بت پرستی کی گندگی سے دور رہو فرماتا ہے یہ تو تھے احکام حج اور ان پر جو جزا ملتی ہے اس کا بیان ۔ اب اور سنو جو شخص حرمات الٰہی کی عزت کرے یعنی گناہوں سے اور حرام کاموں سے بچے ، ان کے کرنے سے اپنے آپ کو روکے اور ان سے بھاگا رہے اس کے لئے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے ۔ جس طرح نیکیوں کے کرنے پر اجر ہے اسی طرح برائیوں کے چھوڑنے پر بھی ثواب ہے ۔ مکہ حج عمرہ بھی حرمات الٰہی ہیں ۔ تمہارے لئے چوپائے سب حلال ہیں ہاں جو حرام تھے وہ تمہارے سامنے بیان ہو چکے ہیں ۔ یہ جو مشرکوں نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام نام رکھ چھوڑے ہیں یہ اللہ نے نہیں بتلائے ۔ اللہ کو جو حرام کرنا تھا بیان فرما چکا جیسے مردار جانور بوقت ذبح بہا ہوا خون سور کا گوشت اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا ہوا ، گلا گھٹا ہوا وغیرہ ۔ تمہیں چاہے کہ بت پرستی کی گندگی سے دور رہو ، من یہاں پر بیان جنس کے لئے ہے ۔ اور جھوٹی بات سے بچو ۔ اس آیت میں شرک کے ساتھ جھوٹ کو ملادیا جیسے آیت ( قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 33 ) 7- الاعراف:33 ) یعنی میرے رب نے گندے کاموں کو حرام کردیا خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ ۔ اور گناہ کو سرکشی کو اور بےعلمی کے ساتھ اللہ پر باتیں بنانے کو ۔ اسی میں جھوٹی گواہی بھی داخل ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا میں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاؤں ؟ صحابہ نے کہا ارشاد ہو فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر تکیہ سے الگ ہٹ کر فرمایا اور جھوٹ بولنا اور جھوٹی شہادت دینا ۔ اسے بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش کہ آپ اب نہ فرماتے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں کھڑے ہو کر تین بار فرمایا جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر کردی گئی پھر آپ نے مندرجہ بالا فقرہ تلاوت فرمایا ۔ اور روایت میں ہے کہ صبح کی نماز کی بعد آپ نے کھڑے ہو کر یہ فرمایا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمان بھی مروی ہے اللہ کے دین کو خلوص کے ساتھ تھام لوباطل سے ہٹ کر حق کی طرف آجاؤ ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرانے والوں میں نہ بنو ۔ پھر مشرک کی تباہی کی مثال بیان فرمائی کہ جیسے کوئی آسمان سے گر پڑے پس یا تو اسے پرند ہی اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی ہلاکت کے دور دراز گڑھے میں پہنچا دے گی ۔ چنانچہ کافر کی روح کو لے کر جب فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور وہیں سے وہ پھینک دی جاتی ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ سورۃ ابراہیم میں گزر چکی ہے سورۃ انعام میں ان مشرکوں کی ایک اور مثال بیان فرمائی ہے یہ اس کی مثل کے ہے جسے شیطان باؤلا بنا دے ۔ الخ ۔
30۔ 1 ان حرمتوں سے مراد وہ مناسک حج ہیں جن کی تفصیل ابھی گزری ہے۔ ان کی تعظیم کا مطلب، ان کی اس طرح ادائیگی ہے جس طرح بتلایا گیا ہے۔ یعنی ان کی خلاف ورزی کر کے ان حرمتوں کو پامال نہ کرے۔ 30۔ 2 جو بیان کئے گئے ہیں کا مطلب ہے جن کا حرام ہونا بیان کردیا گیا، جیسے آیت (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ ) 5 ۔ المائدہ :3) میں تفصیل ہے۔ 30۔ 3 رجس سے مراد گندگی اور پلیدی کے ہیں یہاں اس سے مراد لکڑی، لوہے یا کسی اور چیز کے بنے ہوئے بت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ نجاست ہے اور اللہ کے غضب اور عدم رضا کا باعث، اس سے بچو۔ 30۔ 4 جھوٹی بات میں، جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی ہے (جس کو حدیث میں شرک اور حقوق والدین کے بعد تیسرے نمبر پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے) اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے، وہ اسکی طرف منسوب کی جائیں۔ مثلًا اللہ کی اولاد ہے وغیرہ۔ فلاں بزرگ کے اختیارات میں شریک ہے یا فلاں کام پر اللہ کس طرح قادر ہوگا جیسے کفار بعث بعد الموت پر تعجب کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں یا اپنی طرف سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کرلینا جیسے مشرکین بحیرہ سائبہ وصیلہ اور عام جانوروں کو اپنے اوپر حرام کرلیتے تھے یہ سب جھوٹ ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔
[٤٤] حرمت اللہ سے مراد اللہ کی حرام کردہ اشیاء بھی ہیں اور قابل احترام اشیاء یعنی شعائر اللہ بھی۔ یعنی ان سب چیزوں کی حرمت و احترام کا پورا پورا خیال رکھنا چاہئے اور تعمیر کعبہ کا اولین مقصد یہ تھا کہ اسے شرکیہ اعمال و افعال اور بتوں کی نجاستوں سے پاک و صاف رکھا جائے۔ اور قریش مکہ نے ایسی نجاستوں کا بھی۔۔ خیال نہ رکھا اور جو لوگ اللہ کی توحید کے قائل تھے ان کے بیت اللہ میں داخلہ پر بھی پابندیاں لگا دیں۔ گویا اللہ کے گھر اور اس کے شعائر کی ہر طرح سے توہین کی۔ نیز اس مقام پر حرمت سے مراد عموماً حج، عمرہ، کعبہ، قربانی اور احرام سے متعلق احکام ہیں۔ جیسے کسی۔۔ لڑائی جھگڑا کرنے، احرام کی حالت میں شکار کرنے اور صحبت کرنے سے بچنا اور ایسے احکام کا پورا پورا پاس رکھنا ضروری ہے اور یہ چیز ان کے حق میں ہیں اور اللہ کے ہاں بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے۔- [٤٥] یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام چرنے والے چوپائے انسان کے لئے حلال قرار دیئے ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جن کا ذکر پہلے کئی مقامات پر آچکا ہے اور وہ ہیں مردار خواہ وہ جانور کسی بھی طریقہ سے مرگیا ہو (٢) ہر وہ جانور یا چیز جو غیر اللہ کے نام پر مشہور کی جائے اس جملہ میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین مکہ نے جو بحیرہ وصیلہ، سائیہ اور حام قسم کے مویشی حرام قرار دے رکھے ہیں۔ یہ قطعاً اللہ کی طرف سے حرام کردہ نہیں ہیں۔- [٤٦] یعنی آستانوں کی آلائشوں اور بتوں کی پرستش سے یوں بچو جیسے انسان گندگی کے ڈھیر سے بچتا ہے اور اسے اس گندگی کے نزدیک جانے سے بھی گھن آتی ہے۔ تمام جانور اللہ کی مخلوق و مملکوک ہیں۔ لہذا اسی کے نام پر اور اسی کے لئے کعبہ کی نیاز ہوسکتے ہیں۔ کسی۔۔ یا آستانہ پر ذبح کیا ہوا جانور مردار کی طرح حرام اور نجس ہے۔ لہذا ایسے کاموں سے بچنا ضروری ہے۔- [٤٧] قول الزور میں دونوں الفاظ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ زور کے معنی صرف جھوٹ نہیں بلکہ ہر وہ بات ہے جو حق سے ہٹی ہوئی ہو اور اس کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ قول الزور کے مقابلہ میں قرآن میں قولاً سدیداً کے الفاظ آئے ہیں یعنی ایسی بات جس مسیں کوئی رخنہ، ایہام، ہیرا پھیری اور۔۔ نہ ہو اور قول الزور ایسی بات ہے جس میں یہ باتیں، ان میں سے کوئی ایک موجود ہو اور صاحب فقہ اللغہ ن کے نزدیک زور ایسا جھوٹ ہے جسے بنا کر سنوار کر پیش کیا جائے کہ وہ بھلا اور درست معلوم ہو۔ اس لحاظ سے اللہ کے پیدا کئے ہوئے جانوروں کو غیر اللہ سے نامزد کرکے انھیں ذبح کرنا، بلادلیل شرعی حلال کو حرام بنانا اور حرام کو حلال بنالینا یہ سب قول الزور ہی کی اقسام ہیں اور افتراء علی اللہ بھی ہیں۔- ہر قول الزور کی ایک قسم شہادۃ السور ہے۔ یعنی ایسی شہادت جس میں ہیرا پھیری سے کام لیا جائے۔ اہم واقعہ کو غیر اہم اور غیر اہم کو اس طرح اہم بنا کر پیش کیا جائے۔ جس سے کسی ایک فریق کی حق تلفی ہوجائے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاوے۔ اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ یہاں اس آیت میں شرک کے ساتھ ہی قول الزور کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ آپ نے فرمایا : میں تمہیں بڑے بڑے گناہ بتلاؤں ؟ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ضرور بتلائیے فرمایا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اس وقت آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا : جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا آپ برابر یہی الفاط دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ میں سمجھا کہ آپ چپ ہی نہ ہونگے (بخاری۔ کتاب الادب باب عنوان الوالدین من الکبائر)
ذٰلِكَ : یہ لفظ دو کلاموں کے درمیان فاصلے کے لیے آتا ہے اور اس سورت میں تین دفعہ آیا ہے۔ ایک یہ، ایک آیت (٣٢) میں : (ذٰلِكَ ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ ) اور ایک آیت (٦٠) میں : (ذٰلِكَ ۚ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ) اس کا مبتدا محذوف مانتے ہیں ” اَلْأَمْرُ ذٰلِکَ “ یعنی حج کا معاملہ تو یہ ہوا اور۔۔- وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ : یعنی اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمتوں کی تعظیم خود بندے کے لیے بہتر ہے، کیونکہ یہ اس کے لیے اس کے رب کی رضا حاصل کرنے کا باعث ہے، جس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ ” حرمٰت “ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کے احترام کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، جیسے حرم، مسجد حرام، حرمت والے مہینے، ہدایا یعنی مکہ میں قربانی کے لیے جانے والے اونٹ، قلائد یعنی وہ بھیڑ بکریاں اور گائیں جن کے گلے میں قلادے (پٹے اور ہار) ڈالے ہوئے ہوں وغیرہ۔ ان سب کی تکریم ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے چلی آرہی ہے، مگر مشرکین نے اپنے ملت ابراہیم کے پیروکار ہونے کے دعوے کے باوجود ان حرمتوں کو پامال کیا اور خود ساختہ چیزوں کو حرمت والا قرار دے لیا، جیسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ۔ ” وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ “ کا مطلب یہ بھی ہے کہ احرام میں جو کام اللہ تعالیٰ نے حرام کیے ہیں، مثلاً شکار کرنا، شہوانی افعال، لڑائی جھگڑا، فسق و فجور وغیرہ، تو ان کے ارتکاب کو جو شخص بہت بڑا گناہ سمجھ کر ان سے اجتناب کرے تو یہ اس کے رب کے ہاں اس کے لیے بہتر ہے۔- وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٣) اور سورة نحل (١١٥) ۔- فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ۔۔ : ” اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ “ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان چوپاؤں کے حلال ہونے کا حکم دیا جو مشرکین نے حرام کر رکھے تھے، مثلاً بحیرہ، سائبہ وغیرہ اور ” اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ “ کے ساتھ ان جانوروں کو حرام قرار دیا جو مشرکین نے حلال کر رکھے تھے، مثلاً غیر اللہ کے نام پر ذبح کردہ جانور اور مردار وغیرہ۔ مشرکین کے بعض جانوروں کو حرام اور بعض کو حلال کرنے کا باعث بتوں کی عبادت تھی اور یہ ان کا اللہ پر صاف جھوٹ اور بہتان تھا کہ حلال و حرام کا یہ حکم اس کا حکم ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شرک اور جھوٹ دونوں سے بچنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس گندگی سے بچو جو بتوں کی صورت میں ہے اور جھوٹی بات سے بچو۔ یعنی مشرکین نے اللہ کے ساتھ جو بتوں کو شریک بنا رکھا ہے اور اللہ کے ذمے بعض چیزوں کو حلال یا حرام کرنے کا بہتان باندھ رکھا ہے تم اس شرک سے اور اس جھوٹ اور بہتان سے اجتناب کرو۔ ” قَوْلَ الزُّوْرِ “ کا لفظ عام ہے، اس لیے اس میں جھوٹی شہادت دینا، کسی پر بہتان لگانا، غرض کوئی بھی جھوٹ بولنا شامل ہے اور سب سے اجتناب کا حکم ہے۔ ” الرِّجْسَ “ کا معنی گندگی ہے، ” مِنْ “ بیان کرنے کے لیے ہے، یعنی گندگی ظاہری بھی ہوتی ہے مگر خاص طور پر حکم دیا کہ اس معنوی گندگی سے بچو جو بتوں کی صورت میں ہے۔ ابن جزی فرماتے ہیں : ” مِنْ لِبَیَانِ الْجِنْسِ کَأَنَّہُ قَال الرِّجْسُ الَّذِيْ ھُوَ الْأَوْثَانُ ۔ “
خلاصہ تفسیر - یہ بات تو ہوچکی (جو حج کے خصوص احکام تھے) اور (اب دوسرے عام احکام جن میں حج اور علاوہ حج کے دوسرے مسائل بھی ہیں سنو کہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کے محترم احکام کی وقعت کرے گا سو یہ اس کے حق میں اس کے رب کے نزدیک بہتر ہے (احکام کی وقعت کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کا علم بھی حاصل کرے اور یہ بھی کہ ان پر عمل کا اہتمام کرے اور احکام خداوندی کی وقعت کا اس کے لئے بہتر ہونا اس لئے ہے کہ وہ عذاب سے نجات اور دائمی راحت کا سامان ہے) اور ہاں مخصوص چوپاؤں کو باستثنائی ان (بعض بعض) کے جو تم کو پڑھ کر سنا دیئے گئے ہیں (یعنی سورة انعام وغیرہ کی آیت قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا میں حرام جانوروں کی تفصیل بتلا دی گئی ہے ان کے سوا دوسرے چوپائے) تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے۔- (اس جگہ چوپایہ جانوروں کے حلال ہونے کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے کسی کو احرام کی حالت میں عام چوپائے جانوروں کی ممانعت کا شبہ نہ ہوجائے اور جب دین و دنیا کی بھلائی احکام خداوندی کی تعظیم میں منحصر ہے) تو تم لوگ گندگی سے یعنی بتوں سے کنارہ کش رہو (کیونکہ بتوں کو خدا کے ساتھ شریک کرنا تو حکم الٰہی سے کھلی بغاوت ہے اس جگہ شرک سے بچنے کی ہدایت خاص طور پر اس لئے کی گئی کہ مشرکین مکہ اپنے حج میں جو تلبیہ پڑھتے تھے اس میں الا شریکا ھو لک ملا دیتے تھے یعنی اللہ کا کوئی شریک بجز ان بتوں کے نہیں ہے جو خود اسی اللہ کے ہیں) اور جھوٹی بات سے بچتے رہو (خواہ وہ عقائد کا جھوٹ ہو جیسے مشرکین کا اعتقاد شرک یا دوسری قسم کا جھوٹ) اس طور سے کہ اللہ کی طرف جھکے رہو اس کے ساتھ (کسی کو) شریک مت ٹھہراؤ اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو (اس کی حالت ایسی ہوگی جیسے) گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر پرندوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں یا اس کو ہوا نے کسی دور دراز جگہ لے جا کر پٹک دیا۔ یہ بات بھی (جو بطور قاعدہ کلیہ کے تھی) ہوچکی اور (اب ایک ضروری بات قربانی کے جانوروں کے متعلق اور سن لو کہ) جو شخص دین خداوندی کے ان (مذکورہ) یادگاروں کا پورا لحاظ رکھے گا تو اس کا یہ لحاظ رکھنا دل کے ساتھ خدا سے ڈرنے سے حاصل ہوتا ہے (یادگاروں کا لحاظ رکھنے سے مراد احکام الٰہیہ کی پابندی ہے جو قربانی کے متعلق ہیں خواہ ذبح سے قبل کے احکام ہوں یا ذبح کے وقت ہوں جیسا اس پر اللہ کا نام لینا یا بعد ذبح کے ہوں جیسے اس کا کھانا یا نہ کھانا کہ جس کا کھانا جس کے لئے حلال ہے وہ کھائے جس کا کھانا جس کے لئے حلال نہیں وہ نہ کھائے۔ ان احکام میں کچھ تو پہلے بھی ذکر کئے جا چکے اور کچھ یہ ہیں کہ) تم کو ان سے ایک معین وقت تک فوائد حاصل کرنا جائز ہے (یعنی جب تک وہ قواعد شرعیہ کے مطابق ہدی نہ بنائے جاویں تو ان سے دودھ یا سواری بار برداری وغیرہ کا فائدہ اٹھانا جائز ہے مگر جب ان کو بیت اللہ اور حج یا عمرہ کے لئے ہدی بنادیا تو پھر ان سے کوئی نفع اٹھانا جائز نہیں (پھر یعنی ہدی بننے کے بعد) اس کے ذبح حلال ہونے کا موقع بیت عتیق کے قریب ہے (مراد پورا حرم ہے یعنی حرم سے باہر ذبح نہ کریں) ۔- معارف و مسائل - حُرُمٰتِ اللّٰهِ سے مراد اللہ کی محترم اور معزز بنائی ہوئی چیزیں یعنی احکام شرعیہ ہیں۔ ان کی تعظم یعنی ان کا علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا سرمایہ سعادت دنیا و آخرت ہے۔- وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ ، انعام سے مراد اونٹ، گائے، بکرا، مینڈھا، دنبہ وغیرہ ہیں کہ یہ جانور حالت احرام میں بھی حلال ہیں اور اِلَّا مَا يُتْلٰى میں جن جانوروں کو مستثنیٰ کرنے کا ذکر ہے ان کا بیان دوسری آیات میں آیا ہے وہ مردار جانور اور موقوذہ اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو یہ سب ہمیشہ کے لئے حرام ہیں حالت احرام کی ہو یا غیر احرام کی۔- فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ، (جس کے معنے ناپاکی اور گندگی کے ہیں اور اوثان وثن کی جمع ہے بت کے معنے میں۔ بتوں کو نجاست اس لئے قرار دیا کہ وہ انسان کے باطن کو شرک کی نجاست سے بھر دیتے ہیں۔- وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ، قول زور سے مراد جھوٹ ہے، حق کے خلاف جو کچھ ہے وہ باطل اور جھوٹ میں داخل ہے خواہ عقائدہ فاسدہ شرک و کفر ہوں یا معاملات میں اور شہادت میں جھوٹ بولنا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب کبیرہ گناہوں میں سے بڑے کبیرہ یہ گناہ ہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور عام باتوں میں جھوٹ بولنا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخری لفظ وَقَوْلَ الزُّوْرِ کو بار بار فرمایا (رواہ البخاری)
ذٰلِكَ ٠ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ٠ۭ وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ٣٠ۙ- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔ - حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك :- وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً- [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن،- ( ح ر م ) الحرام - وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - اجتناب - ورجل جَنِبٌ وجَانِبٌ. قال عزّ وجل : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ- [ النساء 31] ، وقال عزّ وجل : وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] ، واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] عبارة عن تركهم إياه، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة 90] ، وذلک أبلغ من قولهم : اترکوه .- الاجتناب ( افتعال ) بچنا ، یکسو رہنا ، پہلو تہی کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو گے ۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] جو ۔۔۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] میں بتوں سے اجتناب کے معنی ہیں کہ انہوں نے طاغوت کی عبادت یکسر ترک دی اس طرح وہ طاغوت سے دور رہے ۔ نیز فرمایا :۔ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة 90] سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ ۔ اور یہ یعنی اجتنبوا بنسیت اترکوہ کے زیادہ بلیغ ہے ۔- رجس - الرِّجْسُ : الشیء القذر،- ، والرِّجْسُ يكون علی أربعة أوجه :- إمّا من حيث الطّبع، وإمّا من جهة العقل، وإمّا من جهة الشرع، وإمّا من کلّ ذلک کالمیتة، فإنّ المیتة تعاف طبعا وعقلا وشرعا، والرِّجْسُ من جهة الشّرع : الخمر والمیسر، وقیل : إنّ ذلک رجس من جهة العقل، وعلی ذلک نبّه بقوله تعالی: وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] ، لأنّ كلّ ما يوفي إثمه علی نفعه فالعقل يقتضي تجنّبه، وجعل الکافرین رجسا من حيث إنّ الشّرک بالعقل أقبح الأشياء، قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] ، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس 100] ، قيل : الرِّجْسُ : النّتن، وقیل : العذاب - ( ر ج س ) الرجس - پلید ناپاک جمع ارجاس کہا جاتا ہے ۔ - جاننا چاہیے کہ رجس چار قسم پر ہے - ( 1 ) صرف طبیعت کے لحاظ سے ( 2 ) صرف عقل کی جہت سے ( 3 ) صرف شریعت کی رد سے ( 4 ) ہر سہ کی رد سے جیسے میتہ ( مردار سے انسان کو طبعی نفرت بھی ہے اور عقل و شریعت کی در سے بھی ناپاک ہے رجس جیسے جوا اور شراب ہے کہ شریعت نے انہیں رجس قرار دیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ چیزیں عقل کی رو سے بھی رجس ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219]( مگر ) فائدہ سے ان کا گناہ ( اور نقصان ) بڑھ کر ۔ میں اسی معنی پر تنبیہ کی ہے کیونکہ جس چیز کا نقصان اس کے نفع پر غالب ہو ضروری ہے کہ عقل سلیم اس سے مجتنب رہنے کا حکم دے اسی طرح کفار کو جس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ شرک کرتے ہیں اور شرک عند العقل قبیح ترین چیز ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جس کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے تو اس ( سورت ) نے ان کی ( پہلی ) خباثت پر ایک اور خباثت پڑھادی ۔ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس 100] اور خدا ( شرک وکفر کی ) نجاست انہیں لوگون پر ڈالتا ہے جو ( دالائل وحدانیت ) میں عقل کو کام میں نہیں لاتے ۔ بعض نے رجس سے نتن ( بدبو وار ) اور بعض بت عذاب مراد لیا ہے - وثن - الوَثَن : واحد الأوثان، وهو حجارة کانت تعبد . قال تعالی: إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثاناً [ العنکبوت 25] وقیل : أَوْثَنْتُ فلانا : أجزلت عطيّته، وأَوْثَنْتُ من کذا : أکثرت منه .- ( و ث ن ) الوثن ( بت ) اس کی جمع اوثان ہے اور اوثان ان پتھروں کو کہا گیا ہے جن کی جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثاناً [ العنکبوت 25] کہ تم جو خدا کو چھوڑ کر بتوں لے بیٹھے ہو ۔ اوثنت فلان ۔ کسی کو بڑا عطیہ دینا ۔ اوثنت من کذا کسی کام کو کثرت سے کرنا ۔- زور - الزَّوْرُ : أعلی الصّدر، وزُرْتُ فلانا : تلقّيته بزوري، أو قصدت زوره، نحو : وجهته، ورجل زَائِرٌ ، وقوم زَوْرٌ ، نحو سافر وسفر، وقد يقال : رجل زَوْرٌ ، فيكون مصدرا موصوفا به نحو :- ضيف، والزَّوَرُ : ميل في الزّور، والْأَزْوَرُ : المائلُ الزّور، وقوله : تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ- [ الكهف 17] ، أي : تمیل، قرئ بتخفیف الزاي وتشدیده «1» وقرئ : تَزْوَرُّ «2» . قال أبو الحسن : لا معنی لتزورّ هاهنا، لأنّ الِازْوِرَارَ الانقباض، يقال : تَزَاوَرَ عنه، وازْوَرَّ عنه، ورجلٌ أَزْوَرُ ، وقومٌ زَوَّرٌ ، وبئرٌ زَوْرَاءُ : مائلة الحفر وقیل لِلْكَذِبِ : زُورٌ ، لکونه مائلا عن جهته، قال : ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان 4] ، وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] ، مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة 2] ، لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] ، ويسمّى الصّنم زُوراً في قول الشاعر :- جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصم لکون ذلک کذبا ومیلا عن الحقّ.- ( ز و ر ) الزور ۔- سینہ کا بالائی حصہ اور زرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اپنا سینہ اس کے سامنے کیا یا اس کے سینہ کا قصد ( کیا اس کی ملا قات کی ) جیسا کہ وجھتہ کا محاورہ ہے یعنی اس کے سامنے اپنا چہرہ کیا یا اس کے چہرہ کا قصد کیا رجل زائر : ملاقاتی ۔ زائر کی جمع زور آتی ہے جیسا کہ سافر کی جمع سفر مگر کبھی رجل زور بھی آجاتا ہے اس صورت میں یہ مصدر ہوتا ہے جیسا کہ ضعیف کا لفظ ہے نیز الزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونا کے ہیں اور جس کے سینہ میں ٹیٹرھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف 17] کے معنی یہ ہیں کہ سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے یہاں تز اور میں حرف زاد پر تشدید بھی پڑھی جاتی ہے اور بغیر تشدید کے بھی اور بعض نے تزور ( افعال ) پڑھا ہے مگر الحسن (رض) فرماتے ہیں یہ قرات یہاں موزوں نہیں ہے کیونکہ الازورار کے معنی ہیں منقبض ہونا ۔ کہا جاتا ہے تز اور عنہ وازور عنہ اس نے اس سے پہلو تہی کی ۔ اس سے ایک جانب ہٹ گیا اور جس کنویں کی کھدائی میں ٹیڑھا پن ہوا سے بئر زوراء کہا جاتا ہے ۔ اسی سے جھوٹ کو الزور کہتے میں کیونکہ وہ بھی جہت راست سے ہٹا ہوا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان 4] ظلم اور جھوٹ سے ۔ وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] جھوٹی بات سے ۔ مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة 2] اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] وہ جھوٹی شہادت نہیں دیتے ۔ اور شاعر کے قول ۔ جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصموہ اپنے وہ جھوٹے خدا لے کر آگئے اور ہم اپنے بہادر سردار کو میں زور کے معنی بت کے ہیں کیونکہ بت پرستی بھی جھوٹ اور حق سے ہٹ جانے کا نام ہے ۔
قول باری ہے (ذلک ومن یعظم حرمات اللہ فھو خیر لہ عند ربہ۔ یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد (اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا لحاظ کرے تو یہ اس کے رب کے ہاں خود اسی کے لئے بہتر ہوگا) اس سے مراد … واللہ اعلم… یہ ہے کہ احرام کے دوران ان تمام افعال و حرکات سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اور احرام کے دوران اس کی منہیات کے ارتکاب کی سنگینی کا اعتراف کرتے ہوئے، اجتناب کیا جائے جنہیں اس نے حرام قرار دیا ہے تاکہ اس کے حج اور احرام دونوں کی حفاظت ہوجائے۔ اس کا یہ رویہ اس کے رب کے نزدیک اس کی کوتاہی ، غفلت اور لاپرواہی کے رویے سے بہتر ہے۔- حلال جانور - قول باری ہے (واحلت لکم الانعام الا مایتلی علیکم اور تمہارے لئے مویشی جانور حلال کئے گئے ما سوا ان چیزوں کی جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ ” ماسوا ان چیزوں کے جو اللہ کی کتاب میں تمہیں پڑھ کر سنائی گئی ہیں یعنی مردار، خون، سور کا گوشت ضرب کھا کو، اوپر سے گر کر اور ٹکر کھا کر مرجانے والے جانور، درندے کا پھاڑ ا ہوا جانور اور آستانے پر ذبح کیا ہوا جانور۔ دوسرا قول یہ ہے کہ تمہارے لئے احرام کی حالت میں مویشی جانور یعنی اونٹ ، گائے، بیل اور بھیڑ بکریاں حلال کردیئے گئے ہیں ما سوا شکار کے جو تمہیں بتایا جا چکا ہے۔ اس لئے کہ محرم کے لئے شکار حرام ہے۔- بت ناپاک ہیں - قول باری ہے (فاجتنبوا الرجس من الاوثان پس بتوں کی گندگی سے بچو) یعنی بتوں کی عظمت بجا لانے سے بچو، ان کی تعظیم نہ کرو اور ان پر مشرکین کی طرح جانوروں کے چڑھاوے چڑھانے سے پرہیز کرو، اللہ تعالیٰ نے بتوں کو رجس کے نام سے موسوم کیا تاکہ ان کی گندگی ظاہر ہوجائے اور ان کی بےمائیگی واضح ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پلید سمجھنے کا اس لئے حکم دیا کہ مشرکین ان پر اپنے جانوروں کی قربانی کرتے تھے اور انہیں ان جانوروں کے خون سے لت پت کردیتے تھے اور ان تمام نجاستوں کے باوجود ان کی عظمت بجا لاتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی تعظیم اور ان کی پرستش سے روک دیا اور گندگی اور نجاست کی ان صورتوں کی بنا پر جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے انہیں رجس کے نام سے موسوم کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لئے رجس کہا ہے کہ ان سے اسی طرح اجتناب ضروری ہے جس طرح گندگیوں اور نجاستوں سے۔- جھوٹی گواہی کا بیان - قول باری ہے (واجتنبوا قول الزور اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو) زور جھوٹ کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ جھوٹ کی تمام صورتوں کے لئے عا م ہے۔ جھوٹ کی سب سے سنگین صورت اللہ کا انکار ہے۔ نیز اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ اس میں جھوٹی گواہی بھی داخل ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل نے، انہیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے، انہیں عبید کے دو بیٹوں محمد اور یعلیٰ نے سفیان العصفری سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حبیب بن النعمان سے اور انہوں نے حضرت خریم بن فاتک سے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز پڑھائی پھر فرمایا (عدلت شھادۃ الزوربالا شراک باللہ ۔ جھوٹی گواہی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے برابر قرار دیا گیا ہے) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی (فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور حنفاء للہ غیر مشرکین بہ پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو، یکسو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو) وائل بن ربیعہ نے حضرت عبداللہ مسعود سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے فرمایا۔ جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ “ پھر آپ نے درج بالا آیت تلاوت کی ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن العباس - (مس پرنٹ ہے چیک کرلیں)- ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اسے تعزیری سزا نہیں دی جائے گی۔ ہمارے نزدیک یہ قول اس پر محمول ہے کہ اگر وہ توبہ کرے۔ لیکن اگر وہ اس پر اصرار کرے تو میرے نزدیک اسے تعزیری سزا دنیے میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک جھوٹی گواہی دینے والے کو پیٹا جائے گا۔ اس کا منہ کالا کر کے اس کی تشہیر کی جائے گی اور پھر اسے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ عبداللہ بن عامر نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر کے پاس جھوٹی گواہی دینے والے ایک شخص کو لایا گیا۔ آپ نے اس کے کپڑے اتروا لئے اور پورا دن اسے لوگوں کے سامنے کھڑا رکھا اور فرمایا :” یہ فلاں بن فلاں ہے، اسے پہچان لو۔ “ پھر اسے قید میں ڈال دیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں العباس بن الوید البزاز نے، انہیں خلف بن ہشام نے ، انہیں حما دبن زید نے حجاج سے، انہوں نے مکحول سے کہ حضرت عمر نے جھوٹی گواہی دینے والے کے متعلق فرمایا کہ اس کی پشت پر پٹائی کی جائے گی، سر مونڈ دیا جائے گا، منہ کالا کیا جائے گا اور طویل عرصے تک اسے قید میں رکھا جائے گا۔
(٣٠) یہ بات تو جو احکام مذکورہ اور واجبات کی ادائیگی کے بارے میں تھی ہوچکی، اب یہ کہ جو احکام حج کی توقیر کرے گا سو یہ اس کے حق میں اس کے رب کے نزدی ثواب کے اعتبار سے بہتر ہے اور ان مخصوص جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کے گوشت کا کھانا تمہارے لیے حلال کردیا گیا، سوائے ان بعض جانوروں کے جن کی حرمت سورة مائدہ میں تمہیں بتا دی گئی ہے، جیسا کہ مردار، خون، سؤر کا گوشت کہ ان کا کھانا تمہارے لیے حرام ہے، لہذا تم شراب خوری اور بت پرستی کو بالکل قطعا چھوڑ دو ، اور علاوہ اس کے تم باطل اور جھوٹی بات کو بھی چھوڑ دو کیوں کہ کفار زمانہ جاہلیت میں اپنے حج کے تلبیہ میں یہ الفاظ کہا کرتے تھے، ”۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک “۔- اللہ تعالیٰ نے اس بےہودہ بات سے ان کو روک دیا خالص اللہ تعالیٰ کے لیے تلبیہ پڑھو اور خاص اسی کے لیے حج کرو۔
آیت ٣٠ (ذٰلِکَق وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَہُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ط) ” - اللہ نے جس جس چیز کو محترم ٹھہرایا ہے وہ سب ” حرمات اللہ “ ہیں۔ اس میں خود بیت اللہ اور حرمت والے مہینے بھی شامل ہیں۔ پھر جیسا کہ سورة المائدۃ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ قربانی کے جانور جن کی گردنوں میں قلادے ڈالے گئے ہوں وہ بھی اور خود عازمینِ حج (اآمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ ) (آیت ٢) بھی محترم ہیں۔ یہ سب حرمات اللہ ہیں اور ان سب کی تعظیم لازمی ہے۔- (وَاُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ ) ” - یعنی خنزیر کے بارے میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ وہ حرام ہے۔ باقی بکری ‘ بھیڑ ‘ گائے ‘ اونٹ وغیرہ کی قربانی دی جاسکتی ہے۔- (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ) ” - یعنی شرک سے بچنا تمہاری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ مکہ میں اس وقت بت پرستی عام تھی جو شرک کی بد ترین شکل ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :54 بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں وہ حرمتیں بدرجہ اولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرم مکہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں ۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قریش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسک حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کے ان بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے قائم کر دی گئی تھیں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :55 اس موقع پر مویشی جانوروں کی حلت کا ذکر کرنے سے مقصود دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے ۔ اول یہ کہ قریش اور مشرکین عرب بحیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں ، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں ۔ دوم یہ کہ حالت احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے ۔ اس لیے بتایا گیا کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :56 اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورہ انعام اور سورہ نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ ( اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے ۔ ( الانعام ، آیت 145 ۔ النحل ، آیت 115 ) ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :57 یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھن کھاتا ہے اور دور ہٹتا ہے ۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہی آدمی ان سے نجس اور پلید ہو جائے گا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :58 اگرچہ الفاظ عام ہیں ، اور ان سے ہر جھوٹ ، بہتان ، اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں خاص طور پر اشارہ ان باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفر و شرک کی بنیاد ہے ۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا اور اس کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے ۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی برہ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکین عرب بحیرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے ، جیسا کہ سورہ نحل میں فرمایا: وَلَا تَقُوْا لِمَا تصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ، اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو آیت 116 ۔ اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے ، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عُدِلت شھادۃ الزور بالاشراک باللہِ ، جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے ، اور پھر آپ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی ۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے ۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اس کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے ۔ یہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول اور فعل بھی ہے ۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا: یُضْرب ظھرہ و یحلق رأسہ و یسخم وجھہ ویطال جلسہ ، ’‘اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں ، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے ۔ عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہوگئی تو انہوں نے اس کو ایک دن بر سر عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے ، اسے پہچان لو ، پھر اس کو قید کر دیا ۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تدبیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے ۔
17: جانوروں کی قربانی کا ذکر آیا تو مشرکین عرب کی اس جاہلانہ رسم کی بھی تردید کردی گئی جس کی رو سے انہوں نے بتوں کے نام پر بہت سے جانوروں کو حرام قرار دے رکھا تھا (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ انعام : 137 تا 144) چنانچہ یہ بتا دیا گیا کہ یہ سب چوپائے تمہارے لیے حلال ہیں، سوائے ان چیزوں کے جنہیں قرآن کریم نے سورۂ مائدہ :3 میں حرام قرار دیا ہے۔ پھر اسی کے ساتھ جس بنیاد پر مشرکین ان جانوروں کو حرام قرار دیتے تھے، یعنی بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ماننا اور ان کے نام پر جانوروں کو چھوڑ دینا، اس بنیاد کو بھی یہ فرما کر ختم کردیا گیا ہے کہ بتوں کی گندگی سے اور جھوٹی باتوں سے بچو۔