3 ان دونوں آیات میں قیامت کا ایک اور منظر بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے اعمال کا وزن۔ ” مَوَازِیْنُ “ کو جمع لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ میزان کئی قسم کے ہوں گے، ہر عمل کے لیے مخصوص ترازو ہوگا۔ ان دونوں آیات میں اہل ایمان کے لیے خوش خبری ہے اور مشرکین کے لیے وعید، کیونکہ اصل وزن ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ہوگا، مشرکین کے عمل ویسے ہی باطل ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا ) [ الفرقان : ٢٣ ] ” اور ہم اس کی طرف آئیں گے جو انھوں نے کوئی بھی عمل کیا ہوگا تو اسے بکھرا ہوا غبار بنادیں گے۔ “ اور فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ) [ الکہف : ١٠٥ ] ” یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ “
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ، وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فِيْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ ، یعنی میزان عمل میں جس شخص کا نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا وہ ہی فلاح پانے والے ہیں اور جس کا پلہ نیکیوں کا ہلکا رہے گا تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں خود اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا اور اب وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنے والے ہیں۔ اس آیت میں مقابلہ صرف مومنین کاملین اور کفار کا ہے اور انہیں کے وزن اعمال کا اور ان میں سے ہر ایک کے انجام کا ذکر کیا گیا کہ مومنین کاملین کا پلہ بھاری ہوگا ان کو فلاح حاصل ہوگی، کفار کا پلہ ہلکا رہے گا ان کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا پڑے گا۔- اور قرآن کریم کی دوسری تصریحات سے ثابت ہے کہ اس جگہ مومنین کاملین کا پلہ بھاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پلے یعنی سیئات و معاصی کے پلے میں کوئی وزن ہی نہ ہوگا وہ خالی نظر آئے گا۔ اور کفار کا پلہ ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے پلہ میں کوئی وزن ہی نہ ہوگا بالکل خالی جیسا ہلکا رہے گا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا، یعنی ہم کفار اور ان کے اعمال کا قیامت کے دن کوئی وزن ہی قائم نہ کریں گے۔ یہ حال تو مومنین کاملین کا ہوا اور جن سے گناہ سرزد ہی نہیں ہوئے یا توبہ وغیرہ سے معاف کردیئے گئے وزن اعمال کے وقت سیئات کے پلہ میں ان کے نام پر کچھ نہ ہوگا۔ دوسری طرف کفار ہیں جن کے نیک اعمال بھی شرط ایمان موجود نہ ہونے کے سبب میزان عدل میں بےوزن ہوں گے۔ باقی رہا معاملہ گنہگار مسلمانوں کا جن کے نیکیوں کے پلہ میں بھی اعمال ہوں گے اور سیئات کے پلہ میں بھی اعمال ہوں گے ان کا ذکر اس آیت میں صراحةً نہیں کیا گیا بلکہ عموماً قرآن کریم میں گنہگار مسلمانوں کی سزا و جزاء سے سکوت ہی اختیار کیا گیا ہے اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ نزول قرآن کے زمانے میں جتنے مومنین صحابہ کرام تھے وہ سب کے سب عدول تھے یعنی عموماً تو وہ کبیرہ گناہوں سے پاک ہی رہے اور اگر کسی سے کوئی گناہ ہو بھی گیا تو اس نے توبہ کرلی توبہ سے معاف ہوگیا۔ (مظھری)- قرآن مجید کی ایک آیت خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّـــًٔـا میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کے نیک و بداعمال مل جلے ہیں۔ ان کے متعلق حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قیامت کے روز ان لوگوں کے اعمال کا حساب اس طرح ہوگا کہ جس شخص کی نیکیاں اس کے گناہوں سے بڑھ جائیں خواہ ایک ہی نیکی کی مقدار سے بڑھے وہ جنت میں جائے گا اور جس شخص کی سیئات اور گناہ نیکیوں سے بڑھ جائیں خواہ ایک ہی گناہ کی مقدار سے بڑھے وہ دوزخ میں جائے گا مگر اس مومن گنہگار کا دوزخ میں داخلہ تطہیر اور پاک کرنے کے لئے ہوگا جیسے لوہے، سونے وغیرہ کو آگ میں ڈال کر میل اور زنگ سے صاف کیا جاتا ہے اس کا جہنم میں جانا بھی ایسا ہی ہوگا۔ جس وقت جہنم کی آگ سے اس کے گناہوں کا زنگ دور ہوجاوے گا تو جنت میں داخل ہونے کے قابل ہوجاوے گا، جنت میں بھیج دیا جائے گا اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قیامت کی میزان عمل ایسا صحیح وزن کرنے والی ہوگی کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کمی بیشی ہوگی تو پلہ جھک جائے گا یا اٹھ جائے گا۔ اور جس شخص کی حسنات اور سیئات میزان عمل میں بالکل برابر سرابر رہیں گے تو وہ اصحاب اعراف میں داخل ہوگا اور ایک زمانہ تک دوزخ اور جنت کے درمیان حکم ثانی کا منتظر رہے گا اور بالآخر اس کو بھی جنت میں داخلہ مل جائے گا (رواہ ابن ابی حاتم۔ مظہری)- ابن عباس کے اس قول میں کفار کا ذکر نہیں صرف مومنین گنہگاروں کا ذکر ہے۔ - وزن اعمال کی کیفیت : - بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود انسان مومن و کافر کو میزان عدل میں رکھ کر تولا جائے گا۔ کافر کا کوئی وزن نہ ہوگا خواہ وہ کتنا ہی فربہ اور موٹا ہو۔ (بخاری و مسلم من حدیث ابی ہریرة) اور بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال تولے جائیں گے۔ ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے یہ مضمون حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے۔ اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے اعمال جو دنیا میں بےوزن بےجسم اعراض ہوتے ہیں محشر میں ان کو مجسم کر کے میزان عمل میں رکھا جائے گا وہ تولے جائیں گے۔ طبرانی وغیرہ نے یہ روایت ابن عباس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔ ان سب روایات حدیث کے الفاظ اور متن تفسیر مظہری میں مکمل موجود ہیں وہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی آخری قول کی تائید میں ایک حدیث عبد الرزاق نے فضل العلم میں ابراہیم نخعی سے نقل کی ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص کے اعمال وزن کے لئے لائے جائیں گے اور ترازو کے پلہ میں رکھے جائیں گے تو یہ پلہ ہلکا رہے گا پھر ایک چیز ایسی لائی جائے گی جو بادل کی طرح ہوگی اس کو بھی اس کے حسنات کے پلہ میں رکھ دیا جائے گا تو یہ پلہ بھاری ہوجائے گا اس وقت اس شخص سے کہا جائے گا کہ تم جانتے ہو یہ کیا چیز ہے (جس نے تمہاری نیکیوں کا پلہ بھاری کردیا) وہ کہے گا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ تو بتلایا جائے گا کہ یہ تیرا علم ہے جو تو لوگوں کو سکھایا کرتا تھا۔ اور ذہبی نے فضل علم میں حضرت عمران بن حصین سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز شہیدوں کا خون اور علماء کی روشنائی (جس سے انہوں نے علم دین کی کتابیں لکھی تھیں) باہم تولے جائیں گے تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون سے زیادہ نکلے گا۔ (مظھری)- وزن اعمال کی کیفیت کے متعلق تینوں قسم کی روایات نقل کرنے کے بعد تفسیر مظہری میں فرمایا کہ اس میں کوئی بعد نہیں کہ خود انسان اور اس کے اعمال کو جسمانی شکل میں تولا جائے یا اس کے نامہ اعمال کو اس کے ساتھ رکھ کر تولا جائے اس لئے ان تینوں روایتوں میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں۔
(١٠٢۔ ١٠٣) سو جس شخص کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا تو ایسے ہی لوگ غصہ خداوندی اور اس کے عذاب سے دور ہوں گے اور جس کی نیکیوں کا پلہ ہلکا ہوگا سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا اور جہنم میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ یہ اس سے نکالے جائیں گے۔
آیت ١٠٢ (فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ” - یہ وہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیوی زندگی میں واقعتا اپنی شخصیت کو اپنی روح کے فطری تقاضوں کے مطابق پروان چڑھایا تھا اور اپنی خودی اور سیرت کی تعمیر بھی انہی پاکیزہ بنیادوں پر کی تھی۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :95 یعنی جن کے قابل قدر اعمال وزنی ہوں گے ۔ جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہوگا ۔