Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قربانی ہر امت پر فرض قرار دی گئی فرمان ہے کہ کل امتوں میں ہر مذہب میں ہر گروہ کو ہم نے قربانی کا حکم دیا تھا ۔ ان کے لئے ایک دن عید کا مقرر تھا ۔ وہ بھی اللہ کے نام ذبیحہ کرتے تھے ۔ سب کے سب مکے شریف میں اپنی قربانیاں بھیجتے تھے ۔ تاکہ قربانی کے چوپائے جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام ذکر کریں ۔ حضور علیہ السلام کے پاس دو مینڈھے چت کبرے بڑے بڑے سینگوں والے لائے گئے آپ نے انہیں لٹا کر ان کی گردن پر پاؤں رکھ کر بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے جواب دیا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ۔ پوچھا ہمیں اس میں کیا ملتا ہے ؟ فرمایا ہربال کے بدلے ایک نیکی ۔ دریافت کیا اور اون کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا ان کے روئیں کے بدلے ایک نیکی ۔ اسے امام ابن جریر رحمتہ اللہ بھی لائے ہیں ۔ تم سب کا اللہ ایک ہے گو شریعت کے بعض احکام ادل بدل ہوتے رہے لیکن توحید میں ، اللہ کی یگانگت میں ، کسی رسول کو کسی نیک امت کو اختلاف نہیں ہوا ۔ سب اللہ کی توحید ، اسی کی عبادت کی طرف تمام جہان کو بلاتے رہے ۔ سب پر اول وحی یہی نازل ہوتی رہی ۔ پس تم سب اس کی طرف جھک جاؤ ، اس کے ہوکر رہو ، اس کے احکام کی پابندی کرو ، اس کی اطاعت میں استحکام کرو ۔ جو لوگ مطمئن ہیں ، جو متواضع ہیں ، جو تقوے والے ہیں ، جو ظلم سے بیزار ہیں ، مظلومی کی حالت میں بدلہ لینے کے خوگر نہیں ، مرضی مولا ، رضائے رب پر راضی ہیں انہیں خوشخبریاں سنادیں ، وہ مبارکباد کے قابل ہیں ۔ جو ذکر الٰہی سنتے ہیں دل نرم ، اور خوف الٰہی سے پر کرکے رب کی طرف جھک جاتے ہیں ، کٹھن کاموں پر صبر کرتے ہیں ، مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں واللہ اگر تم نے صبر وبرداشت کی عادت نہ ڈالی تو تم برباد کردیئے جاؤگے ولامقیمی کی قرأت اضافت کے ساتھ تو جمہور کی ہے ۔ لیکن ابن سمیفع نے والمقیمین پڑھا ہے اور الصلوۃ کا زبر پڑھا ہے ۔ امام حسن نے پڑھا تو ہے نون کے حذف اور اضافت کے ساتھ لیکن الصلوۃ کا زبر پڑھا ہے اور فرماتے ہیں کہ نون کا حذف یہاں پر بوجہ تخفیف کے ہے کیونکہ اگر بوجہ اضافت مانا جائے تو اس کا زبر لازم ہے ۔ اور ہوسکتا ہے کہ بوجہ قرب کے ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ فریضہ الٰہی کے پابند ہیں اور اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا دیتے رہتے ہیں ، اپنے گھرانے کے لوگوں کو ، فقیروں محتاجوں کو اور تمام مخلوق کو جو بھی ضرورت مند ہوں سب کے ساتھ سلوک واحسان سے پیش آتے ہیں ۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں منافقوں کی طرح نہیں کہ ایک کام کریں تو ایک کو چھوڑیں ۔ سورۃ براۃ میں بھی یہی صفتیں بیان فرمائی ہیں اور وہیں پوری تفسیر بھی بحمد اللہ ہم کر آئے ہیں

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 منسک۔ نسک ینسک کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحۃ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نسک ہے اس کے معنی اطاعت و عبادت کے بھی ہیں کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے، جہاں حج کے اعمال و ارکان ادا کئے جاتے ہیں، جیسے عرفات، مزدلفہ، منٰی اور مکہ۔ مطلق ارکان و اعمال حج کو بھی مناسک کہہ لیا جاتا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم پہلے بھی ہر مذہب والوں کے لئے ذبح کا یا عبادت کا یہ طریقہ مقرر کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہمارا نام لیں۔ یعنی بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں یا ہمیں یاد رکھیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کی شریعتوں میں اللہ کے حضور قربانی پیش کرنا ایک لازمی جزو رہا ہے۔ اگرچہ اس قربانی کی تفصیلات اور جزئیات میں اختلاف رہا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی دوسری چیز کے سامنے یا دوسری چیز کے لئے قربانی پیش کرے گا۔ یہ تو شرک فی العبادت ہے کیونکہ قربانی اور نذر و نیاز سب مالی عبادتیں ہیں۔ لہذا یہ عبادات کسی دوسرے کے لئے بجا لانا یا ان میں کسی دوسرے کو شریک کرنا عین شرک ہے۔ اسی لئے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تمہارا الٰہ تو صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ پھر دوسروں کو اس کی عبادت میں کیوں شریک بناتے ہو ؟[٥٣] یہاں لفظ مخبتین استعمال ہوا ہے۔ اور خبت النار بمعنی آگ کا شعلہ ختم ہوجانا اور کوئلہ یا انگارہ پر ساکھ کا پردہ چڑھ جاتا ہے۔ (مفردات القرآن) اور مخبت سے مراد ایسا شخص ہے جس نے اللہ کے احکام کے سامنے اپنے پندار نفس اور خواہشات نفس کو ختم کردیا ہو۔ نیز اس کے معنوں میں عاجزی اور نرمی اور تواضع سب کچھ شامل ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا : ” مَنْسَكًا “ کے تین معنی ہوسکتے ہیں، عبادت، عبادت کی جگہ اور قربانی۔ یہاں آخری معنی زیادہ موزوں ہے، کیونکہ آگے جانوروں پر اللہ کا نام لینے کا ذکر آ رہا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے بطور نیاز قربانی کرنا تمام آسمانی شریعتوں کے نظام عبادت کا لازمی جز رہا ہے۔ اسلام میں بھی یہ بطور عبادت مقرر کی گئی ہے، اس میں حاجی، غیر حاجی کی کوئی قید نہیں ہے۔ چناچہ انس (رض) بیان کرتے ہیں : ( ضَحَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ 8 بِکَبْشَیْنِ أَمْلَحَیْنِ فَرَأَیْتُہُ وَاضِعًا قَدَمَہُ عَلٰی صِفَاحِھِمَا یُسَمِّيْ وَیُکَبِّرُ فَذَبَحَھُمَا بِیَدِہٖ ) [ بخاري، الأضاحی، باب من ذبح الأضاحي بیدہ : ٥٥٥٨۔ مسلم : ١٩٦٦ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کیے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں رکھا اور ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ “ پڑھ کر ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ “ یاد رہے مکہ میں حج یا عمرہ پر کی جانے والی قربانی کو ہدی اور دوسرے مقامات پر کی جانے والی قربانی کو اضحیہ کہا جاتا ہے۔- 3 تفسیر ثنائی میں ہے : ” قرآن مجید کے اس دعویٰ (کہ ہر قوم میں قربانی کا حکم ہے) کا ثبوت آج بھی مذہبی کتب میں ملتا ہے۔ عیسائیوں کی بائبل تو قربانی کے احکام سے بھری پڑی ہے۔ تورات کی دوسری کتاب سفر خروج میں عموماً یہی احکام ہیں۔ تعجب تو یہ ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ہندوؤں اور آریوں کے مسلمہ پیشوا منوجی کہتے ہیں : ” یگیہ (قربانی) کے واسطے اور نوکروں کے کھانے کے واسطے اچھے ہرن اور پرند مارنا چاہیے۔ اگلے زمانے میں رشیوں نے یگیہ کے لیے کھانے کے لائق ہرن اور پکشیوں کو مارا ہے۔ شری برہماجی نے آپ سے آپ یگیہ (قربانی) کے واسطے پشو (حیوانوں) کو پیدا کیا۔ اس سے یگیہ جو قتل ہوتا ہے وہ بدھ نہیں کہلاتا۔ حیوان، پرند، کچھوا وغیرہ، یہ سب یگیہ کے واسطے مارے جانے سے اعلیٰ ذات کو دوسرے جنم میں پاتے ہیں۔ “ [ اوہیائے : ٥۔ شلوک : ٢٢، ٢٣، ٣٩، ٤٠ ] گو آج کل کے ہندو یا آریہ ایسے مقامات کی تاویل یا تردید کریں مگر صاف الفاظ کے ہوتے ہوئے ان کی تاویل کون سنتا ہے۔ اس جگہ ہم نے صرف یہ دکھانا تھا کہ قرآن شریف نے جو دعویٰ کیا ہے وہ بحمد اللہ اپنا ثبوت رکھتا ہے، باقی قربانی کی علت اور وجہ کے لیے ہماری کتب مباحثہ، حق پر کاش، ترک اسلام وغیرہ ملاحظہ ہوں۔ “ - لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ہمارے عطا کردہ پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام لے کر انھیں قربان کریں، نہ کہ کفار کی طرح ہمارے عطا کردہ چوپاؤں کو بتوں اور غیر اللہ کے آستانوں پر انھیں خوش کرنے کی نیت سے ذبح کریں۔ - فَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗٓ اَسْلِمُوْا : پہلی امتوں پر قربانی مقرر کرنے کے ذکر کے بعد اب ہماری امت کو خطاب ہے کہ پہلی امتوں کا الٰہ اور تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے، سو تم بھی پوری طرح اسی کے فرماں بردار ہوجاؤ اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کے سپرد کر دو اور اپنی ہر عبادت، جس میں قربانی بھی ہے، صرف اسی کے لیے کرو۔ اگر کسی اور کے لیے کرو گے تو اس کی عبادت میں شرک کے مجرم ٹھہرو گے۔ مگر اب بعض مسلمان کہلانے والوں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ عید الاضحی پر قربانی کو بھی عبد القادر جیلانی کی گیا رھویں قرار دے کر ان کے نام کا ختم دیتے ہیں، اس سے بڑھ کر شرک کیا ہوگا ؟ ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ :” الْمُخْبِتِيْنَ “ باب افعال ( إِخْبَاتٌ ) سے اسم فاعل ہے۔ ” خَبْتٌ“ نیچی جگہ کو کہتے ہیں۔ ” مُخْبِتٌ“ کا معنی نیچی جگہ میں چلنے والا ہے، پھر یہ لفظ استعارہ کے طور پر تواضع اور عاجزی کرنے والے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ بعض حضرات نے اسے ” خَبَتِ النَّارُ “ (آگ بجھ گئی) سے مشتق مانا ہے، حالانکہ اس کا اصل ” خ ب و “ ہے، جبکہ ” الْمُخْبِتِيْنَ “ کا اصل ” خ ب ت “ ہے۔ یعنی ان عاجزی کرنے والوں کو بشارت دے دے کہ جن کے ہاں اللہ کے حضور عاجزی ہی عاجزی ہے اور ذرہ بھر تکبر نہیں۔ یہاں مراد حج و عمرہ کے لیے آنے والے ہیں کہ ان کی کفن جیسی ان سلی چادروں، ننگے سروں، ان کی وضع قطع، ان کی لبیک کی صداؤں، منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات میں وقوف، ان کے طواف، سعی اور ان کی قربانیوں، غرض ہر چیز سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے پامال ہوچکے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (اوپر جو قربانی کا حرم میں ذبح کرنے کا حکم ہے اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ مقصود اصلی تعظیم حرم کی ہے بلکہ اصل مقصود اللہ ہی کی تعظیم اور اس کے ساتھ تقرب ہے اور نہ مذبوح اور مذبح اس کا ایک آلہ اور ذریعہ ہے اور تخصیص بعض حکمتوں کی وجہ سے ہے اور اگر یہ تخصیصات مقصود اصلی ہوتیں تو کسی شریعت میں نہ بدلتیں مگر ان کا بدلتا رہنا ظاہر ہے البتہ تقرب الی اللہ جو اصل مقصود تھا وہ سب شرائع میں محفوظ رہا چنانچہ) ہم نے (جتنے اہل شرائع گزرے ہیں ان میں سے) ہر امت کے لئے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطا فرمایا تھا (پس اصلی مقصود یہ نام لینا تھا) سو (اس سے یہ بات نکل آئی کہ) تمہارا معبود (حقیقی) ایک ہی خدا ہے (جس کا ذکر کر کے سب کو تقرب کا حکم ہوتا رہا) تو تم ہمہ تن اسی کے ہو کر رہو (یعنی موحد خالص رہو، کسی مکان وغیرہ کو معظم بالذات سمجھنے سے ذرہ برابر شرک کا شائبہ اپنے عمل میں نہ ہونے دو ) اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگ ہماری اس تعلیم پر عمل کریں) آپ (ایسے احکام الٰہیہ کے سامنے) گردن جھکا دینے والوں کو (جنت وغیرہ کی) خوشخبری سنا دیجئے جو (اس توحید خالص کی برکت سے) ایسے ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ (کے احکام وصفات اور وعدہ وعید) کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جو ان مصیبتوں پر کہ ان پر پڑتی ہیں صبر کرتے ہیں اور جو نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (بقدر حکم اور توفیق کے) خرچ کرتے ہیں (یعنی توحید خالص ایسی بابرکت چیز ہے کہ اس کی بدولت کمالات نفسانیہ و بدنیہ و مالیہ پیدا ہوجاتے ہیں) اور (اسی طرح اوپر جو تعظیم شعائر اللہ الخ میں بعض انتفاعات کا ممنوع ہونا معلوم ہوا ہے اس سے بھی ان قربانیوں کے معظم بالذات ہونے کا شبہ نہ کیا جاوے کیونکہ اس سے بھی اصل وہی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے دین کی تعظیم ہے اور یہ تخصیصات اس کا ایک طریق ہے پس) قربانی کے اونٹ اور گائے کو (اور اسی طرح بکری بھیڑ کو بھی) ہم نے اللہ (کے دین) کی یادگار بنایا ہے (کہ اس کے متعلق احکام کے علم اور عمل سے اللہ کی عظمت اور دین کی وقعت ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے نامزد چیز سے منتفع ہونے میں مالک مجازی کی رائے اہل اعتبار نہ رہے جس سے اس کی پوری عبدیت اور مالک حقیقی کی معبودیت ظاہر ہوتی ہے اور اس حکمت دینی کے علاوہ) ان جانوروں میں تمہارے (اور بھی) فائدے ہیں (مثلاً دنیوی فائدہ کھانا اور کھلانا اور اخروی فائدہ ثواب ہے) سو (جب اس میں یہ حکمتیں ہیں تو) تم ان پر کھڑے کر کے (ذبح کرنے کے وقت) اللہ کا نام لیا کرو (یہ صرف اونٹوں کے اعتبار سے فرمایا کہ ان کا کھڑے کر کے ذبح کرنا بوجہ آسانی ذبح و خروج روح کے بہتر ہے پس اس سے تو اخروی فائدہ یعنی ثواب حاصل ہوا اور نیز اللہ کی عظمت ظاہر ہوئی کہ اس کے نام پر ایک جان قربان ہوئی جس سے اس کا خالق اور اس کا مخلوق ہونا ظاہر کردیا گیا) پس جب وہ (کسی) کروٹ کے بل گر پڑیں (اور ٹھنڈے ہوجاویں) تو تم خود بھی کھاؤ اور بےسوال اور سوالی (محتاج) کو (جو کہ بائس فقیر کی دو قسمیں ہیں) بھی کھانے کو دو ۔ (کہ یہ دنیوی فائدہ بھی ہے اور) ہم نے ان جانوروں کو اس طرح تمہارے زیر حکم کردیا (کہ تم باوجود تمہارے ضعف اور ان کی قوت کے اس طرح اس کے ذبح پر قادر ہوگئے) تاکہ تم (اس تسخیر پر اللہ تعالیٰ کا) شکر کرو (یہ حکمت مطلق ذبح میں ہے۔ قطع نظر اس کی قربانی ہونے کے اور آگے ذبح کی تخصیصات کے مقصود بالذات نہ ہونے کو ایک عقلی قاعدے سے بیان فرماتے ہیں کہ دیکھو ظاہر بات ہے کہ) اللہ تعالیٰ کے پاس نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، و لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ (کہ نیت تقرب و اخلاص اس کے شعبوں میں سے ہے البتہ) پہنچتا ہے (پس وہی تعظیم الٰہی کی مقصودیت ثابت ہوگئی اور جیسے اوپر كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا الخ میں تسخیر کی ایک عام حکمت یعنی قربانی ہونے کی خصوصیت سے قطع نظر کرنے کے اعتبار سے بیان ہوئی تھی آگے تسخیر کی ایک خاص حکمت یعنی لحاظ قربانی ہونے کے ارشاد فرماتے ہیں کہ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارا زیر حکم کردیا کہ تم (اللہ کی راہ میں ان کو قربانی کر کے) اس بات پر اللہ کی بڑائی (بیان) کرو کہ اس نے تم کو (اس طرح قربانی کرنے کی) توفیق دی (ورنہ اگر توفیق الٰہی رہبر نہ ہوتی تو یا تو ذبح ہی میں شبہات نکال کر اس عبادت سے محروم رہتے اور یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے لگتے) اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اخلاص والوں کو خوشخبری سنا دیجئے (اس سے پہلے خوشخبری اخلاص کے شعبوں پر تھی یہ خاص اخلاص پر ہے)- معارف و مسائل - وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لفظ منسک اور نسک، عربی زبان کے اعتبار سے کئی معنے کے لئے بولا جاتا ہے۔ ایک معنی جانور کی قربانی کے دوسرے معنے تمام افعال حج کے اور تیسرے معنی مطلقاً عبادت کے ہیں۔ قرآن کریم میں مختلف مواقع پر یہ لفظ ان تین معنے میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں تینوں معنے مراد ہو سکتے ہیں اسی لئے ائمہ تفسیر میں سے مجاہد وغیرہ نے اس جگہ منسک کو قربانی کے معنے میں لیا ہے۔ اس پر معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں۔ پچھلی سب امتوں کے بھی ذمہ قربانی کی عبادت لگائی گئی تھی۔ اور قتادہ نے دوسرے معنے میں لیا ہے جس پر مراد آیت کی یہ ہوگی کہ افعال حج جیسے اس امت پر عائد کئے گئے ہیں پچھلی امتوں پر بھی حج فرض کیا گیا تھا۔ ابن عرفہ نے تیسرے معنے لئے ہیں اس اعتبار سے مراد آیت کی یہ ہوگی کہ ہم نے اللہ کی عبادت گزاری سب پچھلی امتوں پر بھی فرض کی تھی طریقہ عبادت میں کچھ کچھ فرق سب امتوں میں رہا ہے مگر اصل عبادت سب میں مشترک رہی ہے۔- وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ لفظ خبت عربی زبان میں پست زمین کے معنی میں آتا ہے اسی لئے خبیت اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے آپ کو حقیر سمجھے۔ اسی لئے حضرت قتادہ و مجاہد نے مخبتین کا ترجمہ مواضعین سے کیا ہے۔ عمرو بن اوس فرماتے ہیں کہ مخبتین وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر ظلم نہیں کرتے اور اگر کوئی ان پر ظلم کرے تو اس سے بدلہ نہیں لیتے۔ سفیان نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی قضاء و تقدیر پر راحت و کلفت فراخی اور تنگی ہر حال میں راضی رہتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝ ٠ۭ فَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ۝ ٣٤ۙ- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - نسك - النُّسُكُ : العبادةُ ، والنَّاسِكُ : العابدُ واختُصَّ بأَعمالِ الحجِّ ، والمَنَاسِكُ : مواقفُ النُّسُك وأعمالُها، والنَّسِيكَةُ : مُخْتَصَّةٌ بِالذَّبِيحَةِ ، قال : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] ، فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] ، مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] .- ( ن س ک ) النسک کے معنی عبادک کے ہیں اور ناسک عابد کو کہا جاتا ہے ، مگر یہ لفظ ارکان حج کے ادا کرنے کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ۔ المنا سک اعمال حج ادا کرنے کے مقامات النسیکۃ خاص کر ذبیحہ یعنی قربانی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں سے : ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صد قے دے یا قر بانی کرے ۔ فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ۔ مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں ۔- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - بهم - البُهْمَة : الحجر الصلب، وقیل للشجاع بهمة تشبيها به، وقیل لكلّ ما يصعب علی الحاسة إدراکه إن کان محسوسا، وعلی الفهم إن کان معقولا : مُبْهَم .- ويقال : أَبْهَمْتُ كذا فَاسْتَبْهَمَ ، وأَبْهَمْتُ الباب : أغلقته إغلاقا لا يهتدی لفتحه، والبَهيمةُ :- ما لا نطق له، وذلک لما في صوته من الإبهام، لکن خصّ في التعارف بما عدا السباع والطیر .- فقال تعالی: أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعامِ [ المائدة 1] ، ولیل بَهِيم، فعیل بمعنی مُفْعَل «3» ، قد أبهم أمره للظلمة، أو في معنی مفعل لأنه يبهم ما يعنّ فيه فلا يدرك، وفرس بَهِيم : إذا کان علی لون واحد لا يكاد تميّزه العین غاية التمييز، ومنه ما روي أنه : «يحشر الناس يوم القیامة بُهْماً» «4» أي : عراة، وقیل : معرّون مما يتوسّمون به في الدنیا ويتزینون به، والله أعلم .- والبَهْم : صغار الغنم، والبُهْمَى: نبات يستبهم منبته لشوکه، وقد أبهمت الأرض : كثر بهمها «5» ، نحو : أعشبت وأبقلت، أي : كثر عشبها .- ( ب ھ م ) البھمۃ کے معنی ٹھوس چنان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر بہادر آدمی کو بھمۃ کہا جاتا ہے نیز ہر وہ حسی یا عقلی چیز جسکا عقل و حواس سے ادراک نہ ہوسکے اسے مبھم کہا جاتا ہے ۔ ابھمت کذا مبہم کرنا اس کا مطاوع استبھم ہے ۔ ابھمت الباب دروازے کو اس طرح بند کرنا کہ کھل نہ سکے ۔ البھیمۃ چوپایہ جانور کیونکہ اس کی صورت مبہم ہوتی ہے ۔ مگر عرف میں درند اور پرند کے علاوہ باقی جانوروں کو بہیمہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعامِ [ المائدة 1] تمہارے لئے چار پاے جانور ( جو چرنے والے ہیں ) حلال کردیئے گئے ہیں ۔ سیاہ رات فعیل بمعنی مععل ہے اور تاریکی کے باعث اس کا معاملہ بھی چونکہ مبہم ہوتا ہے اس لئے اسے بھیم کہا جاتا ہے یا فعیل بمعنی مفعل ہے چونکہ وہ چیزوں کو اندر چھپا لیتی ہے اس لئے اسے بھیم کہا جاتا ہے فرس بھیم یک رنگ گھوڑا جس کی اچھی طرح پہچان نہ ہو سکے اسی سی ایک رایت میں ہے کے دن لوگ ننگے بدن اٹھیں گے بعض نے کہا ہے کہ دنیای زیب وزینت اور آرائش سے عاری ہوں گے واللہ اعلم "۔ البھم ۔ بھیڑ بکری کے بچے ۔ واحد بھمۃ البھمی ایک قسم کی گھاس میں جس کے پیچدار ہونے کی وجہ اس کی جڑیں معلوم نہیں ہوسکتیں کہ کہاں میں ابھمت الارج زمین میں بھمی گھاس کا بکثرت ہونا جیسا کہ کے معنی گھاس اور سبزی کے بکثرت ہونے کے ہیں ۔- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - خبت - الخَبْتُ : المطمئن من الأرض، وأَخْبَتَ الرّجل : قصد الخبت، أو نزله، نحو : أسهل وأنجد، ثمّ استعمل الإخبات استعمال اللّين والتّواضع، قال اللہ تعالی: وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود 23] - ( خ ب ت ) الخبت - ۔ نشیبی اور نرم زمین کو کہتے ہیں اور اخبت الرجل کے معنی نشیبی اور نرم زمین کا قصد کرنے یا وہاں اترنے کے ہیں ( جیسے اسھل وانجد ) اس کے بعد لفظ الاخبات ( افعال ) نرمی اور تواضع کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود 23] اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) اور ہم نے مسلمانوں میں ہر ایک کے لیے قربانی کرنا اور ان کے حج وعمرہ کے لیے قربانی کی جگہ اس لیے مقرر کی ہے تاکہ وہ ان حلال جانوروں پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطا کیے ہیں۔- سو تمہارا معبود ایک ہی اللہ وحدہ لاشریک ہے سو مؤحد خالص بن کر اسی کی عبادت کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ط) ” - اس کے ہر حکم کو تسلیم کرو اور اس کی مکمل اطاعت قبول کرو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف تو قربانی دی جا رہی ہو اور دوسری طرف حرام خوری بھی جا ری ہو۔ حرام کے مال سے ہی قربانی کے جانور خریدے جائیں اور پھر فوٹو بنوا کر اخباروں میں خبریں لگوائی جائیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے۔ اس کو معبود ماننا ہے تو پھر اس کی مکمل اطاعت قبول کرو اور اس کی حرام کردہ چیزوں میں منہ نہ مارو۔- (وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ ) ” - ” اخبات “ کے معنی اپنے آپ کو پست کرنے اور تواضع و انکساری اختیار کرنے کے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :64 اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ قربانی تمام شرائع الہٰیہ کے نظام عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے ۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیر اللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کر کے صرف اللہ کے لیے مختص کر دیا جائے ۔ مثلاً انسان نے غیر اللہ کے آگے رکوع و سجود کیا ہے ۔ شرائع الہٰیہ نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا ۔ انسان نے غیر اللہ کے آگے مالی نذرانے پیش کیے ہیں ۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں ممنوع کر کے زکوٰۃ و صدقہ اللہ کے لیے واجب کر دیا ۔ انسان نے معبودان باطل کی تیرتھ یاترا کی ہے ۔ شرائع الٰہیہ نے کسی نہ کسی مقام کو مقدس یا بیت اللہ قرار دے کر اس کی زیارت اور طواف کا حکم دے دیا ۔ انسان نے غیر اللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں ۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا ۔ ٹھیک اسی طرح انسان اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے جانوروں کی قربانیاں بھی کرتا رہا ہے اور شرائع الٰہیہ نے ان کو بھی غیر کے لیے قطعاً حرام اور اللہ کے یلے واجب کر دیا ۔ دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اصل چیز اللہ کے نام پر قربانی ہے نہ کہ اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کب کی جائے اور کہاں کی جائے اور کس طرح کی جائے ۔ ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اور ملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں ، مگر سب کی روح اور سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani