31۔ 1 حنفاء حنیف کی جمع ہے جس کے مصدری معنی ہیں مائل ہونا ایک طرف ہونا، یک رخا ہونا یعنی شرک سے توحید کی طرف اور کفر و باطل سے اسلام اور دین حق کی طرف مائل ہوتے ہوئے۔ یا ایک طرف ہو کر خالص اللہ کی عبادت کرتے ہوئے۔ 31۔ 2 یعنی جس طرح بڑے پرندے، چھوٹے جانوروں کو نہایت تیزی سے جھپٹا مار کر انھیں نوچ کھاتے ہیں یا ہوائیں کسی کو دور دراز جگہوں پر پھینک دیں اور کسی کو اس کا سراغ نہ ملے۔ دونوں صورتوں میں تباہی اس کا مقدر ہے۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ سلامت فطرت اور طہارت نفس کے اعتبار سے طہر و صفا کی بلندی پر فائز ہوجاتا ہے اور جوں ہی وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے تو گویا اپنے کو بلندی سے پستی میں اور صفائی سے گندگی اور کیچڑ میں پھینک لیتا ہے
[٤٨] حنفاء حنیف کی جمع ہے۔ اور حنیف بھی تمام باطل راہوں کو چھوڑ کر استقامت کی طرف مائل ہونا (مفردات القرآن) اور حنیف وہ شخص ہے جو تمام باطل راہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ کی طرف آجائے۔ اور وہ سیدھی راہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، عبادت و تصرفات میں کسی بھی چیز کو ذرہ برابر بھی شریک نہ سمجھا جائے۔- [٤٩] انسان تمام مخلوقات سے اشرف و افضل پیدا کیا گیا ہے۔ لہذا اس کے لئے سزاوار یہی بات ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے خالق ومالک کے سامنے سر جھکائے اسی سے اپنی حاجات طلب کرے اور اسی کی عبادت کرے۔ اب اگر وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی بھی چیز کی عبادت کرے، اس کے آگے سر جھکائے یا حاجات روا کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اعلیٰ چیز اپنے سے کمتر درجہ کی چیز کے سامنے جھک گئی یا اگر وہ کسی انسان کے سامنے سرجھکائے تو بھی مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے ہی جیسی محتاج مخلوق کے آگے جھک رہا ہے اور یہ بھی انسانیت کی تذلیل ہے۔ ایسے شخص کی مثال یہ ہے جیسے وہ توحید کی بلندیوں سے شرک کی پستیوں میں جاگرا۔ اور اب وہ اپنے جیسے دوسرے مشرکوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ جو اسے کبھی کسی در پر جانے کا مشورہ دیں گے کبھی کسی دوسرے کے آستانہ پر جانے کا۔ حتیٰ کہ یہ شکاری پرندے اسے مکمل طور پر گمراہ اور بےایمان کرکے ہی چھوڑیں گے۔ اور اگر وہ ان سے کسی طرح بچ بھی گیا تو اللہ کے مقابلہ میں اس کی دینی خواہشات نفس ہی گمراہی کے گڑھے میں جا گرانے کو کافی ہیں۔ اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی بذات خود بھی شرک ہی کی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔- ( اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَةً ۭ فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ 23) 45 ۔ الجاثية :23) یعنی اگر وہ دوسرے مشرکوں کے ہتھے نہ بھی چڑھے تو اس کا اپنا نفس ہی اسے گمراہ کرنے کو کافی ہے
حُنَفَاۗءَ لِلّٰهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ : ” أَيْ کُوْنُوْا حُنَفَاءَ “ یعنی تمام معبودوں سے ہٹ کر صرف اللہ کی خالص عبادت کرنے والے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے والے بنو۔ ”ۙحُنَفَاۗءَ “ پر نصب ” وَاجْتَنِبُوْا “ کی ضمیر سے حال ہونے کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (١٦٠ تا ١٦٣) ۔- وَمَنْ يُّشْرِكْ باللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ : جو شخص توحید پر قائم ہے وہ بلندی اور عزو شرف میں گویا آسمان پر ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا اور اسی کا حکم مانتا ہے۔ جب اس نے شرک کیا تو اس بلند مقام سے گرگیا، اب یا تو اسے پرندے راستے ہی میں اچک لیں گے، یعنی وہ بتوں کے پجاریوں یا ان زندہ یا مردہ پیروں بزرگوں کے مجاوروں کے ہتھے چڑھ جائے گا جنھوں نے ان پیروں بزرگوں کو خدا بنا رکھا ہے، یا ہوا اسے بہت دور جگہ میں گرا دے گی، یعنی اگر کسی کے قابو نہ آیا تو اللہ سے تو بدظن ہو ہی چکا ہے، پھر اسے اس کی خواہش بہت دور گہری جگہ میں گرا دے گی، یعنی سب سے منکر ہو کر دہریہ ہوجائے گا۔ دونوں صورتوں میں اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔
حُنَفَاۗءَ لِلہِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِہٖ ٠ۭ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّيْرُ اَوْ تَہْوِيْ بِہِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ ٣١- حنف - الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] - ( ح ن ف ) الحنف - کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- خر - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ.- وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] - ( خ ر ر ) خر - ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ - خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔- خطف - الخَطْفُ والاختطاف : الاختلاس بالسّرعة، يقال : خَطِفَ يَخْطَفُ ، وخَطَفَ يَخْطِفُ «3» وقرئ بهما جمیعا قال : إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ وذلک وصف للشّياطین المسترقة للسّمع، قال تعالی: فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج 31] ، يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة 20] ، وقال : وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت 67] ، أي : يقتلون ويسلبون، والخُطَّاف : للطائر الذي كأنه يخطف شيئا في طيرانه، ولما يخرج به الدّلو، كأنه يختطفه . وجمعه خَطَاطِيف، وللحدیدة التي تدور عليها البکرة، وباز مُخْطِف : يختطف ما يصيده،- ( خ ط ف ) خطف یخطف خطفا واختطف اختطافا کے معنی کسی چیز کو سرعت سے اچک لینا کے ہیں ۔ یہ باب ( س ض ) دونوں سے آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ«4» ہاں جو کوئی ( فرشتوں کی ) بات کو ) چوری سے جھپث لینا چاہتا ہے ۔ طا پر فتحہ اور کسرہ دونوں منقول ہیں اور اس سے مراد وہ شیاطین ہیں جو چوری چھپے ملا اعلیٰ کی گفتگو سنا کرتے تھے ۔ نیز فرمایا :۔ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج 31] پھر اس کو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور جگہ اڑا کر پھینک دے ۔ يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة 20] قریب ہے کہ بجلی ( کی چمک ) ان کی آنکھوں ( کی بصارت ) کو اچک لے جائے ۔ وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت 67] اور لوگ ان کے گرد نواح سے اچک لئے جاتے ہیں ۔ یعنی ان کے گرد ونواح میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے ۔ الخاف ۔ ( 1) ابابیل کی قسم کا ایک پرندہ جو پرواز کرنے میں کسی چیز کو جپٹ لیتا ہے ۔ ( 2) آہن کج جس کے ذریعے کنوئیں سے ڈول نکالا جاتا ہے گویا وہ ڈول کو اچک کر باہر لے آتا ہے ۔ ( 3) وہ لوہا جس پر کنوئیں کی چرغی گھومتی ہے ۔ ج خطاطیف باز مخطف ۔ باز جو اپنے شکار پر جھٹپتا ہے ۔ الخطیف ۔ تیز رفتاری ۔ الخطف الحشاو مختطفتہ ۔ مرد باریک شکم جس کے وبلاپن کی وجہ سے ایسا معلوم ہو کہ اس کی انتٹریاں اچک لی گئی ہیں ۔- طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- سحق - السَّحْقُ : تفتیت الشیء، ويستعمل في الدّواء إذا فتّت، يقال : سَحَقْتُهُ فَانْسَحَقَ ، وفي الثوب إذا أخلق، يقال : أَسْحَقَ ، والسُّحْقُ : الثوب البالي، ومنه قيل : أَسْحَقَ الضّرعُ ، أي : صار سَحْقاً لذهاب لبنه، ويصحّ أن يُجعل إِسْحَاقُ منه، فيكون حينئذ منصرفا «3» ، وقیل : أبعده اللہ وأَسْحَقَهُ ، أي : جعله سَحِيقاً ، وقیل : سَحَقَهُ ، أي جعله بالیا، قال تعالی: فَسُحْقاً لِأَصْحابِ السَّعِيرِ [ الملک 11] ، وقال تعالی: أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكانٍ سَحِيقٍ- [ الحج 31] ، ودم مُنْسَحِقٌ ، وسَحُوقٌ مستعار، کقولهم : مدرور .- ( س ح ق ) السق ( ض ک ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں ۔ زیادہ تر دوا کے پیسنے پر اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ سحقتہ فانسحق میں نے دوا کو پیسا چناچہ وہ پس گئی اسحق الثوب کے معنی کپڑے کا پرانا ہوجانا کے ہیں اور پرانے کپڑے کو سحق کہا جاتا ہے اسی سے اسحق الضوع کا محاورہ جس کے معنی ہیں دودھ خشک ہوجانے کی وجہ سے تھن مرجھا گئے : ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہوسکتا ہے کہ اسحق ( علم ) بھی اسی س مشتق ہو اس صورت میں یہ اسم منصرف ہوگا ۔ اور کپڑے کے بوسیدہ کردینے پر سحقہ ( مجرد ) بھی استعمال ہوتا ہے اور محاورہ میں اسحقہ اللہ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کرے اسی سے فرمایا : ۔ فَسُحْقاً لِأَصْحابِ السَّعِيرِ [ الملک 11] کہ دوزخیوں کے لئے دوری ہے ۔ اور فرمایا : ۔ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكانٍ سَحِيقٍ [ الحج 31] یا اس کو ہوا کسی دور جگہ لے کر ڈال دے گی ۔ اور استعارہ کے طور پر جاری خون کو منسحق و سحوق کہا جاتا ہے جیسے مزرور ۔
(٣١) اور حج وتلبیہ میں اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ کیوں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گر پڑا پھر رستہ میں پرندے اس کی بوٹیاں نوچ کر جہاں چاہا سو لے گئے یا اس کو ہوا نے کسی دور دراز جگہ میں لے جا کر پھینک دیا۔
آیت ٣١ (حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ ط) ” - اللہ کی بندگی میں کسی اعتبار اور کسی پہلو سے شرک کا شائبہ تک نہ آنے پائے۔ نہ ذات میں ‘ نہ صفات میں ‘ نہ حقوق میں ‘ نہ اختیارات میں۔- (وَمَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ ) ” - شرک کرنے والے انسان کی مثال ایسے ہے جیسے وہ کسی بلندی پر رسّی کی مدد سے لٹکا ہوا تھا تو اس کی رسّی کٹ گئی اور وہ یکدم تیزی سے نیچے آ رہا ہے۔ - (فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ ) ” - تو ایسے شخص کی اب کیفیت یہ ہے یا تو وہ باز اور عقاب جیسے شکاری پرندوں کے رحم و کرم پر ہوگا یا پھر تیز ہوا کا کوئی جھونکا اسے کسی کھائی میں پٹخ دے گا۔ مشرک کا ایسا انجام اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ کا دامن چھوڑ کر وہ بےسہارا ہوجاتا ہے ‘ جبکہ توحید پرست شخص ایک مضبوط سہارے پر قائم ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورة ابراہیم کی آیت ٢٧ میں فرمایا گیا ہے : (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِج ) ” ثابت قدم رکھتا ہے اللہ اہل ایمان کو قول ثابت (کلمۂ توحید) کے ساتھ دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔ “
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :59 اس تمثیل میں آسمان سے مراد ہے انسان کی فطری حالت جس میں وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا اور توحید کے سوا اس کی فطرت کسی اور مذہب کو نہیں جانتی ۔ اگر انسان انبیاء کی دی ہوئی رہنمائی قبول کر لے تو وہ اسی فطری حالت پر علم اور بصیرت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے ، اور آگے اس کی پرواز مزید بلندیوں ہی کی طرف ہوتی ہے ۔ نہ کہ پستیوں کی طرف ۔ لیکن شرک ( اور صرف شرک ہی نہیں بلکہ دہریت اور الحاد بھی ) اختیار کرتے ہی وہ اپنی فطرت کے آسمان سے یکایک گر پڑتا ہے اور پھر اس کو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت لازماً پیش آتی ہے ۔ ایک یہ کہ شیاطین اور گمراہ کرنے والے انسان ، جن کو اس تمثیل میں شکاری پرندوں سے تشبیہ دی گئی ہے ، اس کی طرف جھپٹتے ہیں اور ہر ایک اسے اچک لے جانے کی کوشش کرتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کی اپنی خواہشات نفس اور اس کے اپنے جذبات اور تخیلات ، جن کو ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے ، اسے اڑائے اڑائے لیے پھرتے ہیں اور آخر کار اس کو کسی گہرے کھڈ میں لے جا کر پھینک دیتے ہیں ۔ سحیق کا لفظ سحق سے نکلا ہے جس کے اصل معنی پیسنے کے ہیں ۔ کسی جگہ کو سحیق اس صورت میں کہیں گے جبکہ وہ اتنی گہری ہو کہ جو چیز اس میں گرے وہ پاش پاش ہو جائے ۔ یہاں فکر و اخلاق کی پستی کو اس گہرے کھڈ سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں گر کر آدمی کے پرزے اڑ جائیں ۔
18: اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی مثال آسمان کی سی ہے۔ جو شخص شرک کا ارتکاب کرتا ہے، وہ ایمان کے بلند مقام سے نیچے گر پڑتا ہے۔ پھر پرندوں کے اچک لے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خواہشات اسے راہ راست سے بھٹکا کر ادھر ادھر لیے پھرتی ہیں، اور ہوا کے دور دراز پھینک دینے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان اسے مزید گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایسا شخص ایمان کے بلند مقام سے نیچے گر کر اپنی نفسانی خواہشات اور شیاطین کا غلام بن بیٹھتا ہے جو اسے گمراہی کی انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔