[٥٤] ان کے دل اس بات سے سہم جاتے ہیں کہ مبادا ان سے کوئی کام اللہ کی مرضی اور منشاء کے خلاف سرزد ہوجائے۔ عمداً شرکیہ افعال بجا لانا تو بڑی دور کی بات ہے اور اس آیت میں مصیبت پر صبر کرنا، نماز کے قیام اور خرچ کرنے کا ذکر اس لحاظ سے ہے کہ سفر حج میں عموماً تکلیفیں بھی پیش آتی رہتی ہیں۔ نمازوں کے قضا ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے اور خرچ بھی خاصا اٹھتا ہے۔ لہذا یہ فرما دیا کہ اللہ کے حضور متواضع رہنے والوں میں یہ سب خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔ یہ مطلب تو ربط معنوں کے لحاظ سے ہے تاہم ان کا حکم ہر حالت میں عام ہے۔- [٥٥] یہاں رزق سے مراد حلال اور پاکیزہ کمائی ہے کیونکہ رزق حرام کی نسبت اللہ تعالیٰ نے کبھی اپنی طرف نہیں فرمائی۔ نہ رزق حرام سے صدقہ یا قربانی یا سفر حج کے اخراجات قابل قبول ہوتے ہیں۔ اور خرچ کرنے سے مراد اللہ کی راہ میں یا اللہ کے احکام کے تابع رہ کر خرچ کرنا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اسراف و تبذیر سے کام لیتا ہے یا سینما بینی اور فحاشی کے کاموں پر خرچ کرتا ہے تو یہ انفاق کی شرعی اصطلاح کی ذیل میں ہرگز نہیں آتے۔ بلکہ ایسے سب کام گناہوں کے کام ہیں۔
الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ :” وَجِلَ یَوْجَلَ وَجْلاً “ (ع) شدید خوف۔ اس آیت میں ” الْمُخْبِتِيْنَ “ (تواضع اور عاجزی کرنے والوں) کے اوصاف بیان ہوئے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات یا اس کے کسی حکم کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل سخت ڈر جاتے ہیں اور وہ اللہ کی حمد و ثنا اور اس سے استغفار کرتے ہیں اور دل و جان سے اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔ کفار کی طرح نہیں کہ جن کے دل اکیلے اللہ کا ذکر ہونے پر تنگ پڑجاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ) [ الزمر : ٤٥ ] ” اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑجاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو اچانک وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں۔ “ اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو نہایت تکبر سے منہ پھیر کر چل دیتے ہیں جیسے انھوں نے وہ سنی ہی نہیں، فرمایا : (وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ اٰيٰتُنَا وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا كَاَنَّ فِيْٓ اُذُنَيْهِ وَقْرًا ۚ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) [ لقمان : ٧ ] ” اور جب اس پر ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے، گویا اس نے وہ سنی ہی نہیں، گویا اس کے دونوں کانوں میں بوجھ ہے، سو اسے دردناک عذاب کی خوش خبری دے دے۔ “ ایسے متکبروں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ بھی مہر لگا دیتا ہے، فرمایا : (كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ) [ المؤمن : ٣٥ ] ” اسی طرح اللہ ہر متکبر، سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ “- وَالصّٰبِرِيْنَ عَلٰي مَآ اَصَابَهُمْ : یہ آیات چونکہ حج کے بیان میں آئی ہیں اور حج میں سفر کی صعوبتوں کے علاوہ بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں، بعض ساتھیوں کے مزاج کی شدت، خود غرضی یا ضروریات کی کمی کی وجہ سے لڑائی جھگڑے کی نوبت آتی ہے، خصوصاً جب ان میں بدعقیدہ اور مشرک لوگ بھی ہوں، کیونکہ یہ سورت مکہ میں اتری اور اب بھی بہت سے حاجی وہ ہوتے ہیں جو شرک و بدعت میں گرفتار ہوتے ہیں اور توحید و سنت کی بات سننا برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ بعض اوقات بھوک، بیماری، راستے کی رکاوٹیں اور قدرتی آفات پیش آجاتی ہیں، تو اللہ کے وہ متواضع بندے ان سب مواقع پر ( فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ ) [ البقرۃ : ١٩٧ ] اور ( وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ) [ البقرۃ : ١٥٥، ١٥٦ ] پر عمل کرتے ہوئے اتنا صبر کرتے ہیں کہ صابرین کے لقب سے سرفراز ہوتے ہیں۔ - وَالْمُقِيْمِي الصَّلٰوةِ : ” اَلْمُقِیْمِیْنَ “ کا نون ” الصَّلٰوةِ “ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے گرگیا ہے۔ مضاف پر اگرچہ الف لام نہیں آتا مگر اسم فاعل یا صفت کا کوئی صیغہ اپنے معمول کی طرف مضاف ہو تو اس پر الف لام آجاتا ہے۔ سفر حج کی صعوبتوں کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ نماز میں سستی ہوجائے، یا وہ صحیح طریقے سے ادا نہ کی جاسکے، مگر اللہ کے وہ عاجز بندے اللہ سے اتنی محبت رکھتے اور نماز میں غفلت سے اس قدر خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہر وقت اس کی فکر میں رہتے ہیں اور اسے اتنی پابندی سے بروقت اور صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ کی طرف سے انھیں ” نماز قائم کرنے والے “ کا لقب عطا ہوتا ہے، گویا وہ ہر وقت نماز ہی میں ہیں۔- وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ : اس سفر میں چونکہ خرچ بہت ہوتا ہے، اس لیے فرمایا کہ ہمارے وہ بندے سفر کے خرچ میں، یا کھانے پینے کے خرچ میں، یا اپنے ساتھیوں پر خرچ کرنے میں، یا قربانی وغیرہ پر خرچ کرنے میں بخل نہیں کرتے، بلکہ ہم نے جو کچھ انھیں دیا ہے، یہ سمجھ کر کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اسی کا عطا کردہ ہے، فراخ دلی سے خرچ کرتے ہیں۔- اس آیت کی مندرجہ بالا تفسیر مفسر بقاعی نے سیاق وسباق کے لحاظ سے کی ہے۔ الفاظ عام ہونے کا تقاضا ہے کہ ” الْمُخْبِتِيْنَ “ (اللہ کے متواضع بندوں) کی یہ صفات ان میں صرف حج کے دوران میں نہیں بلکہ دوسرے تمام اوقات میں بھی پائی جاتی ہیں، جس سے وہ بشارت الٰہی ” وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ “ کے مستحق بنتے ہیں۔
وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ ، وجل کے اصلی معنے اس خوف وہیبت کے ہیں جو کسی کی عظمت کی بناء پر دل میں پیدا ہو۔ اللہ کے نیک بندوں اور صلحاء کا یہی حال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور نام سن کر ان کے دلوں پر اس کی عظمت اور بڑائی کے سبب ایک خاص ہیبت طاری ہوجاتی ہے۔
الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ عَلٰي مَآ اَصَابَہُمْ وَالْمُقِيْمِي الصَّلٰوۃِ ٠ۙ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ ٣٥- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- وجل - الوَجَل : استشعار الخوف . يقال : وَجِلَ يَوْجَلُ وَجَلًا، فهو وَجِلٌ. قال تعالی: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ [ الأنفال 2] ، إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر 52- 53] ، وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ [ المؤمنون 60] .- ( و ج ل )- الوجل کے معنی دل ہی دل میں خوف محسوس کرنے کے ہیں اور یہ باب وجل یوجل کا مصدر ہے جس کے معنی ڈر نے یا گھبرا نے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ [ الأنفال 2] مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو انکے دل ڈر جاتے ہیں ۔ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر 52- 53] انہوں نے کہا ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے ۔ یہ وجل کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ڈر نے ولا ۔ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر 52- 53]( مہمانوں نے ) کہا کہ ڈر یئے نہیں ۔ وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ [ المؤمنون 60] اور ان کے دل ڈر تے رہتے ہیں ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - صوب - الصَّوَابُ يقال علی وجهين : أحدهما : باعتبار الشیء في نفسه، فيقال : هذا صَوَابٌ: إذا کان في نفسه محمودا ومرضيّا، بحسب مقتضی العقل والشّرع، نحو قولک : تَحَرِّي العدلِ صَوَابٌ ، والکَرَمُ صَوَابٌ. والثاني : يقال باعتبار القاصد إذا أدرک المقصود بحسب ما يقصده، فيقال : أَصَابَ كذا، أي : وجد ما طلب، کقولک : أَصَابَهُ السّهمُ ، - وذلک علی أضرب :- الأوّل :- أن يقصد ما يحسن قصده فيفعله، وذلک هو الصَّوَابُ التّامُّ المحمودُ به الإنسان .- والثاني :- أن يقصد ما يحسن فعله، فيتأتّى منه غيره لتقدیره بعد اجتهاده أنّه صَوَابٌ ، وذلک هو المراد بقوله عليه السلام : «كلّ مجتهد مُصِيبٌ» «4» ، وروي «المجتهد مُصِيبٌ وإن أخطأ - فهذا له أجر» «1» كما روي : «من اجتهد فَأَصَابَ فله أجران، ومن اجتهد فأخطأ فله أجر» «2» .- والثالث :- أن يقصد صَوَاباً ، فيتأتّى منه خطأ لعارض من خارج، نحو من يقصد رمي صيد، فَأَصَابَ إنسانا، فهذا معذور .- والرّابع :- أن يقصد ما يقبح فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يقصده، فيقال : أخطأ في قصده، وأَصَابَ الذي قصده، أي : وجده، والصَّوْبُ- ( ص و ب ) الصواب - ۔ ( صحیح بات ) کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کی ذات کے اعتبار سے یعنی خب کوئی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے قابل تعریف ہو اور عقل و شریعت کی رو سے پسندیدہ ہو مثلا تحری العدل صواب ( انصان کو مدنظر رکھنا صواب ہے ) الکرم صواب ( کرم و بخشش صواب ہے ) (2) قصد کرنے والے کے لحاظ سے یعنی جب کوئی شخص اپنے حسب منشا کسی چیز کو حاصل کرلے تو اس کے متعلق اصاب کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے مثلا اصابہ بالسھم ( اس نے اسے تیر مارا ) پھر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اس کی چند قسمیں ہیں - (1) اچھی چیز کا قصد کرے اور اسے کر گزرے یہ صواب تام کہلاتا ہے اور قابل ستائش ۔ - (2) مستحسن چیز کا قصد کرے - لیکن اس سے غیر مستحسن فعل شرزہ اجتہاد کے بعد اسے صواب سمجھ کر کیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کل مجتھد مصیب ( کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ) کا بھی یہی مطلعب ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ المجتھد مصیب وان اخطاء فھذا لہ اجر کہ مجتہد مصیب ہوتا ہے اگر خطا وار بھی ہو تو اسے ایک اجر حاصل ہوتا ہے جیسا کہ ا یک اور روایت میں ہے من اجتھد فاصاب فلہ اجران ومن اجتھد فاخطا فلہ اجر کہ جس نے اجتہاد کیا اور صحیح بات کو پالیا تو اس کے لئے دواجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ - (3) کوئی شخص صحیح بات یا کام کا قصد کرے مگر کسی سبب سے اس سے غلطی سرزد ہوجائے مثلا ایک شخص شکار پر تیز چلاتا ہے مگر اتفاق سے وہ کسی انسان کو الگ جاتا ہے اس صورت میں اسے معذور سمجھا جائے گا ۔ - ( 4 ) ایک شخص کوئی برا کام کرنے لگتا ہے مگر اس کے برعکس اس سے صحیح کام صحیح کام سرز د ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ گو اس کا ارادہ غلط تھا مگر اسنے جو کچھ کیا وہ درست ہے ۔ - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔
(٣٥) اور آپ ایسے لوگوں کو جو خلوص کے ساتھ عبادت میں کوشش کرتے ہیں جنت کی خوشخبری سنا دیجیے کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم دیا جاتا ہے تو ان سے ڈر جاتے ہیں۔- اور مشقتوں اور مصیبتوں پر صبر کرنے والوں کو بھی جنت کی خوشخبری سنا دیجیے اور ایسے پانچوں نمازوں کے تمام ارکان وآداب وضو، سجود، رکوع، قیام اور اوقات کی پوری رعایت رکھنے والوں کو بھی جنت کی خوشخبری سنا دیجیے اور جو کچھ ہم نے ان لوگوں کو مال دیا ہے، اس میں سے صدقہ و خیرات کرتے اور اس کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
آیت ٣٥ (الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ ) ” - یعنی تواضع اختیار کرنے والے لوگوں کی یہ نشانی ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل خوف سے کانپ اٹھتے ہیں۔ یہ مضمون سورة الانفال کی دوسری آیت میں بھی آیا ہے : (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ ) ” مؤمن تو بس وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل لرز اٹھتے ہیں۔ “
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :65 اصل میں لفظ مُخْبِتِین استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا ۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں استکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا ۔ اس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہو جانا اس کے فیصلوں پر راضی ہو جانا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :66 اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کر چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے ۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا ، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا ، رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لینا ، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے ۔ بے جا خرچ ، اور عیش و عشرت کے خرچ اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن انفاق قرار دیتا ہو ، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے ۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے ، کہ آدمی اپنے اہل و عیاں کو بھی تنگ رکھے ، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے ، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے ، تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے ، مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام انفاق نہیں ہے ۔ وہ اس کو بخل اور شُحِّ نفس کہتا ہے ۔