33۔ 1 وہ فائدہ، سواری، دودھ، مذید نسل اور اون وغیرہ کا حصول ہے۔ وقت مقرر مراد (ذبح کرنا) ہے یعنی ذبح نہ ہونے تک تمہیں ان سے مذکورہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور سے، جب تک وہ ذبح نہ ہوجائے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ایک آدمی ایک قربانی کا جانور اپنے ساتھ ہانکے لے جا رہا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا اس پر سوار ہوجا، اس نے کہا یہ حج کی قربانی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس پر سوار ہوجا۔ (صحیح بخاری) 33۔ 2 حلال ہونے سے مراد جہاں ان کا ذبح کرنا حلال ہوتا ہے۔ یعنی یہ جانور، مناسک حج کی ادائیگی کے بعد، بیت اللہ اور حرم مکی میں پہنچتے ہیں اور وہاں اللہ کے نام پر ذبح کر دئیے جاتے ہیں، پس مذکورہ فوائد کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اور اگر وہ ایسے ہی حرم کے لئے قربانی دی جاتی ہے، تو حرم میں پہنچتے ہی ذبح کردیئے جاتے ہیں اور فقراء مکہ میں ان کا گوشت تقسیم کردیا جاتا ہے۔
[٥١] یہ مقررہ وقت وہ وقت ہے جب قربانی کا جانور حرم کی حدود میں یا مذبح میں پہنچ جائے۔ اس سے ان قربانی کے جانوروں سے یہی کئی طرح کے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلاً بوقت ضرورت ان پر سوار ہونا، ان کا دودھ دوہنا، ان کی اون حاصل کرنا ان سے نسل چلانا وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ اسی سورة کی آیت نمبر ٢٩ کے تحت درج شدہ حدیث نمبر ١٧ سے واضح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کا جانور ہانکنے والے ایک شخص کو اس پر سوار ہوجانے کا تاکید سے حکم دیا تھا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں سے فائدہ حاصل کرنا تعظیم کے منافی نہیں بلکہ تعظیم کا تعلق دل سے ہے۔ دل میں ان اشیاء کی محبت اور قدر ضرور ہونی چاہئے۔ نیز قربانی کے جانوروں سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرنا مشرکوں کا کام تھا کہ جس جانور کو کسی بت کے نام منسوب کرتے تو اس سے کچھ فائدہ حاصل کرنے کو گناہ سمجھتے تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی۔- بعض مفسرین نے مقررہ وقت سے مراد یہ لی ہے کہ جب تک جانور کو اللہ کے نام منسوب نہ کردیا جائے یا ہدیٰ نہ بنادیا جائے۔ یہ مراد اس لئے درست نہیں کہ اللہ کے نام منسوب کرنے سے تو فوائد حاصل نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر اس آیت میں اجازت کس چیز کی دی جارہی ہے نیز محولہ بالا حدیث بھی اس اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہے۔
لَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى : فائدوں سے مراد ان کی سواری کرنا، ان کا دودھ پینا، ان سے نسل اور اون حاصل کرنا ہے، اسی طرح ان کے گوبر وغیرہ کو ایندھن یا کھاد کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ مشرکین جس طرح قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے اسی طرح قربانی کے جانوروں سے اون، دودھ یا سواری وغیرہ کا فائدہ اٹھانا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانوروں سے اس وقت تک فائدہ اٹھانا جائز ہے جب تک انھیں قربانی کے لیے نامزد نہ کیا جائے، اس کے بعد سواری یا دودھ یا اون کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ” شعائر اللہ “ سے فائدہ اٹھانا بطور احسان ذکر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ قربانی کے لیے نامزد ہونے کے بعد ہی جانور ” شعائر اللہ “ میں شامل ہوتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے : ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلاً یَسُوْقُ بَدَنَۃً فَقَالَ ارْکَبْھَا فَقَالَ إِنَّھَا بَدَنَۃٌ فَقَالَ ارْکَبْھَا قَالَ إِنَّھَا بَدَنَۃٌ قَالَ ارْکَبْھَا وَیْلَکَ ) [ بخاري، الحج، باب رکوب البدن : ١٦٨٩۔ مسلم، : ١٣٢٣ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو ایک بدنہ (قربانی کے لیے مکہ جانے والا اونٹ) ہانک کرلے جاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ” اس پر سوار ہوجاؤ۔ “ اس نے کہا : ” یہ بدنہ ہے۔ “ فرمایا : ” اس پر سوار ہوجاؤ۔ “ اس نے کہا : ” یہ بدنہ ہے۔ “ فرمایا : ” اس پر سوار ہوجاؤ، افسوس ہو تم پر۔ “ جابر (رض) کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِرْکَبْھَا بالْمَعْرُوْفِ إِذَا أُلْجِءْتَ إِلَیْھَا حَتّٰی تَجِدَ ظَھْرًا ) [ مسلم، الحج، باب جواز رکوب البدنۃ ۔۔ : ١٣٢٤ ] ” اس پر اس طرح سوار ہوجاؤ کہ اسے تکلیف نہ دو ، جب تمہیں اس کی ضرورت پڑجائے، یہاں تک کہ تمہیں کوئی اور سواری مل جائے۔ “ - ابن کثیر نے شعبہ عن زہیر بن ابی ثابت الاعمی عن مغیرہ بن حذف کی سند سے علی (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو بدنہ ہانک کرلے جاتے ہوئے دیکھا، جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، فرمایا : ” اس کا دودھ صرف اتنا پیو جو اس کے بچے سے زائد ہو اور جب یوم النحرہو تو اسے اور اس کے بچے کو ذبح کر دو ۔ “ یہ علی (رض) کا قول ہے اور تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا، مجھے مغیرہ بن حذف کے حالات نہیں ملے اور متن میں بچے کو ذبح کرنے کی بات غریب (انوکھی) ہے۔- ثُمَّ مَحِلُّهَآ اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : ” مَحِلُّهَآ “ اترنے کی جگہ۔ حلال ہونے کی جگہ سے مراد یہ ہے کہ جہاں آخر قربانی کے جانوروں کو پہنچنا ہے اور نحر یا ذبح ہونا ہے وہ بیت عتیق (کعبہ) ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : ( هَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ ) [ المائدۃ : ٩٥ ] یعنی قربانی کا ایسا جانور جو کعبہ تک پہنچنے والا ہو۔ ان دونوں آیتوں میں کعبہ سے مراد حرم کعبہ ہے، کیونکہ عین کعبہ میں تو قربانی نہیں کی جاتی، قربانی تو اس کے باہر کی جاتی ہے، چناچہ پورے مکہ یا منیٰ میں جہاں بھی قربانی کی جائے درست ہے۔ جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُلُّ عَرَفَۃَ مَوْقِفٌ وَکُلٌّ مِنًی مَنْحَرٌ وَکُلُّ الْمُزْدَلِفَۃِ مَوْقِفٌ وَکُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃَ طَرِیْقٌ وَ مَنْحَرٌ ) [ أبوداوٗد، المناسک، باب الصلاۃ بجمع : ١٩٣٧ ] ” عرفہ پورا وقوف کی جگہ ہے، منیٰ پورا نحر کی جگہ ہے اور مزدلفہ پورا وقوف کی جگہ ہے اور مکہ کی تمام سڑکیں راستہ ہیں اور نحر کی جگہ ہیں۔ “ ہمارے استاذ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ ” مَحِلُّهَآ “ میں ” ھَا “ ضمیر سے مراد سارے شعائر ہوں، تو مطلب یہ ہوگا کہ آخر ان تمام مناسک کا خاتمہ بیت اللہ کے طواف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ معنی زیادہ مناسب ہے، ورنہ خصوصیت کے ساتھ ” بیت عتیق “ کہنے کا فائدہ واضح نہیں رہے گا۔ (قرطبی)
لَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى، یعنی چوپائے جانوروں سے دودھ، سواری، باربرداری ہر قسم کے منافع حاصل کرنا تمہارے لئے اس وقت تک تو حلال ہے جب تک ان کو حرم مکہ میں ذبح کرنے کے لئے نامزد کر کے ہدی نہ بنا لیا ہو۔ ہدی اسی جانور کو کہتے ہیں جو حج یا عمرہ کرنے والا اپنے ساتھ کوئی جانور لے جائے کہ اس کو حرم شریف میں ذبح کیا جائے گا۔ جب اس کو ہدی حرم کے لئے نامزد اور مقرر کردیا تو پھر اس سے کسی قسم کا نفع اٹھانا بغیر کسی خاص مجبوری کے جائز نہیں جیسے اونٹ کو ہدی بنا کر ساتھ لیا اور خود پیدل چل رہا ہے سواری کے لئے کوئی دوسرا جانور موجود نہیں اور پیدل چلنا اس کے لئے مشکل ہوجائے تو مجبوری اور ضرورت کی بناء پر اس وقت سوار ہونے کی اجازت ہے۔- ثُمَّ مَحِلُّهَآ اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ ، یہاں بیت عتیق سے مراد پورا حرم شریف ہے جو درحقیقت بیت اللہ ہی کا حریم خاص ہے جیسے سابقہ آیت میں مسجد حرام کے لفظ سے پورا حرم مراد لیا گیا، یہاں بیت عتیق کے لفظ سے بھی پورا حرم مراد ہے اور محلھا میں محل کے معنے موضع حلول اجل کے ہیں مراد اس سے موضع ذبح ہے یعنی ہدی کے جانوروں کے ذبح کرنے کا مقام بیت عتیق کے پاس ہے اور مراد پورا حرم ہے کہ وہ بیت عتیق ہی کے حکم میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہدی کا ذبح کرنا حرم کے اندر ضروری ہے حرم سے باہر جائز نہیں۔ اور پھر حرم عام ہے خواہ منحر منیٰ ہو یا مکہ مکرمہ کی کوئی اور جگہ ہو (روح المعانی)
لَكُمْ فِيْہَا مَنَافِعُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّہَآ اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ ٣٣ۧ- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- عتق - العَتِيقُ : المتقدّم في الزمان، أو المکان، أو الرّتبة، ولذلک قيل للقدیم : عَتِيقٌ ، وللکريم عَتِيقٌ ، ولمن خلا عن الرّقّ : عَتِيقٌ. قال تعالی: وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج 29] ، قيل : وصفه بذلک لأنه لم يزل مُعْتَقاً أن تسومه الجبابرة صغارا «4» . والعَاتِقَانِ : ما بين المنکبين، وذلک لکونه مرتفعا عن سائر الجسد، والعَاتِقُ : الجارية التي عُتِقَتْ عن الزّوج، لأنّ المتزوّجة مملوکة . وعَتَقَ الفرسُ : تقدّم بسبقه، وعَتَقَ منّي يمينٌ: تقدّمت، قال الشاعر :- 309-- عليّ أليّة عَتُقَتْ قدیما ... فلیس لها وإن طلبت مرام - ( ع ت ق ) العتیق کے معنی المتقدم یعنی پیش روکے ہیں خواہ اس کا تقدم زبان کے اعتبار سے ہو خواہ مکان یارتبہ کے اعتبار سے اس لحاظ سے العتیق کے معنی کہنہ نجیب اور آزاد شدہ غلام بھی آجاتے ہیں ۔ لہذا آیت کریمہ : ۔ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج 29] اور خانہ قدیم ( یعنی بیت اللہ ) کا طواف کریں ۔ میں خانہ کعبہ کو العتیق کہنے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ جبابرۃ کے پنجہ ستم سے ہمیشہ آزاد رہا ہے اور جابر سے جابر بادشاہ بھی اس کے مرتبہ کو پست نہیں کرسکا العاتقان دونوں طرف سے کندھوں اور گردن کے درمیانی حصے کو کہتے ہیں کیونکہ بدن کا یہ حصہ بھی باقی جسم سے بلند ہوتا ہے عاتق اس عورت کو بھی کہا جاتا ہے جو حبالہ نکاح سے آزاد ہو کیونکہ شادی شدہ عورت ایک طرح سے خاوند کی ملک میں ہوتی ہے عتق الفرس گھوڑے کا دوڑ میں آگے بڑھ جانا عتق منی یمین ۔ قسم کا واجب ہونا شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 301 ) علی الیہ عتقت قدیما ولیس لھا وان طلیت مرام مجھ پر عرصہ قدیم سے قسم واجب ہوچکی ہے اور اسے پورا کرنے سے چارہ کار نہیں ۔
قربانی کے اونٹ کی سواری کا بیان - قول باری ہے (لکم فیھا منافع الی اجل مسمی تمہیں ایک وقت مقرر تک ان (ہدی کے جانوروں) سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے) حضرت ابن عباس، ابن عمر مجاہد اور قتادہ کا قول ہے ۔ تمہیں ان جانوروں کے دودھ ا ن کی اون اور ان کی سواری سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے یہاں تک کہ انہیں قربانی کے لئے مقرر کردیا جائے۔ پھر ان کے قربان کرنے کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے۔ “ محمد بن کعب القرظی سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ۔ عطاء کا قول ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے گا۔ یہاں تک کہ ان کی قربانی کردی جائے۔ عروہ بن الزبیر کا بھی یہی قول ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس اور آپ کے ہم مسلک حضرات اس پر متفق ہیں کہ قول باری (الی اجل مسمی ) سے مراد یہ ہے کہ ان جانوروں کو قربانی کے لئے مقرر کرلیا جائے۔” اجل مسمی کا ان حضرات کے نزدیک یہی مفوہم ہے۔ اس کے بعد ان کی سواری کو ان حضرات نے پسند کیا ہے۔ عطاء بن ابی رباح اور ان کے ہم مسلک حضرت ا کہنا ہے کہ بدنہ یعنی قربانی کے لئے متعین ہونے کے بعد ان کی سواری ہوسکتی ہے۔ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ اس پر سواری کرے گا لیکن اسے گرانبار نہیں بنائے گا۔ اس کے بچے سے جو دودھ بچے گا اسے دودھ لے گا۔ اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات منقول ہیں جن سے وہ حضرات استدلال کرتے ہیں جو ایسے جانوروں کی سواری کی اباحت کے قائل ہیں۔ حضرت ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو بدنہ یعنی قربانی کا اونٹ ہنکا کرلے جاتے ہوئے دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” بھلے آدمی اس پر سوار ہو جائو۔ “ اس نے جواب دیا۔” یہ بدنہ ہے۔ “ آپ نے پھر فرمایا ” بھلے آدمی اس پر سوار ہو جائو۔ “ شعبہ نے قتادہ سے، انہوںں نے حضرت انس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ روایت اس پر محمول ہے کہ آپ نے ضرورت کی بنا پر اس پر سوار ہونے کی اباحت کردی تھی۔ آپ کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ اس شخص کو اس کی سواری کی ضرورت ہے۔ یہ بات دوسری بہت سی روایات میں بیان کردی گئی ہے۔- ان میں سے ایک روایت وہ ہے جس کے راوی اسماعیل بن جعفر ہیں، انہوں نے حمید سے اور انہوںں نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گذر ایک شخص پر ہوا جو اپنے ساتھ بدنہ لئے جا رہا تھا لیکن خود پیدل چل رہا تھا، اس پر تھکن کے آثار واضح تھے آپ نے اس سے سوار ہونے کے لئے فرمایا۔ اس نے جواب میں عرض کیا کہ یہ بدنہ ہے۔ لیکن آپ نے پھر فرمایا ” اس پر سوار ہو جائو۔ “ حضرت جابر سے قربانی کے جانور پر سوار ہونے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا :” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تمہیں اس پر سوار ہونے کی مجبوری پیش آ جائے تو اس وقت تک معروف طریقے سے اس کی سواری کرو جب تک تمہیں کوئی اور سواری نہ مل جائے۔ “ ابن جریج نے ابوالزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” میں نے ہدی کی سواری کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تمہیں اس کی ضرورت پیش آ جائے تو دوسری سواری ملنے تک اس پر معروف طریقے سے سوار رہو۔ “ ان روایات میں یہ بیان کردیا گیا کہ قربانی کے جانور پر سوار ہونے کی اباحت بشرط ضرورت ہے۔ وہ اس کے منافع کا مالک نہیں ہوتا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ وہ اسے سواری کی خاطر کرائے پردے نہیں سکتا۔ اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر وہ اس کے منافع کا مالک ہوتا تو اسے کرائے پر دینے کے لئے عقد اجارہ کا بھی مالک ہوتا جس طرح وہ اپنی دوسری تمام مملوکہ اشیاء کے منافع کا مالک ہوتا ہے۔- ہدی کے قربان ہونے کی جگہ کا بیان - قول باری ہے (واحلت لکم الانعام الا مایتلی علیکم) تاقول باری (لکم فیھا منافع الی اجل مسمی ثم محلھا الی البیت العتیق ) یہ بات تو واضح ہے کہ آیت میں مراد وہ جانور ہیں جو بطور ہدی یا بدنہ متعین ہوجائیں یا وہ جانور مراد ہیں جنہیں اپنے ذمہ عائد شدہ واجب کی ادائیگی کے لئے ہدی بنایا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ایسے جانور جن کے یہ اوصاف ہوں ان کے قربان ہونے کی جگہ قدیم گھر کے پاس ہے۔ بیت سے یہاں سارا حرم مراد ہے کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ قربانی کے جانور نہ تو بیت اللہ کے پاس اور نہ ہی مسجد حرام کے اندر ذبح کئے جاتے ہیں، جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ سارا حرم مراد ہے اور بیت اللہ کے ذکر سے پورے حرم کی تعبیر مراد ہے۔ اس لئے کہ پورے حرم کی حرمت کا تعلق بیت اللہ کے وجود کے ساتھ ہے۔ اسامہ بن زید نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (عرفۃ کلھا موقف، وضی کلھا منحروکل فجاج مکۃ طریق و منحر، سارا عرفات جائے وقوف ہے، سارا منی بائے ذبح ہے۔ مکہ کے تمام درے (پہاڑی راستے) جائے ذبح اور راہیں ہیں۔ آیت کا عموم اس امر کا مقتضی ہے کہ تمام ہدایا یعنی قربانی کے جانوروں کی قربانی کی جگہ حرم ہو اور حرم سے باہر ذبح کی صورت میں اس کی ادائیگی نہ ہو۔ اس لئے کہ آیت نے ان ہدایا کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔- احصار کی بنا پر بھیجے جانے والے قربانی کے جانور کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس کے قربان ہونے کی جگہ بھی حرم ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (ولا تحلقوا رئو وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ اور تم اپنے سر نہ مونڈو جب تک ہدی اپنے قربان ہونے کی جگہ پر نہ پہنچ جائے) اس آیت میں قربان ہونے کی جگہ مجمل تھی یکن جب یہ ارشاد ہوا (ثم محلھا الی البیت الغیق) تو پہلی آیت کے اجمال کی اس آیت میں تفصیل بیان ہوگئی ۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ احصار کی بناء پر بھیجے جانے والے جانور کی قربانی بھی حرم میں ہو۔ ان تمام ہدایا کے متعلق فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے جن کا وجوب احرام کی وجہ سے ہتا ہے۔ مثلاً شکار کرنے کا جرمانہ، سر کی تکلیف پر لازم ہونے والا فدیہ اور دم تمتع وغیرہ، سب کے نزدیک ان ہدایا کے قربان ہونے کی جگہ حرم ہے۔ اس لئے احصار کی بنا پر بھیجے جانے والے ہدی کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے اس لئے کہ اس کے وجوب کا تعلق بھی احرام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے اسے بھی حرم کے اندر ہی قربان ہونا چاہیے۔
(٣٣) تمہیں ان جانوروں سے ان پر سواری کر کے اور ان کے دودھ سے فوائد حاصل کرنا جائز ہے جب تک کہ شرعی قاعدے سے تم ان کو قربانی کے لئے وقف نہ کردو اور پھر اس کے حلال ہونے کا موقع بیت عتیق کے قریب ہیں یعنی کل حرم کہ حج کی قربانی منی میں ذبح کی جائے گی۔
آیت ٣٣ (لَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی) ” - یعنی قربانی کے جانوروں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے۔ مثلاً ان پر سواری کی جاسکتی ہے ‘ ان کی اون وغیرہ کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے ‘ دودھ پیا جاسکتا ہے اور اس طرح کے دوسرے فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔- (ثُمَّ مَحِلُّہَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ) ” - یعنی پھر قربانی کے دن ان جانوروں کو لے جا کر بیت اللہ میں پیش کرنا ہے۔ اصل ” مَنْحَر “ (قربان گاہ) تو بیت اللہ ہی ہے ‘ مگر اسے منیٰ تک وسعت دے دی گئی ہے۔ پرانے زمانے میں قربان گاہ مروہ کی پہاڑی کے پاس ہوا کرتی تھی اور منیٰ کے جس علاقے میں آج کل قربانی کی جاتی ہے وہ بھی دراصل اسی وادی میں شامل ہے جو مروہ سے شروع ہوتی ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :62 پہلی آیت میں شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے اور اسے دل کے تقویٰ کی علامت ٹھہرانے کے بعد یہ فقرہ ایک غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ شعائر اللہ میں ہدی کے جانور بھی داخل ہیں ، جیسا کہ اہل عرب مانتے تھے اور قرآن خود بھی آگے چل کر کہتا ہے کہ وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللہِ ، اور ان بدی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کا جو حکم اوپر دیا گیا ہے کیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ بدی کے جانوروں کو بیت اللہ کی طرف جب لے جانے لگیں تو ان کو کسی طرح بھی استعمال نہ کیا جائے ؟ ان پر سواری کرنا ، یا سامان لادنا ، یا ان کے دودھ پینا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف تو نہیں ہے ؟ عرب کے لوگوں کا یہی خیال تھا ۔ چنانچہ وہ ان جانوروں کو بالکل کوتَل لے جاتے تھے ۔ راستے میں ان سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا ان کے نزدیک گناہ تھا ۔ اسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ قربانی کی جگہ پہنچنے تک تم ان جانوروں سے فائدہ اٹھا سکتے ہو ، ایسا کرنا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف نہیں ہے ۔ یہی بات ان احادیث سے معلوم ہوتی ہے جو اس مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت اَنَس سے مروی ہیں ۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلا جارہا ہے اور سخت تکلیف میں ہے ۔ آپ نے فرمایا اس پر سوار ہو جا ۔ اس نے عرض کیا یہ ہَدی کا اونٹ ہے ۔ آپ نے فرمایا ارے سوار ہو جا ۔ مفسرین میں سے ابن عباس ، قتادہ ، مجاہد ، ضحاک اور عطاء خراسانی اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں ایک وقت مقرر تک سے مراد جب تک کہ جانور کو قربانی کے لیے نامزد اور ہدی سے موسوم نہ کر دیا جائے ہے ۔ اس تفسیر کی رو سے آدمی ان جانوروں سے صرف اس وقت تک فائدہ اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ اسے ہدی کے نام سے موسوم نہ کر دے ۔ اور جونہی کہ وہ اسے ہدی بنا کر بیت اللہ لے جانے کی نیت کر لے ، پھر اسے کوئی فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رہتا ۔ لیکن یہ تفسیر کسی طرح صحیح نہیں معلوم ہوتی ۔ اول تو اس صورت میں استعمال اور استفادے کی اجازت دینا ہی بے معنی ہے ۔ کیونکہ ہدی کے سوا دوسرے جانوروں سے استفادہ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک پیدا ہی کب ہوا تھا کہ اسے اجازت کی تصریح سے رفع کرنے کی ضرورت پیش آتی ۔ پھر آیت صریح طور پر کہہ رہی ہے کہ اجازت ان جانوروں کے استعمال کی دی جا رہی ہے جن پر شعائر اللہ کا اطلاق ہو ، اور ظاہر ہے کہ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ انہیں ہدی قرار دے دیا جائے ۔ دوسرے مفسرین ، مثلاً عُروہ بن زبیر اور عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ وقت مقرر سے مراد قربانی کا وقت ہے ۔ قربانی سے پہلے ہدی کے جانوروں کو سواری کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں ، ان کے دودھ بھی پی سکتے ہیں اور ان کا اون ، صوف ، بال وغیرہ بھی اتار سکتے ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے ۔ حنیفہ اگرچہ پہلی تفسیر کے قائل ہیں ، لیکن وہ اس میں اتنی گنجائش نکال دیتے ہیں کہ بشرط ضرورت استفادہ جائز ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :63 جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ھَدْیاً بَالِغَ الْکَعْبَۃِ ( المائدہ ۔ آیت 95 ) اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کعبہ پر ، یا مسجد حرام میں قربانی کی جائے ، بلکہ حرم کے حدود میں قربانی کرنا مراد ہے ۔ یہ ایک اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآن کعبہ ، یا بیت اللہ ، یا مسجد حرام بول کر بالعموم حرم مکہ مراد لیتا ہے نہ کہ صرف وہ عمارت ۔
20: یعنی جب تک تم نے ان جانوروں کو حج کی قربانی کے لئے خاص نہ کرلیا ہو، اُس وقت تک تم اُن سے ہر طرح کے فوائد حاصل کرسکتے ہو، اُن پر سواری کرنا بھی جائز ہے، اُن کا دودھ پینا بھی، اُن کے جسم سے اُون حاصل کرنا بھی، لیکن جب انہیں حج کے لئے خاص کرلیا گیا تو پھر ان میں سے کوئی کام جائز نہیں رہتا۔ اس کے بعد تو انہیں بیت اللہ کے آس پاس یعنی حدودِ حرم میں ذبح کر کے حلال کرنا ہی واجب ہے، اور حج کے لئے خاص کرنے کی مختلف علامتیں ہیں جن کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔