شیطان کی تقلید بلاسند ، بغیر دلیل کے اللہ کے سوا دوسرے کی پوجا پاٹ عبادت وبندگی کرنے والوں کا جہل وکفر بیان فرماتا ہے کہ شیطانی تقلید اور باپ دادا کی دیکھا دیکھی کے سوا نہ کوئی نقلی دلیل ان کے پاس ہے نہ عقلی ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ١١٧ ) 23- المؤمنون:117 ) جو بھی اللہ کے ساتھ دوسرے معبود کو بےدلیل پکارے اس سے اللہ خود ہی باز پرس کرلے گا ۔ ناممکن ہے کہ ایسے ظالم چھٹکارا پاجائیں ۔ یہاں بھی فرمایا کہ ان ظالموں کا کوئی مددگار نہیں کہ اللہ کے کسی عذاب سے انہیں بچالے ۔ ان پر اللہ کے پاک کلام کی آیتیں ، صحیح دلیلیں ، واضح حجتیں جب پیش کی جاتی ہیں تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ۔ اللہ کی توحید ، رسولوں کی اتباع کو صاف طور پر بیان کیا تو انہیں سخت غصہ آیا ، ان کی شکلیں بدل گئیں ، تیوریوں پر بل پڑنے لگے آستینیں چڑھنے لگیں اگر بس چلے تو زبان کھینچ لیں ، ایک لفظ حقانیت کا زمین پر نہ آنے دیں ۔ اسی وقت گلا گھونٹ دیں ، ان سچے خیرخواہوں کی اللہ کے دین کے مبلغوں کی برائیاں کرنے لگتے ہیں ۔ زبانیں ان کے خلاف چلنے لگتی ہیں اور ممکن ہو تو ہاتھ بھی ان کے خلاف اٹھنے میں نہیں رکتے ۔ فرمان ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دو کہ ایک طرف تو تم جو دکھ ان اللہ کے متوالوں کو پہنچانا چاہتے ہو اسے وزن کرو دوسری طرف اس دکھ کا وزن کرلو جو تمہیں یقینا تمہارے کفر وانکار کی وجہ سے پہنچنے والا ہے پھر دیکھو کہ بدترین چیز کون سی ہے؟ وہ آتش دوزخ اور وہاں کے طرح طرح کے عذاب ؟ یا جو تکلیف تم ان سچے موحدوں کو پہنچانا چاہتے ہو؟ گو یہ بھی تمہارے ارادے ہی ارادے ہیں اب تم ہی سمجھ لو کہ جہنم کیسی بری جگہ ہے؟ کس قدر ہولناک ہے ؟ کس قدرایذاء دہندہ ہے؟ اور کتنی مشکل والی جگہ ہے؟ یقینا وہ نہایت ہی بدترین جگہ اور بہت ہی خوفناک مقام ہے ، جہاں راحت وآرام کا نام بھی نہیں ۔
71۔ 1 یعنی ان کے پاس نہ کوئی نقلی دلیل ہے، جسے آسمانی کتاب سے یہ دکھا سکیں، نہ عقلی دلیل ہے جسے غیر اللہ کی عبادت کے اثبات میں پیش کرسکیں۔
[٩٩] یعنی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کسی کتاب میں کہیں بھی یہ ذکر موجود نہیں کہ اس نے فلاں فلاں ہستی کو فلاں فلاں اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ لہذا ان کاموں میں تم ان سے رجوع کرکے ان سے اپنی حاجات طلب کرسکتے ہو۔ نہ ہی انھیں کسی علمی تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ امور کائنات میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو بھی تصرف کا حق حاصل ہے۔ اور اس بنا پر ان کی بھی عبادت کرنا درست ہے۔ لہذا جو معبدا ان لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور ان سے کئی صفات اور اختیارات منسوب کردیئے گئے ہیں ان کے آستانوں پر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ نذریں، نیازیں چڑھائی جاتی ہیں بعض کے طواف اور اعتکاف تک بھی کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت جاہلانہ توہمات کے سوا کچھ بھی نہیں۔- [١٠٠] یعنی اللہ تو اس لئے ان کی مدد نہیں کرے گا کہ ان ظالموں نے اللہ کے شریک بنا کر اور اللہ کو ناراض کرلیا اور ان کے معبود اس لیے مدد نہیں کرسکیں گے کہ ان میں اتنی قدرت ہی نہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے ظلم اور حماقت میں کیا شک ہوسکتا ہے۔
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی کتاب میں نہیں فرمایا کہ میں نے فلاں فلاں ہستی کو فلاں فلاں اختیارات دے رکھے ہیں، لہٰذا ان کاموں کے لیے اپنی حاجات ان سے طلب کرو اور نہ اس بات کی کوئی علمی یا عقلی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بھی کائنات میں اپنی مرضی چلانے کا اختیار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس سے مرادیں مانگی جائیں۔ دیکھیے سورة احقاف (٤، ٥) اور فاطر (٤٠) جب شرک کی نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی، تو معلوم ہوا کہ لوگوں نے جو غیر اللہ کے آستانے بنا رکھے ہیں، یا زندہ یا فوت شدہ بزرگوں کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھ کر ان کی نذریں نیازیں چڑھا رہے ہیں اور ان کی قبروں کا یا ان کے بتوں کا طواف یا ان کے سامنے قیام، رکوع یا سجود کر رہے ہیں، یا ان کے مجاور بن کر ان کا اعتکاف کر رہے ہیں، یا انھیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان سے فریادیں کر رہے ہیں تو ان کے پاس اوہام پرستی اور باپ دادا کی اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں، جس کا رد قرآن مجید میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٧٠) اور مائدہ (١٠٤) ۔- وَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ : عبارت کی ترتیب کے مطابق یہ الفاظ کافی تھے کہ ” وَمَا لَھُمْ مِنْ نَّصِیْرٍ “ یعنی ان کا کوئی مددگار نہیں، اس کے بجائے فرمایا ” وَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ “ یعنی ظالموں کا کوئی مددگار نہیں، یعنی اللہ کی نصرت سے ان کی محرومی کا باعث ان کا ظلم (شرک) ہے کہ اللہ کا حق بندوں کو دے دیا۔ یہ احمق سمجھ رہے ہیں کہ ان کے خود ساختہ معبود، حاجت روا اور مشکل کشا دنیا اور آخرت میں ان کی مدد کریں گے، حالانکہ ان کی مدد کوئی نہیں کرے گا، کیونکہ ان ظالموں نے اللہ کے لیے شریک بنا کر اسے ناراض کرلیا، سو وہ تو ان کی مدد کو آئے گا ہی نہیں اور دوسرے معبودوں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں میں طاقت ہی نہیں کہ ان کی مدد کرسکیں۔
خلاصہ تفسیر - اور یہ (مشرک) لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن (کے جواز عبادت) پر اللہ تعالیٰ نے کوئی حجت (اپنی کتاب میں) نہیں بھیجی اور نہ ان کے پاس اس کی کوئی (عقلی) دلیل ہے اور (قیامت میں) جب (ان کو شرک پر سزا ہونے لگے گی تو) ان ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا (نہ قولاً کہ ان کے فعل کے استحسان پر کوئی حجت پیش کرسکے نہ عملاً کہ ان کو عذاب سے بچا لے) اور (ان لوگوں کو اسی گمراہی اور اہل حق سے عناد رکھنے میں یہاں تک غلو ہے کہ) جب ان لوگوں کے سامنے ہماری آیتیں (متعلق توحید وغیرہ کے) جو کہ (اپنے مضامین میں) خوب واضح ہیں (اہل حق کی زبان سے) پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو تم کافروں کے چہروں میں (بوجہ ناگواری باطنی کے) برے آثار دیکھتے ہو (جیسے چہرے پر بل پڑجانا، ناک چڑھ جانا، تیور بدل جانا اور ان آثار سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) قریب ہے کہ ان لوگوں پر (اب) حملہ کر بیٹھیں (گے) جو ہماری آیتیں ان کے سامنے پڑھ رہے ہیں یعنی حملہ کا شبہ ہمیشہ ہوتا ہے اور گاہ گاہ اس حملہ کا تحقق بھی ہوا ہے پس يَكَادُوْنَ استمرار کے اعتبار سے فرمایا) آپ (ان مشرکین سے) کہیئے کہ (تم کو جو یہ آیات قرآنیہ سن کر ناگواری ہوئی تو) کیا میں تم کو اس (قرآن) سے (بھی) زیادہ ناگوار چیز بتلا دوں وہ دوزخ ہے (کہ) اس کا اللہ تعالیٰ نے کافروں سے وعدہ کیا ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے (یعنی قرآن سے ناگواری کا نتیجہ ناگوار دوزخ ہے اس ناگواری کا تو غیظ سے غضب سے انتقام سے کچھ تدارک بھی کرلیتے ہو مگر اس ناگواری کا کیا علاج کرو گے جو دوزخ سے ہوگی۔ آگے ایک بدیہی دلیل سے شرک کا ابطال ہے کہ) اے لوگو ایک عجیب بات بیان کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سنو (وہ یہ ہے کہ) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن کی تم لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ ایک (ادنیٰ ) مکھی کو تو پیدا کر ہی نہیں سکتے گو سب کے سب بھی (کیوں نہ) جمع ہوجاویں اور (پیدا کرنا تو بڑی بات ہے وہ تو ایسے عاجز ہیں کہ) اگر ان سے مکھی کچھ (ان کے چڑھاوے میں سے) چھین لے جائے تو اس کو (تو) اس سے چھڑا (ہی) نہیں سکتے ایسا عابد بھی لچر اور ایسا معبود بھی لچر (افسوس ہے) ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی تعظیم کرنا چاہئے تھی (کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتے) وہ نہ کی (کہ شرک کرنے لگے حالانکہ) اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا سب پر غالب ہے۔ (تو عبادت اس کا خالص حق تھا نہ کہ غیر قوی اور غیر عزیز کا جس کی عدم قوت باوضح وجوہ معلوم ہوچکی۔
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّمَا لَيْسَ لَہُمْ بِہٖ عِلْمٌ ٠ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ ٧١- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی
(٧١) اور یہ کفار مکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں کہ جن کے جواز عبادت پر اللہ تعالیٰ نے کوئی کتاب اور حجت نہیں بھیجی اور نہ ان کے پاس اس کی کوئی نقلی دلیل اور ان مشرکین سے کوئی عذاب خداوندی کو روکنے والا ان کا مددگار نہ ہوگا۔
آیت ٧١ (وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا) ” - اگرچہ وہ اللہ کو مانتے ہیں لیکن اللہ کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں ‘ جن کے بارے میں ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے۔- (وَّمَا لَیْسَ لَہُمْ بِہٖ عِلْمٌ ط) ” - نہ صرف یہ کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کوئی سند نہیں بلکہ کوئی اثری ثبوت ‘ کوئی عقلی بنیاد اور کوئی منطقی دلیل بھی ان کے پاس ان من گھڑت معبودوں کی پرستش کے لیے نہیں ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :120 یعنی نہ تو خدا کی کسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں کو اپنے ساتھ خدائی میں شریک کیا ہے لہٰذا ہمارے ساتھ تم ان کی بھی عبادت کیا کرو ، اور نہ ان کو کسی علمی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ واقعی الوہیت میں حصہ دار ہیں اور اس بنا پر ان کو عبادت کا حق پہنچتا ہے ۔ اب یہ جو طرح طرح کے معبود گھڑے گئے ہیں ، اور ان کی صفات اور اختیارات کے متعلق قسم قسم کے عقائد تصنیف کر لیے گئے ہیں ، اور ان کے آستانوں پر جبہ سائیاں ہو رہی ہیں ، دعائیں مانگی جا رہی ہیں ، چڑھاوے چڑھ رہے ہیں ، نیازیں دی جا رہی ہیں ، طواف کیے جا رہے اور اعتکاف ہو رہے ہیں ، یہ سب جاہلانہ گمان کی پیروی کے سوا آخر اور کیا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :121 یعنی یہ احمق لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معبود دنیا اور آخرت میں ان کے مدد گار ہیں ، حالانکہ حقیقت میں ان کا کوئی بھی مددگار نہیں ہے ۔ نہ یہ معبود ، کیونکہ ان کے پاس مدد کی کوئی طاقت نہیں ، اور نہ اللہ ، کیونکہ اس سے یہ بغاوت اختیار کر چکے ہیں ۔ لہٰذا اپنی اس حماقت سے یہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے ہیں ۔
31: یعنی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جس سے یہ علم حاصل ہوسکے کہ یہ بت واقعی خدائی کا درجہ رکھتے ہیں۔