی میں ایسا محاورہ بالکل صحیح مفہوم ادا کرتا ہے اور وہ محاورہ ہے تتے توے تے گھیسنی پیا کرے یعنی خواہ وہ گرم گرم توے پر اپنی مقعد رگڑے۔ ان سب محاوروں کا مفہوم ایک ہی جیسا ہے کہ وہ اپنی مقدور بھر کوشش کرکے دیکھ لے۔- اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے لَنْ یَنْصُرَہُ اللّٰہُ سے ہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مراد ہے اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے دنیوی اور اخروی فتح و نصرت کے جو وعدے کرچکا ہے وہ ضرور پورے ہو کر رہیں گے خواہ کفار و مشرکین کو یہ بات کتنی ہی ناگوار اور غصہ دلانے والی ہو۔ اور وہ اس نصرت ربانی کو روکنے کے لئے اپنی انتہائی کوششیں۔۔ کرکے دیکھ لیں حتیٰ کہ آسمان پر ایک رسی تان کر اوپر چڑھیں اور وہاں سے وحی الٰہی اور آسمانی امداد کو منقطع کر آئیں۔ پھر دیکھیں کہ ان کی ان تدبیروں سے وہ وحی الٰہی اور نصرت ربانی آنا بند ہوجاتی ہے جس پر وہ اس قدر پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔- یہ تفسیر کسی حد تک دل لگتی ہے مگر اس مقام پر سیاق وسباق اس تفسیر کا ساتھ نہیں دیتے۔ اس سے پہلے بھی منافقوں اور مشرکوں کا ذکر چل رہا ہے اور بعد میں بھی کافروں اور مشرکوں ہی کا ذکر ہے۔ اور درمیان میں جو مومنوں کی بشارت سے متعلق کوئی آیت آجاتی ہے تو وہ اللہ کی اس سنت کے مطابق ہے کہ جہاں کافروں اور مشرکوں کو ڈرایا جا رہا ہو وہاں مومنوں کی بشارت بھی ذکر آجائے اور اس کے برعکس بھی۔
مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا ۔۔ : ” سَبَبٌ“ رسی۔ ” اَلسَّمَاء “ ” سَمَا یَسْمُوْ “ (ن) سے ہے جس کا معنی ہے بلند ہونا۔ آسمان کو اس کی بلندی کی وجہ سے ” سماء “ کہتے ہیں، اس لیے بادل کو بھی ” سماء “ کہہ لیتے ہیں اور چھت کو بھی۔- مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَاکی ایک تفسیر وہ ہے جو طبری نے ابن عباس (رض) سے نقل کی ہے کہ جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہیں کرے گا، وہ چھت سے ایک رسی باندھے، پھر اس کے ساتھ پھانسی لے کر اپنا گلا گھونٹ لے اور مرجائے اور دیکھے، کیا اس کے ایسا کرنے سے اس کے غصے اور حسد کی آگ بجھتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت پر اس کے سینے میں بھڑک رہی ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی مدد نہیں کرے گا وہ بیشک پھانسی لے کر مرجائے، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اپنے رسول کی نصرت یقیناً فرمائے گا۔ چونکہ ہر چیز کا اللہ کے ہاں ایک وقت مقرر ہے، اس لیے نصرت میں دیر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مدد کبھی کرے گا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو یقیناً اپنے تمام رسولوں اور اہل ایمان کی دنیا اور آخرت میں مدد فرماتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) [ المؤمن : ٥١ ] ” بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ “ اس تفسیر پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت سے پہلے یا بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر نہیں آیا تو ” اس کی مدد نہیں کرے گا “ میں ” اس “ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے مراد ہوسکتے ہیں ؟ جواب اس کا یہ دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ضمیر لوٹانے کے لیے پہلے آپ کا ذکر ہونا ضروری نہیں، کیونکہ آپ کا ذکر ہر مومن کے ذہن میں موجود ہے۔ اس لیے الفاظ میں پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر نہ بھی ہو تو حرج نہیں۔ - دوسری تفسیر وہ ہے جو طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کی ہے کہ جو شخص (اپنے متعلق) یہ گمان کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں (اس کی کبھی مدد نہیں کرے گا) اسے کبھی رزق نہیں دے گا، وہ اوپر کی طرف رسی لٹکا کر اپنا گلا گھونٹ لے، پھر دیکھے۔۔ یعنی جو شخص اللہ کی نصرت پر یقین کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ایسے ناامید شخص کو چاہیے کہ وہ پھانسی لے کر مرجائے، پھر دیکھے کہ کیا اس سے اس کی امید برآتی ہے ؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ اگر تم فلاں بات پر یقین نہیں کرتے تو جاؤ دیوار سے ٹکر مار کر مرجاؤ۔- شاہ عبد القادر (رض) نے اس آیت کی ایک بہت عمدہ تفسیر فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں : ” دنیا کی تکلیف میں جو اللہ تعالیٰ سے ناامید ہو کر اس کی بندگی چھوڑ دے اور جھوٹی چیزوں کی پوجا کرے، جن کے ہاتھ نہ برا ہے نہ بھلا، وہ اپنے دل کو سمجھانے اور تسلی دینے کے لیے یہ صورت قیاس کرلے کہ جیسے ایک شخص اونچی لٹکتی رسی سے لٹک رہا ہے، اگر چڑھ نہیں سکتا تو توقع تو ہے کہ رسی اوپر کھینچے تو چڑھ جاوے۔ جب رسی توڑ دی پھر کیا توقع ؟ رسی کہا اللہ کی امید کو اور اس رسی کو آسمان کی طرف تانے یعنی اونچان کی طرف۔ “ (موضح) اس تفسیر اور اس سے پہلی تفسیر دونوں میں اس آیت کا تعلق گزشتہ آیت : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ) سے بھی واضح ہو رہا ہے۔
معارف و مسائل - مَنْ كَانَ يَظُنُّ ، حاصل یہ ہے کہ اسلام کا راستہ روکنے والے معاند جو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے دین کی مدد نہ کرے ان کو سمجھنا چاہئے کہ یہ تو جبھی ہوسکتا ہے جبکہ معاذ اللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منصب نبوت سلب ہوجائے اور آپ پر وحی آنا منقطع ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو نبوت و رسالت سپرد فرماتا ہے اور اس کو وحی الٰہی سے نوازتا ہے اس کی مدد تو دنیا و آخرت میں کرنے کا اس کی طرف سے پختہ عہد ہے اور عقلاً بھی اس کے خلاف نہ ہونا چاہئے تو جو شخص آپ کی اور آپ کے دین کی ترقی کو روکنا چاہتا ہے اس کو اگر اس کے قبضہ میں ہو تو ایسی تدبیر کرنا چاہئے کہ یہ منصب نبوت سلب ہوجائے اور وحی الٰہی منقطع ہوجائے۔ اس مضمون کو ایک فرض محال کے عنوان سے اس طرح تعبیر کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وحی کو منقطع کرنے کا کام کرنا چاہتا ہے تو کسی طرح آسمان پر پہنچے وہاں جا کر اس سلسلہ وحی کو ختم کر دے۔ اور ظاہر ہے کہ نہ کسی کا اس طرح آسمان پر جانا ممکن نہ اللہ تعالیٰ سے قطع وحی کو کہنا ممکن تو پھر جب تدبیر کوئی کارگر نہیں تو اسلام و ایمان کے خلاف غیظ و غضب کا کیا نتیجہ ؟ یہ تفسیر بعینہ در منثور میں ابن زید سے روایت کی ہے اور میرے نزدیک یہ سب سے بہتر اور صاف تفسیر ہے (بیان القران مع تسھیل)- قرطبی نے اسی تفسیر کو ابن جعفر نحاس سے نقل کر کے فرمایا کہ یہ سب سے احسن تفسیر ہے اور حضرت ابن عباس سے بھی اس تفسیر کو نقل کیا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ سماء سے مراد اپنے مکان کی چھت ہے اور مراد آیت کی یہ ہے کہ اگر کسی معاند جاہل کی خواہش یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے دین کی مدد نہ کرے اور وہ اسلام کے خلاف غیظ و غضب لئے ہوئے ہے تو سمجھ لے کہ اس کی یہ مراد تو کبھی پوری نہ ہوگی اس احمقانہ غیظ و غضب کا تو علاج یہی ہے کہ چھت میں رسی ڈال کر پھانسی لے لے اور مر جائے۔ ( مظہری وغیرہ)
مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَہُ اللہُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَاۗءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ ہَلْ يُذْہِبَنَّ كَيْدُہٗ مَا يَغِيْظُ ١٥- كان - كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً- [ الأحزاب 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا - [ مریم 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله :- كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- ( ک و ن ) کان ۔- فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے - ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ- [ النمل 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ- [ البقرة 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] والمُدُّ من المکاييل معروف .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔- سبب - السَّبَبُ : الحبل الذي يصعد به النّخل، وجمعه أَسْبَابٌ ، قال : فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] ، والإشارة بالمعنی إلى نحو قوله : أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور 38] ، وسمّي كلّ ما يتوصّل به إلى شيء سَبَباً ، قال تعالی: وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف 84- 85] ، ومعناه : أنّ اللہ تعالیٰ آتاه من کلّ شيء معرفة، وذریعة يتوصّل بها، فأتبع واحدا من تلک الأسباب، وعلی ذلک قوله تعالی: لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر 36- 37] ، أي : لعلّي أعرف الذرائع والأسباب الحادثة في السماء، فأتوصّل بها إلى معرفة ما يدعيه موسی، وسمّي العمامة والخمار والثوب الطویل سَبَباً «1» ، تشبيها بالحبل في الطّول . وکذا منهج الطریق وصف بالسّبب، کتشبيهه بالخیط مرّة، وبالثوب الممدود مرّة . والسَّبُّ : الشّتم الوجیع، قال : وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وسَبَّهُمْ لله ليس علی أنهم يَسُبُّونَهُ صریحا، ولکن يخوضون في ذكره فيذکرونه بما لا يليق به، ويتمادون في ذلک بالمجادلة، فيزدادون في ذكره بما تنزّه تعالیٰ عنه . وقول الشاعر :- فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسب - بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصب - «2» فإنه نبّه علی ما قال الآخر :- ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّم - «1» والسِّبُّ : الْمُسَابِبُ ، قال الشاعر :- لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»- والسُّبَّةُ : ما يسبّ ، وكنّي بها عن الدّبر، وتسمیته بذلک کتسمیته بالسّوأة . والسَّبَّابَةُ سمّيت للإشارة بها عند السّبّ ، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالمسبّحة، لتحريكها بالتسبیح .- ( س ب ب ) السبب - اصل میں اس رسی کو کہتے ہیں جس سے درخت خرما وغیرہ پر چڑھا ( اور اس سے اترا ) جاتا ہے اس کی جمع اسباب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] تو ان کو چاہیئے کہ سیڑ ھیاں لگا کر ( آسمان پر ) چڑ ہیں اور یہ معنوی لحاظ سے آیت : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر ( آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر اسی مناسبت سے ہر اس شے کو سبب کہا جاتا ہے ۔ جو دوسری شے تک رسائی کا ذریعہ بنتی ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف 84- 85] اور اسے ہر قسم کے ذرائع بخشے سو وہ ایک راہ پر چلا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر چیز کی معرفت اور سامان و ذرائع عطا کئے تھے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتا تھا ۔ چناچہ اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا اور آیت کریمہ : ۔ لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر 36- 37] تاکہ جو آسمان تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ہم ان تک جا پہنچیں ۔ میں بھی اسباب سے مراد ذرائع ہی ہیں یعنی تاکہ ہم ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگائیں جو آسمان میں پائے جاتے ہیں اور ان سے موسٰی کے مزعومہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمامہ دوپٹہ اور ہر لمبے کپڑے کو طول میں رسی کے ساتھ تشبیہ دے کر بھی سبب کہا جاتا ہے اسی جہت سے شاہراہ کو بھی سبب کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ شاہراہ کو بھی خیط ( تاگا ) اور کبھی محدود کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے : ۔ السبب ( مصدر ن ) کے معنی مغلظات اور فحش گالی دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] تو جو لوگ خدا کے سوا ( دوسرے ) معبودوں کو حاجت روائی کے لئے بلایا ( یعنی ان کی پرشش کیا کرتے ہیں ) ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی ازراہ نادانی ناحق خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے ۔ ان کے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں گے ۔ کیونکہ اس طرح مشرک بھی نہیں کرتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جوش میں آکر شان الہی میں گستاخی کریں گے اور ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو اس کی ذات کے شایاں شان نہیں جیسا کہ عام طور پر مجادلہ کے وقت ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ 220 ۔ فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسبّ 221 ۔ بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصببنی مالک کا صرف اتنا گناہ ہے کہ ان میں سے ایک لڑکے کو بخل پر عار دلائی گئی اور اس نے عار کے جواب میں سفید دھاری دار قاطع تلوار سے اپنی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کر ڈالا جو ہڈیوں کو کاٹ ڈالتی ہو اور قصب یعنی بانس کو تراش دیتی ہو ۔ ان اشعار میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کو دوسرے شاعر نے یوں ادا کیا ہے کہ ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّمکہ ہم زبان کی بجائے افعال سے گالی دیتے ہیں ۔ اور سب ( فعل ) بمعنی دشنام دہندہ کیلئے آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»مجھے گالی نہ دو تم مجھے گالی دینے کے لائق نہیں ہو کیونکہ نہایت شریف درجہ کا آدمی ہی مجھے گالی دے سکتا ہے ۔ السبۃ ہر وہ چیز جو عار و ننگ کی موجب ہو اور کنایہ کے طور پر دبر کو بھی سبۃ کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اسے سوءۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ السبابۃ انگشت شہادت یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کیونکہ گالی دیتے وقت اس کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اس انگلی کو مسبحۃ ( انگشت شہادت ) کہا جاتا ہے کیونکہ تسبیح کے وقت اشارہ کے لئے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے ۔- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - ذهاب - والذَّهَابُ :- المضيّ ، يقال : ذَهَبَ بالشیء وأَذْهَبَهُ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ، ، لَيَقُولَنَّ : ذَهَبَ السَّيِّئاتُ عَنِّي [هود 10]- ( ذ ھ ب ) الذھب - الذھاب ( والذھوب ) کے معنی چلا جانے کے ہیں ۔ ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ لَيَقُولَنَّ : ذَهَبَ السَّيِّئاتُ عَنِّي [هود 10] تو ( خوش ہوکر ) کہتا ہے کہ ( آہا ) سب سختیاں مجھ سے دور ہوگئیں ۔- كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - غيظ - الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] .- قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ- [ الشعراء 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] .- ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] تو اس کے - جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔
(١٥) اور ان ہی لوگوں کے بارے میں اگلی آیت نازل ہوئی ہے کیوں کہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ نعوذ باللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دنیا میں مدد نہیں کی جائے گی تو آپ کی پیروی کرنے سے ہمارے اور یہود کے درمیان جو تعلقات ہیں وہ ختم ہوجائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس بات کا خیال رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غلبہ ونصرت و شوکت کے ساتھ دنیا وآخرت میں مدد نہیں فرمائے گا تو وہ ایک رسی اپنے مکان کی چھت میں باندھ کر اس سے اپنا گلا گھونٹ لے اور پھر اپنے متعلق غور کرے کہ اس کے اس فعل نے جو اس کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غصہ تھا اس کا تدارک کیا یا نہیں۔- اور اس آیت کی ایک اور طریقہ پر تفسیر کی گئی کہ جو شخص اس بات کا خیال رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا میں رزق عطا کرکے اور آخرت میں ثواب دے کر مدد نہیں فرمائے گا تو وہ اپنے مکان کی چھت میں ایک رسی باندھ کر اپنا گلا گھونٹ لے اور اس رسی کو کاٹ ڈالے، اس کے بعد دیکھے کہ اس کا گلا گھٹنے لگے اس کو جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں غیظ وغضب تھا وہ ختم کیا یا اب بھی باقی ہے۔
(فَلْیَنْظُرْ ہَلْ یُذْہِبَنَّ کَیْدُہٗ مَا یَغِیْظُ ) ” - یہ آیت مشکلات القرآن میں سے ہے اور مختلف مفسرین نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعبیر کی ہے۔ میرے نزدیک ” موضح القرآن “ میں شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) کی تعبیر سب سے بہتر ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو پورے اخلاص کے ساتھ ہمہ وقت دین کی خدمت میں مصروف ہے اور اس رستے میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اللہ سے مسلسل امید رکھتا ہے کہ آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔ لیکن خدانخواستہ کسی مرحلے پر اگر وہ اللہ کی مدد سے مایوس ہوجائے تو اس کی یہ کیفیت اس کے لیے ناکامی کا باعث بن جائے گی۔ چناچہ اللہ کے راستے میں جدوجہد کرنے والوں کو ع ” پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ “ کے مصداق کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور اللہ کی مدد سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سورة الزمر کی آیت ٥٣ میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : (لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط) کہ تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ اگر کسی خوش قسمت انسان کو اللہ کے رستے میں جدوجہد کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے تو اسے اللہ کے اس حکم کی تعمیل بھی کرنی چاہیے۔ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے فیصلے اس کی اپنی مشیت کے مطابق ہوتے ہیں اور اس کی مشیت میں بندوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ بندوں کو تو بس یہ چاہیے کہ وہ اپنے اپنے حصے کی کوشش کریں اور اس کے وعدوں پر پختہ یقین رکھیں۔ جیسے اس کے بہت سے وعدوں میں سے ایک خوش کن وعدہ یہ بھی ہے : (وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ط) (العنکبوت : ٦٩) ” اور جو لوگ ہماری راہ میں جدو جہد کریں گے ‘ ہم لازماً انہیں اپنے راستے دکھائیں گے “۔ چناچہ داعیانِ حق کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اس کے حضور یوں التجا کرتے رہنا چاہیے : (اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ) (آل عمران ) ” یقیناً تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا “۔ ہمیں یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تو اپنا وعدہ پورا نہیں کرے گا ‘ بلکہ ہمیں یہ فکر دامن گیر ہے کہ ہم تیرے وعدوں کا مصداق بننے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ اس کے لیے جو شرائط مطلوب ہیں وہ شرائط ہم پوری کر بھی سکیں گے یا نہیں - آیت زیر نظر میں یہ نکتہ سمجھانے کے لیے ایک شخص کی مثال دی گئی ہے جس نے اپنے اوپر ایک رسی (اللہ کی طرف سے امید) کو تھاما ہوا ہے۔ وہ شخص اگر کسی مرحلے پر مایوس ہو کر خود ہی رسی کو چھوڑ دے گا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ جیسے ایک حدیث میں قرآن کو اللہ کی رسی قرار دیا گیا ہے ایسے ہی اللہ کی امید بھی ایک معنوی رسی ہے جو ہمیں اللہ کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے۔ جب تک یہ رسی ہمارے ہاتھ میں رہے گی اللہ سے ہمارا تعلق قائم رہے گا ‘ اور ہمارے لیے ایک سہارا موجود رہے گا۔ اگر ہم اس رسی کو کاٹ دیں گے یعنی اللہ سے اپنی امید منقطع کرلیں گے تو اس مضبوط سہارے کو گویا خود ہی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیں گے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلے گا کہ ہم بےیارو مددگار ہوجائیں گے (زمین پر اوندھے منہ گرجائیں گے) ۔ چناچہ اس آیت کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت کی امید اور اس کے وعدوں پر یقین رکھو ‘ یہ تمہارے لیے بہت مضبوط سہارا ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :22 اس آیت کی تفسیر میں بکثرت اختلافات ہوئے ہیں ۔ مختلف مفسرین کے بیان کردہ مطالب کا خلاصہ یہ ہے : 1 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہ کرے گا وہ چھت سے رسی باندھ کر خود کشی کر لے ۔ 2 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہ کرے گا وہ کسی رسی کے ذریعے آسمان پر جائے اور مدد بند کرانے کی کوشش کر دیکھے ۔ 3 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر وحی کا سلسلہ منقطع کرنے کی کوشش کر دیکھے ۔ 4 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر اس کا رزق بند کرانے کی کوشش کر دیکھے ۔ 5 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے ) مدد نہ کرے گا وہ اپنے گھر کی چھت سے رسی لٹکائے اور خود کشی کر لے ۔ 6 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی ) مدد نہ کرے گا وہ آسمان تک پہنچ کر مدد لانے کی کوشش کر دیکھے ۔ ان میں سے پہلے چار مفہومات تو بالکل ہی سیاق و سباق سے غیر متعلق ہیں ۔ اور آخری دو مفہوم اگرچہ سیاق و سباق سے قریب تر ہیں ، لیکن کلام کے ٹھیک مدعا تک نہیں پہنچتے ۔ سلسلہ تقریر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ گمان کرنے والا شخص وہی ہے جو کنارے پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے ، جب تک حالات اچھے رہتے ہیں مطمئن رہتا ہے ، اور جب کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے ، یا کسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جو اسے ناگوار ہے ، تو خدا سے پھر جاتا ہے اور ایک ایک آستانے پر ماتھا رگڑنے لگتا ہے ۔ اس شخص کی یہ کیفیت کیوں ہے ؟ اس لیے کہ وہ قضائے الہٰی پر راضی نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ قسمت کے بناؤ اور بگاڑ کے سر رشتے اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں بھی ہیں ، اور اللہ سے مایوس ہو کر دوسرے آستانوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہے ۔ اس بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لے ، حتیٰ کہ اگر آسمان کو پھاڑ کر تھگلی لگا سکتا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لے کہ آیا اس کی کوئی تدبیر تقدیر الہٰی کے کسی ایسے فیصلے کو بدل سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے ۔ آسمان پر پہنچنے اور شگاف دینے سے مراد ہے وہ بڑی سے بڑی کوشش جس کا انسان تصور کر سکتا ہو ۔ ان الفاظ کا کوئی لفظی مفہوم مراد نہیں ہے ۔
10: رسی تان کر رابطہ کاٹ ڈالنے کے ایک معنی تو عربی محاورے کے مطابق پھانسی دے کر گلا گھونٹنے کے ہوتے ہیں۔ اگر یہاں یہ معنی لیے جائیں، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے منقول ہیں، تو اس صورت میں آسمان سے مراد اوپر کی سمت یعنی چھت ہوگی، اور آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا شخص جس کا خیال یہ تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی قسم کی کامیابی حاصل نہیں ہوگی، اس کا یہ خیال نہ پورا ہوا ہے، نہ ہوگا۔ اس پر اگر اسے غصہ اور جھنجھلاہٹ ہے تو وہ چھت کی طرف ایک رسی تان کر اپنے آپ کو پھانسی دے، اور اپنا گلا گھونٹ لے۔ اور آسمان تک رسی تان کر رابطہ کاٹ لینے کی ایک دوسری تشریح حضرت جابر بن زید سے منقول ہے، اور وہ یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں، ان کا سر چشمہ وہ وحی ہے جو آپ پر آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اب اگر کسی شخص کو ان کامیابیوں پر غم و غصہ ہے، اور وہ ان کامیابیوں کا راستہ روکنا چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی رسی تان کر آسمان تک جائے، اور وہاں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ رابطہ کاٹ دے جس کے ذریعے آپ پر وحی آ رہی ہے، اور کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی کے بس میں نہیں ہے، اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا (روح المعانی)