Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شعائر اللہ کیا ہیں ؟ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے جانور پیدا کئے اور انہیں اپنے نام پر قربان کرنے اور اپنے گھر بطور قربانی کے پہنچانے کا حکم فرمایا اور انہیں شعائر اللہ قرار دیا اور حکم فرمایا آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَاۗىِٕد وَلَآ اٰۗمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا Ą۝ ) 5- المآئدہ:2 ) نہ تو اللہ کے ان عظمت والے نشانات کی بے ادبی کرو نہ حرمت والے مہینوں کی گستاخی کرو لہذا ہر اونٹ گائے جو قربانی کے لئے مقرر کردیا جائے ۔ وہ بدن میں داخل ہے ۔ گو بعض لوگوں نے صرف اونٹ کو ہی بدن کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اونٹ تو ہے ہی گائے بھی اس میں شامل ہے حدیث میں ہے کہ جس طرح اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے قربان ہوسکتا ہے اسی طرح گائے بھی ۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ میں سات شریک ہوجائیں اور گائے میں بھی سات آدمی شرکت کرلیں ۔ امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ تو فرماتے ہیں ان دونوں جانوروں میں دس دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں مسند احمد اور سنن نسائی میں ایسی حدیث بھی آئی ہے ۔ واللہ اعلم پھر فرمایا ان جانورں میں تمہارا اخروی نفع ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بقرہ عید والے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ نہیں ۔ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، کھروں اور بالوں سمیت انسان کی نیکیوں میں پیش کیا جائے گا ۔ یاد رکھو قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے پس ٹھنڈے دل سے قربانیاں کرو ( ابن ماجہ ترمذی ) حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ تو قرض اٹھا کر بھی قربانی کیا کرتے تھے اور لوگوں کے دریافت کرنے پر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں اس میں تمہارا بھلا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی خرچ کا فضل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن کی قربانی پر کیا جائے ہرگز افضل نہیں ۔ ( دارقطنی ) پس اللہ فرماتا تمہارے لئے ان جانوروں میں ثواب ہے نفع ہے ضرورت کے وقت دودھ پی سکتے ہو سوار ہو سکتے ہو پھر ان کی قربانی کے وقت اپنا نام پڑھنے کی ہدایت کرتا ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے عید الضحیٰ کی نماز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی نماز سے فراغت پاتے ہی سامنے مینڈھا لایا گیا جیسے آپ نے دعا ( بسم اللہ واللہ اکبر ) پڑھ کر ذبح کیا پھر کہا اے اللہ یہ میری طرف سے ہے اور میری امت میں سے جو قربانی نہ کرسکے اس کی طرف سے ہے ( احمد داؤد ترمذی ) فرماتے ہیں عید والے دن آپ کے پاس دو مینڈھے لائے گئے انہیں قبلہ رخ کرکے آپ نے دعا ( وجہت وجہی للذی فطرالسموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لاشریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین اللہم منک ولک عن محمد وامتہ ) پڑھ کر بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کر ڈالا ۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے موٹے موٹے تازے تیار عمدہ بڑے سینگوں والے چتکبرے خریدتے ، جب نماز پڑھ کر خطبے سے فراغت پاتے ایک جانور آپ کے پاس لایا جاتا آپ وہیں عیدگاہ میں ہی خود اپنے ہاتھ سے اسے ذبح کرتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ یہ میری ساری امت کی طرف سے ہے جو بھی توحید وسنت کا گواہ ہے پھر دوسرا جانور حاضر کیا جاتا جسے ذبح کر کے فرماتے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کی طرف سے ہے پھر دونوں کا گوشت مسکینوں کو بھی دیتے اور آپ اور آپ کے گھر والے بھی کھاتے ۔ ( احمد ابن ماجہ ) صواف کے معنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اونٹ کو تین پیروں پر کھڑا کر کے اس کا بایاں ہاتھ باندھ کر دعا ( بسم اللہ واللہ اکبر لاایہ الا اللہم منک ولک ) پڑھ کر اسے نحر کرنے کے کئے ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنے اونٹ کو قربان کرنے کے لئے بٹھایا ہے تو آپ نے فرمایا اسے کھڑا کردے اور اس کا پیر باندھ کر اسے نحر کر یہی سنت ہے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کا ایک پاؤں باندھ کر تین پاؤں پر کھڑا کر کے ہی نحر کرتے تھے ۔ ( ابوداؤد ) حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلیمان بن عبد الملک سے فرمایا تھا کہ بائیں طرف سے نحر کیا کرو ۔ حجتہ الوداع کا بیان کرتے ہوئے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے آپ کے ہاتھ میں حربہ تھا جس سے آپ زخمی کررہے تھے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں صوافن ہے یعنی کھڑے کرکے پاؤں باندھ کر صواف کے معنی خالص کے بھی کئے گئے ہیں یعنی جس طرح جاہلیت کے زمانے میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے تم نہ کرو ، صرف اللہ واحد کے نام پر ہی قربانیاں کرو ۔ پھر جب یہ زمین پر گرپڑیں یعنی نحر ہوجائیں ٹھنڈے پڑجائیں تو خود کھاؤ اوروں کو بھی کھلاؤ نیزہ مارتے ہی ٹکڑے کاٹنے شروع نہ کرو جب تک روح نہ نکل جائے اور ٹھنڈا نہ پڑ جائے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ روحوں کے نکالنے میں جلدی نہ کرو صحیح مسلم کی حدیث میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سلوک کرنا لکھ دیا ہے دشمنوں کو میدان جنگ میں قتل کرتے وقت بھی نیک سلوک رکھو اور جانوروں کو ذبح کرتے وقت بھی اچھی طرح سے نرمی کے ساتھ ذبح کرو چھری تیز کرلیا کرو اور جانور کو تکلیف نہ دیاکرو ۔ فرمان ہے کہ جانور میں جب تک جان ہے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیا جائے تو اس کا کھانا حرام ہے ۔ ( احمدابوداؤد ترمذی ) پھر فرمایا اسے خود کھاؤ بعض سلف تو فرماتے ہیں یہ کھانا مباح ہے ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہے مستحب ہے اور لوگ کہتے ہیں واجب ہے ۔ اور مسکینوں کو بھی دو خواہ وہ گھروں میں بیٹھنے والے ہوں خواہ وہ دربدر سوال کرنے والے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ قانع تو وہ ہے جو صبر سے گھر میں بیٹھا رہے اور معتر وہ ہے جو سوال تو نہ کرے لیکن اپنی عاجزی مسکینی کا اظہار کرے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ قانع وہ ہے جو مسکین ہو آنے جانے والا ۔ اور معتر سے مراد دوست اور ناتواں لوگ اور وہ پڑوسی جو گو مالدار ہوں لیکن تمہارے ہاں جو آئے جائے اسے وہ دیکھتے ہوں ۔ وہ بھی ہیں جو طمع رکھتے ہوں اور وہ بھی جو امیر فقیر موجود ہوں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانع سے مراد اہل مکہ ہیں ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ قانع سے مراد تو سائل ہے کیونکہ وہ اپنا ہاتھ سوال کے لئے دراز کرتا ہے ۔ اور معتر سے مراد وہ جو ہیر پھیر کرے کہ کچھ مل جائے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئیں ۔ تہائی اپنے کھانے کو ، تہائی دوستوں کے دینے کو ، تہائی صدقہ کرنے کو ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو جمع کرکے رکھنے سے منع فرمادیا تھا کہ تین دن سے زیادہ تک نہ روکا جائے اب میں اجازت دیتا ہوں کہ کھاؤ جمع کرو جس طرح چاہو ۔ اور روایت میں ہے کہ کھاؤ جمع کرو اور صدقہ کرو ۔ اور روایت میں ہے کھاؤ اور کھلاؤ اور راہ للہ دو ۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی کرنے والا آدھا گوشت آپ کھائے اور باقی صدقہ کردے کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے خود کھاؤ اور محتاج فقیر کو کھلاؤ ۔ اور حدیث میں بھی ہے کہ کھاؤ ، جمع ، ذخیرہ کرو اور راہ للہ دو ۔ اب جو شخص اپنی قربانی کا سارا گوشت خود ہی کھا جائے تو ایک قول یہ بھی ہے کہ اس پر کچھ حرج نہیں ۔ بعض کہتے ہیں اس پر ویسی ہی قربانی یا اس کی قیمت کی ادائیگی ہے بعض کہتے ہیں آدھی قیمت دے ، بعض آدھا گوشت ۔ بعض کہتے ہیں اس کے اجزا میں سے چھوٹے سے چھوٹے جز کی قیمت اس کے ذمے ہے باقی معاف ہے ۔ کھال کے بارے میں مسند احمد میں حدیث ہے کہ کھاؤ اور فی اللہ دو اور اس کے چمڑوں سے فائدہ اٹھاؤ لیکن انہیں بیچو نہیں ۔ بعض علماء نے بیچنے کی رخصت دی ہے ۔ بعض کہتے ہیں غریبوں میں تقسیم کردئیے جائیں ۔ ( مسئلہ ) براء بن عازب کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے ہمیں اس دن نماز عید ادا کرنی چاہئے پھر لوٹ کر قربانیاں کرنی چاہئیں جو ایسا کرے اس نے سنت کی ادائیگی کی ۔ اور جس نے نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی اس نے گویا اپنے والوں کے لئے گوشت جمع کرلیا اسے قربانی سے کوئی لگاؤ نہیں ( بخاری مسلم ) اسی لئے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ قربانی کا اول وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج نکل آئے اور اتنا وقت گزر جائے کہ نماز ہولے اور دو خطبے ہو لیں ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس کے بعد کا اتنا وقت بھی کہ امام ذبح کرلے ۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے امام جب تک قربانی نہ کرے تم قربانی نہ کرو ۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک تو گاؤں والوں پر عید کی نماز ہی نہیں اس لئے کہتے ہیں کہ وہ طلوع فجر کے بعد ہی قربانی کرسکتے ہیں ہاں شہری لوگ جب تک امام نماز سے فارغ نہ ہولے قربانی نہ کریں واللہ اعلم ۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف عید والے دن ہی قربانی کرنا مشروع ہے اور قول ہے کہ شہر والوں کے لئے تو یہی ہے کیونکہ یہاں قربانیاں آسانی سے مل جاتی ہیں ۔ لیکن گاؤں والوں کے لئے عید کا دن اور اس کے بعد کے ایام تشریق ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دسویں اور گیارھویں تاریخ سب کے لئے قربانی کی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کے بعد کے دو دن ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کا دن اور اس کے بعد کے تین دن جو ایام تشریق کے ہیں ۔ امام شافعی کا مذہب یہی ہے کیونکہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایام تشریق سب قربانی کے ہیں ( احمد ، ابن حبان ) کہا گیا ہے کہ قربانی کے دن ذی الحجہ کے خاتمہ تک ہیں لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی وجہ سے ہم نے ان جانوروں کو تمہارا فرماں بردار اور زیر اثر کردیا ہے کہ تم چاہو سواری لو ، جب چاہو دودھ نکال لو ، جب چاہو ذبح کرکے گوشت کھالو ۔ جیسے سورۃ یسٰین میں آیت ( اولم یروا ) سے ( افلا تشکرون ) تک بیان ہوا ہے ۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرو اور ناشکری ، ناقدری نہ کرو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 بدن بدنۃ کی جمع ہے یہ جانور عام طور پر موٹا تازہ ہوتا ہے اس لیے بدنۃ کہا جاتا ہے۔ فربہ جانور۔ اہل لغت نے اسے صرف اونٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے لیکن حدیث کی رو سے گائے پر بھی بدنۃ کا اطلاق صحیح ہے مطلب یہ ہے کہ اونٹ اور گائے جو قربانی کے لیے لیے جائیں یہ بھی شعائر اللہ یعنی اللہ کے ان احکام میں سے ہیں جو مسلمانوں کے لیے خاص اور ان کی علامت ہیں۔ 3: صواف مصفوفۃ (صف بستہ یعنی کھڑے ہوئے) معنی میں ہے اونٹ کو اسی طرح کھڑے کھڑے نحر کیا جاتا ہے کہ بایاں ہاتھ پاؤں اس کا بندھا ہوا اور تین پاؤں پر وہ کھڑا ہوتا ہے۔ 36۔ 2 یعنی سارا خون نکل جائے اور وہ بےروح ہو کر زمین پر گرے تب اسے کاٹنا شروع کرو۔ کیونکہ جی دار جانور کا گوشت کاٹ کر کھانا ممنوع ہے جس جانور سے اس حال میں گوشت کاٹا جائے کہ وہ زندہ ہو تو وہ (کاٹا) ہوا گوشت مردہ ہے۔ 36۔ 3 بعض علماء کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے ہے یعنی قربانی کا گوشت کھانا، قربانی کرنے والے کے لئے واجب ہے یعنی ضروری ہے اور اکثر علماء کے نزدیک یہ امر جواز کے لئے ہے۔ یعنی اس امر کا مقصد صرف جواز کا اثبات یعنی اگر کھالیا جائے تو جائز یا پسندیدہ ہے اور اگر کوئی نہ کھائے بلکہ سب کا سب تقسیم کر دے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ 3: قانع کے ایک معنی سائل کے اور دوسرے معنی قناعت کرنے والے کے کیے گئے ہیں یعنی وہ سوال نہ کرے اور معتر کے معنی بعض نے بغیر سوال کے سامنے آنے والے کے کیے ہیں اور تیسرا سائلین اور معاشرے کی ضرورت مند افراد کے لیے۔ جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے تمہیں (پہلے) تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرکے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ذخیرہ کرو دوسری روایت کے الفاظ ہیں پس کھاؤ

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٦] بدن کے لفظ کا اطلاق لغوی طور پر ہر عظیم الجثہ جانور پر ہوسکتا ہے۔ تاہم عرب میں یہ لفظ اونٹنوں کے لئے ہی مختص ہوگیا ہے۔ پہلے شعائر اللہ کا عمومی ذکر ہو رہا تھا۔ اب یہ ذکر کیا گیا کہ قربانی کے اونٹ بھی اللہ کے شعائر سے ہیں اور ان میں تمہارے لئے بہت سے فائدے اور بھلائیاں ہیں۔ تم ان پر سواری کرتے ہو۔ بار برداری کا کام لیتے ہو۔ دودھ اور اون اور بچے حاصل کرتے ہو۔ حتیٰ کہ ان کی کھالوں اور ہڈیوں سے بھی کئی طرح کے فوائد حاصل کرتے ہو اور چونکہ قربانی کے اونٹ قابل تعظیم ہیں لہذا ذبح کے وقت انھیں ہر ممکن سہولت پہنچاؤ۔- [٥٧] لفظ صواف اور معنوں میں استعمال ہو رہا ہے ایک تو ترجمہ سے ہی واضح ہے یعنی اگر قربانی کے اونٹ زیادہ ہوں تو پہلے انھیں صف بستہ کھڑا کرلیا جائے۔ پھر باری باری نحر کیا جائے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انھیں کھڑے کھڑے ہی نحر کیا جائے۔ انھیں بٹھا کر ذبح نہ کیا جائے۔ جیسا کہ اسی سورة کی آیت نمبر ٢٩ کے تحت درج شدہ حدیث نمبر ١٣ سے واضح ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اونٹ کا اگلا دایاں یا بایاں پاؤں رسی سے باندھ دیا جائے۔ پھر کسی نیزے، برچھے یا تیز دھار آلہ کو اس کے گلے یا سامنے کے حصہ میں چبو دیا جائے۔ تاکہ کھڑے کھڑے ہی ان کا خون نکل جائے۔- [٥٨] خون نکلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اونٹ از خود اپنی کسی دائیں یا بائیں پہلو پر گرپڑے گا۔ اس کی کھال اس وقت نہ اتاری جائے۔ جب تک تڑپنا بند نہ کردے۔ یا زندگی کی کچھ بھی رمق اس میں باقی ہو۔ - [٥٩] یعنی حاجت مند بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ کہ جو کچھ اللہ نے انھیں دے رکھا ہے، اسی پر صابر و شاکر رہتے ہیں۔ اور ضرورت مند ہونے کے باوجود کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے اور بعض حالات میں عام لوگوں کو ان کی احتیاج کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ حقیقتاً ایسے ہی لوگ صدقات و خیرات کے صحیح مستحق ہوتے ہیں۔ اور دوسرے وہ احتیاج سے مجبور ہو کر لوگوں سے سوال کرنے لگتے ہیں۔ اس قربانی کے گوشت میں دو طرح کے لوگوں کو اللہ نے کھلانے کا حکم دیا ہے۔ ایک عیدالاضحیٰ کے موقعہ پر مدینہ کے آس پاس رہنے لوگ محتاج لوگ بکثرت مدینہ آگئے۔ تو آپ نے صحابہ کو حکم دے دیا کہ کوئی شخص تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھ نہیں سکتا۔ جو کچھ زائد ہو سب خیرات کردیا جائے۔ لیکن یہ حکم صرف ان محتاجوں کی آمد کی وجہ سے تھا۔ جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب الہی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث و سیخہ) تاہم ایسے نسخ کا مطلب اتنا ہی ہوتا ہے کہ اگر آج بھی ویسے ہی حالات سامنے آجائیں۔ کہ محتاج بکثرت ہوں جو خود قربانی دینے کے قابل نہ ہوں یا اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں تو آج بھی وہی پہلا حکم ہی لاگو ہوگا۔- [٦٠] یعنی اپنے عظیم الجثہ جانوروں کو طاقت کے لحاظ سے ان سے کئی گنا بڑھ کر ہیں، تمہارے لئے ایسا مسخر بنادیا ہے کہ وہ ان سے طرح طرح کے فائدے حاصل کرتا ہے اور بوقت ضرورت انھیں ذبح بھی کر ڈالتا ہے مگر وہ اس کے سامنے چون و چرا کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔۔۔ ان نعمتوں کے لئے تمہیں اللہ کا شکر گزار اور اطاعت گزار بننا چاہئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ : ” وَالْبُدْنَ “ ” بَدَنَۃٌ“ کی جمع ہے، بڑے بدن والا جانور۔ یہ لفظ بڑے جسم کی وجہ سے اونٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے پہلے قربانی کے لیے سورة انعام (١٤٣، ١٤٤) میں ” بَھِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ “ یعنی پالتو چوپاؤں کا ذکر فرمایا تھا جو بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے ہیں۔ اس آیت میں بڑے جانوروں کا ذکر خصوصاً فرمایا، کیونکہ چوپاؤں میں بطور ” شعائر اللہ “ وہ زیادہ نمایاں ہوتے ہیں، خاص طور پر اونٹ اپنے بلند قد کی وجہ سے اور اشعار کی وجہ سے زیادہ ہی نمایاں ہوتا ہے۔ اشعار کا مطلب یہ ہے کہ جب مکہ میں قربانی کے اونٹ روانہ کیے جاتے ہیں تو ان کے کوہان کے دائیں طرف برچھی وغیرہ سے زخم کرکے خون جلد پر مل دیا جاتا ہے، جو علامت ہوتا ہے کہ یہ جانور مکہ معظمہ قربانی کے لیے جا رہے ہیں اور جس سے ہر دیکھنے والا ان کی تعظیم و تکریم اور خدمت کرتا ہے۔ گائے کو بھی ” بَدَنَۃٌ“ کہہ لیتے ہیں، قاموس میں ہے : ” اَلْبَدَنَۃُ مُحَرَّکَۃٌ مِنَ الإِْبِلِ وَالْبَقَرِ کَالْأُضْحِیَۃِ مِنَ الْغَنَمِ “ ” یعنی جس طرح بھیڑ بکری کی قربانی کو اضحیہ کہتے ہیں اسی طرح اونٹ اور گائے کو بدنہ کہتے ہیں۔ “ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں : ( خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُھِلِّیْنَ بالْحَجِّ فَأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ نَّشْتَرِکَ فِي الْإِبِلِ ، وَالْبَقَرِ ، کُلُّ سَبْعَۃٍ مِنَّا فِيْ بَدَنَۃٍ ) [ مسلم، الحج، باب جواز الاشتراک في الھدی۔۔ : ٣٥١؍١٣١٨ ] ” ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کا احرام باندھے ہوئے نکلے تو ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ہم اونٹوں اور گائیوں میں شریک ہوجائیں، ہم میں سے ہر سات آدمی ایک بدنہ میں شریک ہوجائیں۔ “ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونٹ اور گائے دونوں کو بدنہ کہتے ہیں اور یہ کہ حج کے موقع پر اونٹ اور گائے دونوں میں سات سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ دوسری روایت ابن عباس (رض) سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں : ( کُنَّا مَعَ النَّبِيِِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحٰی فَاشْتَرَکْنَا فِي الْبَقَرَۃِ سَبْعَۃً وَفِي الْجَزُوْرِ عَشْرَۃً ) [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في الاشتراک في البدنۃ والبقرۃ : ٩٠٥، وقال حدیث حسن صحیح وقال الألباني صحیح ] ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھے تو نحر (قربانی کا وقت) آگیا تو ہم نے گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی اور اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے۔ “ ترمذی کے علاوہ اسے احمد، نسائی اور طبرانی نے بھی روایت کیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کے علاوہ دوسرے مقامات پر عید الاضحی کے موقع پر اونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ ہاں، حج کے موقع پر سات آدمی شریک ہوں گے، جیسا کہ مسلم کی حدیث میں گزرا ہے۔ البتہ ہمارے استاذ محمد عبدہ (رض) نے لکھا ہے : ” ایک اونٹ کی قربانی میں دس اور ایک گائے کی قربانی میں سات شریک ہوسکتے ہیں، جیسا کہ عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت میں ہے اور صحیح مسلم میں جو جابر (رض) والی روایت میں ” اَلْجَزُوْرُ عَنْ سَبْعَۃٍ “ (اونٹ سات کی طرف سے) آیا ہے وہ اس کے منافی نہیں ہے، کیونکہ دس والی روایت جواز پر محمول ہے۔ “- لَكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ : ” خَيْرٌ“ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” تمہارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔ “ اس خیر میں وہ منافع بھی شامل ہیں جو آیت (٢٣) کی تفسیر میں گزرے ہیں اور ذبح کرنے کے بعد ان کے گوشت، چمڑے، ہڈیوں اور جسم کے ہر حصے سے فائدہ اٹھانا بھی شامل ہے۔ آخرت میں ملنے والا اجر و ثواب اس کے علاوہ ہے اور وہ ایسی خیر ہے جو شمار سے باہر ہے۔- فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا : یہ کہنے کے بجائے کہ انھیں ذبح کرو، فرمایا، ان پر اللہ کا نام لو۔ اس لفظ کو بار بار دہرانے سے یہ بات ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ اللہ کے پیدا کیے یہ چوپائے اسی کے نام پر ذبح ہونے چاہییں، نہ کسی غیر سے کوئی مراد بر لانے کی نیت پر اور نہ کسی غیر کے نام پر۔- ” صَوَاۗفَّ “ ” صَافَّۃٌ“ کی جمع ہے بروزن ” فَوَاعِلَ ۔ “ صف کا معروف معنی قطار ہے، یعنی اونٹوں کو قربان گاہ میں قطار کی صورت میں کھڑا کرکے باری باری نحر کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے قربانی کے جمال و جلال میں اضافہ ہوتا ہے، جیسا کہ جابر (رض) سے مروی لمبی حدیث میں ہے : ( ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلاَثًا وَسِتِّیْنَ بِیَدِہٖ ثُمَّ أَعْطٰی عَلِیًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ ) [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨۔ مسند أحمد : ٣؍٣٢٠، ٣٢١، ح : ١٤٤٥٣ ]” پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قربان گاہ کی طرف پلٹے اور اپنے ہاتھ سے تریسٹھ (٦٣) اونٹ نحر کیے، آپ انھیں ایک برچھے کے ساتھ زخم لگاتے تھے، پھر آپ نے وہ برچھا علی (رض) کو دے دیا تو انھوں نے باقی کو نحر کردیا اور وہ کل سو اونٹ تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت بھی منیٰ میں باقاعدہ قربان گاہ تھی، جیسا کہ آج کل حکومت نے باقاعدہ جگہیں مقرر کر رکھی ہیں اور یہ بھی کہ سب اونٹ وہاں قریب قریب جمع تھے۔ (ابن عاشور) مگر حبر الامہ عبداللہ بن عباس (رض) نے اس کی تفسیر فرمائی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اونٹوں کو تین ٹانگوں پر کھڑا کر کے نحر کیا جائے، اس طرح کہ ان کی اگلی بائیں ٹانگ اکٹھی کرکے باندھی ہوئی ہو۔ [ طبري بسند ثابت ] جابر (رض) سے روایت ہے : ( أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَہٗ کَانُوْا یَنْحَرُوْنَ الْبَدَنَۃَ مَعْقُوْلَۃَ الْیُسْرٰی قَاءِمَۃً عَلٰی مَا بَقِيَ مِنْ قَوَاءِمِھَا ) [ أبوداوٗد، المناسک، باب کیف تنحر البدن : ١٧٦٧، و صححہ الألباني ]” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب اونٹوں کو اس طرح نحر کرتے تھے کہ ان کے اگلے بائیں پاؤں کا گھٹنا بندھا ہوتا اور وہ باقی ٹانگوں پر کھڑے ہوتے۔ “ ابن عمر (رض) ایک آدمی کے پاس سے گزرے جس نے اپنی اونٹنی بٹھا رکھی تھی اور اسے نحر کر رہا تھا تو فرمایا : ” اسے کھڑا کرکے پاؤں باندھ کر نحر کرو، یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ “ [ بخاري، الحج، باب نحر الإبل مقیدۃ : ١٧١٣ ] قرآن مجید کے الفاظ ” فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا “ (جب ان کے پہلو گرپڑیں) سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اونٹوں کو کھڑا کرکے نحر کرنا چاہیے، کیونکہ اگر ان کے پہلو پہلے ہی زمین پر ہوں تو وہ کیسے گریں گے ؟ ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا : نحر یہ ہے کہ اونٹ کو اگلی بائیں ٹانگ بندھی ہونے کی حالت میں کھڑا کردیا جاتا ہے، پھر اس کے سینے کے گڑھے میں، جہاں سے گردن شروع ہوتی ہے، کوئی برچھا یا نیزہ یا چھرا ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ “ پڑھ کر مارا جاتا ہے جس سے خون کا پرنالہ بہ نکلتا ہے، بہت سا خون نکل جانے پر اونٹ دائیں یا بائیں کروٹ پر گرپڑتا ہے۔ اس کی جان پوری طرح نکلنے سے پہلے اس کی کھال اتارنا یا گوشت کا کوئی ٹکڑا کاٹنا منع ہے، کیونکہ شداد بن اوس (رض) نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقَتْلَۃَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَ وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَہٗ فَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ ) [ مسلم، الصید والذبائح، باب الأمر بإحسان الذبح۔۔ : ١٩٥٥ ]” اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان یعنی اس سے اچھا سلوک کرنا فرض فرمایا ہے، سو تم جب قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور لازم ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچائے۔ “ اور ابو واقد لیثی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا قُطِعَ مِنَ الْبَھِیْمَۃِ وَھِيَ حَیَّۃٌ فَھِيَ مَیْتَۃٌ ) [ أبوداوٗد، الضحایا، باب إذا قطع من الصید قطعۃ : ٢٨٥٨۔ ترمذي : ١٤٨٠ ] ” جانور کا جو حصہ اس وقت کاٹا جائے جب وہ زندہ ہو تو وہ (گوشت) مردار ہے۔ “ شیخ البانی (رض) نے اسے صحیح کہا ہے۔- فَكُلُوْا مِنْهَا ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے اس سے پہلے آیت (٢٨) کی تفسیر۔ ” الْقَانِعَ “ ” قَنِعَ یَقْنَعُ “ (ع) سے اسم فاعل ہے، قناعت کرنے والا، اللہ نے جو دیا ہے اس پر صبر کرکے سوال سے بچنے والا۔ ” وَالْمُعْتَرَّ “ (سوال کے لیے) سامنے آنے والا۔ ” فَكُلُوْا “ میں ” فاء “ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور کی جان پوری طرح نکلنے کے بعد جتنی جلدی ہو سکے اس کا گوشت کھانے اور کھلانے کا اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ قربانی کے گوشت ہی سے ناشتہ کرنا مستحب ہے۔ معلوم ہوا قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے، دوست احباب، خویش و اقارب اور ان مساکین کو بھی کھلانا چاہیے جو سوال نہیں کرتے اور ان فقراء و مساکین کو بھی جو سوال کے لیے آجاتے ہیں۔ گویا قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جاسکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ تینوں برابر ہوں۔- كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْن : یعنی یہ ہم ہیں جنھوں نے اس طرح بےبس کرکے اتنے بڑے قوی ہیکل اونٹ اور بیل، جو طاقت میں تم سے کہیں زیادہ ہیں، تمہارے تابع کردیے ہیں۔ تم ان سے جو فائدہ چاہتے ہو اٹھاتے ہو، ان پر بوجھ لادتے ہو، سواری کرتے ہو، دودھ پیتے ہو اور جب چاہتے ہو ذبح کرلیتے ہو، وہ اف نہیں کرتے۔ مقصد یہ ہے کہ تم ہمارا شکر ادا کرو، نہ کہ مشرکین کی طرح ان کا جن کا نہ ان چوپاؤں کے پیدا کرنے میں کوئی دخل ہے اور نہ تمہارے لیے تابع کرنے میں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ ، پہلے گزر چکا ہے کہ شعائر ان خاص احکام و عبادات کا نام ہے جو دین اسلام کی علامات سمجھی جاتی ہیں۔ قربانی بھی انہیں میں سے ہے ایسے احکام کی پابندی زیادہ اہم ہے۔- فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَاۗفَّ ، صواف بمعنے مصفوفہ ہے یعنی صف بستہ، حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کی تفسیر یہ بیان فرمائی ہے کہ جانور تین پاؤں پر کھڑا ہو ایک ہاتھ بندھا ہوا ہو۔ یہ صورت قربانی کی اونٹ کے ساتھ مخصوص ہے اس کی قربانی کھڑے ہونے کی حالت میں سنت اور بہتر ہے، باقی جانوروں کو لٹا کر ذبح کرنا سنت ہے۔- فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا، یہاں وجبت بمعنے سقطت آیا ہے جیسے وجبت الشمس بمعنے سقطت کا محاورہ مشہور ہے مراد اس سے جانور کی جان کا نکل جانا ہے۔- الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ، پچھلی آیت میں جن لوگوں کو قربانی کا گوشت دینا چاہئے ان کو بائس فقیر کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے جس کے معنے ہیں مصیبت زدہ محتاج۔ اس آیت میں اس کی جگہ قانع اور معتر کے دو لفظوں میں اس کی تفسیر و توضیح کی گئی ہے۔ قانع سے مراد وہ محتاج فقیر ہے جو لوگوں سے سوال کرتا اپنی غربت و فقر کے باوجود اپنی جگہ بیٹھ کر جو مل جائے اس پر قناعت کرتا ہے اور معتر جو ایسے مواقع پر جائے جہاں سے کچھ ملنے کی امید ہو خواہ زبان سے سوال کرے یا نہ کرے (مظھری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ لَكُمْ فِيْہَا خَيْرٌ۝ ٠ ۤۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہَا صَوَاۗفَّ۝ ٠ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۝ ٠ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰہَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝ ٣٦- بدن - وقوله تعالی: وَالْبُدْنَ جَعَلْناها لَكُمْ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ [ الحج 36] هو جمع البدنة التي تهدى.- اور آیت کریمہ ۔ وَالْبُدْنَ جَعَلْناها لَكُمْ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ [ الحج 36] اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے شعائر خدا مقرر کیا ہے (22 ۔ 32) میں بدن بدنۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہدی یعنی قربانی کے ہیں جو حرم میں لے جاکر ذبح کی جائے ۔ خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- صف - الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ «1» . قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً- [ طه 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ :- ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف .- ( ص ف ف ) الصف - ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔- وجب - الوجوب : الثّبوت . والواجب يقال علی أوجه : الأوّل : في مقابلة الممکن، وهو الحاصل الذي إذا قدّر كونه مرتفعا حصل منه محال . نحو :- وجود الواحد مع وجود الاثنین، فإنه محال أن يرتفع الواحد مع حصول الاثنین .- الثاني : يقال في الذي إذا لم يفعل يستحقّ به اللّوم، وذلک ضربان :- واجب من جهة العقل، کو جوب معرفة الوحدانيّة، ومعرفة النّبوّة .- وواجب من جهة الشّرع کو جوب العبادات الموظّفة . ووَجَبَتِ الشمس : إذا غابت، کقولهم :- سقطت ووقعت، ومنه قوله تعالی: فَإِذا وَجَبَتْ جُنُوبُها [ الحج 36] ووَجَبَ القلب وَجِيباً.- كلّ ذلک اعتبار بتصوّر الوقوع فيه، ويقال في كلّه : أَوْجَب . وعبّر بالمُوجِبَات عن الکبائر التي أوجب اللہ عليها النار . وقال بعضهم :- الواجب يقال علی وجهين :- أحدهما : أن يراد به اللازم الوجوب، فإنه لا يصحّ أن لا يكون موجودا، کقولنا في اللہ جلّ جلاله : واجب وجوده .- والثاني : الواجب بمعنی أنّ حقّه أن يوجد .- وقول الفقهاء : الواجب : ما إذا لم يفعله يستحقّ العقاب «1» ، وذلک وصف له بشیء عارض له لا بصفة لازمة له، ويجري مجری من يقول :- الإنسان الذي إذا مشی مشی برجلین منتصب القامة .- ( و ج ب ) الوجوب ( ض ) کے معنی ثبوت کے ہیں اور - واجب کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) ممکن کے بالمقابل ۔ یعنی وہ چیز جو ضروری الثبوت ہو اور اس کا ارتفاع فرض کرنے سے محال لازم آئے جیسے کہا جاتا ہے ۔ وجود الواحد مع وجود الاژنین واجب دو کے ساتھ ایک کا پایا جانا ضروری ہے ۔- ( 2 ) وہ کام جس کے نہ کرنے سے انسان قابل ملامت سمجھا جائے - یہ دوقسم پر ہے - ( الف ) واجب من جھۃ العقل جیسے اللہ کی واحدینیت اور نبوت کہ ان کی معرفت عقلا واجب ہے - ( ب ) واجب من جھۃ الشرع یعنی وہ فعل جس کا وجوب شریعت سے ثابت ہو جیسے وجوب العبادات الموضفۃ یعنی فرضی عبادات کا وجوب وجبت الشمس کے معنی سورج کے گرنے یعنی غروب ہونے کے ہیں چناچہ معنی سقوط کے لحاظ سے فرمایا : ۔ فَإِذا وَجَبَتْ جُنُوبُها [ الحج 36] تو جب وہ اپنے پہلوں پر گر پڑیں ۔ وجب القلب وجوھا دل کا دھڑکنا اس میں بھی معنی سقوط معتبر ہے اور اوجب ( افعال ) بھی ان تمام معانی ہیں استعمال ہوتا ہے اور کبائر گناہ کو موجبات کہا گیا ہے کیونکہ ان کے ارتکاب سے دوزخ کا عذاب واجب ہوجاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ واجب کا ستعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک وہ چیز جس کا عدم ناممکن ہو جیسے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجوہ ہے دوسرے والجب اسے کہتے ہیں جس میں موجود ہونے کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہوا ور فقہا کا یہ کہنا ۔ کہ واجب وہ ہے جس کے نہ کرنے سے انسان عقوبت کا مستحق ہو تو یہ تعریف الشئی بالعوارض کے قبیل سے ہے ۔ کیونکہ استحقاق عقوبت اس کا وصف لازم نہیں ہے ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جس طرح کہ انسان کی تعریف میں کہا جائے مستقیم القامۃ والمسا شی علی الرجلین - جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- قْنَعَ- رأسه : رفعه . قال تعالی: مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ [إبراهيم 43] وقال بعضهم : أصل هذه الکلمة من الْقِنَاعِ ، وهو ما يغطّى به الرّأس، فَقَنِعَ ، أي : لبس القِنَاعَ ساترا لفقره کقولهم : خفي، أي : لبس الخفاء، وقَنَعَ : إذا رفع قِنَاعَهُ کاشفا رأسه بالسّؤال نحو خفی إذا رفع الخفاء، ومن الْقَنَاعَةِ قولهم : رجل مَقْنَعٌ يُقْنَعُ به، وجمعه : مَقَانِعُ.- ( ق ن ع ) القناعۃ - اقنع راسہ اس نے اپنے سر کو انچا کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ [إبراهيم 43] سر اٹھائے ہوئے بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قناع سے مشتق ہے اور قناع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سر ڈھانکا جائے اس سے قنع ( س ) کے معنی ہیں اس نے اپنے فقر کو چھپانے کے لئے سر پر قناع اوڑھ لیا اور قنع ( ف ) کے معنی سوال کرنے کے لئے سر کھولنے کے ہیں جیسا کہ خفی ( س) کے معنی چھپنے اور خفٰی کے معنی خفاء کو دور کرنے یعنی ظاہر ہونے کے ہیض اور رجل مقتنع کا محاورہ قناعۃ سے ہے یعنی وہ آدمی جس کی شہادت کو کافی سمجھا جائے اس کی جمع مقانع - عرَّ- قال تعالی: أَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] ، وهو المعترض للسّؤال، يقال : عَرَّهُ يَعُرُّهُ ، واعْتَرَرْتُ بک حاجتي، وَالعَرُّ والعُرُّ : الجرب الذي يَعُرُّ البدنَ. أي : يعترضه «3» ، ومنه قيل للمضرّة : مَعَرَّةٌ ، تشبيها بالعُرِّ الذي هو الجرب . قال تعالی: فَتُصِيبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الفتح 25] . والعِرَارُ : حكايةُ حفیفِ الرّيحِ ، ومنه : العِرَارُ لصوت الظّليم حكاية لصوتها، وقد عَارَّ الظّليم، والعَرْعَرُ : شجرٌ سمّي به لحكاية صوت حفیفها، وعَرْعَار : لُعبةٌ لهم حكاية لصوتها . ( ع ر ر ) المتعر وہ ہے جو کچھ لینے کے لئے تمہارے سامنے آئے قرآن پا ک میں ہے : أَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ عرہ یعرہ کے معنی ہیں بخشش طلب کرنے کے لئے کسی کے سامنے آنا : ۔ اعتزرت بک حاجتی : میں نے اپنی ضرورت تمہارے سامنے پیش کی ۔ العروالعر : خارش کی بیماری کو کہتے ہیں جو بدن کو عارض ہوجاتی ہے اس مناسبت سے معرۃ کا لفظ ہر قسم کی مضرت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَتُصِيبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الفتح 25] مبادا انہیں ان کی طرف سے بیخبر ی میں کوئی نقصان پہنچ جائے ۔ العرار ۔ اس سنسنا ہٹ کو کہتے ہیں جو تیز ہوا کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے پھر تشبیہا نر شتر مرغ کی آواز کی ۔ العر عر ( شمشا د کی قسم کا ) ایک درخت جو ہوا کے چلنے سے گونجتا ہے عر عار : ایک قسم کا بچوں کا کھیل ( جس میں وہ یہ کلمہ بولنے ہیں تاکہ دوسرے بچے اپنے چھپنے کی جگہ سے باہر نکل آئیں )- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- اشكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (والبدن جعلنھا لکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لئے ان میں بھلائی ہے) ایک قول کے مطابق بدن ان اونٹوں کو کہا جاتا ہے جو موٹے تازے ہونے کی بنا پر بھاری جسم کے ہوگئے ہوں۔ جب کسی اونٹنی کو کھلا پلا کر موٹا تازہ کردیا جائے تو کہا جاتا ہے (بدنت الفاقۃ “ میں نے اونٹنی کو موٹا تازہ کردیا) نیز کہا جاتا ہے ” بدن الرجل “ آدمی موٹا ہوگیا اس جہت سے ان اونٹں کو بد نہ کہا جاتا ہے پھر اونٹوں کو بدن کہا جانے لگا خواہ وہ اونٹ دبلے پتلے ہوں یا موٹے تازے بدنہ کا اسم اونٹوں کے لئے خاص ہے تاہم جب گائے بدنہ کے حکم میں ہوگئی تو اس پر بھی بدنہ کا اطلاق ہونے لگا۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بدنہ میں سات حصوں کی اجازت دے دی اور گائے میں بھی سات حصوں کی گنجائش پیدا کردی اس بنا پر گائیں بھی اونٹوں کے حکم میں ہوگئیں۔ اسی بنا پر جس طرح ایک شخص جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے جاتا ہے اونٹ کے گلے میں پٹہ ڈالنے کی بنا پر احرام میں داخل ہوجاتا ہے اسی طرح گائے کے گلے میں پٹہ ڈالنے کی صورت میں بھی وہ احرام میں داخل ہوجاتا ہے۔ اونٹ اور گائے کے سوا قربانی کے کسی اور جانور کے گلے میں پٹہ نہیں ڈالا جاتا۔ صرف بدن کے ساتھ یہ دونوں باتیں یعنی پٹہ ڈالنا اور اس کے ذریعے احرام میں داخل ہوجانا مخصوص ہیں۔ دوسرے تمام ہدایات کی یہ خصوصیت نہیں ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ” گائے بھی بدن میں سے ہے۔ “ - ہمارے اصحاب کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے۔” اللہ کے لئے مج ھپر ایک بدنہ ہے۔ “ تو آیا ایسے بدنہ کی قربانی مکہ کے بغیر کسی اور جگہ بھی جائز ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ جائز ہے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ مکہ مکرمہ کے سوا کسی اور جگہ اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ تاہم ہمارے اصحاب کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ہدی ذبح کرنے کی نذر مانے تو اس پر اسے مکہ مکرمہ میں لے جا کر ذبح کرنا لازم ہوگا، اگر کوئی شخص یہ کہے ” مجھ پر اللہ کے لئے ایک جزو (یعنی بکری یا اونٹ ہے۔ “ تو اس کے لئے جائز ہوگا کہ جہاں چاہے اسے ذبح کرلے۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ جس شخص نے جزو (ذبح کرنے کی نذر مانی ہو وہ اسے جہاں چاہے ذبح کرسکتا ہے اور جب بدنہ ذبح کرنے کی نذر مانے گا تو اسے مکہ مکرمہ میں ذبح کرے گا۔ حسن بصری اور عطاء سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن محمد بن علی، سالم اور سعید بن المسیب سے بھی مروی ہے۔ حسن بصری اور سعید بن المسیب سے یہ بھی مروی ہے کہ اگر ایک شخص اپنے اوپر ہدی لازم کر دے تو اسے مکہ مکرمہ میں ذبح کرے گا اور اگر بدنہ کی نذر مانی ہو تو جس جگہ کی نیت ہو وہاں اسے ذبح کرے گا۔ مجاہد کا قول ہے کہ بدنہ کی قربانی صر ف مکہ میں ہوگی۔ امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ بدنہ کی حیثیت جزو (یعنی بکری یا اونٹ کی طرح ہے۔ اور یہ بات اسے کسی خاص مقام پر لے جانے کی مقتضی نہیں ہے۔ ایسا شخص گویا اونٹ یا بکری وغیرہ کی نذر ماننے والے کی طرح ہوگا۔ لیکن ہدی اس امر کا متقضی ہے کہ اسے کسی خاص جگہ لے جایا جائے۔ ارشاد باری ہے (ھدایا بالغ الکعبۃ ہدی جو کعبہ کو پہنچنے والا ہو) اللہ تعالیٰ نے کعبہ تک پہنچنے کو ہدی کی صفت قرار دیا۔ امام ابو یوسف کے حق میں قول باری (والدبن جعلنا ھالکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر) آیت میں اسم بدنہ اس مفہوم کا اغادہ کر رہا ہے کہ وہ ہدی کی طرح تقرب الٰہی کا ذریعہ اور عبادت ہے اس لئے کہ ہدی کا اسم اس مفہوم کا مقتضی ہے کہ وہ ایسی عبادت ہے جو صرف اللہ کے لئے کی جاتی ہے۔ جب ہدی کی ذبح مکہ کے سوا اور کہیں جائز نہیں تو بدنہ کی ذبح کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا استدلال سے یہ نتیجہ لازم نہیں آتا۔ اس لئے کہ ہر وہ ذبیحہ جو تقرب الٰہی کی خاطر عمل میں لایا جاتا ہے حرم کے ساتھ اس کا مختص ہونا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ اضحیہ بھی تقرب الٰہی کی خاطر ہوتا ہے لیکن وہ دنیا کی کسی بھی جگہ ہوسکتا ہے اس لئے کہ بدنہ کو شعائر اللہ کی صفت کے ساتھ متصف کرنے کی یہ بات لازم نہیں آتی کہ حرم کے ساتھ اس کی تخصیص ہوگئی۔- نحر کھڑا کر کے کیا جائے - قول باری ہے (فاذاکروا اسم اللہ علیھا صواف۔ پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو) یونس نے زیادہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کو دیکھا تھا کہ وہ ایک شخص سے جو اپنی اونٹنی کو بٹھا کرنحر کر رہا تھا، یہ فرما رہے تھے کہ اسے کھڑا کرو اور اس کے پائوں باندھ کرنحر کرو۔ یہی ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ ایمن بن نابل نے طائوس سے اس قول باری کی تفسیر نقل کی ہے کہ (صواف) کے معنی کھڑا کر کے “ نحر کرنے کے ہیں۔ سفیا ن نے منصور سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ جن حضرات نے اس لفظ کی (صواف) قرأت کی ہے ان کے نزدیک اس کا مفوہم یہ ہے کہ انہیں کھڑا کر کے ان کے اگلے پیر جوڑ کر باندھ دیئے جائیں اور پھر نحر کیا جائے اور جن حضرات نے ” صوافن “ قرأت کی ہے ان کے نزدیک مفہوم یہ ہے کہ انہیں کھڑا کر کے نحر کیا جائے جبکہ ان کی ٹانگیں رانوں سے ملا کر باندھ دی گئی ہوں۔ اعمش نے ابو ظبیان سے اور انہوں نے حضرات ابن عباس سے روایت کی کہ انہوں نے ” صوافن “ کی قرأت کی اور معنی یہ بیان کئے کہ ” ٹانگوں کو رانوں سے ملا کر باندھا گیا ہو۔ “ نحر کرنے والا بسم اللہ اللہ اکبر پڑھے گا ۔ اعمش نے ابو الضحیٰ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں حضرت ابن عباس کو اس آیت کی تفسیر کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سنا تھا، انہوں نے فرمایا ” حالت قیام میں ٹانگیں رانوں سے ملا کر بندھی ہوئی۔ “ جویبر نے ضحاک سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود ” صوافن “ کی قرأت کرتے تھے اور اس کی تفسیر میں فرماتے تھے کہ اس کا ایک اگلا پیر باندھ دیا جائے اور وہ تین پائوں پر کھڑا ہو۔ قتادہ نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ” صوافی “ کی قرأت کی ہے اور فرمایا کہ اس کے معنی ہیں ” شرک کے ہر شائبہ سے پاک “ حضرت ابن عمر ” اور عروہ بن الزبیر سے مروی ہے کہ انہیں قبلہ رخ کھڑا کر کے ان کا نحر کیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف نے اس لفظ کی تین ظرح سے قرأت کی ہے ایک قرأت ” صراف “ کی ہے جس کے معنی ہیں ” صفوں میں کھڑا کر کے “ دوسری قرأت ” صوافی “ کی ہے جس کا مفہوم ہے۔ شرک کے ہر شائبہ سے پاک ۔ “ اور تیسری قرأت ” صوافن “ کی ہے جو اس معنی میں ہے کہ ” اس کی ٹانگ قیام کی حالت میں اور ان سے ملا کر باندھ دی جائے۔ “- قول باری ہے (فاذا وجبت جنوبھا اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پٹک جائیں) حضرت ابن عباس، مجاہد اور ضحاک وغیرہم سے مروی ہے کہ ” جب وہ زمین پر گرجائیں “ اہل لغت کا کہنا ہے کہ وجوب، سقوط کو کہتے ہیں اسی سے محاورہ ہے ” وجبت الشمس “ یعنی سورج غروب ہونے کی جگہ میں گرگیا۔ قیس بن الخطبی کا ایک شعر ہے۔- اطاعت بنو عوف امیراً نھا ھم عن السلم حتی کان اولی واجب - بنو عوف نے ایک ایسے سردار کی اطاعت کی جس نے انہیں صلح کرنے سے روک دیا اور پھر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں وہی سب سے پہلے مارا گیا ۔ یعنی وہی پہلا مقتول تھا جو قتل ہو کر زمین پر گرا۔ - اسی طرح اونٹوں کو جب کھڑا کر کے نحر کیا جاتا ہے تو وہ اپنے پہلوئوں کے بل زمین پر گرجاتے ہیں۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (صواف) سے کھڑا کر نامراد لیا ہے۔- اس لئے کہ اگر اونٹ بیٹھا ہوا ہو تو اس صورت میں اضافت کے بغیر یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ گرگیا ہے۔ البتہ اضافت کے ساتھ یہ بات کہی جائے گی مثلاً ” وہ اپنے پہلو کے بل گرگیا۔ “ لیکن اگر اونٹ کھڑا ہو اور پھر اس کا نحر کیا جائے تو اس صورت میں لامحالہ اس پر سقوط کے اسم کا اطلاق کیا جائے گا۔ اگر اونٹ بیٹھا بیٹھا مر کر اپنے پہلو پر الٹ جائے تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ ” یہ اپنے پہلو پر گرگیا ہے۔ “ اس بنا پر لفظ کے اندر دونوں معنوں کا احتمال ہے لیکن زیادہ ظاہر معنی یہ ہے کہ قیام کی حالت میں اس کا نحر کیا جائے اور پھر وہ اپنے پہلو پر گرجائے۔- قول باری ہے (فاذا وجبت جنوبھا فکلوا منھا) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ پہلو کے بل گرنے سے اس کی موت مراد ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے صرف گر جانا مراد نہیں ہے بلکہ سقوط سے موت مراد ہے اور موت کو سقوط سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ چیز اس پر دال ہے کہ اس کی موت کے بعد ہی اس کا گوشت کھانا جائز ہوگا اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ (مابان من البھیمۃ وھی حیۃ فھی میتۃ جانور کے جسم کا جو حصہ بھی اس کے زندہ ہونے کی حالت میں کاٹ کر الگ کرلیا جائے گا وہ مردار ہوگا) قول باری (فکلوا منھا) قربانی کے جانور کا گوشت کھانے کے ایجاب کا مقتضی ہے تاہم اہل علم اس پر متفق ہیں کہ اس کا گوشت کھانا واجب نہیں ہے۔ بلکہ یہ جائز ہے کہ آیت میں امر سے مراد استحباب ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر اپنی قربانی کے جانوروں کا گوشت تناول فرمایا تھا جنہیں آپ ساتھ لے گئے تھے۔ عید قربان کے دن آپ پہلے عید کی نماز ادا کرتے اور پھر قربانی کا گوشت کھاتے۔- قربانی کے گوشت کا ذخیرہ کرنا جائز ہے - آپ کا ارشاد ہے (کنت نھیتکم عن لحوم الاضاحی فوق ثلث فکلوا وادخروا ہیں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دنوں سے زائد رکھنے سے منع کردیا تھا اب یہ گوشت کھائو اور اس کا ذخیرہ بھی کرلو) ابوبکر بن عیاش نے ابو اسحقٰ سے اور انہوں نے علقمہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ” حضرت عبداللہ بن مسعود “ نے میرے ساتھ قرباین کا جانور مکہ مکرمہ بھیجا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اسے کس طرح ذبح کروں گا اور اس کا گوشت کس طرح تقسیم کروں گا۔ “ آپ نے فرمایا ” جب عرفہ کا دن آ جائے تو اسے عرفات کے میدان میں لے جانا اور جب یوم النحر ہو تو اسے نحر کردینا۔ اسے قیام کی حالت میں نحر کرنا۔ جب یہ اپنے پہلو کے بل گرجائے تو اس کے گوشت کا تہائی حصہ خود کھا لینا اور ایک تہائی صدقہ کردینا …… اور ایک تہائی میرے بھائی کے گھر بھیج دینا۔ “ نافع نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ آپ قربانی کے گوشت کے متعلق فتویٰ دیا کرتے تھے کہ ایک تہائی تمہارے لئے اور تمہارے اہل خانہ کے لئے ہے، ایک تہائی تمہارے پڑوسیوں کے لئے ہے اور ایک تہائی مساکین کے لئے ہے۔- عبدالملک نے عطاء سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ عطاء نے کہا۔ ” بدنہ خواہ واجب ہو یا نفلی اس کی تقسیم اسی طرح ہوگی البتہ جو جانور شکار کرنے کی سزا کے طور پر قربان کیا گیا ہو یا روزہ یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں کوئی فدیہ ادا کیا جا رہا ہو یا نذر کی صورت ہو وہ صرف مساکین کے لئے مختص ہوگا۔ “ طلحہ بن عمرو نے عطاء سے، انہوں نے حضرت ابن مسعود سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے کہ قربانی کے جانور کے گوشت کا تہائی حصہ صدقہ کردیں، تہائی حصہ خود کھا لیں اور تہائی حصہ قصائی کو دے دیں۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ تہائی حصہ قصائی کو دینے کی بات غلط ہے اس لئے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو یہ حکم دیا تھا کہ ” ان جانوروں کے گوشت میں سے قصائی کو کچھ نہ دینا۔ اس روای ت کی یہ توجیہ ہوسکتی ہے کہ ہمیں قصائی کو گوشت دینے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ گوشت اجرت کے طور پر نہ دیا جائے۔ اجرت کے طور پر گوشت دینے کی ہمیں ممانعت کی گئی ہے۔ جب قربانی کا گوشت کھانے کا جواز ثابت ہوگیا تو یہ گوشت مال دار لوگوں کو دینے کا جواز بھی ثابت ہوگیا۔ اس لئے کہ جس گوشت کا کھانا ایک شخص کے لئے جائز ہوگیا، اسے مالدار انسان کو دینا بھی اس کے لئے جائز ہوگیا جس طرح اس کے لئے اپنے اموال میں سے کوئی چیز مال دار انسان کو دے دینا جائز ہے۔- قربانی کے جانور کے گوشت کا تہائی حصہ صدقہ کرنے کے لئے مقرر کرنا استحباب کے طور پر ہے اس لئے کہ جب اس کے لئے یہ بات جائز ہوگئی کہ اس کا بعض حصہ خود کھالے، بعض حصہ صدقہ کر دے اور بعض حصہ تحفے کے طور پردے دے یعنی صدقے کے طور پر نہ دے تو اس صورت میں صدقہ کے لئے تہائی حصہ مقرر ہوگیا۔ ہم نے اس سے پہلے بیان کردیا ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید قربان پر ذبح ہونے والے جانوروں کے گوشت کے متعلق جب فرما دیا کہ (فکلوا وادخروا اس میں سے کھائو اور ذخیرہ بھی کرلو) اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر۔ اس میں سے خود بھی کھائو اور تنگ دست محتاج کو کھلائو) تو صدقہ کے لئے تہائی حصے کا تعین ہوگیا۔ قول باری (فکلوا منھا) بدن پر عطف ہے۔ اس کا عموم قران اور تمتع کی بنا پر ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت کھا لینے کے جواز کا مقتضی ہے اس لئے کہ آیت کا لفظ ان سب کو شامل ہے۔- قول باری ہے (واطعموا القانع والمعتتر اور ان کو بھی کھلائو جو قناعت سے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قانع کبھی اس شخص کو کہتے ہیں جسے جو کچھ دیا جائے اس پر وہ رضای ہوجائے اور قانع سائل کو بھی کہتے ہیں۔ ہمیں ثعلب کے غلام ابوعمرو نے بیان کیا کہ اسے ثعلب نے ابن الاعرابی سے یہ بات بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ بطور رزق عطا کرے اس پر راضی رہنا قناعت کہلاتا ہے۔ قناعت سے ” رجل قانع و قنع ) کہا جاتا ہے یعنی قناعت کرنے والا انسان۔ لیکن قنوع سے صرف ” رجل قانع “ کہا جاتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ شماخ نے قنوع کا مفہوم اس شعر میں ادا کیا ہے۔- لمال المزء یصلحہ فیغنی مفاقرہ اعف من القنوع - انسان کا مال اس کی حالت درست کردیتا ہے اور وہ غنی ہوجاتا ہے ایسے شخص کی تنگدستی اور محتاجی سوال اور لالچ کی ذلت سے پاک ہوتی ہے۔- آیت زیر بحث کی مراد میں سلف کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ قانع وہ شخص ہے جو دست سوال دراز نہیں کرتا اور معتر وہ شخص ہے جو دست سوال دراز کرتا ہے۔ حسن اور سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ قانع وہ شخص ہے جو سوال کرتا ہے۔ حسن سے مروی ہے کہ معتر وہ شخص ہے جو سامنے تو آتا ہے لیکن سوال نہیں کرتا۔ مجاہد کا قول ہے کہ قانع تمہارا مال دار پڑوسی ہے اور معتر وہ شخص ہے جو تمہارے سامنے آ جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر قانع غنی کو کہا جاتا ہے تو پھر آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ گوشت کا تہائی حصہ صدقہ کردینا مستحب ہے، اس لئے کہ آیت میں خود کھانے، مال دار کو دینے اور سوال کرنے والے فقیر کو کھلانے کا حکم ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٦) اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے اور یہ حج کے ارکان میں سے ہیں تاکہ تم ان کو ایام حج میں ذبح کرو، یہ قربانیاں تمہارے لیے باعث ثواب ہیں، سو تم ان کو تمام عیبوں سے درست کرکے ان کے ذبح کرنے کے وقت ان پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو یا یہ کہ (اونٹ کا) بایاں پیر باندھ کر اور تین پیروں پر اس کو کھڑا کرکے اس کے ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو، اور پھر جب وہ ذبح ہونے کے بعد کسی کروٹ کے بل گر پڑیں تو تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھاؤ اور اس سے سوال کرنے والے کو بھی دو جو معمولی سی چیز پر قناعت کرجاتا ہے اور اس کو بھی دو جو تمہارے سامنے آجاتا ہے پر مانگتا نہیں، ہم نے ان جانوروں کو اس طرح جیسا کہ بیان کیا ہے تمہارے حکم کے تابع کردیا ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور اس اجازت کا شکر ادا کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ) ” - قربانی کے جانور خاص طور پر اونٹ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔- (لَکُمْ فِیْہَا خَیْرٌق) ” - کہ ان کا گوشت تم خود بھی کھاتے ہو اور غرباء کو بھی کھلاتے ہو۔- (فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہَا صَوَآفَّ ج) ” - صَوَافّ ‘ صافَّۃکی جمع ہے ‘ یعنی صف میں کھڑے ہوئے۔ یہ اونٹوں کی قربانی کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ انہیں قبلہ رو صف بستہ کھڑے کر کے نحر کرو۔ چونکہ اونٹ کو گرا کر ذبح کرنا بہت مشکل ہے ‘ اس لیے کھڑے کھڑے ہی اس کی گردن میں برچھا مارا جاتا ہے۔ اس سے اس کی گردن کی بڑی رگ سے خون کا فوارہ چھوٹتا ہے اور جب زیادہ خون نکل جاتا ہے تو وہ خود بخود نیچے گرپڑتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سو اونٹوں کی قربانی دی تھی ‘ جن میں سے تریسٹھ اونٹوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طریقے سے خود اپنے دست مبارک سے نحر فرمایا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جونہی ایک اونٹ کو برچھا مارتے تھے اگلا اونٹ فوراً اپنی گردن حاضر کردیتا تھا۔ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں ذبح ہونا ان کے لیے ایک بہت بڑا عزاز تھا : ؂- نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت - سردوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی - یہ شعور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ اونٹ تو پھر جاندار ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے تو ایک سوکھی لکڑی کو ایسا شعور عطا فرما دیا تھا کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فراق میں بےقرار ہو کر رونے لگ پڑی تھی۔ یہ ایمان افروز واقعہ احادیث میں تفصیل سے بیان ہوا ہے ‘ جس کا خلاصہ یوں ہے کہ شروع شروع میں مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس جگہ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے وہاں کھجور کا ایک خشک تنا موجود تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے۔ بعد میں اس مقصد کے لیے جب منبر بن گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا پسند فرمایا۔ لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے دن منبر پر تشریف فرما ہوئے تو اس خشک لکڑی سے ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئیں جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر رو رہا ہو۔ یعنی وہ خشک لکڑی اپنی محرومی پر رو رہی تھی کہ آج کے بعد اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت نصیب نہیں ہوگی۔ اس روز سے اس کا نام ” حنانہ “ (رقت والی) پڑگیا۔ بعد میں اس جگہ پر ایک ستون تعمیر کردیا گیا ‘ جو ” ستون حنانہ “ سے موسوم ہے۔ مولانا روم (رح) نے اپنے اس شعر میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے : ؂- فلسفی کو منکر حنانہّ است - از حواس انبیاء بیگانہ است - کہ فلسفی کو ” حنانہ “ ّ جیسے معاملہ کی سمجھ نہیں آسکتی ‘ اس لیے کہ وہ انبیاء کے مقام و مرتبہ سے واقف نہیں ہے۔ وہ تو انبیاء کرام (علیہ السلام) کو بھی عام لوگوں پر ہی قیاس کرتا ہے۔ ایک عقلیت پسند شخص تو ایسے واقعہ کو تسلیم کرنے سے فوراً انکار کر دے گا۔ سر سید احمد خاں بھلا کیسے تسلیم کرتے کہ ایک سوکھی لکڑی سے رونے کی آواز آسکتی ہے۔ بہر حال پرانے زمانے میں ایسی باتوں کا انکار فلسفی کیا کرتے تھے ‘ آج کل سائنس دان اور عقلیت پرست دانشور ان باتوں کے منکر ہیں۔- (فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا ) ” - جب خون بہنے سے اونٹ کمزور ہوجاتا ہے تو پھر وہ ایک طرف کو اپنی کروٹ کے بل زمین پر گرپڑتا ہے۔- (فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط) ” - ایسے مواقع پر ان سفید پوش ناداروں کو بھی مت بھولوجو اپنی خود داری اور قناعت کے سبب کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو اپنی محرومی کے ہاتھوں بےقرار ہو کر مانگنے کے لیے آپ کے پاس آگئے ہیں ۔- (کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) ” - اونٹ اتنا بڑا جانور ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے اس انداز سے مسخر کردیا ہے کہ تم اسے برچھا مار کر نحر کرلیتے ہو اور پھر اس کا گوشت کھاتے ہو۔ اس کے لیے تم پر لازم ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کا شکرا دا کیا کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :67 اصل میں لفظ بدن استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے ۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے ۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ، اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی ملکر کر سکتے ہیں ۔ مسلم میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ : امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نشترک فی الاضاحی البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہو جایا کریں ، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گائے سات آدمیوں کے لیے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :68 یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اٹھاتے ہو ۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے ۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے ، نہ صرف شکر نعمت کے لیے ، بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کرنے کے لیے بھی ، تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اس نے ہمیں عطا کیا ہے ۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے ۔ نماز اور روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے ۔ زکوٰۃ ان اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ نے دیے ہیں ۔ جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے ۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے ۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریے ہیں ۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان نعمت پر اس کا شکر ادا کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوار ہوتے ہیں جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں ، جن کے گوشت کھاتے ہیں ، جن کے دودھ پیتے ہیں ، جن کی کھالوں اور بالوں اور خون اور ہڈی ، غرض ایک ایک چیز سے بے حساب فائدے اٹھاتے ہیں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :69 واضح رہے کہ اونٹ کی قربانی اس کو کھڑا کر کے کی جاتی ہے ۔ اس کا ایک پاؤں باندھ دیا جاتا ہے ، پھر اس کے حلقوم میں زور سے نیزہ مارا جاتا ہے جس سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑتا ہے ، پھر جب کافی خون نکل جاتا ہے تب اونٹ زمین پر گر پڑتا ہے ۔ یہی مفہوم ہے صَواف کا ۔ ابن عباس ، مجاہد ، ضحاک وغیرہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے ۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی منقول ہے ۔ چنانچہ مسلم اور بخاری میں روایت ہے کہ ابن عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر قربانی کر رہا تھا ۔ اس پر انہوں نے فرمایا : ابعثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اس کو پاؤں باندھ کر کھڑا کر ، یہ ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ ابوداؤد میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر باقی تین پاؤوں پر اسے کھڑا کرتے تھے ، پھر اس کو نحر کرتے تھے ۔ اسی مفہوم کی طرف خود قرآن بھی اشارہ کر رہا ہے : اِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا ، جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں ۔ یہ اسی صورت میں بولیں گے جب کہ جانور کھڑا ہو اور پھر زمین پر گرے ۔ ورنہ لٹا کر قربانی کرنے کی صورت میں تو پیٹھ ویسے ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :70 یہ الفاظ پھر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنے سے کوئی جانور حلال نہیں ہوتا ، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ذبح کرو کہنے کے بجائے ان پر اللہ کا نام لو فرما رہا ہے ، اور مطلب اس کا جانوروں کو ذبح کرنا ہے ۔ اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی شریعت میں جانور کے ذبح کرنے کا کوئی تصور اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے سوا نہیں ہے ۔ ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللہِ اَللہُ آکْبَر کہنے کا طریقہ بھی اسی مقام سے ماخوذ ہے ۔ آیت 36 میں فرمایا : فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا ، ان پر اللہ کا نام لو ۔ اور آیت 37 میں فرمایا : لِتَکَبِّرُوا اللہ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ، تاکہ اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو ۔ قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی مختلف صورتیں احادیث میں منقول ہیں ۔ مثلاً 1 : ۔ بِسْمِ اللہِ وَاللہُ اکْبَر ، اَللہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، اللہ کے نام کے ساتھ ، اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ۔ 2 : ۔ اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ اللہمّ منک ولک ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ خدایا تیار ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ۔ 3 : ۔ اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَ بِذٰلِکَ اَمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔ بیشک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں ۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :71 ٹکنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں ، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ گر کر ٹھہر جائیں ، یعنی تڑپنا بند کر دیں اور جان پوری طرح نکل جائے ۔ ابو داؤد ، ترمذی اور مسنداحمد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : ما قُطع ( اَو ما بان ) من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ ، یعنی جانور سے جو گوشت اس حالت میں کاٹا جائے کہ ابھی وہ زندہ ہو وہ مردار ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :72 یہاں پھر اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے ۔ فرمایا ، اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کر کے تمہیں بخشی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: یہاں قرآن کریم نے دو لفظ استعمال فرمائے ہیں، ایک قانع، جس کا مطلب ہے وہ شخص جو حاجت مند تو ہے لیکن اپنی حاجت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتا، بلکہ صبر کیے بیٹھا ہے اور دوسرا معتر، جس کا مطلب وہ شخص ہے جو اپنی حاجت اپنے کسی قول یا فعل سے ظاہر کردے۔