قربانی کے جانور اور حجاج اللہ کے شعائر کی جن میں قربانی کے جانور بھی شامل ہیں حرمت وعزت بیان ہو رہی ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنا اللہ کے فرمان کی توقیر کرنا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ یعنی قربانی کے جانوروں کو فربہ اور عمدہ کرنا ۔ سہل کا بیان ہے کہ ہم قربانی کے جانوروں کو پال کر انہیں فربہ اور عمدہ کرتے تھے تمام مسلمانوں کا یہی دستور تھا ( بخاری شریف ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دو سیاہ رنگ کے جانوروں کے خون سے ایک عمدہ سفید رنگ جانور کا خون اللہ کو زیادہ محبوب ہے ۔ ( مسند احمد ، ابن ماجہ ) پس اگرچہ اور رنگت کے جانور بھی جائز ہیں لیکن سفید رنگ جانور افضل ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے چت کبرے بڑے بڑے سینگوں والے اپنی قربانی میں ذبح کئے ۔ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مینڈھا بڑا سینگ والا چت کبرا ذبح کیا جس کے منہ پر آنکھوں کے پاس اور پیروں پر سیاہ رنگ تھا ۔ ( سنن ) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے صحیح کہتے ہیں ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے بہت موٹے تازے چکنے چت کبرے خصی ذبح کئے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہم قربانی کے لئے جانور خریدتے وقت اس کی آنکھوں کو اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ بھال لیا کریں ۔ اور آگے سے کٹے ہوئے کان والے پیچھے سے کٹے ہوئے کان والے لمبائی میں چرے ہوئے کان والے یا سوراخ دار کان والے کی قربانی نہ کریں ( احمد اہل سنن ) اسے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ صحیح کہتے ہیں ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے اس کی شرح میں حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب کہ آدھایا آدھے سے زیادہ کان یا سینگ نہ ہو ۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں اگر اوپر سے کسی جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عربی میں قصما کہتے اور جب نیچے کا حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عضب کہتے ۔ اور حدیث میں لفظ عضب ہے اور کان کا کچھ حصہ کٹ گیا ہو تو اسے بھی عربی میں عضب کہتے ہیں ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایسے جانور کی قربانی گو جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جائز ہی نہیں ۔ ( بظاہر یہی قول مطابق حدیث ہے ) امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر سینگ سے خون جاری ہے تو جائز نہیں ورنہ جائز ہے واللہ اعلم ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ چار قسم کے عیب دار جانور قربانی میں جائز نہیں کانا جانور جس کا بھینگا پن ظاہر ہو اور وہ بیمار جانور جس کی بیماری کھلی ہوئی ہو اور وہ لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور وہ دبلا پتلا مریل جانور جو گودے کے بغیر کا ہوگیا ہو ۔ ( احمد اہل سنن ) اسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں ۔ یہ عیوب وہ ہیں جن سے جانور گھٹ جاتا ہے ۔ اس کا گوشت ناقص ہوجاتا ہے اور بکریاں چرتی چگتی رہتی ہیں اور یہ بوجہ اپنی کمزوری کے چارہ پورہ نہیں پاتا اسی لئے اس حدیث کے مطابق امام شافعی وغیرہ کے نزدیک اس کی قربانی ناجائز ہے ہاں بیمار جانور کے بارے میں جس کی بیماری خطرناک درجے کی نہ ہو بہت کم ہو امام صاحب کے دونوں قول ہیں ۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا بالکل سینگ کٹے جانور سینگ ٹوٹے جانور اور کانے جانور سے اور بالکل کمزور جانور سے جو ہمیشہ ہی ریوڑ کے پیچھے رہ جاتا ہو بوجہ کمزوری کے یا بوجہ زیادہ عمر کے اور لنگڑے جانور سے پس ان کل عیوب والے جانوروں کی قربانی ناجائز ہے ۔ ہاں اگرقربانی کے لئے صحیح سالم بےعیب جانور مقرر کردینے کے بعد اتفاقا اس میں کوئی ایسی بات آجائے مثلا لولا لنگڑا وغیرہ ہوجائے تو حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی قربانی بلاشبہ جائز ہے ، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اس کے خلاف ہیں ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد میں حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قربانی کے لئے جانور خریدا اس پر ایک بھیڑیے نے حملہ کیا اور اس کی ران کا بوٹا توڑ لیا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم اسی جانور کی قربانی کرسکتے ہو ۔ پس خریدتے وقت جانور کا فربہ ہونا تیار ہونا بےعیب ہونا چاہئے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ آنکھ کان دیکھ لیا کرو ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نہایت عمدہ اونٹ قربانی کے لئے نامزد کیا لوگوں نے اس کی قیمت تین سو اشرفی لگائیں تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے بیچ دوں اور اس کی قیمت سے اور جانور بہت سے خرید لوں اور انہیں راہ للہ قربان کروں آپ نے منع فرمادیا اور حکم دیا کہ اسی کو فی سبیل اللہ ذبح کرو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قربانی کے اونٹ شعائر اللہ میں سے ہیں ۔ محمد بن ابی موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں عرفات میں ٹھہرنا اور مزدلفہ اور رمی جمار اور سر منڈوانا اور قربانی کے اونٹ یہ سب شعائر اللہ ہیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان سب سے بڑھ کر بیت اللہ شریف ہے ۔ پھر فرماتا ہے ان جانوروں کے بالوں میں ، اون میں تمہارے لئے فوائد ہیں ان پر تم سوار ہوتے ہو ان کی کھالیں تمہارے لئے کار آمد ہیں ۔ یہ سب ایک مقررہ وقت تک ۔ یعنی جب تک اسے راہ للہ نامزد نہیں کیا ۔ ان کا دودھ پیو ان سے نسلیں حاصل کرو جب قربانی کے لئے مقرر کردیا پھر وہ اللہ کی چیز ہوگیا ۔ بزرگ کہتے ہیں اگر ضرورت ہو تو اب بھی سواری کی اجازت ہے ۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک شخص کو اپنی قربانی کا جانور ہانکتے ہوئے دیکھ کر آپ نے فرمایا اس پر سوار ہوجاؤ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے قربانی کی نیت کا کرچکا ہوں ۔ آپ نے دوسری یا تیسری بار فرمایا افسوس بیٹھ کیوں نہیں جاتا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے جب ضرورت اور حاجت ہو تو سوار ہوجایا کرو ۔ ایک شخص کی قربانی کی اونٹنی نے بچہ دیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے حکم دیا کہ اس کو دودھ پیٹ بھر کر پی لینے دے پھر اگر بچ رہے تو خیر تو اپنے کام میں لا اور قربانی والے دن اسے اور اس بچے کو دونوں کو بنام اللہ ذبح کردے ۔ پھر فرماتا ہے ان کی قربان گاہ بیت اللہ شریف ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( هَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ 95 ) 5- المآئدہ:95 ) اور آیت میں ( وَالْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ 25 ) 48- الفتح:25 ) بیت العتیق کے معنی اس سے پہلے ابھی ابھی بیان ہوچکے ہیں فالحمد للہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بیت اللہ کا طواف کرنے والا احرام سے حلال ہوجاتا ہے ۔ دلیل میں یہی آیت تلاوت فرمائی ۔
32۔ 1 شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت اور نشانی کے ہیں جیسے جنگ میں ایک شعار (مخصوص لفظ بطور علامت) اختیار کرلیا جاتا ہے جس سے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانتے ہیں اس اعتبار سے شعائر اللہ وہ ہیں، جو جو اسلام کے نمایاں امتیازی احکام ہیں، جن سے ایک مسلمان کا امتیاز اور تشخص قائم ہوتا ہے اور دوسرے اہل مذاہب سے الگ پہچان لیا جاتا ہے، صفا، مروہ پہاڑیوں کو بھی اس لئے شعائر اللہ کہا گیا ہے کہ مسلمان حج و عمرے میں ان کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ یہاں حج کے دیگر مناسک خصوصاً قربانی کے جانوروں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ اس تعظیم کو دل کا تقوٰی قرار دیا گیا ہے۔ یعنی دل کے ان افعال سے جن کی بنیاد تقوٰی ہے۔
[٥٠] یعنی جس شخص کے دل میں اللہ کا تقویٰ اور اللہ کی محبت جاگزیں ہو وہ ان چیزوں کا ضرور ادب کرے گا جو اس کے نام سے منسوب ہیں یا جنہیں شعائر اللہ کہا جاتا ہے۔ ان چیزوں کی توہین یا بےحرمتی، بےادبی وہی شخص کرسکتا ہے۔ جس کے دل میں نہ اللہ کا خوف ہو اور نہ اس کی محبت ہو۔ واضح رہے کہ اللہ کے نام منسوب کردہ اشیاء کی تعظیم باادب کرنا شرک نہیں بلکہ عین توحید ہے۔ شرک یہ ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں کے نام منسوب کردہ چیزوں کا ایسے ہی ادب و احترام کیا جائے جیسا کہ اللہ کی طرف منسوب اشیاء کا کیا جاتا ہے۔
ذٰلِكَ ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ ۔۔ :” ذٰلِكَ “ کی تفسیر آیت (٣٠) میں ملاحظہ فرمائیں۔” شَعَاۗىِٕرَ “ ” شَعِیْرَۃٌ“ کی جمع ہے، اسم فاعل بمعنی ” مُشْعِرَۃٌ“ ہے، جس سے کسی چیز کا شعور ہو (نشانیاں) ، یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا شعور دلانے کے لیے مقرر کر رکھی ہیں، جو شخص ان کی تعظیم کرے گا تو اس کا باعث دلوں کا تقویٰ ہے، یعنی جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہوگا وہ ان کی تعظیم ضرور کرے گا۔ ہر وہ چیز جس کی زیارت کا اللہ نے حکم دیا ہے یا اس میں حج کا کوئی عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ ” شعائر اللہ “ میں داخل ہے۔ قربانی کے جانور بھی ” شعائر اللہ “ میں داخل ہیں، چناچہ فرمایا : (وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ ) [ الحج : ٣٦ ] ” اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔ “ ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آتے ہوئے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے، جانور قیمتی خریدے اور عیب دار جانور نہ خریدے۔ ان پر جھول اچھی ڈالے، انھیں خوب کھلائے پلائے اور سجا کر رکھے، جیسا کہ گلے میں قلادے ڈالنے سے ظاہر ہے، مجبوری کے بغیر ان پر سواری نہ کرے، جیسا کہ آگے حدیث آرہی ہے اور قربانی کے بعد ان کے جھول وغیرہ بھی صدقہ کر دے۔ ” شعائر اللہ “ کی تعظیم اگرچہ اس سے پہلے ” حُرُمٰتِ اللّٰهِ “ کی تعظیم میں آچکی ہے مگر ” حُرُمٰت “ کا مفہوم وسیع اور عام ہے جب کہ ” شَعَائِر “ خاص ہے، اس لیے ” شعائر اللہ “ کی تعظیم کی تاکید کے لیے اسے دوبارہ الگ ذکر فرمایا۔
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ ، شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنے علامت کے ہیں جو چیزیں کسی خاص مذہب یا جماعت کی علامات خاص سمجھی جاتی ہوں وہ اس کے شعائر کہلاتے ہیں شعائر اسلام ان خاص احکام کا نام ہے جو عرف میں مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ حج کے اکثر احکام ایسے ہی ہیں۔- مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ ، یعنی شعائر اللہ کی تعظیم دل کے تقویٰ کی علامت ہے ان کی تعظیم وہی کرتا ہے جس کے دل میں تقویٰ اور خوف خدا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ کا تعلق اصل میں انسان کے دل سے ہے جب اس میں خوف خدا ہوتا ہے تو اس کا اثر سب اعمال افعال میں دیکھا جاتا ہے۔
ذٰلِكَ ٠ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ ٣٢- شَعَاۗىِٕرَ- ومَشَاعِرُ الحَجِّ : معالمه الظاهرة للحواسّ ، والواحد مشعر، ويقال : شَعَائِرُ الحجّ ، الواحد :- شَعِيرَةٌ ، قال تعالی: ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج 32] ، وقال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة 198] ، لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة 2] ، أي : ما يهدى إلى بيت الله، وسمّي بذلک لأنها تُشْعَرُ ، أي : تُعَلَّمُ بأن تُدمی بِشَعِيرَةٍ ، أي : حدیدة يُشعر بها .- اور مشاعر الحج کے معنی رسوم حج ادا کرنے کی جگہ کے ہیں اس کا واحد مشعر ہے اور انہیں شعائر الحج بھی کہا جاتا ہے اس کا واحد شعیرۃ ہے چناچہ قرآن میں ہے : ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج 32] اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة 198] مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں ۔ اور آیت کریمہ : لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة 2] خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا ۔ میں شعائر اللہ سے مراد قربانی کے وہ جانور ہیں جو بیت اللہ کی طرف بھیجے جاتے تھے ۔ اور قربانی کو شعیرۃ اس لئے کہا گیا ہے ۔ کہ شعیرۃ ( یعنی تیز لوہے ) سے اس کا خون بہا کر اس پر نشان لگادیا جاتا تھا ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔
شعائر اللہ کا احترام - قول باری ہے (ذلک ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو) جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے) اہل لغت کا قول ہے کہ شعائر شعیرہ کی جمع ہے، یہ اس علامت کا نام ہے جو اس چیز کا احساس دلاتی ہے جس کیلئے اسے مقرر کیا گیا ہے۔ قربانی کے اونٹوں پر علامت قائم کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ تم ان پر ایسی علامتیں قائم کر دو جن سے یہ احساس ہو کہ یہ ھدی یعنی قربانی کے جانور ہیں۔ اس بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ شعائر حج کے تمام مناسک کی علامتوں کا نام ہے۔ ان میں سے رمی جمار اور صفا و مروہ کے درمیان سعی بھی ہیں۔- حبیب المعلم نے عطا بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ ان سے شعائر اللہ کے متعلق دریافت کیا گیا، انہوں نے جواب دیا کہ شعائر اللہ، اللہ کی قائم کردہ حرمتیں ہیں یعنی اللہ کی طاعت کا اتباع اور اس کی معصیت سے اجتناب ، یہ اللہ کے شعائر ہیں۔- شریک نے جابر سے اور انہوںں نے عطاء سے قول باری (ومن یعظم شعائر اللہ) کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” اللہ کے شعائر کو عظیم سمجھنا اور انہیں فروغ دینا۔ “ ابن نجیع نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ” یہ اللہ کے شعائر کو عظیم سمجھنا انہیں حسین بنانا اور فروغ دینا ہے۔ “- عکرمہ سے بھی اسی طرح کی روایت ہے، مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ حسن بصری کا قول ہے کہ ” اللہ کے شعائر، اللہ کے دین کا نام ہے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست ہے کہ آیت میں یہ تمام معانی اللہ کی مراد ہیں اس لئے کہ آیت میں ان تمام کا احتمال موجود ہے۔
(٣٢) یہ بات بھی ہوچکی یعنی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے اس کے لیے تباہی اور دوری ہے اب یہ سنو کہ جو شخص مناسک حج کا پورا لحاظ کرے گا اور سب سے اچھی اور عمدہ قربانی کرے گا تو یہ عمدہ قربانی قلوب کی اور آدمی کے خلوص سے حاصل ہوگی۔
آیت ٣٢ (ذٰلِکَق وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ) ” - شعائر کی واحد ” شعیرہ “ ہے۔ لغوی اعتبار سے اس لفظ کا تعلق ” شعور “ سے ہے۔ اس مفہوم میں ہر وہ چیز ” شعائر اللہ “ میں سے ہے جس کے حوالے سے اللہ کی ذات ‘ اس کی صفات اور اس کی بندگی کا شعور انسان کے دل میں پیدا ہو۔ اسی حوالے سے سورة البقرۃ میں صفا اور مروہ کو بھی شعائر اللہ کہا گیا ہے : (اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ج) (آیت ١٥٨) ۔ چناچہ خود بیت اللہ ‘ مقام ابراہیم ‘ صفا اور مروہ سب شعائر اللہ میں شامل ہیں۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :60 یعنی خدا پرستی کی علامات ، خواہ وہ اعمال ہوں جیسے نماز ، روزہ ، حج وغیرہ ، یا اشیاء ہوں جیسے مسجد اور ہَدی اونٹ وغیرہ ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، المائدہ ، حاشیہ 5 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :61 یعنی یہ احترام دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے دل میں کچھ نہ کچھ خدا کا خوف ہے جبھی تو وہ اس کے شعائر کا احترام کر رہا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اگر کوئی شخص جان بوجھ کر شعائر اللہ کی ہتک کرے تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اس کا دل خدا کے خوف سے خالی ہو چکا ہے ، یا تو وہ خدا کا قائل ہی نہیں ہے ، یا ہے تو اس کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیار کرنے پر اتر آیا ہے ۔
19: شعائر کے معنی ہیں وہ علامتیں جن کو دیکھ کر کوئی دوسری چیز یاد آئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو عبادتیں واجب قرار دی ہیں، اور خاص طور پر جن مقامات پر حج کی عبادت مقرر فرمائی ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کے شعائر میں داخل ہیں، اور ان کی تعظیم ایمان کا تقاضا ہے۔